اسلام آباد(ٹی این ایس) کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں وہ میری طرف دیکھیں تو میں سلام کروں

 
0
63

مسلم لیگ ن کے قائد سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی چار سالہ کے بعد وطن واپسی ملکی سیاست کے لئے انتہائی اہم پیش رفت ہے- نواز شریف کی ملکی سیاسی منظر نامے سے دوری بلا شبہ ایک طرح کے سیاسی خلاء کا موجب رہی اور اس کے ملک کی سیاست کے علاوہ مسلم لیگ ن پر منفی اثرات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی واپسی مجموعی طورپر ملکی سیاست اور جمہوریت کے لئے کس قدر خوشگوار اور مسلم لیگ ن کی سیاست کے لئے کس حد تک نیک فال ثابت ہوتی ہے اس کا جواب آئندہ چند روز میں مل جائے گا-
نواز شریف کا وطن واپسی اور کم وبیش چھ سال بعد کسی عوامی جلسے سے خطاب نہ صرف وقت کی ضرورت بلکہ انتہائی جذباتی مناظر سے بھی بھر پور تھا ان کا یہ کہنا کہ ہمیں ملک بدر ‘ جیلوں میں ڈالا’ رانا ثناءاللہ’ حنیف عباسی کو سزائے موت دینے کے چکر میں تھے کسی نے مسلم لیگ کا جھنڈا نہیں چھوڑا’ کون ہے جو ہر چند سالوں بعد نواز کو قوم سے جدا کردیتا ہے’ ہمارے زخمیوں کو نہ چھیڑو’ اتنے آنسو نکلیں گے کہ طوفان آجائے گا’ والد ہ کو قبر میں نہ اتار سکا’ بیمار بیوی کا حال پوچھنا چاہتا تھا جیل افسر نے فون نہ کرنے دیا’ قید خانے میں انتقال کی اطلاع ملی نواز شریف کی دلی کیفیت کو بیان کرنے کے لئے کافی ہیں-
دوران خطاب سابق وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ ان کے دل میں انتقام کی کوئی تمنا نہیں’ ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال میں انتہائی مثبت پیش رفت اور نفرت کی سیاست کے خاتمے کی جانب درست قدم ہے-ہمارے بزرگوں’ مائوں’ بہنوں’ بیٹیوں’ نوجوانوں کے لئے پاکستان ایک ان دیکھی جنت تھا لیکن آج 75 سال گزرنے کے بعد جب پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں کہ آزادی کے جس تصور کے تحت ہم نے آگ اور خون کے دریا پار کئے تھے اس کا کہیں دور دور تک نام ونشان تک نہیں ملتا-پاکستان معاشی’ آئینی اور جمہوری لحاظ سے ایک مستحکم ملک بن سکا اور نہ ہی پاکستان کی مختلف اکائیوں کے لوگ ایک منظم قوم کی شکل اختیار کرسکے-
حالت یہ ہے کہ اس وقت پاکستان خطے کا معاشی’ سیاسی’ جمہوری اور داخلی استحکام کے حوالے سے پسماندہ ترین ملک بن چکا ہے-بیرون ملک پاکستان کی پہچان معاشی طور پر تباہ حال’ مذہبی وسیاسی انتہاء پسندی اور بنیادی جمہوری حقوق سے محروم مفلوک الحال لوگوں کے ملک کی ہے سیاسی ناپختگی’ انا اور ذاتی سیاسی مفادات کے بوجھ تلے دبی سیاست اور جمہوریت دونوں خوار ہو رہی ہیں- جمہوری رویوں میں انانیت اور نااتفاقی کے نتیجے میں ملک کو بحران در بحران ‘ مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے اور ملک کے23کروڑ عوام بیچارگی کی تصویر بنے ہوئے ہیں
ملک کی موجودہ صورت حال سیاسی قیادت سے اتحاد واتفاق کا تقاضا کر ر ہی ہے مگر صد افسوس کہ اقتدار کی حرص اور قومی کے بجائے سیاسی مفادات کی جنگ نے ان کے کان اور آنکھیں بند کر رکھی ہیں وہ وطن عزیز کو درپیش اندرونی وبیرونی خطرات سے نبرد آزما ہونے اور ارض پاک کے دشمنوں کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے لئے متحد ہونے کو تیار نہیں سیاست دانوں کی باہمی لڑائی کے باعث پورا سیاسی ماحول بد نظمی اور عدم استحکام کا شکار ہوچکا ہے-
پاکستان اس وقت گھمبیر سیاسی’ اقتصادی’ معاشی اور سماجی مسائل کا شکار ہے اور اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا جارہا ہے کہ کون سا مسئلہ زیادہ سنگین اور ملک وقوم کے مستقبل کے لئے خطرناک ہے- ملک کی ڈوبتی ا قتصادی ناؤ کو بحفاظت کنارے لگانے کے لئے انتشار ‘ افراتفری اور تصادم کی نہیں افہام وتفہیم کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام معاشی استحکام کی راہ میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ ہے
