اسلام آباد(ٹی این ایس)جمہوریت ملک کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ضروری قرار

 
0
77

سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی بلے کا نشان کیس کی سماعت میں
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیےہیں کہ جمہوریت ملک کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ہونی چاہیے، بنیادی سوال جمہوریت کا ہے، پارٹی آئین پر مکمل عملدرآمد کا نہیں، کم از کم اتنا تو نظر آئے کہ انتخابات ہوئے ہیں، اکبر ایس بابر بانی رکن تھے، وہ پسند نہیں تو الگ بات ہے لیکن ان کی رکنیت تو تھی، صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ درخواست گزار پارٹی رکن نہیں تھے، اکبر ایس بابر نے اگر استعفیٰ دیا یا دوسری پارٹی میں گئے تو وہ بھی دکھا دیں۔ انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کی بدنیتی ثابت کرنا ہوگی، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو اس وقت نوٹس کیا جب وہ حکومت میں تھی، الیکشن ایکٹ کی آئینی حیثیت پر تبصرہ نہیں کریں گے کیونکہ کسی نے چیلنج نہیں کیا، اِس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کو ہم بھی چیلنج نہیں کر رہے۔ انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کی بدنیتی ثابت کرنا ہوگی، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو اس وقت نوٹس کیا جب وہ حکومت میں تھی، الیکشن ایکٹ کی آئینی حیثیت پر تبصرہ نہیں کریں گے کیونکہ کسی نے چیلنج نہیں کیا، اِس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کو ہم بھی چیلنج نہیں کر رہےجسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی نے اپنا جاری کردہ شیڈیول فالو کیا تھا؟ کیا انتخابات شفاف تھے؟ کچھ واضح تھا کہ کون الیکشن لڑ سکتا ہے کون نہیں؟ انہوں نے ریمارکس دیے کہ آپ لیول پلیئنگ فیلڈ مانگتے ہیں، اپنے ارکان کو بھی تو لیول پلیئنگ فیلڈ دینی ہوگی، الیکشن کمیشن نے ازخود تو کارروائی نہیں کی، شکایات ملنے پر کارروائی کی۔ الیکشن کمیشن نے ایسی کسی بے ضابطگی کی نشاندہی نہیں کی، تمام سوالات کے جواب دستاویزات کے ساتھ دوں گا۔چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یہ انتخابی نشان کیا ہوتا ہے ہمیں معلوم ہے،اگر ایوب خان کے دور کے بعد کی بات کریں تو پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی ایک تاریخ ہے، پیپلزپارٹی سے ماضی میں تلوار کا نشان واپس لیا گیا، پھر پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین بنی، ایک اور سیاسی جماعت مسلم لیگ نے بھی ایسا ہی وقت دیکھا لیکن اس وقت حکومت میں کون تھا یہ بھی دیکھنا ہے، آج کی اور تب کی صورتحال میں بہت فرق ہے، تب سپریم کورٹ کے ججز نے پی سے او کے تحت حلف اٹھایا تھا، آج تحریک انصاف کے مخالفین حکومت میں نہیں ہیں۔ مزید ریمارکس دیے کہ آج کل ہر کوئی اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کرتا ہے، اصل نام فوج ہے، ہمیں کھل کر اور مکمل بات کرنی چاہیے، میں آئینی اداروں کی عزت کرتا ہوںبیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق ہر سیاسی جماعت نے پارٹی انتخابات کے 7 دن میں سرٹیفکیٹ دینا ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ سرٹیفکیٹ پارٹی آئین کے مطابق انتخابات سے مشروط ہے۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انٹراپارٹی انتخابات کی سکروٹنی کا اختیار نہیں ہے۔سٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اصل مسئلہ ہی دائرہ اختیار کا بنا ہوا ہے۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپ یا تسلیم کر لیں جمہوریت چاہیے یا نہیں؟ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ گھر میں جمہوریت چاہیے باہر نہیں چاہیے، آپ کو سیاست چاہیے جمہوریت نہیں چاہیے، سیاست تو ہے ہی جمہوریت، الیکشن کمیشن کا ایک ہی دکھڑا ہے کہ پارٹی انتخابات کرا لو۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارٹی الیکشن کرائے لیکن وہ الیکشن کمیشن مانے نہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 14 درخواست گزاروں کو الیکشن کیوں نہیں لڑنے دیا؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ کسی کو اعتراض ہے تو سول کورٹ چلا جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم جمہوریت کیساتھ کھڑے ہیں چاہے وہ گھر کے اندر ہو یا باہر ہو۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کوئی پٹواری انٹراپارٹی انتخابات کا فیصلہ نہیں کر سکتا کیونکہ اسے اختیار نہیں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو سیاست چاہیے جمہوریت نہیں چاہیے، سیاست تو ہے ہی جمہوریت، آپ کہتے ہیں کہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے پر الیکشن کمیشن 2 لاکھ جرمانہ کر سکتا ہے لیکن ساتھ ہی آپ کہتے ہیں باقی اختیار الیکشن کمیشن کے پاس نہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کوئی پارٹی الیکشن کرائے بغیر سرٹیفکیٹ دیدے تو کیا الیکشن کمیشن کچھ نہیں کر سکتا؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں پارٹی انتخابات کی شفافیت کا جائزہ لینے کا اختیار نہیں ہے، انتخابات نہ کرانے پر الیکشن کمیشن 2 لاکھ روپے تک جرمانہ کر سکتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی انتخابات کروا کر جرمانے کی اسٹیج سے تو آگے نکل چکی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ کون ہیں؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بیرسٹر گوہر پارٹی کے چیئرمین ہیں۔چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ بیرسٹر گوہر کا اپنا الیکشن ہی سوالیہ نشان بن گیا ہے، بانی پی ٹی آئی سرٹیفکیٹ دیتے تو اور بات تھی، بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیاکہ سرٹیفکیٹ پارٹی سربراہ نے دینا ہوتا ہے، سابق سربراہ نے نہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ پارٹی انتخابات کے وقت چیئرمین کون تھا؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ پارٹی انتخابات ہوئے تو چیئرمین عمران خان تھے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کا اختیار نہیں ہے تو پھر کس کا ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اکبر ایس بابر ممبر نہیں ہیں انہیں نکال دیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ ہمیں دکھائیں ریکارڈ سے وہ ممبر نہیں، بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ میں آپ کو وہ دستاویز دکھا دیتا ہوں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ سرٹیفکیٹ اسی وقت مل سکتا ہے جب انتخابات پارٹی آئین کے مطابق ہوئے ہوں۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی کا آئین کہتا ہے چیئرمین کا الیکشن 2 سال باقی 3 سال بعد ہوں گے، یہاں تک تو پارٹی آئین کی خلاف ورزی ثابت ہوگئی۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میرا بیان یہی ہے اکبر ایس بابر ممبر نہیں ہیں، مجھے ہدایات یہی ملی ہیں وہ ممبر نہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے استفسار کیا کہ آپ کو ہدایات کون دے رہا ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ مجھے پارٹی سربراہ ہدایات دے رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جنہوں نے خود 2 سال پہلے پارٹی جوائن کی وہ ہدایت دے رہے ہیں؟ برطانیہ میں جتنے وزرائے اعظم آئے وہ ایک ہی جماعت کے لوگ تھے اور اپنی ہی جماعت سے ان کو مخالفت ہوئی۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے انٹرا پارٹی انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی اپنی ویب سائٹ پر شائع کیے؟ کس طرح مخصوص لوگوں کو علم ہوا کہ یہ کاغذات نامزدگی ہیں اور کب جمع کرانا ہیں؟ اس دوران کمرہ عدالت میں چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ جس کے پاس لیپ ٹاپ ہے وہ تحریک انصاف کی ویب سائٹ کھولیں اور پاکستان تحریک انصاف کی ویب سائٹ پر کاغذاتِ نامزدگی چیک کریں۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جب الیکشن ہو گیا تو کاغذات نامزدگی ہٹا دیے گئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ ہماری سپریم کورٹ کی ویب سائٹ دیکھیں ہمارے تو انتخابات نہیں ہوتے، ہماری ویب سائٹ پر اگر ہم نوکری کا اشتہار دیتے ہیں تو موجود ہوگا، کچھ تو کاغذ کا ٹکڑا دکھا دیں کہ امیدواروں سے فیس کی یا کاغذات نامزدگی کا۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ فیس کیش میں وصول کی گئی، اِس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کون سی سیاسی جماعت کیش میں فیس وصول کرتی ہے؟ آپ کا الیکشن شیڈول سر آنکھوں پر اس کی تعمیل دکھا دیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ آپ کی پارٹی کا تو نعرہ ہی یہ ہے کہ لوگوں کو بااختیار بنانا ہے، لیکن یہاں نظر نہیں آ رہا۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم نے جو بھی غلطیاں کی اس کے لیے 20 دن کا ٹائم دیا گیا۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ساڑھے 3 سال پہلے کی بات ہے الیکشن کمیشن نے کہا کہ آپ الیکشن کروائیں، آپ کی طرف سے جواب دیا گیا کہ کورونا ہے، ایک سال کا ٹائم دیا گیا، الیکشن کمیشن نے تو بہادری دکھائی کہ (پی ٹی آئی کو) حکومت میں نوٹس دیا۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ صرف ہمیں نہیں الیکشن کمیشن نے سب کو نوٹس بھیجا تھا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جو شیڈیول پی ٹی آئی نے دیا ہے وہ عملی طور پر ممکن نہیں لگ رہا، اگر تو قانون کے بجائے مرضی سے فیصلے کرنے ہیں تو میں تسلیم نہیں کر سکتا، سب سیاسی جماعتوں کیساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے، الیکشن کمیشن نے بتایا کہ کسی اور پارٹی کے انتخابات پر اعتراض نہیں آیا۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارٹی الیکشن شیڈیول پر اعتراض کا جواب دوں گا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جج صاحب نے اعتراض نہیں کیا سوال کیا ہے۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارٹی انتخابات کا شیڈیول پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے، اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی ارکان کو ہی لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ملی۔ پی ٹی آئی کو زیادہ وقت چاہیے تو پہلے کہا تھا فیصلہ معطل کرنا پڑے گا، چیف جسٹس
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ قانون کے مطابق انٹرپارٹی انتخابات کا سرٹیفکیٹ دینا لازمی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بنیادی بات سرٹیفکیٹ نہیں الیکشن ہونا ہیں، سرٹیفکیٹ نہ ہونا مسئلہ نہیں الیکشن نہ ہونا مسئلہ ہے، پی ٹی آئی پارٹی انتخابات سے گھبرا کیوں رہی ہے؟ ہمیں کوئی دستاویزات دکھا دیں کہ انتخابات ہوئے ہیں، سرٹیفکیٹ تو الیکشن کے بغیر بھی آ سکتا ہے۔ انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ اگر پی ٹی آئی کو زیادہ وقت چاہیے تو پہلے کہا تھا کہ فیصلہ معطل کرنا پڑے گا، عدالت کو جو تشویش ہے پہلے اسے دور کریں، پھر گلہ نہ کیجئے گا کہ فیصلہ کیوں معطل کیا۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عمران خان نے کس کو چیئرمین نامزد کیا وہ اگلے ہی دن اعلان کر دیا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عمران خان کی نامزدگی کا لیٹر کہاں ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عمران خان کی نامزدگی کا کوئی خط نہیں ہے، میڈیا پر اعلان کیا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسے کیسے تسلیم کر لیں کہ عمران خان نے کس کو نامزد کیا تھا، آپ پرانے اور حامد خان بانی رکن ہیں انہیں کیوں نہیں نامزد کیا گیا؟ کل عمران خان کہہ دیں میں نے نامزد نہیں کیا تھا پھر کیا ہوگا؟ بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ 29 نومبر کو فیڈرل الیکشن کمیشن کو نامزد کیا گیا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے تحریک انصاف دستاویزات کے معاملے میں کافی کمزور ہے، ہم جو دستاویزات مانگتے ہیں آپ کے پاس ہوتا ہی نہیں ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ پارٹی انتخابات میں اور کوئی پینل آیا؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ ایک ہی پینل تھا وہ جیت گیا، پینل میں 15 لوگ تھے جو منتخب ہوئے۔چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے استفسار کیا کہ نیاز اللہ نیازی کیا پی ٹی آئی کے ممبر ہیں؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ جی نیاز اللہ نیازی پی ٹی آئی کے 2009 سے ممبر ہیں، نیاز اللہ نیازی کو چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دیکھیں ناں سب نئے نئے چہرے آ رہے ہیں، پرانے لوگ کہاں ہیں؟ عمر ایوب کے پینل نے کاغذات یکم دسمبر کو جمع ہوا۔ چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ نئے لوگوں کی شمولیت شکوک پیدا کرتی ہے، بااثر افراد جماعت پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ اس پر نیاز اللہ نیازی نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ میری تزلیل کر رہے ہیں، یہ باتیں نہ کریں نئے چہرے کیسے آئے، آپ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، میرا بیٹا آپ کے پاس لا کلرک کا انٹرویو دینے آیا، آپ نے اُس سے بھی پی ٹی آئی سے متعلق سوالات پوچھے۔
نیاز اللہ نیازی نے مزید کہا کہ میں 3 سال تک آپ کے سامنے پیش ہوتا رہا، مجھے علم ہے میرے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔
اِس پر چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا ہم انہیں نوٹس جاری کریں؟ اگر ایسے کرنا ہے تو ہم اٹھ کر چلے جاتے ہیں، ہم تو سوال سمجھنے کے لیے پوچھتے ہیں، اگر ایسا رویہ رکھنا ہے تو ہم کیس ہی نہیں سنتے، مجھے معلوم ہی نہیں کہ اِن کا کوئی بیٹا بھی ہے، اگر آپ الزام لگا کر اداروں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو کریں۔ بیرسٹر علی ظفر نے نیاز اللہ نیازی کے رویے پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ سے اظہارِ معذرت کیا، دریں اثنا عدالت نے کیس کی سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا۔ وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کو دلائل کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ کوشش کروں گا ایک گھنٹے میں دلائل مکمل کر لوں۔ بیرسٹر علی ظفر نے دلائل کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کاغذات نامزدگی جمع ہونا پہلا اور انتخابات کا مقام دوسرا مرحلہ تھا، پی ٹی آئی چاہتی تھی کہ پولنگ اسلام آباد میں ہو، شادی ہال سمیت کوئی بھی اپنی جگہ دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جس گراؤنڈ میں الیکشن ہوا وہ ہمارے دفتر کےساتھ ہے، الیکشن کمیشن نے آئی جی پولیس کو پشاور میں سیکیورٹی فراہمی کے لیے خط لکھا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے پولنگ کا مقام اور دیگر تفصیلات مانگی تھیں کیا وہ بتائی گئیں؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے اس خط کا جواب نہیں دیا لیکن پولیس کو آگاہ کر دیا تھا، میڈیا کے ذریعے پولنگ کے مقام سے بھی آگاہی فراہمی کر دی تھی، جو پینل سامنے آئے ان کی تفصیلات بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں، اکبر ایس بابر جب آئے تو وقت ختم ہوچکا تھا، اکبر ایس بابر نے آج تک اپنا پینل ہی نہیں دیا کہ وہ کہاں سے الیکشن لڑنا چاہتے تھے، اکبر ایس بابر الیکشن لڑنا چاہتے تو ہمیں اعتراض نہ ہوتا۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ پارٹی آئین میں کہاں لکھا ہے الیکشن اکیلا شخص نہیں لڑ سکتا؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ پارٹی آئین میں پینل انتخابات کا ذکر ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارٹی آئین کے مطابق چیئرمین کا انتخاب ہو ہی ووٹ کے ذریعے ہو سکتا ہے، بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ کوئی مدمقابل نہ ہو تو انتخاب بلامقابلہ تصور ہوگا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارٹی آئین میں کہیں بلامقابلہ انتخاب کا نہیں لکھا، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ووٹنگ ہوتی ہی تب ہے جب ایک سے زیادہ امیدوار ہوں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر چیئرمین کے واحد امیدوار کو ہی لوگ پسند نہ کرتے ہوں تو کیا ہوگا، اس طرح تو آپ آمریت کی جانب جا رہے ہیں، اگر ایک ووٹ بھی نہ ڈلے تو سینٹر بھی منتخب نہیں ہوسکتا؟ علی ظفر نے جواب دیا کہ میں بلامقابلہ سینیٹر منتخب ہوا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چیئرمین، سیکریٹری جنرل سمیت سب لوگ ایسے ہی آگئے یہ تو سلیکشن ہوگئی، پی ٹی آئی نے الیکشن کیوں نہیں کرایا؟ آخر مسئلہ کیا تھا؟ اس دوران بیرسٹر علی ظفر نے مسلم لیگ (ن) کے بلامقابلہ انتخابات کا نوٹیفکیشن پیش کر دیا، انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) میں بھی سب بلامقابلہ انتخابات ہوئے تھے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بلامقابلہ انتخابات پارٹیوں میں ہوتے رہتے ہیں، اس پر تبصرہ نہیں کریں گے۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اے این پی کے ضلعی صدور بھی بلامقابلہ منتخب ہوئے تھے، اے این پی کو آج جرمانہ کرکے پارٹی انتخابات جنرل الیکشن کے بعد کرانے کا کہا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معاملہ فنڈنگ کا بھی 2014 سے پڑا ہے جو آپ چلنے نہیں دیتے، ملک چلانے والے کون ہوتے ہیں عوام کو پتا ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کل بیرسٹر گوہر وزیراعظم بن گئے تو کیا انہیں پارٹی کے لوگ جانتے ہوں گے؟ بغیر انتخاب بڑے لوگ آ جائیں تو بڑے فیصلے بھی کریں گے، ہوسکتا ہے آئی ایم ایف سے معاہدہ بھی کرنا پڑے، لوگ اپنے منتخب افراد کو جانتے تو ہوں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی انتخابات میں کسی نے ووٹ نہیں ڈالا، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ مدمقابل کوئی نہیں تھا اس لیے ووٹنگ نہیں ہوئی تھی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کورونا کے دوران بھی انتخابات ہوسکتے تھے، اگر کوئی پینل نہ سامنے آتا تو ایسے ہی بلامقابلہ الیکشن ہوجاتے، جواب میں بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ماضی کو واپس کیا جا سکتا تو ضرور کر دیتے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے 2021 میں انتخابی نشان واپس لینے کا خط لکھا تھا، پرانے لوگوں کو ساتھ رکھیں تو انہیں تجربہ ہوتا ہے، اکبر ایس بابر کی دستاویزات کے مطابق پی ٹی آئی کے 12 بانی ارکان تھے، پی ٹی آئی نے شاید بعد میں آئین بدل لیا۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں درخواست پارٹی کی جانب سے نہیں دی گئی، جسٹس محمد علی مظہر نے بتایا کہ درخواست گزار پی ٹی آئی کا ضلعی صدر ہے۔ ریکارڈ کے مطابق ہائی کورٹ نے لکھا کہ معاملہ پشاور ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے، دوبارہ انتخابات کا الیکشن کمیشن کا حکم چیلنج کیا لیکن اس پر عمل بھی کر دیا، لاہور ہائی کورٹ میں فل بنچ بنا ہوا تھا اس لیے وہاں سے رجوع کیا تھا۔ دوسرا الیکشن پشاور میں ہوا وہ بھی الیکشن کمیشن نے نہیں مانا، چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ لاہور میں معاملہ چل رہا تھا تو پشاور کیوں گئے؟ لاہور ہائی کورٹ میں ابھی تک درخواست زیرالتوا ہے۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ کل آپ کو غلط معلومات دی گئیں کہ میں نے التوا مانگا تھا، میں پہنچا تو بنچ پہلے ہی تحلیل ہوچکا تھا، بنچ لگتا تو درخواست غیرمؤثر ہونے پر واپس لے لیتا۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ اگر دو ہائی کورٹس بیک وقت کیس سننے کے لیے بااختیار ہوں تو کسی سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے، ایک ہائی کورٹ میں مقدمہ زیر التوا ہو تو دوسری کو فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہونے دیں گے کہ ایک جگہ سے سٹے نہ ملے تو دوسری ہائیکورٹ چلے جاؤ، اگر خیبر پختونخوا کا صوبائی الیکشن ٹھیک نہ ہوتا تو پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرنا بنتا تھا، علی ظفر نے کہا بیرسٹر گوہر الیکشن کمیشن کے حکم سے متاثرہ فریق ہیں، بیرسٹر گوہر کو پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟وکیل علی ظفر نے کہا کہ نام نہاد شکایت کنندگان بھی لاہور ہائیکورٹ میں فریق نہیں تھے، چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا لاہور ہاہیکورٹ کے پاس دائرہ اختیار نہیں تھا؟ علی ظفر نے جواب دیا کہ کوئی زبردستی نہیں کر سکتا کہ کس عدالت سے رجوع کرنا ہے کس سے نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر لاہور ہائی کورٹ پی ٹی آئی کا سابقہ الیکشن درست قرار دیدے تو کیا ہوگا؟ وکیل علی ظفر نے بتایا کہ عمران خان دوبارہ چیئرمین بن جائیں تو ہم سے زیادہ خوش کوئی نہیں ہوگا، الیکشن کمیشن نے عمران خان کو ہٹانے کا نوٹس جاری کیا تھا اس وجہ سے چئیرمین تبدیل کیا۔ چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا الیکشن کمیشن چیئرمین کو ہٹا سکتا ہے؟ وکیل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کا نوٹس چیلنج کر رکھا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ عمران خان ازخود بحال ہوجائیں گے یا چیئرمین کا دوبارہ الیکشن ہوگا؟ علی طفر نے بتایا کہ بیرسٹر گوہر کے مستعفی ہونے پر چیئرمین کا الیکشن دوبارہ ہوگا، الیکشن کمیشن نے 175 سیاسی جماعتوں میں سے کسی اور کے پارٹی انتخابات کالعدم نہیں کیے۔ علی ظفر نے کہا کہ ہمایوں اختر کیس میں الیکشن کمیشن نے قرار دیا پارٹی انتخابات کیس میں مداخلت نہیں کر سکتے، جسٹس محمد علی مظہر نے بتایا کہ آپ جس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں وہ 2009 کا ہے، کیا اس وقت اور ان کے قانون میں فرق نہیں ہے؟ وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے جواب دیا کہ قانون میں کوئی فرق نہیں آیا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں وہ سیاسی جماعتوں کے 2002 کے آرڈیننس کے تحت ہے۔ علی ظفر نے بتایا کہ نئے قانون میں بھی دفعات وہی ہیں، ق لیگ میں بھی پارٹی انتخابات درست نہ ہونے کا سوال تھا،علی ظفر کا کہنا تھا کہ ایک بندے کو کاغذات نامزدگی نہ ملنے پر پارٹی کو الیکشن سے باہر نہیں کیا جا سکتا، الیکشن کمیشن نے ٹرائل کرنا ہے تو ہمیں شواہد پیش کرنے کا موقع بھی دیتا، کسی اور جماعت کے ساتھ یہ رویہ نہیں جو پی ٹی آئی کے ساتھ ہے، اگر الیکشن نہ کراتے تو الیکشن کمیشن کا پوچھنا بنتا تھا، الیکشن کمیشن کو ٹربیونل بننے کا اختیار کہاں سے مل گیا؟ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ انٹرا پارٹی انتخابات میں مسئلہ ہو تو کہاں رجوع کیا جا سکتا ہے؟ علی ظفر نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کا اپنا فیصلہ ہے کہ سول کورٹ سے رجوع کیا جائے، الیکشن کمیشن نے پارٹی انتخابات نہیں الیکشن کمشنر کی تعیناتی کو غلط قرار دیا ہے، الیکشن کمیشن نے عہدیداران کے بلامقابلہ انتخاب پر اعتراض نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پشاور ہائی کورٹ میں تحریک انصاف نے انتخابات درست قرار دینے کی استدعا نہیں کی تھی، الیکشن درست ہو تو نشان کا مسئلہ خود حل ہو جائے گا، وکیل تحریک انصاف نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا حکم کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی، الیکشن کمیشن کا حکم ہی کالعدم ہوگیا تو سب کچھ ختم۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے پاس انتخابی نشان واپس لینے کے علاوہ کوئی ہتھیار نہیں ہے، آپ سوچ کر جواب دینا چاہیں تو دوبارہ سن لیں گے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر ہائی کورٹ الیکشن کمیشن کو تحلیل کردے تو کیا ادارہ اپیل نہیں کر سکے گا؟ کمیشن کے کسی رکن کو ہٹایا جائے تو کیا کمیشن اپیل نہیں کر سکتا؟ معاملہ اگر کسی رکن کی تعیناتی غیرقانونی ہونے کا ہو تو الگ بات ہے۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ معلومات تک رسائی کے متعلق فیصلے میں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ عدالت درخواست گزار نہیں ہوسکتی۔جسٹس قاضی فائز عیسی کا مزید کہنا تھا کہ ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ ہائی کورٹ میں درخواست دائر نہیں کر سکتی، الیکشن کمیشن کے خلاف کیسز ہوسکتے ہیں تو وہ اپنا دفاع کیوں نہیں کر سکتے؟ اگر ہائی کورٹ خود اپیل کرے تو بات مختلف ہوگی۔چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس بے پناہ اختیارات ہیں۔ حامد خان نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کے بااختیار ہونے میں کوئی دو رائے نہیں، اختیارات مختلف حالات کے مطابق دیے گئے ہیں، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کےساتھ دوہرا معیار اپنایا، الیکشن کمیشن نے کسی دوسری جماعت کے انتخابات کی اس طرح اسکروٹنی نہیں کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جن کی اسکروٹنی نہیں ہوئی انہیں فریق بناتے اور الگ الگ کیس کرتے، ایک سیاسی جماعت کا وجود ہی الیکشن کمیشن نے ختم کر دیا ہے؟اد رہے کہ گزشتہ روز 12 جنوری کو ہونے والی سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ بنیادی چیز جمہوریت ہے، ملک اور سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت ہونی چاہیے اور اگر انٹراپارٹی انتخابات درست نہ ہوئے تو پی ٹی آئی کو نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔یاد رہے کہ 22 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دے کر انتخابی نشان واپس لے لیا تھا۔

26 دسمبر کو پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی سے ’بلے‘ کا نشان واپس لینے کا فیصلہ معطل کردیا تھا۔

بعدازاں 30 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انتخابی نشان سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کر دی تھی۔

3 جنوری کو ’بلے‘ کے انتخابی نشان کی بحالی کے خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر پشاور ہائی کورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اپنا حکم امتناع واپس لے لیا تھا، جس کے بعد پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان ’بلے‘ سے اور بیرسٹر گوہر خان پارٹی چیئرمین شپ سے محروم ہوگئے تھے۔

تاہم 10 جنوری کو پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو ’بلے‘ کے نشان پر الیکشن لڑنے کی اجازت دے دے دی تھی، جس کے بعد الیکشن کمیشن نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا تھا۔