اسلام آباد(ٹی این ایس) سال 2024 پاکستان میں اسلامی بینکاری کا سال ہے؟

 
0
60

……. پاکستان میں اسلامی بینکاری تیزی سے فروغ پارہی ہے اور اس شعبے میں عالمی ترقی سے مطابقت رکھتی ہے۔عالمی اسلامی بینکاری صنعت کی مالیت 20 کھرب ڈالر سے زائد ہے اور 60 ممالک میں اسلامی بینکاری کے اداروں کی 1400 شاخیں ہیں۔ سودی بینکاری اور سودی کاروبار اللّٰہ سے جنگ ہے،اسلامک بینکاری نظام اگراپنالیا جائےتو اللّٰہ تعالیٰ نہ صرف رزق میں خیر و برکت عطا فرمائے گا بلکہ یہ عمل اللّٰہ اور رسولﷺ کی خوشنودی کا سبب بھی بنے گا اور پاکستانی معاشرے کو بھی سود کی لعنت سے نجات مل جائے گی۔
ان شاء اللّٰہ سال2024 پاکستان میں اسلامی بینکاری کا سال ثابت ہوگا، پاکستان بینکنگ کے شعبوں میں اسلامی اقدار کو فروغ دینے والے سرکردہ ممالک میں سے ایک ہے۔اسلامک بینکنگ کے فروغ میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا کردار نہایت مثبت ہے۔اربوں روپے کے سودی قرضوں سے نجات کےلیے ضروری ہےکہ روایتی سودی بینکاری نظام سے جلد از جلد نجات حاصل کرکے اسلامک بینکاری نظام اپنائیں کیونکہ اسلامک بینکاری نظام انصاف اور برابری کے بنیادی اصولوں کے مطابق ہے جبکہ سودی بینکاری نظام اس کے برعکس ہے جس کے سبب آج امریکہ، یورپ اور یونان جیسے ممالک مالیاتی بحران کا شکار ہیں۔اس ضمن میں روس نے تاریخ میں پہلی بار ملک میں اسلامی بینکنگ کے آغاز کا اعلان کیا ہے، پائلٹ پروگرام کے تحت شروع کی گئی اسلامی بینکاری کا دورانیہ فی الحال دو سال ہوگا جو یکم ستمبر2023 سے نافذ العمل ہوگی۔الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق روس میں مسلمانوں کی تعداد 25 ملین سے زیادہ ہے اور وہاں طویل عرصے سے اسلامی بینکنگ کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ باضابطہ طور پر اس کے آغاز کی توثیق کی گئی۔ چار اگست 2023 کو صدر ولادیمیر پوتن نے قانون پر دستخط کرتے ہوئے اسلامی بینکاری کی قابل عمل ہونے کا جائزہ لیا تھا۔ ابتدائی طور پر اسے تاتارستان، باشکورتوستان، چیچنیا اور داغستان میں نافذ کیا جائے گا، جہاں ماضی میں اسلامی طور طریقے سے لین دین کا تجربہ کیا جا چکا ہے۔ اگر ان چاروں علاقوں میں اس کے مثبت نتائج سامنے آتے ہیں تو پھر اسے ملک کے دیگر حصوں میں بھی نافذ کرنے کیلئے قانون سازی کی جا سکتی ہے۔ خیال رہے کہ اسلامک بینکنگ شریعت کے تحت کام کرتی ہے، کیونکہ سود پر مشتمل لین دین اسلام میں ممنوع ہے۔ یہ روایتی طور پر قرض پر مبنی بینکنگ ہے، جس میں صارف لین دین سے وابستہ تمام خطرات اور ذمہ داریوں کو برداشت کرتا ہے۔ اسلامی بینکاری اثاثوں پر مبنی ہے، جس میں شراکت داری کے حصے کے طور پر مالیاتی ادارے اور صارف کے درمیان منافع اور خطرات کا اشتراک کیا جاتا ہے۔ اسلامک فائنانس میں روسی ایسوسی ایشن آف ایکسپرٹس کی ایگزیکٹو سکریٹری مدینہ کلیمولینا نے بتایا کہ کوئی بھی بینک صارفین کے مالی پریشانیوں اور دیوالیہ پن سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا جو اکثر روایتی فائنانس میں ہوتے ہیں۔ روس کے سب سے بڑے قرض دہندہ، سبر بینک کے سینئر نائب صدر اولیگ گنیف کے مطابق اسلامی بینکنگ سیکٹر کی سالانہ شرح نمو 40 فیصد ہے اور 2025 تک اس کی مالیت 7.7 ٹریلین ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔ مشاہدہ ہے کہ وہ تمام کاروباری افراد جنہوں نے سودی بینکاری سے نجات حاصل کرکے اسلامی بینکاری نظام اپنایا، اللّٰہ تعالیٰ نے اُن کے رزق اور کاروبار میں پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ برکت عطا فرمائی ہے, اسٹیٹ بینک پاکستان کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اسلامک بینکنگ کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے اور 45 فیصد لوگ شرعی اصولوں پر مبنی بینکنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں جبکہ روایتی بینکنگ کرنے والے 74فیصد کسٹمرز نے مستقبل قریب میں اسلامک بینکنگ پر منتقل ہونے کا عندیہ دیا ہے جس سے امید ہے کہ آئندہ 2سال میں پاکستان میں اسلامک بینکنگ کا شیئر 22 فیصد سے بڑھ کر 35 فیصد تک ہو جائے گا۔ وفاقی شرعی عدالت کے مطابق تمام بینکاری نظام کو 2027 تک اسلامی بینکاری میں تبدیل اور منتقل کیا جانا چاہیے۔ حکومت پاکستان نے ملک میں 2027ء تک شرعی بینکنگ کے نفاذ کا ہدف رکھا ہے پاکستان میں بینکنگ کے شعبے میں 22بینکوں میں 6 مکمل اسلامی بینک ہیں جس میں میزان بینک، بینک اسلامی، البرکہ بینک، دبئی اسلامک بینک، MCB اسلامک بینک اور 2023ء میں مکمل اسلامک بینکنگ پر منتقل ہونے والا فیصل بینک شامل ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں 17روایتی بینک خدمات انجام دے رہے ہیں۔پاکستان میں 1990ء تک روایتی سودی بینکاری کا کوئی متبادل نہیں تھا۔ 2002 میں میزان بینک نے پہلا اسلامک کمرشل بینکنگ لائسنس حاصل کیا اور اسلامک بینکنگ کی ریکارڈ گروتھ سے پاکستان میں 982برانچوں کا سب سے بڑا نیٹ ورک قائم کیا۔ 2015ء میں بحرین کے فیصل بینک نے روایتی بینکنگ سے اسلامک بینکنگ پر منتقلی کا فیصلہ کیا اور 2023ء پاکستان میں اسٹیٹ بینک نے فیصل اسلامک بینک کو مکمل اسلامی بینک کا لائسنس جاری کیا جس سے فیصل بینک، پاکستان میں میزان بینک کے بعد دوسرا بڑا اسلامک بینک بن گیا جس کی پاکستان کے 253شہروں میں 700سے زائد برانچیں ہیں اور فیصل بینک کی روایتی بینکنگ سے اسلامک بینکنگ پر دنیا میں سب سے بڑی منتقلی ہے پاکستان میں اسلامک بینکنگ کی برانچیں زیادہ تر بڑے شہروں میں قائم ہیں جبکہ چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں اسلامک بینکنگ کی برانچیں بہت کم ہیں, میرے نزدیک اسلامک بینکنگ میں ایگری کلچر فنانسنگ کو نظر انداز کیا گیا ہے حالانکہ زراعت ملکی معیشت کا انتہائی اہم سیکٹر ہے۔ غریب کسان30 فیصد سے 35فیصد شرح سود پر قرضہ لینے کیلئے اپنی فصلیں آڑھتی یعنی مڈل مین کے پاس گروی رکھواتاہے، پھر فصل کی کٹائی کے بعد اس کی تمام آمدنی سودی قرضوں کی ادائیگی میں چلی جاتی ہے اور کاشتکار کے پاس اپنی گزر اوقات کیلئے بمشکل کچھ بچتا ہے، لہٰذااسلامک بینکنگ میں ایگری کلچر فنانسنگ متعارف کرانا انتہائی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں اسلامک انشورنس ’’تکافل‘‘ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ اسلامک بینکنگ کے اثاثوں کی اسلامک انشورنس متعارف کرائی جاسکے۔ اس سلسلے میں SECP کو اقدامات کرنے ہوں گے,28 اپریل ، 2022 کو وفاقی شریعت عدالت نے سودی نظام سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان جیسی اسلامی ریاست کا معاشی نظام سود سے پاک ہونا چاہیے۔وفاقی شریعت عدالت نے سودی نظام کے خاتمے کی درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سنایا، جسٹس ڈاکٹر سید انور نے فیصلہ پڑھ کر سنایا تھا ۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ربا کا خاتمہ اسلامی نظام کی بنیاد ہے، کسی بھی طرح کی ٹرانزیکشن جس میں ربا شامل ہو وہ غلط ہے، ربا کا خاتمہ اور اس سے بچاؤ اسلام کے عین مطابق ہے، قرض سمیت کسی بھی صورت میں لیا گیا سود ربا میں آتا ہے، اسلام میں ربا کی مکمل ممانعت ہے۔ شریعت عدالت کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ حکومت کی جانب سے اندرونی یا بیرونی قرضوں پر سود دینا ربا میں آتا ہے، حکومت اندرونی وبیرونی قرضوں اور ٹرانزیکشنز کو سود سے پاک بنائے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت بین الاقوامی اداروں سے ٹرانزیکشن سود سے پاک بنائی جائے۔ اسلامک بینکنگ اور سودی نظام سے پاک بینکاری نظام دو مختلف چیزیں ہیں، پاکستان میں پہلے سے کچھ جگہوں پر سود سے پاک نظام بینکاری موجود ہے، ربا کو پاکستان میں ختم ہونا چاہیے۔

