اسلام آباد (ٹی این ایس) : نواز شریف, جہانگیر ترین کی نااہلی ختم ہونے کا .بل اور وفاقی بجٹ قومی اسمبلی سےمنظور .

 
0
78

 

مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نواز شریف کی نااہلی ختم ہونے کا .بل اور وفاقی بجٹ کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا ہے۔
ایسے میں نواز شریف, جہانگیر ترین کی نااہلی ختم ہونے کی راہ ہموارہوگئی ہےکیونکہ اراکین پارلیمان کی نااہلی کو سابقہ اثر کے ساتھ 5 سال تک محدود کرنے کا بل سینیٹ سے منظور ہونے کے بعد قومی اسمبلی سے بھی منظور ہوگیا ہے۔
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ قانون بننے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور استحکام پاکستان پارٹی کے پیٹرن اِن چیف جہانگیر ترین کی تاحیات نااہلی ختم ہونے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔
کیونکہ صدر ملکت عارف علوی حج کی ادائیگی کے لیے جاچکے ہیں اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی قائم مقام صدر کے فرائض انجام دے رہے ہیں، اس بل پر دستخط ہونے کے بعد قانون بن جانے کا قوی امکان ہے۔خیال رہے کہ صدر مملکت عارف علوی کی منظوری سے سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرایکٹ دوہزارتئیس کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اورسینئر سیاستدان جہانگیرترین کو اپنی نااہلی کیخلاف اپیل کا حق مل گیا ہے۔خیال رہے کہ نئے قانون کے تحت اپیل، فیصلہ دینے والے بینچ سے بڑا بینچ سنے گا۔اور اس کا اطلاق پرانے فیصلوں پر بھی ہوگا۔ ماہرین قانون کہتے ہیں نواز شریف اور جہانگیر ترین اپنی تاحیات نا اہلی کیخلاف اپیل کا حق استعمال کر سکیں گے۔اس کے علاوہ نئے ایکٹ کا اطلاق سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی رولنگ اور منحرف ارکان کے ووٹ کیسز پر بھی ہوگا،حمزہ شہباز اپنی پنجاب حکومت کے خاتمے کیخلاف اپیل دائر کر سکیں گے، جعلی ڈگری پر اسمبلی رکنیت سے ہاتھ دھونے والوں کو بھی اس قانو ن فائدہ ہوگا ،جبکہ آرٹیکل 184 تین کے فیصلے کے خلاف 60 روز کے اندر نظر ثانی اپیل دائر کی جا سکے گی۔خیال رہے کہ نواز شریف اور جہانگیر ترین کی تاحیات نااہلی کے فیصلے بھی آرٹیکل 184 تین کے تحت دائر درخواستوں پر دیے گئے تھے جن پر اب نظرثانی اپیل کی جا سکے گی اور پہلے کے مقابلے میں زیادہ ججز پر مشتمل بینچ سماعت کرے گا۔
قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے ایوان میں پیش کیاترمیمی بل کے تحت نااہلی کی مدت 5 سال سے زیادہ نہیں ہوگی۔ بل کی منظوری سے الیکشن کمیشن کو الیکشن پروگرام، شیڈول کا اعلان کرنے کا اختیار واپس مل گیا جس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی بھی الیکشن کمیشن کا اختیار ہوگا۔
خیال رہے کہ سینیٹ میں بل پیش کرتے ہوئے وزیر قانون نے بتایا تھا کہ 1976 کے اصل قانون کے تحت ای سی پی کو عام انتخابات کی تاریخ طے کرنے کا مینڈیٹ حاصل تھا، لیکن 1977 میں مارشل لا کے نفاذ کے بعد اس وقت کے فوجی حکمران ضیا الحق نے ایک آرڈیننس کے ذریعے یہ اختیار صدر کو دے دیا تھا۔
الیکشن ایکٹ میں متعارف کرائی گئی ترامیم میں کہا گیا ہے کہ:
