اسلام آباد(ٹی این ایس)پاک فوج واحد ادارہ جس کے پاس تنظیمی صلاحیت موجود ,نگران وزیراعظم کا اقرار

 
0
116

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اقرارکیا ہے۔ پاک فوج واحد ادارہ جس کے پاس تنظیمی صلاحیت موجود ہے حکمرانی کے ناقص چیلنجز ہوتے ہیں تو واحد ادارہ جس کے پاس تنظیمی صلاحیت ہوتی ہے وہ فوج ہے، لہٰذا حکومت کے چیلنجز پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور فوجی ادارے کو اس میں شامل کرنا پڑتا ہے۔ ترک نشریاتی ادارے ’ٹی آر ٹی‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سویلین ادارے خدمات سرانجام دینے میں ناکام رہے ہیں اور گزشتہ 4 دہائیوں میں ہماری کارکردگی خراب رہی ہے، چاہے وہ تعلیمی نظام، صحت کا معاملہ، ڈیزاسٹر مینجمنٹ یا ٹیکس ریونیو کا حصول ہو۔ حکمرانی کے ناقص چیلنجز ہوتے ہیں تو واحد ادارہ جس کے پاس تنظیمی صلاحیت ہوتی ہے وہ فوج ہے، لہٰذا حکومت کے چیلنجز پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور فوجی ادارے کو اس میں شامل کرنا پڑتا ہے ملک کے سیاسی نظام میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر نگران وزیراعظم نے کہا کہ میں اس چیز کو خالص گورننس اسٹرکچر کے طور پر دیکھتا ہوں، پاکستانی سیاست دانوں نے اپنے مخصوص مفادات کے لیے اس ادارے سے تعلقات قائم کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تنقید آسان ہے کہ گورننس نظام میں ناکامیوں کی وجہ سول اور ملٹری تعلقات میں خرابی کو بتایا جائے، مزید کہا کہ ہمارے یہاں سویلین ادارے خدمات سرانجام دینے میں ناکام رہے ہیں اور گزشتہ 4 دہائیوں میں ہماری کارکردگی خراب رہی ہے، چاہے وہ تعلیمی نظام ہو، صحت کا معاملہ ہو، ڈیزاسٹر مینجمنٹ ہو یا ٹیکس ریونیو کا حصول۔ انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ جب حکمرانی کے ناقص چیلنجز ہوتے ہیں تو واحد ادارہ جس کے پاس تنظیمی صلاحیت ہوتی ہے وہ فوج ہے، لہٰذا جو بھی حکومت کی قیادت کرتا ہے اسے روزانہ کی بنیاد پر حکومت کے چیلنجز پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور فوجی ادارے کو اس میں شامل کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک حقیقی مسئلہ ہے کہ اگر آپ اسے حل کرنا چاہتے ہیں اور کوئی حقیقی طور پر اس بات میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ فوج کو ریاست کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے تو ہمیں سویلین اداروں کی صلاحیت کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے خلاف سیکیورٹی اقدامات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ میں اس حوالے سے یہ بات کرنا چاہوں گا کہ افغانستان میں امریکا۔نیٹو اتحاد کے ذریعے دو دہائیوں تک افغانستان میں رہا اور کھربوں روپے خرچ کیے اور اس دوران پاکستان کے لیے بھی سیکیورٹی کے مستقل چیلنجز رہے اور ہم گزشتہ کئی برسوں سے دہشت گردی کے حملوں کا سامنا کر رہے ہیں اور ہم کچھ حد تک دہشت گردی پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ نگران وزیر اعظم نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں، پاکستانی واحد قوم ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف کے جنگ میں 90 ہزار سے زائد جانوں کی قربانی دی ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان، بھارت کے ساتھ تعلقات کو مختلف تناظر میں دیکھتا ہے، پاکستان کو معاشی مسائل کا سامنا رہا ہے تو بھارتی حکومت بھی معاشی مسائل کا شکار ہے، انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مستقبل روشن ہے۔ انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ اگر کوئی حقیقی طور پر اس بات میں دلچسپی رکھتا ہے کہ فوج کو حکومت کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے تو ہمیں سویلین اداروں کی صلاحیت بڑھانے کی ضرورت ہے۔ میں یقین دہانی کراتا ہوں کہ انتخابی قوتیں غیر جانبدار، منصفانہ اور آزاد ہوں گی اور انتخابی عمل میں کسی بھی ادارے یا جماعت کی مداخلت نہیں ہوگی، چاہے وہ ’ون یا بی‘ سیاسی گروپ کی حمایت میں کیوں نہ ہو۔اس سوال پر کہ اگر انتخابات میں عمران خان کی موجودگی نہ ہوئی اور تحریک انصاف کی طرف سے 9 مئی کی طرح احتجاج ہوتا ہے تو کیا ردعمل ہوگا، اس پر نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ جہاں تک پرامن احتجاج کی بات ہے تو وہ تمام سیاسی جماعتوں کا جمہوری حق ہے اور ہم تمام جماعتوں کے جمہوری حقوق کا تحفظ کریں گے، چاہے وہ پیپلز پارٹی ہو، مسلم لیگ (ن) ہو یا تحریک انصاف، تمام جماعتوں کے قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج کرنے کا حق ہے لیکن پرتشدد مظاہروں کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ حلقہ بندیوں کے متنازع ہونے کے خدشے پر پوچھے گئے سوال پر نگران وزیراعظم نے کہا کہ مجھے اس بات کی تشویش نہیں ہے کہ حلقہ بندیاں متنازع ہوں گی، لیکن سب سے اہم مسئلہ تھا کہ یہ ایک آئینی تقاضا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم آئینی بالادستی کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اس پر عمل کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی بھی سیاسی جماعت سمجھتی ہے کہ حلقہ بندیوں کا معاملہ ہے تو اس کے لیے درست فورم قومی اسمبلی ہے، جہاں وہ قانون میں تبدیلی لا سکتے تھے لیکن کسی نے ایسا نہیں کیا، لہٰذا ہم اب اس مقام پر پھنس گئے ہیں کہ ہمیں آئین کی پاسداری کرنی ہوگی کیونکہ اگر آئین یہ تقاضا کرتا ہے کہ حلقہ بندیاں کی جائیں تو الیکشن کمیشن آف پاکستان اس پر عملدرآمد کرنے کا پابند ہے اور وہ آئین سے انحراف نہیں کر سکتے۔عمران خان کی طرف سے حکومت گرانے کا الزام امریکا پر عائد کرنے کے حوالے سے نگران وزیراعظم نے کہا کہ یہ سازشی تھیوریاں کسی بھی سیاسی کلچر میں ہر جگہ گردش کرتی ہیں، جہاں تک مجھے یاد ہے کہ امریکا پر جو الزام لگایا گیا کہ عمران خان کی حکومت کو گرانے کے لیے امریکا نے سازش کی لیکن امریکا نے خود اس الزام کو مسترد کیا، تو میں یا کوئی اور اس سازش پر کیسے یقین کریں گے۔ انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ کئی ایشیائی ممالک میں ’امریکا مخالف‘ بیانیہ پایا جاتا ہے۔
کبھی کبھی سیاستدان ’مقبولیت‘ کی وجوہات کے لیے اس طرح کی چیزیں کرتے ہیں لیکن جہاں تک نگران حکومت کی بات ہے تو ہم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کوئی بھی ملک چاہے وہ امریکا ہی کیوں نہ ہو، ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے، ہم ایک خودمختار ملک ہیں، ہم اپنے ملکی مفادات کے تحت چیزیں کرتے ہیں۔ عمران خان کی طرف سے حکومت گرانے کا الزام امریکا پر عائد کرنے کے حوالے سے نگران وزیراعظم نے کہا کہ یہ سازشی تھیوریاں کسی بھی سیاسی کلچر میں ہر جگہ گردش کرتی ہیں، جہاں تک مجھے یاد ہے کہ امریکا پر جو الزام لگایا گیا کہ عمران خان کی حکومت کو گرانے کے لیے امریکا نے سازش کی لیکن امریکا نے خود اس الزام کو مسترد کیا، تو میں یا کوئی اور اس سازش پر کیسے یقین کریں گے۔ عمران خان اور ان کے کارکنوں سمیت پی ٹی آئی کی قیادت کی قید کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ 9مئی کو جو کچھ ہوا وہ ناصرف سارے پاکستان بلکہ پوری دنیا نے دیکھا، تمام بڑے بین الاقوامی آزاد اداروں نے ان حملوں کی کوریج کی جس پر انہوں نے بھی ایک رائے قائم کی کہ اس طرح کی ہلڑ بازی کسی بھی جمہوری حکومت یا غیرجمہوری طرز حکومت میں ناقابل برداشت ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جانے کی کوشش تھی جس میں ہدف موجودہ آرمی چیف اور ان کی ٹیم تھی۔
