اسلام آباد(ٹی این ایس)انگریزی زبان خاص طبقے کے مفادات کیلئے ہم پر مسلط ہے

 
0
118

اردو، انگریزی کی صورت میں دو واضح دھڑے موجود ہیں.
زبانیں رابطے کا اہم ذریعہ ہیں: ڈاکٹر راشد حمید،عبداللہ یوسف و دیگر کا خطاب

اسلام آباد (پ۔ر) وطن عزیز میں انگریزی زبان دراصل ایک مخصوص طبقے کے مفادات کی تکمیل کے لیے مسلط رکھی گئی ہے۔اردو والوں سے ابتک سوتیلی ماں والا سلوک روا رکھا گیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ملک کے ممتاز شاعر و دانشور، پروفیسر ڈاکٹر احسان اکبر نے نظریہ پاکستان کونسل میں تحریک نفاذ اردو کے اشتراک سے منعقدہ مجلس مذاکرہ کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ جسکا موضوع “نظریہ پاکستان اور نفاذ قومی زبان” تھا. انہوں نے مزید کہا کہ تعلیم کے میدان اور مقابلے کے امتحانات میں جب تک وفاق اور پورے پاکستان میں عدل کا نظام رائج نہیں ہوتا۔ قوم کو اسکی تہذیبی بنیادوں پر استوار نہیں کیا جاتا پاکستان ترقی نہیں کرسکتا۔ مہمان خصوصی ڈاکٹر راشد حمید نے کہا کہ ادارہ فروغ قومی زبان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ ملک میں اردو اور انگریزی کی صورت میں دو واضح دھڑے موجود ہیں۔ اسی تناظر میں زندگی کے ہر شعبے کا جائزہ لیں تو اردو و انگریزی کے امتیاز نے ملک کے عوام میں قربت کے بجائے فاصلے بڑھائے ہیں۔ادارہ اور وزارتوں کے مابین دفتری امور میں انگریزی زبان نے اردو والوں کو باقاعدہ احساس کمتری میں مبتلا کر رکھا ہے۔ مہمان اعزاز اور نظریہ پاکستان کونسل کی ایگزیکٹو باڈی کے سینئر وائس چیئرمین عبداللہ یوسف نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میرے نزدیک زبانیں باہمی رابطے کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ اردو اور انگریزی ہر دو زبانوں کی اپنی جگہ بہت اہمیت ہے۔ انہوں نے کونسل کی طرف سے نفاز اردو کیلئے جاری جدو جہد میں اپنے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔تقریب کی مہمان اعزاز اور معروف افسانہ نگار و شاعرہ فرخندہ شمیم نے کہا کہ پی ٹی وی کے مختلف شعبوں میں پیشہ ورانہ خدمات کی انجام دہی کے دوران اردو زبان ہمیشہ میری دوست اور معاون رہی ہے۔
انہوں نے سیمینار کے عنوان کی مناسبت سے ایک خوبصورت نظم بھی پیش کی۔ قبل ازیں کونسل کے ڈائریکٹر پروگرامز اور معروف افسانہ نگار حمید قیصر نے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ میری مادری زبان سرائیکی ہے مگر میں نے ہائی سکول کے زمانے سے بچوں کیلئے اردو میں ہی لکھنا شروع کیا تھا۔ ابتک دو افسانوی مجموعے اردو میں شائع ہو چکے ہیں۔ یہ اردو زبان کی خوش بختی ہے۔ عطا الرحمان چوہان نے اپنے خطاب میں کہا کہ اردو اپنی اہمیت و افادیت کے اعتبار سے دنیا کی تیسری چوتھی بڑی زبان ہے۔ بدنصیبی دیکھیئے کہ حکومت پاکستان اردو کو قومی زبان کا درجہ دینے کیلئے سنجیدہ ہی نہیں ہوتی۔محمد اسلم الوری نے کہا کہ نظریہ پاکستان اور نفاذ اردو لازم ملزوم ہیں۔ جس طرح مختلف ادوار میں نظریہ پاکستان کی مختلف تشریحات سامنے آتی رہی ہیں۔ اسی طرح قوم پر انگریزی مسلط کرکے اسکی ترقی کی راہیں بھی مسدود کی جاتی رہی ہیں۔ ڈاکٹر شیر علی نے کہا کہ اردو ہماری پہچان ہے اور ہر دور کے دانشور نے قومی زبان کے نفاذ پر زور دیا ہے۔ بیوروکریسی کےاس بہانے کے جواب میں کہ اردو سرکاری زبان بننےکی اہلیت نہیں رکھتی، مقتدرہ قومی زبان نے جمشید علی عالم کی لکھی چار کتابیں چھاپ کر انہیں لاجواب کردیا۔ سید ظہیر گیلانی نے کہا کہ کچھ لوگوں نے مشرقی پاکستان کی وجہ سے اردو کو متنازعہ بنانے کی بات کی تو قائد اعظم کے فوری دورہ چٹاگانگ نے ساری غلط فہمیاں دور کر دی تھیں۔ ڈاکٹر ساجد خاکوانی نے کہا کہ قومی آزادی اور شناخت کا تصور قومی زبان کے بغیر ممکن نہیں۔ ڈاکٹر افضل بابر، صدر پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن نے اپنی تنظیم کی طرف سے نفاز اردو کی جدوجہد میں مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ منیر احمد شہزاد نے کہا کہ کمپیوٹر کی زبان بننے کے بعد مجھے امید ہے مستقبل قریب میں پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی۔ ڈاکٹر صلاح الدین اصلاح اور شاہد منصور نے نفاز اردو کے حوالے سے نظمیں پیش کیں۔ اجلاس میں قرارداد کے ذریعے مطالبہ کیا گیا کہ دستور پاکستان کی منشاء سپریم کورٹ کے فیصلے اور عوامی مطالبات کے مطابق بلا تاخیر قومی زبان اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیتے ہوئے سی ایس ایس، فیڈرل پبلک سروس کمیشن،صوبائی سروسز کمیشن، آئی ایس ایس پی سمیت تمام سرکاری اور نجی اداروں میں ملازمتوں کے امتحانات اردو میں لیے جائیں۔ تقریب کے اختتام پر ایوان قائد و نظریہ پاکستان کونسل کے بانی ممتاز صحافی و دانشور زاہد ملک کی برسی پر مرحوم کیلئےخصوصی طور پر دعائے مغفرت کی گئی۔
——————-