,غذائی قلت کا عالمی خطرہ اور پاکستان

 
0
50

روس اور یوکرین کی جنگ کے باعث دنیا بھر میں کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی سے غریبوں کے فاقوں کی نوبت آ گئی ہے۔ لیکن سرمایہ کار خوب منافع کما رہے ہیں۔یوکرین کی جنگ چھڑتے ہی روزمرہ کے استعمال کی چیزوں پر مہنگائی چھانا شروع ہو گئی۔ خاص طور سے اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں دیکھتے دیکھتے اس قدر اضافہ ہوا کہ دنیا کے غریب طبقے کے لیے جیتے جی مرنے کی نوبت آ چکی ہے۔ یہ سلسلہ یہاں تک نہیں رکا۔ کھانے پینے کی اشیا اور دیگر ضروریات زندگی کی چیزیں مسلسل مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔ صارفین کے لیے قیمتوں میں اتنا زیادہ اضافہ دنیا میں خوراک کی قلت کا سبب بن چکا ہے۔
یوکرین کی جنگ نے عالمی خوراک کی پیداوار کو متاثر کیا ہے اور اس پس منظر میں اقوام متحدہ نے آئندہ اس سے بھی زیادہ مایوس کن منظرنامے کی پیش گوئی کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد نئی ”خوفناک” سطح تک پہنچنے کو ہے، جنہیں یومیہ کھانے کو بہت ہی کم میسر ہو گا۔خوراک کے بحران پر کام کرنے والی یوروپی یونین کی ایجنسی گلوبل نیٹ ورک، خوراک اور زراعت سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے(ایف اے او)اور ‘ورلڈ فوڈ پروگرام(ڈبلیو ایف پی)کا مشترکہ طور پر کہنا ہے کہ عالمی تنازعات، سخت ترین موسم کی مار اور کورونا وائرس کی وبا جیسے تینوں زہریلے عوامل غذائی تحفظ میں کمی کے اہم ذمہ دار ہیں۔
2021 میں 53 ممالک کے تقریبا 193 ملین افراد بھوک کے ”شدید” خطرے سے دو چار رہے۔شدید موسم کا باعث بننے والی ماحولیاتی تبدیلیوں نے بھی صورتحال کو بد سے بد تر کر دیا ہے۔پاکستان جہاں آج سنگین معاشی ، سیاسی اور سماجی چیلنجوں سے دوچار ہے وہیں عالمی سطح پر وقوع پذیر ہونے والے منفی موسمی تغیرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں بھی شامل ہے۔ کرہ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے زمین کے ایک بڑے حصے کو خشک سالی اور اس کے نتیجے میں قحط کی سی صورت حال میں مبتلا ہوجانے کے خطرے سے دوچار کردیا ہے ۔
اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے 23ممالک اس کی زد میں ہیں۔ اس فہرست میں افغانستان، انگولا، برازیل، برکینا فاسو، چلی، ایتھوپیا، ایران، عراق، قازقستان، کینیا، لیسوتھو، مالی، موریطانیہ، مڈغاسکر، ملاوی، موزمبیق، نائیجر، صومالیہ، جنوبی سوڈان، شام، پاکستان، امریکہ اور زیمبیا شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے خشک سالی کے خلاف اقدامات کرنے والے ادارے کی رپورٹ میں آئندہ تین عشروں تک رونما ہونے والے متوقع خطرات کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 2050 تک بھارت اور پاکستان کے مجموعی رقبے کے تقریبامساوی40 لاکھ مربع کلومیٹرپر مشتمل مزید علاقوں کو بحالی کے اقدامات کی ضرورت ہوگی۔ ان اقدامات میں حیاتیاتی تنوع، پانی کے استعمال کے کفایت پر مبنی طریقے، مٹی اور کاربن کے تحفظ، اور ماحولیاتی نظام کے اہم افعال کی فراہمی خاص طور پر اہمیت کے حامل ہیں۔