ایک اور سوال کے جواب میں نگران وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت کے ساتھ ہمارا تاریخی طور پر رشتہ دوستانہ نہیں رہا، ہم آپس میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں، ایک دوسرے کی ضد کی وجہ سے جوہری ہتھیار بنا لیے، انہوں نے 1971 میں ہمارا ایک بازو کاٹنے میں مدد کی ، وہ بطور ہمسایہ ہم سے بھی زیادہ مطمئن نہیں ہیں، پھر سب سے بڑھ کشمیر ایک حلب طلب تنازع ہے، کشمیر کے بغیر کوئی مذاکرات یا تجارت نہیں ہو سکتی۔انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ قانون یہ کہتا ہے کہ یہ فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گا، کل کو اس قانون کے حوالے سے سوالات اگر اعلیٰ عدلیہ کے سامنے آتے ہیں اور وہاں آئینی ماہرین وہ کوئی قانونی پوزیشن لیتے ہیں تو اس کے جو قانونی نتائج برآمد ہوں گے ہم اس کے پابند ہوں گے، اس وقت میری کوئی پوزیشن لینے یا نہ لینے کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اہمیت قانون کی ہے اور جب تک اعلیٰ عدلیہ کا اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں آجاتا تو ہم پابند ہیں کہ ان قوانین کی روشنی میں اپنا طرز عمل اختیار کریں۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ کئی ایشیائی ممالک میں ’امریکا مخالف‘ بیانیہ پایا جاتا ہے۔ کبھی کبھی سیاستدان ’مقبولیت‘ کی وجوہات کے لیے اس طرح کی چیزیں کرتے ہیں لیکن جہاں تک نگران حکومت کی بات ہے تو ہم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کوئی بھی ملک چاہے وہ امریکا ہی کیوں نہ ہو، ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے، ہم ایک خودمختار ملک ہیں، ہم اپنے ملکی مفادات کے تحت چیزیں کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ چاہے عمران خان کی حکومت کو گرانا درست عمل تھا یا غلط، لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ ان کو آئینی طریقے سے ہٹایا گیا، کوئی فوجی بغاوت نہیں ہوئی، کیونکہ آئین اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ کس طرح کسی حکومت کو لانا ہے اور کس طرح اس کو ہٹایا جا سکتا ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے حوالے سے سوال پر نگران وزیر اعظم نے کہا کہ بلوچ شدت پسندوں اور ٹی ٹی پی کے حملوں میں جو اضافہ نظر آ رہا ہے تو میرا خیال ہے کہ اس کی وجہ ناصرف افغانستان میں اندرونی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلی ہے بلکہ اس سے زیادہ وہ سامان، ہتھیار اور آلات ہیں جو امریکا اور اس کے اتحادی چھوڑ کر گئے ہیں، یہ ناصرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان آلات اور ہتھیاروں نے ان شدت پسندوں اضافی استعداد اور قوت فراہم کی ہے جس کی وجہ سے ان حملوں میں تیزی آئی ہے، یہ ہماری پالیسی کی وجہ سے نہیں آئی۔ ریاست کے پاس مذاکرات اور طاقت کے استعمال دونوں کے استعمال کا حق ہوتا ہے، ریاست کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ پرامن سماجی نظام کے حصول کے لیے مذاکرات کامیاب ہوں گے یا طاقت کا استعمال زیادہ موثر رہے گا، اس وقت دونوں ہی طریقوں کا استعمال کرنا پڑے گا۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ہماری پالیسی تو یہی ہے کہ ہم پرامن، مستحکم اور خوشحال افغانستان دیکھنا چاہتے ہیں، یہ سب خوشحال، مستحکم اور پرامن پاکستان کے تصور سے جڑا ہوا ہے۔