مار گئی مہنگائی

 
0
68

پاکستان میں گندم، چاول، دالوں’ سبزیوں’ چکن ودیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ عوام کیلئے ایک نئی آزمائش ہے۔ غریب پہلے مہنگائی کی وجہ سے سبزی کھانے کو ترجیح دیتا تھا اب وہ بھی اس کی پہنچ سے باہر ہورہی ہے- گذشتہ پانچ برسوں کے دوران دنیا میں پست ترین فی کس آمدنی کے حامل ملکوں کی صف میں شامل وطن عزیز میں عام آدمی کی تنخواہ میں اضافہ نہیں ہوا جبکہ آئی ایم ایف کے بیل آوٹ پیکیج کی ہر قسط کے اجرا کی شرائط میں نت نیا اضافہ متوسط اور غریب طبقے کیلئے اعصاب شکن ثابت ہورہا ہے۔
رواں مالی سال کا شاید ہی کوئی مہینہ توانائی کی قیمتوں میں اضافے سے ماورا ہو اور ہر بار اس کی ضرب کاری اشیائے ضروریہ پر پڑی۔ آئی ایم ایف حکام کا یہ ماننا ہے کہ پاکستان کو شدید ترین معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے قرضوں کے طے شدہ پیکیج سے زیادہ رقوم کی ضرورت ہے جبکہ حقیقت میں عام آدمی کی معاشی بدحالی کی وجہ ہی معیشت پر 54ہزار ارب روپے کے غیر ملکی قرضوں کا بوجھ ہے جن کی واپسی کی اقساط مشکل سے جمع کردہ قومی محاصل کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتی ہیں۔
حالیہ مہنگائی ملک میں سیلاب سے فصلوں کی تباہی کا نتیجہ بھی ہے ۔ دکانداروں کی طرف سے قیمتوں میں من مانا اضافہ اس کے علاوہ ہے – مہنگائی کے ایشو پر جہاں وفاق ذمہ دار ہے وہاں صوبے بھی اپنی ذمہ داری سے انکار نہیں کرسکتے خصوصا روز مرہ استعمال کی اشیاء کے نرخوں کو مستحکم رکھنا’ تھوک مارکیٹوں وغیرہ کو ریگولرائز اوروہاں نگرانی کرنا اور فول پروف میکنزم بنانا صوبائی حکومت کی ذمہ داری بھی ہے اور اس کے پاس اختیار بھی موجود ہیں’ سبزی اور پھل منڈیوں’ سلاٹر ہائوسز’ مویشی منڈیوں’ کوڈ سٹوریجز وغیرہ سب کا انتظام وانصرام صوبائی حکومتوں کا دائرہ اختیار ہے-صوبوں میں پرائس کنٹرول کمیٹیاں بھی موجود ہیں لیکن اس کے باوجود ہر طرف بد نظمی اور لاقانونیت کا دور دورہ ہے جس کی تمام تر ذمہ داری صوبائی حکومتوں اور ضلعی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے-
ضلعی انتظامیہ متعین کردہ اشیاء خو رد ونوش کی قیمتوں کے سلسلے میں روزانہ نرخ نامہ جاری کرتی ہیں لیکن اس پر عمل درآمد کرانے میں عملا بری طرح ناکام ثابت ہوتی ہیں-اگر کوئی شہری سرکاری نرخ نامہ کے مطابق دام ادا کرنے کی ضد کرے تو اسے بھی انتہائی بد تمیزی کے ساتھ جواب ملتا ہے کہ وہیں سے خریداری کرلیں جہاں سے نرخ نامہ جاری کیا گیا ہے یہ مسئلہ آج کا نہیں’ لوٹ مار اور ناجائز منافع خوری’ ذخیرہ اندوزی کا یہ سلسلہ ہر دور میں جاری رہا ہے-
سبزی اور فروٹ منڈیوں میں آڑھتیوں کی حکمرانی ہے کسان کی حیثیت ایک گاہک سے زیادہ نہیں-پاکستان میں مہنگائی کی ایک اور بڑی وجہ کارٹلائزیشن ہے -مختلف کمپنیوں کا اپنا اپنا کارٹل ہے اور یہی کارٹل اپنی اشیاء کی ایجنسی اور ریٹیل پرائس طے کرتے ہیں اس ضمن میں حکومت محض تماشائی ہے یہ کارٹلز اتنے طاقتور ہیں کہ قوانین بھی مرضی کے بنوانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں-ان کی ناجائز منافع خوری کو بھی قانونی تحفظ حاصل ہے جبکہ صارف بے بس اور مجبور ہے ریاست اس کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار نہیں-
