ملٹری کورٹس میں شہریوں کے ٹرائل کیخلاف فوری حکم امتناع کی درخواست مسترد

 
0
101

شہریوں کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواستوں کی سماعت سے قبل ہی 9 رکنی بینچ ٹوٹ گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس سردار طارق نے بینچ پر اعتراض کرتے ہوئے علیحدگی اختیار کرلی۔ سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ نے سماعت کرتے ہوئے فوری حکم امتناع کی درخواست مسترد کردی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اسٹے آرڈر کی استدعا پر پہلے اٹارنی جنرل کا مقف سنیں گے۔ سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی 9 مئی کو گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پرتشدد مظاہروں کے دوران عسکری، سرکاری اور نجی تنصیبات پر حملہ کرنیوالوں کے مقدمات ملٹری کورٹس میں چلانے کیخلاف دائر درخواستوں کی آج سماعت کیلئے سپریم کورٹ کا 9 رکنی بینچ مقرر کیا گیا تھا۔

شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف درخواست کی سماعت سپریم کورٹ میں دوبارہ شروع ہوگئی، چیف جسٹس کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ سماعت کررہا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس سردار طارق کے بینچ سے الگ ہونے کے بعد 9 رکنی بینچ ٹوٹ گیا تھا۔فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کیخلاف دائر درخواستوں پر دوبارہ سماعت کے دوران جسٹس منصور علی خان نے کہا کہ کسی نے بینچ پر اعتراض اٹھانا ہے تو ابھی اٹھائے۔ جس پر لطیف کھوسہ اور اٹارنی جنرل نے کہا کہ بینچ پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ چھٹیوں میں کچھ بینچ صوبائی رجسٹریوں میں بھی جاتے تھے، ان ساری باتوں کو ذہن میں رکھیں۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین نے اپنے دلائل میں کہا کہ ہماری درخواست پر کچھ اعتراضات لگائے گئے تھے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی درخواست میں کچھ سیاسی نوعیت کی استدعا موجود تھیں، ابھی ہم وہ سننا نہیں چاہتے ابھی فوکس فوجی عدالتیں ہیں۔

شعیب شاہین نے استدعا کی کہ ہماری درخواست بھی ساتھ رکھ لیں، ہوسکتا ہے فوجی عدالتوں کے علاوہ دیگر استدعا ہم نہ مانگیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم آپس میں مشاورت کر کے دیکھیں گے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ آرٹیکل 245 نافذ ہونے کے بعد ہائی کورٹس کا 199 کا اختیار ختم ہوگیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ فوج طلبی کا وہ نوٹیفکیشن واپس ہوچکا ہے۔ لطیف کھوسہ نے مزید کہا کہ فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں کہا گیا 9 مئی کے ناقابل تردید شواہد ہیں۔