ہمارے سیاسی قائدین کو خود احتسابی کی اشد ضرورت ہے وہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس وادراک کریں اور ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنے کے لئے اخلاص نیت کے ساتھ کوشش کریں اور ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے رواداری اور برداشت کے کلچر کو فروغ دیں- نواز شریف نے ایک جہا ندیدہ اور گرم و سرد چشیدہ حکمران اور ایک ماہر سیاسی طبیب کی حیثیت سے مینار پاکستان پر جلسہ عام سے خطاب میں پاکستانی سیاست کے بیشتر امراض کی درست تشخیص کی ہے مگر انہوں نے ان امراض کا کوئی علاج تجویز نہیں کیا- معیشت کے حوالے سے بہت سی نیک خواہشات کا ذکر تو کیا مگر یہ نہیں بتایا کہ معاشی ابتری سے خوش حالی کی جانب واپسی کا سفر کیسے طے ہوگا-
سابق وزیر اعظم نواز شریف کا یہ کہنا کہ سیاسی جماعتوں’ ریاستی اداروں اور ستونوں کو مل کر کام کرنا ہوگا اس کے بغیر ملک آگے نہیں جاسکتا وقت کی آواز ہے جمہوریت حوصلہ برداشت اور عوام کی رائے عامہ کے احترام کا نام ہے، اگر پاکستان نے آگے بڑھنا ہے تو سیاسی قائدین’ ریاستی اداروں اور ستونوں کو عدم برداشت اور میں نہ مانوں کے رویے کو ترک کرنا ہوگا- سیاست مکالمے اور لچک کا دوسرا نام ہے- اب بھی وقت ہے تمام سیاست دان ایک قومی مکالمے کے لئے مل بیٹھیں-
اگر سب سیاست دان وسیع تر قومی مفاد میں مل جل کر ملک میں خوشگوار ماحول پیدا کرلیں گے تو ہماری مشکلات میں واضح کمی ہوجائے گی اور ملک بھی انشاء اللہ تعالی بحرانوں سے نکل جائے گا اور اس ضمن میں سب سے زیادہ ذمہ داری خود سابق وزیر اعظم نواز شریف پر عائد ہوتی ہے کہ وہ تمام سیاسی قائدین بشمول چیئرمین تحریک انصاف کے ساتھ مل بیٹھ کر ملک میں برداشت’ رواداری اور خو شگوار ماحول پیدا کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں-
میاں نواز شریف نے مینار پاکستان کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ملکی مسائل کے حل کا جو اجمالی خاکہ پیش اور مل بیٹھنے کی جس خواہش کا اظہار کیا ہے ضرور ی ہے کہ دوسری سیاسی جماعتیں بالخصوص تحریک انصاف بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کرے’ سیاست میں محدود نظر اور تھوڑے سے ذاتی مفاد کے بجائے ملک کے وسیع تر مفاد کی سوچ کو اپناتے ہوئے ان کی پیش کش کا مثبت جواب دے چار سال بعد وطن واپس آنے اور چھ سال بعد کسی عوامی جلسے سے خطاب کرنے والا نواز شریف وہ نہیں جو چھ سال قبل سیاسی منظر نامے سے دور ہوا تھا-
قید و بند’ مقدمات اور جلا وطنی کے تجربات اور مشکلات سیاسی فہم کو جلا بخشتے ہیں – ضروری اس بات کی ہے کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے مینار پاکستان میں عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انتقام کی سیاست کو رد اور ملک وقوم کی خدمت کرنے کے جس جذبے کا اظہار کیا ہے اس کو ماند نہ پڑنے دیں- نواز شریف کی مینار پاکستان پر کی جانے والی تقریر ملکی سیاست کی بہترین’ جامع اور متوازن تقریر تھی جس میں انہوں نے اپنے ذاتی دکھ کے لئے اشعار کا سہارا بھی لیا’ اپنے دور حکومت کے حالات کا احاطہ بھی کیا’ شہباز شریف کے دور حکومت کا دفاع بھی کیا- موجودہ کٹھن حالات کا جائزہ بھی لیا اور آنے والے وقت میں ترقی اور خوش حالی کا حصول یقینی بنانے کا پروگرام بھی پیش کیا ہے-
نواز شریف کے خطاب کی سب سے بہترین بات یہ تھی کہ انہوں نے اپنی جماعت کو گالی کا جواب گالی سے دینے سے منع کردیا ہے-ملک میں سیاسی تفریق جس قدر بڑھ چکی ہے اس میں یہ پیغام دینا انتہائی ضروری تھا-سوال یہ ہے کہ دوسری جماعتیں بھی اس کی تقلید کریں گی یا نہیں؟ مسلم لیگ کے قائد نے پوری تقریر میں اپنے حریف چیئرمین پی ٹی آئی کا نام لینے سے گریز کیا اور ان پر کھلے عام تنقید نہیں کی یہ ایک اچھی روایات ہے سیاسی حریت کا احترام ناگزیر ہے- امید ہے کہ عوامی جذبات کو چھونے والا ان کا بیانیہ نہ صرف مسلم لیگ ن کی سیاسی مہم میں بھی ایک نئی جان ڈالنے کا سبب ثابت ہوگا بلکہ جماعت کو مقبولیت کی نئی بلندیوں پر بھی پہنچنانے کا باعث بنے گے۔۔۔۔