70 سالہ عزیز احمد اور ان کی 80 سالہ ریٹائرڈ ٹیچر بہن مختار بیگم گھر میں اکیلے رہتے تھے۔ 9 فروری کی رات کو دونوں اپنے اپنے کمروں میں آرام کرنے گئے تو کچھ دیر بعد مختار بیگم کے کمرے کے ٹی وی کی آواز بہت اونچی ہو گئی۔
عزیز احمد نے بہن کو آوازیں دیں۔ کوئی جواب نہیں آیا تو خود دیکھنے گئے، لیکن کمرے کا دروازہ باہر سے بند تھا۔ بھائی کو شک ہوا اس لیے دوسرے دروازے سے جا کر دیکھا تو بزرگ بہن کو رسیوں سے جکڑا ہوا پایا۔
عزیز احمد نے بتایا کہ ’میں نے جلدی سے سبزیوں والی چھری سے رسیوں کو کاٹا، لیکن بہن کی سانسیں بند ہوچکی تھیں۔ انہیں گلہ دبا کر مارا گیا تھا۔‘
’میں اور میری بہن دونوں نے شادی نہیں کی۔ اس دنیا میں ایک دوسرے کے سوا ہمارا کوئی نہیں تھا۔ ظالموں نے بہت ظلم کیا، میری اکلوتی بہن کو مار دیا۔ اب میرا اس دنیا میں کوئی نہیں رہا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بہن ماں جیسی تھیں۔ میں اس بڑھاپے میں دوبارہ یتیم ہو گیا ہوں۔‘ یہ بتاتے ہوئے ستر سالہ عزیز احمد اپنے جذبات پر قابو نہیں پا سکے۔ روتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہم نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا تھا۔ کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔‘
مقتولہ مختار بیگم گورنمنٹ ٹیچر تھیں اور 19 گریڈ میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئی تھیں۔ عزیز احمد بھی سرکاری ملازم تھے۔ ان کے مطابق والدہ بیمار ہوئیں تو اس کی تیمار داری میں لگ گیا اس لیے غیر حاضری کی وجہ سے نوکری سے نکال دیا گیا۔
عزیز احمد کے بقول ’ہم بہن کی پنشن سے گزارا کرتے تھے۔ کبھی میں اور کبھی بہن کھانا پکا لیتی تھیں۔ وہ اس بڑھاپے میں میرا بہت خیال رکھتی تھیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ بہن اکیلی ہوتی تھیں اس لیے انہوں نے ایک بلی اور اس کے چار پانچ بچے پال رکھے تھے۔ بلی بہن سے بہت مانوس تھی اس لیے مالکن کے قتل کے بعد سے بلی افسردہ اور بیمار رہنے لگی ہے۔
بزرگ بہن بھائیوں کے ہمسائے قاضی ندیم کے مطابق مختار بیگم بہت ملنسار اور نیک خاتون تھیں۔ وہ انسانوں ہی نہیں جانوروں سے بھی بہت پیار کرتی تھیں۔ بزرگ خاتون ہمسایوں کے گھروں میں آتی جاتی تھیں اور تہواروں پر کھانا بنوا کر آس پاس کے گھروں میں بھیجتی تھیں۔ دونوں بہن بھائیوں نے کبھی کسی کو دکھ نہیں پہنچایا۔
مقتولہ کے بھائی نے بتایا کہ ان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی، تاہم انہوں نے پولیس کو بتایا کہ ان کی شہر کے مہنگے ترین علاقے میں جائیداد تھی جس پر کچھ لوگ قبضہ کرنا چاہتے تھے۔

گوالمنڈی پولیس تھانہ کے ایس ایچ او اعجاز احمد نے و بتایا کہ ’دونوں بہن بھائیوں نے شادی نہیں کی تھی اور وہ کوئٹہ کے علاقے میکانگی روڈ پر شیر علی سٹریٹ میں ایک پرانے طرز کے مکان میں اکیلے رہتے تھے۔‘
بزرگ بہن بھائیوں کے نام پر شہر کے مہنگے ترین علاقے صرافہ بازار میں کروڑوں روپے مالیت کی دو دکانیں تھیں۔ ایس ایچ او کے مطابق ’ہمیں شروع ہی سے اس بزرگ خاتون کے قتل میں قبضہ مافیا کے ملوث ہونے کا شک تھا اس لیے ہم نے اس پہلو پر تفتیش شروع کی اور چھ دنوں کے اندر ہی ہم نے قاتلوں کا سراغ لگا لیا۔‘
پولیس کے مطابق ’بزرگ خاتون نے دس سال قبل اپنی دکانیں محمد حسین نامی شخص کو کرایے پر دے رکھی تھیں جس نے ضعیف العمر بہن بھائیوں کو لاوارث سمجھ کر ان کی دکانوں پر قبضہ کر لیا اور پھر عبدالقیوم نامی شخص کو فروخت کر دیں۔‘
عزیز احمد نے بتایا کہ بہن بہت سمجھدار اور قابل خاتون تھیں۔ انہوں نے قبضہ مافیا کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہائی کورٹ میں کیس کر کے جائیداد کا قبضہ لے لیا۔ تب سے لوگ گھر آنے لگے اور کہتے کہ جائیداد فروخت کر دیں۔
’جائیداد پر بار بار قبضہ سے تنگ آ کر میں نے کئی بار بہن کو کہا کہ جائیداد فروخت کر کے پنجاب چلے جاتے ہیں، لیکن ہمیں اس بات کا ڈر تھا کہ جائیداد فروخت کرنے کے بعد رقم کے لالچ میں آکر ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچائیں۔‘
عزیز احمد کے بقول ان کی بہن چاہتی تھیں کہ جائیداد کسی فلاحی ادارے کے نام کر دیں، لیکن یہی جائیداد ان کی موت کا سبب بن گئی۔
ایس ایچ او کے مطابق ’پولیس نے جائیداد پر قبضہ کرنے والے اور اسے خریدنے والے ملزمان کا موبائل فون ڈیٹا نکالا اور معلوم کیا کہ ان سے کون کون لوگ رابطے میں تھے۔ کچھ مشکوک لوگوں کی موبائل فون لوکیشن مقتولہ کے گھر کے قریب پائی گئی جس پر ہم نے ایک ملزم محمد افضل کو گرفتار کر لیا۔‘