وفاقی شریعت عدالت کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ پاکستان جیسی اسلامی ریاست کا معاشی نظام سود سے پاک ہونا چاہیے۔
چین بھی اسلامی شرعی نظام کے مطابق سود سے پاک بینکاری کی طرف جا رہا ہے، حکومت بینکنگ سے متعلق انٹرسٹ کا لفظ ہر قانون سے نکالے، حکومت کے وہ تمام قوانین جن میں سود کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کو فوری خارج کیا جائے۔ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ وہ تمام قوانین جن میں سود کا لفظ استعمال ہوا ہے اسلامی شریعت کے منافی قرار دیے جاتے ہیں، یکم جون سے تمام وہ شقیں جن میں سود کا لفظ موجود ہے وہ کالعدم تصور ہوں گی، حکومت فوری طور پر سودی نظام کے خاتمے کے اقدامات کرے۔ عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اٹارنی جنرل نے عدالت میں بیان دیا کہ سودی نظام کے خاتمے میں وقت لگے گا، سپریم کورٹ شریعت ایپلٹ بینچ نے 2001 میں سودی نظام کے خاتمے کے حکم پر عملدرآمد کا حکم دیا تھا، عدالت کو بتایا جائے کہ سودی نظام کے خاتمے کی قانون سازی کے لیے کتنا وقت درکار ہے؟ اسلامی بینکاری نظام استحصال کے خلاف اور رسک سے پاک ہے۔ وفاقی شریعت عدالت نے حکومت کو 5 سال میں سود سے پاک نظام نافذ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ 31 دسمبر2027 تک ربا سے مکمل پاک نظام ملک میں نافذ کیا جائے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ آرٹیکل 38 ایف پر عملدرآمد ہوتا تو ربا کا خاتمہ دہائیاں پہلے ہو چکا ہوتا، اسٹیٹ بینک کے اسٹریٹجک پلان کے مطابق 30 فیصد بینکنگ اسلامی نظام پر منتقل ہو چکی، اسلامی اور سود سے پاک بینکاری نظام کے لیے 5 سال کا وقت کافی ہے، توقع ہے حکومت سود کے خاتمے کی سالانہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرے گی۔ شریعت عدالت نے ویسٹ پاکستان منی لانڈر ایکٹ کو شریعت کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا تھا دو دہائیاں بعد بھی سود سے پاک معاشی نظام کے لیے حکومت کا وقت مانگنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ عدالت نے انٹرسٹ ایکٹ 1839 اور سود کے لیے سہولت کاری کرنے والے تمام قوانین اور شقیں غیر شرعی قرار دیدیں۔یاد رہے کہ وفاقی شریعت عدالت کے سودی نظام کے خاتمے سے متعلق فیصلہ پر08 دسمبر ، 2022کو اسٹیٹ بینک نے سینیٹ خزانہ کمیٹی کو بتایا تھا کہ پانچ برس میں مکمل اسلامی بینکنگ نظام رائج کرنا ممکن نہیں، اس میں کئی مسائل ہیں۔ سینیٹ خزانہ کمیٹی کے اجلاس کو اسلامی بینکاری پر بریفنگ دیتے ہوئے ڈی جی اسٹیٹ بینک نے کہا تھا کہ چند بینکوں کو روایتی بینکاری سے اسلامی بینکاری میں تبدیلی میں5سال لگے، یہ ایک کمٹمنٹ ہے کہ ہم اسلامی بینکاری کی طرف بڑھیں، اسلامی بینکاری کیلئے شریعہ اسکالرز کی رائے بھی لینی ہوگی ,۔ وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے تھا کہ ہمارے بہت سے سرمایہ کار اسلامی بینکاری کی طرف جانا چاہتے ہیں، ہمارے مذہبی عقائد کی وجہ سے ہمیں ضرور اسلامی بینکاری کی طرف جانا ہے مگر اس میں وقت لگے گا۔ سینیٹرشیری رحمان نے کہا تھا کہ ملک کو جن معاشی چیلنجز کا سامنا ہے کیا یہ وقت درست ہے کہ غیر سودی بنکاری پر بات کی جائے؟ اس سے پاکستان کو کونسے اسٹریٹجک فوائد ملیں گے،ہمیں کوئی بھی فیصلہ عجلت میں نہیں کرنا چاہیے‘ سینیٹرشوکت ترین نے کہا تھا کہ آئندہ وقت میں ڈیجیٹل بینکاری بہت زیادہ بڑھ جائیگی اسے بھی ذہن میں رکھنا چاہیے، اسلامی بینکنگ کو مرحلہ وار بڑھاتے جانا چاہیے، اسلامک بینکاری میں سود کی اجازت نہیں، سعودی عرب نے سود کو کمیشن کا نام دیا ہے۔سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ بینکوں کی نئی برانچوں میں صرف اسلامی بینکنگ ہونی چاہیے۔