فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کیخلاف کیس : چیف جسٹس نے 7 رکنی بینچ تشکیل دے دیا

 
0
49

 چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت کے لئے نیا 7رکنی بینچ تشکیل دےدیا، 2 ججز نے خود کو 9 رکنی بینچ سے الگ کرلیا ہے۔
ٓتفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت کرنے والے 9 رکنی بینچ میں سے 2ججز نے خود کو الگ کرلیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود بینچ سے علیحدہ ہوگئے۔
جس کے بعد چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت کے لئے 7رکنی بینچ تشکیل دے دیا، سپریم کورٹ کا 7 رکنی بینچ ڈیڑھ بجے درخواستوں پر سماعت کرے گا۔
اس سے قبل سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیخلاف دائر درخواستوں پرسماعت ہوئی، سماعت کے آغاز میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل آپ روسٹرم پرآئیں کچھ کہنا چاہتا ہوں، عدالتوں کوسماعت کا دائرہ اختیارآئین کی شق 175دیتا ہے، صرف اورصرف آئین عدالت کودائرہ سماعت کا اختیاردیتا ہے، ہر جج نے حلف اٹھایا ہے کہ وہ آئین اورقانون کے تحت سماعت کرے گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ واضح کرنا چاہتا ہوں کل مجھے تعجب ہوا کہ رات کوکازلسٹ میں نام آیا، مجھے اس وقت کاز لسٹ بھجی گئی، مجھے جو درخواست رات گئے موصول ہوئی اس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی بھی درخواست تھی اور آج کاز لسٹ میں آخر میں آنے والی درخواست سب سے پہلے مقرر کر دی گئی، پریکٹس اینڈ پروسیجربل کوقانون بننے سے پہلے8 رکنی بنچ نے روک دیا تھا، کیوں کہ اس قانون پر فیصلہ نہیں ہوا اس پر رائے نہیں دونگا۔
جسٹس قاضی فائزعیسی کا کہنا تھا کہ 5 مارچ والے فیصلے31 مارچ کوایک سرکیولرکے ذریعے ختم کردیا جاتا ہے،ایک عدالت فیصلے کو رجسٹرار کی جانب سے نظرانداز کیا گیا، یہ عدالت کے ایک فیصلے کی وقعت ہے، پھر اس سرکیولر کی تصدیق کی جاتی ہے ، پھر اس سرکیولر کو واپس لیا جاتا ہے۔
جسٹس قاضی فائزعیسی نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ اس پرمعززچیف جسٹس نےمجھ سےدریافت کیاکہ کیاچیمبرورک کرنا چاہتا ہوں؟ میرے سامنے آیا کہ حلف کی پاسداری کرکے بنچ میں بیٹھوں؟ میں نے حالات کو دیکھ کر چیمبر ورک شروع کیا، چیمبر ورک کے بارے میں پوچھنے پرتوپانچ صفحات کا نوٹ لکھ کر بھیجا، اس وجہ سے چہ مگوئیاں شروع ہوجاتی ہے ، میرے دوست مجھ سے قابل ہیں لیکن میں اپنے ایمان پرفیصلہ کروں گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ اس عدالتی حکم کا ایک جملہ پڑھنا چاہتا ہوں،اس سے پہلے میں کسی بنچ کا حصہ نہیں،5/3/23 کو ازخود نوٹس کیس 4 لگا جس کی صدارت میں کررہا تھا، جس پر میں نے لکھا 184/3 کے مقدمات کے مقرر کرنے کےلئے قواعد نہیں اس لئے سماعت روکی، 5/3/23 کو نہ بل بنا نہ ایکٹ آیا تھا اور نہ درخواستیں، مجھے تعجب اور صدمہ ہوا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ کی طرف سے سرکولر ہوا،سرکولر میں عدالتی فیصلے کو نظر انداز کیا گیا یہ تھی سپریم کورٹ کی وقعت،4/4 کو عدالتی سرکولر کی تصدیق کرتے ہوئے میرے بنچ کا حکم واپس لیا جاتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ اس چھ ممبر بنچ میں اگر نظر ثانی تھی تو مرکزی کیس کا کوئی جج شامل کیوں نہیں تھا، اس چھ ممبربنچ میں اگرنظرثانی تھی تومرکزی کیس کا کوئی جج شامل کیوں نہیں تھا؟میں اس بنچ کو “بنچ” تصور نہیں کرتا،میں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا۔
جس کے بعد جسٹس طارق مسعود کا کہنا تھا کہ میں قاضی فائز عیسی کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں، ہم نے ان درخواستوں پر فیصلہ کریں گے، پہلے ان درخوستوں کو سنا جائے، اگر اس کیس میں فیصلہ حق میں آتا ہے تواس کیس اپیل اٹھ جج کیسے سنیں گے۔
وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ معاملہ 25 کروڑ عوام کا ہے، جس پر جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ یہ معاملہ جب آئے گا تو دیکھ لیں گے۔
اعتزاز احسن نے بھی مکالمے میں کہا کہ جناب جسٹس قاضی فائز عیسی اس کیس میں بیٹھ کر سماعت کریں، یہ اہم کیس ہے۔ قاضی صاحب کو کیس سننا چاھیئے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے دو ججز نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی بنیاد پر اعتراض کیا ہے لیکن ان کو یہ معلوم نہیں کہ اٹارنی جنرل نے وقت لیا ہے اس کیس میں، کیا پتہ اس میں سٹے ختم ہو۔ ہوسکتا ہے اس کیس میں مخلوق خدا کہ حق میں فیصلہ ہو۔ آپ کے کیس کا کوئی اور حل کرتے ہیں، ہم نے بھی یہ بنچ اپنے آئین کے تحت قسم کے مطابق بنایا، ہم یہاں مخلوق خدا کے حق میں فیصلے کرنے کے لئے بیٹھے ہیں۔