دنیا بھر میں اقتصادی نوعیت کے فیصلے کرتے وقت اس اصول کو سامنے رکھا جاتا ہے کہ مالدار طبقے سے براہ راست ٹیکسوں کے دریعے سرمایہ حاصل کرکے پسے ہوئے طبقات کی فلاح وبہبودو پر خرچ کیا جائے-بد ترین سرمایہ دارانہ معیشت رکھنے والے معاشرے تک میں یہ بات مد نظر رکھی جاتی ہے کہ وسائل پر قابض اشرافیہ جن طبقوں کی محنت کا پھل کھا رہی ہے ‘ انہیں اتنی آسانیاں ضرور فراہم کی جائیں کہ وہ زندگی کے حسن کو محسوس کریں اور ہنسی خوشی معیشت کا پہیہ رواں رکھیں مگر وطن عزیز میں الٹی کنگا بہہ رہی ہے فیصلہ سازوں اور اکنامک منیجرز کا سارا زور عام آدمی کے پیر کے نیچے سے زمین کھسکانے اور قومی وسائل پر اشرافیہ کے قبضے کو مزید وسیع اور مستحکم بنانے پر مرکوز ہے-
پاکستان ان سات ممالک میں شامل ہے جہاں دنیا کی کم وبیش 75فیصد آبادی کوپیٹ بھر خوراک نہیں ملتی۔جب عوام غربت’ بھوک’ مہنگائی اور بے روز گاری کے ہاتھوں مر رہے ہوں اور لوڈ شیڈنگ نے قومی معیشت کو مفلوج اور کاروباری زندگی کو تباہ کر رکھا ہو’ اس کے باوجود حکمران طبقے کی عیاشیاں اور لوٹ مار جاری ہو اور لوٹ مار کو تحفظ دینے کے لئے قانون اور آئین کی بھی پرواہ نہ کی جارہی ہو تو اس بے فیض جمہوریت کو عوام کب تک برداشت کئے رکھیں گے؟
مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت معیشت کی بحالی کے نام پر جو بھی مشکل فیصلے کر رہی ہے اس کا براہ راست اثر عام آدمی پر پڑ رہا ہے سابق حکومتوں کی طرح اس کی تمام تر توجہ بھی پٹرول’ بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے اور بلا واسطہ ٹیکسوں کے ذریعے عام آدمی کی زندگی مشکل بنانے پر مرکوز ہے-مڈل کلاس طبقے کو کسی بھی ملک میں ترقی کا انجن سمجھا جاتا ہے -حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ ٹیکسز’ سوشل دبائو اور مسائل مڈل کلاس کو دیکھنا پڑتے ہیں-موجودہ اتحادی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی سیاسی مقبولیت دائو پر لگاکر عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط کوپورا کرنے کے لئے بجلی گیس پٹرول کی قیمتوں اور مختلف النوع ٹیکسوں کی شرحوں میںہوشربا اضافوں کی شکل میں مسلسل جو سخت معاشی فیصلے کئے یا اب تک کر رہی ہے ان کے نتیجے میں مہنگائی جو پہلے ہی عوام کی کمر توڑے دے رہی تھی بالکل ہی ناقابل برداشت ہوگئی ہے-
ملک کی بڑی آبادی متوسط اور نچلی سطح کے گھرانوں پر مشتمل ہے جن کا ذریعہ معاش محنت مزدوری یا انتہائی کم تنخواہوں اور اجرتوں سے وابستہ ہے۔ خوراک زندہ رہنے کی بنیادی شرط ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوام کو ریلیف فراہم کرنے اور عام آدمی کا معیار زندگی بلند کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے کے بجائے نعروں کے ذریعے عوام کی حالت زار میں نمایاں تبدیلی رونماء ہونے’غربت اور بیروزگاری کو ختم کرنے کی طفل تسلیوں کا جو اہتمام کررہی ہیں اس سے صورت حال میں بہتری کی کوئی امید نہیں- ان کا فرض ہے کہ وہ بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں کو کم سے کم سطح پر رکھنے کے لئے تمام تر ممکنہ اقدامات کر یں-
حکمرانوں، اعلی سول و فوجی حکام اورارکان اسمبلی کی مراعات میں آخری ممکنہ حد تک کمی کرکے اس رقم کو آٹے ، چاول، دالوں، گھی، تیل، چینی سمیت بنیادی اشیائے خو ردو نوش ، سوتی کپڑے کی کم قیمت اقسام اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی کو عام آدمی کی دسترس میں رکھنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ ہر قسم کی کرپشن ختم کرکے قومی وسائل کو مراعات یافتہ طبقوں کی بھینٹ چڑھنے سے بچایا جائے اور ان وسائل کو عوام کو بنیادی سہولتیں مہیا کرنے کے کام میں لایا جائے۔اب بھی وقت ہے حکمران عوام کو اتنا تنگ نہ کر یں کہ وہ بغاوت پر آمادہ ہوجائیں کیونکہ اس جنگ میں دما دم مست قلندر بلا امتیاز تمام حکمران طبقات کے خلاف ہوگا-