• سیکشن 57 (1): کمیشن عام انتخابات کی تاریخ یا تاریخوں کا اعلان سرکاری گزٹ میں نوٹی فکیشن کے ذریعے کرے گا اور حلقوں سے اپنے نمائندوں کا انتخاب کرنے کا مطالبہ کرے گا۔
• سیکشن 58: سیکشن 57 میں موجود کسی بھی چیز کے علاوہ کمیشن اس دفعہ کی ذیلی دفعہ (1) کے تحت نوٹی فکیشن کے اجرا کے بعد کسی بھی وقت الیکشن کے مختلف مراحل کے لیے اس نوٹی فکیشن میں اعلان کردہ انتخابی پروگرام میں ایسی تبدیلیاں کر سکتا ہے یا جاری کر سکتا ہے یا اس ایکٹ کے مقاصد کے لیے ایک نیا انتخابی پروگرام جس میں رائے شماری کی تازہ تاریخ (تاریخوں) کے ساتھ تحریری طور پر ریکارڈ کیا جانا ضروری ہے۔قومی اسمبلی سے الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 232 (قابلیت اور نااہلی) میں ترمیم بھی منظور کی گئی۔ اس ترمیم کے بعد 5 سال سے زیادہ نااہلی کی سزا نہیں ہوگی اور متعلقہ شخص قومی یا صوبائی اسمبلی کا رکن بننے کا اہل ہوگا۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ اس ایکٹ کی کسی دوسری شق میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود اس وقت نافذ العمل کوئی دوسرا قانون اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سمیت کسی بھی عدالت کے فیصلے، حکم یا حکم نامے، آئین کے آرٹیکل 62 کی شق (1) کے پیراگراف (ایف) کے تحت منتخب کیے جانے والے شخص کی نااہلی یا پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے برقرار رہنے کی مدت پانچ سال سے زیادہ نہیں ہو گی اور اس طرح اعلان قانون کے مناسب عمل کے تابع ہوگا۔
ترمیم میں مزید کہا گیا کہ نااہلی اور اہلیت کا طریقہ کار، طریقہ اور مدت وہی ہونا چاہیے جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 63 اور 64 کی متعلقہ دفعات میں خاص طور پر دیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں قانون میں جہاں کہیں بھی اس حوالے سے کوئی طریقہ یا مدت فراہم نہیں کی گئی، اس ایکٹ کی دفعات لاگو ہوں گی۔
اسی دوران عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطالبے پر ٹیکس کا ہدف 215 ارب روپے بڑھا کر 94 کھرب 15 روپے کرنے کے بعد قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 24-2023 کے لیے 14 ہزار 480 ارب روپے کا وفاقی بجٹ کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا ہے۔عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطالبے پر ٹیکس کا ہدف 215 ارب روپے بڑھا کر 94 کھرب 15 روپے کرنے کے بعد قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 24-2023 کے لیے 14 ہزار 480 ارب روپے کا وفاقی بجٹ کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا ہے۔قومی اسمبلی میں فنانس بل کی منظوری کے لیےاتوار کو اجلاس منعقد کیا گیا، اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت اجلاس کے دوران فنانس بل میں کُل 9 ترامیم کی گئی ہیں، ان میں سے 8 ترامیم حکومت، ایک اپوزیشن کی جانب سے شامل کی گئی ہے۔