خشک سالی کا یہ چیلنج انسانی برادری کو کتنے بڑے پیمانے پر متاثر کرے گا، اس کا اندازہ اس انکشاف سے لگایا جاسکتا ہے کہ کرہ ارض کی 40 فیصد تک زمین تنزلی کا شکار ہے۔عالمی معیشت پر اس صورت حال کے اثرات کس قدر تباہ کن ہوں گے، رپورٹ میں اس پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 44 ٹریلین ڈالر مالیت کی عالمی جی ڈی پی کا تقریبا نصف خطرے کی زد میں ہے۔ رپورٹ کے مطابق جدید تاریخ کے کسی اور موڑ پر انسانیت کو ایسے نا مانوس خطرات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
قحط غذائی قلت پر محیط ایسی صورت حال ہے جس میں کسی بھی جاندار کو خوردنی اشیا دستیاب نہ ہوں۔ یا خوردنی اشیا کی شدید قلت پڑ جائے جو عموما زمینی خرابی، خشک سالی اور وبائی امراض کی بدولت ہوسکتی ہے۔ ایسی صورت حال میں بڑے پیمانے پر اموات کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔کورونا وبا سمیت نا مواقف عالمی حالات کے باعث دنیا بھر پر قحط کا خطرہ پیدا ہونے اور 3سالوں میں شدید غذائی قلت کا شکار افراد کی تعداد دگنا ہونے کا انکشاف پاکستان کے حکمرانوں اور عوام کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے-
عالمی کساد بازاری کے باعث بہت سے ممالک شدید مہنگائی کی لپیٹ میں ہیں اور اس کے سابقہ ریکارڈ ٹوٹنے کی خبریں منظر عام پرہیں تاہم پاکستان میںجو پہلے ہی فی کس آمدنی کے لحاظ سے پست ترین شرح سے دوچار ہے، حالیہ مہنگائی نے عام آدمی سے اسکی قوت خرید چھین لی ہے کم آمدنی اور تنخواہ دار طبقہ کیلئے جو نصف سے زیادہ آبادی کا حامل ہے ، روزمرہ اشیائے ضروریہ کا حصول مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بن رہا ہے جبکہ غریب اور خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں میں فرق دکھائی نہیں دیتا ۔
عالمی ادارے کئی عشروں سے ہمیں غدائی قلت کے خطرات سے مسلسل آگاہ کر رہے ہیں لیکن ہماری عاقبت نا اندیشی کا یہ عالم ہے کہ ہمیں سیاسی جنگ و جدل ہی سے فرصت نہیں جبکہ ہر نوع کی تباہی و بربادی ہمارے سروں پر منڈلارہی ہے۔بحیثیت قوم ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے اور ملک کو درپیش کوخوفناک چیلنجوں سے متحد ہوکر نمٹنے کے اقدامات شروع نہ کیے تو خدا نخواستہ غذائی قلت کا عفریت ملک کو فسادات اور عدم استحکام کا شکار بنا سکتا ہے جس کا اشارہ آئی ایم ایف کی رپورٹ میں بھی دیا گیا-
بلا شبہ قدرت نے زمین کے اندر اور باہر انسانی ضروریات کے لئے لامحدود وسائل جمع کر دیئے ہیں مگر انسان پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان وسائل کی قدر کرے، نئے وسائل اور پیداواریت بڑھانے کی تدابیر پر توجہ دے- زمینی وسائل کے دوبارہ پیدا ہونے میںا بھی تھوڑا وقت لگے گا، اس وقت تک مسائل رہیں گے۔ بڑھتی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے انسانوں کو 1.75زمین کے مساوی وسائل کی ضرورت ہے ۔
موجودہ صورتحال اگرچہ عالمی سطح پر منصوبہ بندی کی متقاضی ہے تاہم پاکستان سمیت بہت سے زرعی کہلانے والے ممالک اپنی پیدواریت بڑھا کر خوراک میں خود کفیل بننے کے علاوہ عالمی برادری کے مسائل کم کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں۔ اس باب میں وطن عزیز کے جنگلات، کھیتوں، اور ماحول کی حفاظت یقینی بنانے کی تدابیر کو خاص اہمیت دینا ہو گی