ٹیکس وصولیوں کا ہدف 9 ہزار 200 سے بڑھا کر 9 ہزار 415 ارب مقرر کردیا گیا ہے، پنشن ادائیگی 761 ارب سے بڑھا کر 801 ارب کر دی گئی، علاوہ ازیں این ایف سی کے تحت صوبوں کو 5 ہزار 276 ارب کے بجائے 5 ہزار 390 ارب ملیں گے۔جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے فنانس بل اسلامی نظریاتی کونسل کو اسلامی پیمانے پر جانچنے کے لیے بھیجنے کا مطالبہ کیا۔تاہم عبدالاکبر چترالی کے سوا تمام حکومتی و اپوزیشن اراکین قومی اسمبلی نے فنانس بل میں سود شامل ہونے کی وجہ سے اس پر اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے لینے کی مخالفت کر دی۔وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے فنانس بل کی شق 3 میں ترمیم پیش کی جو کہ قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے منظور کرلی ہے۔ ترمیم کے مطابق 3200 ارب روپے کے زیر التوا 62 ہزار کیسز سمیت تنازعات کے حل کے لیے 3 رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے گی، کمیٹی کے فیصلے کے خلاف ایف بی آر اپیل دائر نہیں کرسکے گا، متاثرہ فریق کو عدالت سے رجوع کرنے کا اختیار ہوگا۔

خیال رہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف معاہدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے 9 جون کو پیش کردہ وفاقی بجٹ میں متعدد تبدیلیاں کی تھیں جن کے بارے میں گزشتہ روز وزیر خزانہ نے ایوان کو آگاہ کیا تھا۔ وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ حکومت کے محصولات کی وصولی کے ہدف کو 94 کھرب 15 ارب تک لے جایا گیا ہے اور مجموعی اخراجات کا ہدف 144 کھرب 80 ارب روپے رکھا گیا ہے، صوبوں کا حصہ 52 کھرب 80 ارب روپے سے بڑھا کر 53 کھرب 90 ارب روپے کردیا گیا ہے۔مولانا عبدالاکبر چترالی کی جانب سے پیش کی گئی ترمیم منظور کر لی گئی جس کے تحت چیئرمین قائمہ کمیٹی کو 1200 سی سی گاڑی استعمال کرنے کا اختیار ہوگا۔ خیال رہے کہ اس سے پہلے 1300 سی سی سے 1600 سی سی گاڑی استعمال کرنے کی اجازت تھی۔دریں اثنا وزیر خزانہ نے پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی آرڈیننس میں ترمیم پیش کی جو کہ قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے ترمیم منظور کرلی۔ترمیم کے تحت پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کی حد 50 روپے فی لیٹر سے بڑھا کر 60 روپے فی لیٹر کردی گئی، وفاقی حکومت کو 60 روپے فی لیٹر تک لیوی عائد کرنے کا اختیار ہوگا۔پرانی ٹیکنالوجی کے حامل پنکھوں اور بلبوں پر اضافی ٹیکسوں کی ترمیم بھی منظور کرلی گئی۔ پرانی ٹیکنالوجی کے حامل پنکھوں پر یکم جنوری سے 2 ہزار روپے ٹیکس ہوگا جبکہ پرانے بلبوں پر یکم جنوری سے 20 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔ فنانس بل میں مزید ترامیم کے تحت 215 ارب کے نئے ٹیکس عائد کیے گئے ہیں، دریں اثنا قومی اسمبلی نے فنانس بل 2023 کی کثرت رائے سے منظوری دے دی۔ علاوہ ازیں اجلاس کے دوران ایوان نے مالی سال 22-2021، مالی سال 23-2022 کی ضمنی گرانٹس کی منظوری بھی دے دی۔ وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی کے عملے اور اس کے اجلاس پر متعین دیگر محکموں کے اہلکاروں کے لیے 3 ماہ کی بنیادی تنخواہ کے برابر اعزازیے کا بھی اعلان کیا۔اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی خورشید شاہ نے کہا کہ 2 پنشنز پر پابندی لگائی گئی یہ اچھا اقدام ہے، اخباروں میں آیا ہے پنشنرز پر دوسرا کام کرنے کی پابندی لگائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک فیکٹری کے لیے معیشت کو کریش کرنا کہاں کی عقلمندی ہے، دنیا چاہتی ہے پاکستان ایگریکلچر ملک ہے یہ تباہ ہو جائے۔ اسحٰق ڈار نے جواب دیا کہ زراعت کے شعبے سے ہمارا بھی اتنا ہی مفاد جڑا ہے جتنا کسی اور کا ہے، میری بھی یہی ترجیح ہے لیکن کبھی ملک کی ترقی کے لیے چند اقدام اٹھانے پڑیں تو یہ بھی ضروری ہے، بجٹ کے بعد ساتھ بیٹھ کر اس کا حل نکال لیں گے۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ پنشن اصلاحات جیسی دیگر اصلاحات کی ہمیں اشد ضرورت ہے، اس بجٹ میں ہمارا 800 ارب پنشن پر چلا گیا، یہ ایک خطیر رقم ہے، چند برس قبل یہ اس سے آدھا ہوتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اصلاحات کی طرف جانا ہوگا ورنہ ایک وقت آئے گا جب یہ بوجھ ناقابل برداشت ہوجائے گا۔اسحٰق ڈار نے کہا کہ کنٹریکٹ پر کام کرنے والے سرکاری ملازمین کو 2 پنشنز میں سے بڑی پنشن کا انتخاب کرنے کا اختیار ہوگا۔ یہ بہت پرانا مسئلہ چل رہا ہے اسے بہت پہلے ٹھیک ہوجانا چاہیے تھا، حکومت نے سرکاری افسران کے ایک سے زائد پنشنز لینے پر پابندی عائد کردی ہے، یہ غریب ملک پر بہت بڑا بوجھ تھا، گریڈ 17 سے نیچے والے ملازمین کے لیے یہ شرط لاگو نہیں، گریڈ 17 سےاوپر والے ملازمین کو ایک پنشن لینا ہوگی۔وزیرخزانہ نے مزید کہا کہ اصولی بات ہے کہ آپ کو ایک پنشن ضرور ملنی چاہیے لیکن یہاں مختلف سرکاری عہدوں پر رہنے والے لوگ ایک سے زیادہ پنشنز لیتے رہے ہیں، یہ پنشنز کئی کئی نسلوں تک چلتی رہیں، ملک میں بعض لوگ بیک وقت آرمی چیف، صدر اور چیف ایگزیکٹو کی پنشن لیتے رہے۔دریں اثنا وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایوان سے خاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے بہت صبر آزما وقت گزارا ہے، آئی ایم ایف والا مرحلہ بھی گزر جائے گا، ایک نئے دور کا آغاز ہو گا جس میں معاشی استحکام واپس آئے گا۔ وزیر دفاع نے وضاحت کی کہ تاثر دیا جارہا ہے ارکان پارلیمنٹ کو خصوصی جہاز پر حج پر لے جایا جا رہا ہے، اس فلائٹ میں عام حاجی بھی ہوں گے، بجٹ کی وجہ سے آخری حج پرواز ارکان پارلیمنٹ کے لیے رکھی گئی، ارکان پارلیمنٹ اپنے خرچ پر حج پر جا رہے ہیں۔ خواجہ آصف نے چیئرمین سینیٹ کی مراعات سے متعلق بل کی مخالفت کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں ایسی مراعات نہیں دی جا سکتیں۔ وزیر دفاع نے مزید کہا کہ اس بل کی توجیہ پیش نہیں کی جاسکتی، نہ دفاع کیا جا سکتا ہے، جو بل سینیٹ میں پاس ہوا یہ ایوان اس کی حمایت نہ کرے، اس غریب قوم کے ان حالات میں سینیٹ کا منظور کردہ بل کسی صورت درست نہیں۔
آئینی عہدے کو پروٹوکول کی ضرورت ہے، وزرا کے آگے پیچھے پولیس کی گاڑیاں ہوتی ہیں تو لوگ گالیاں دیتے ہیں۔ جب ہم سیاسی عہدوں پر نہیں ہوتے تو پولیس پیچھے ہوتی ہے، اگر اتنا ہی خطرہ ہے تو سیاست چھوڑ دیں اور کوئی اور کام کریں، اگر کسی کی دشمنی ہے تو وہ ذاتی حیثیت میں گارڈز رکھ لے۔
قومی اسمبلی سے فنانس بل کی منظوری کے عمل کے دوران اراکین کی اکثریت ایوان سے غائب نظر آئی۔
وزیراعظم سمیت اہم پارلیمانی رہنما ایوان سے غیر حاضر رہے، بلاول بھٹو، آصف زرداری، راجا ریاض، اختر مینگل، امیر حیدر ہوتی بھی غیر حاضر رہے۔
ایوان میں حکومتی بینچز پر 62 جبکہ اپوزیشن بینچز پر 2 اراکین موجود نظر آئے۔