اسلام آباد(ٹی این ایس) فروری دنیا بھر میں کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی

 
0
93

5 ………….پانچ فروری مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام سے اظہار یکجہتی کا دن ہے۔ بھارت کے غیر قانونی تسلط کے خلاف برسر جدوجہد کشمیری عوام سے بھرپور یکجہتی کے لئے 5 فروری کو پوری قوم ایک بار پھرکراچی سے خیبر تک یوم یکجہتی کشمیر منا رہی ہے۔ پاکستان کے عوام ہر سال یوم یکجہتی کشمیر روایتی جوش و جذبے سے مناتے ہیں اس موقع پر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لئے ملک بھر میں خصوصی تقریبات کا انعقاد اور ریلیاں نکالی جائیں گی دنیا بھر میں پاکستانی ہر سال اپنے کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے طور پر مناتے ہیں اور کئی دہائیوں سے ظلم و نا انصافی کا شکار اپنے عزم اور موقف پر ڈٹے رہنے والے کشمیری مقبوضہ کشمیر سے وابستگی کا اعادہ کرتے ہیں ۔
کشمیری شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے 5 فروری کو صبح 09:30 پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جائے گی وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان نے 05 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کے حوالے سے تیاریاں مکمل کر لی ہیں,
شاہراہ دستور اسلام آباد پر کشمیری عوام سے یکجہتی کے لیے ریلی نکالی جائے گی,ریلی میں اہم وفاقی وزرا اور عوام کی کثیر تعداد شرکت کریں گے , اندرون و بیرون ملک پاکستانی اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں سے بھرپور یکجہتی کا اظہار کریں گے,صدر اور وزیر اعظم پاکستان کے یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے خصوصی پیغامات نشر کیے جائیں گے , بیرون ملک قائم پاکستانی مشنز خصوصی ریلیز،سیمینارز،تصویری نمائشوں کا انعقاد کررہے ہیں, وزارت خارجہ نے اس دن کے حوالے سے اسلام آبادمیں غیر ملکی سفیروں کی بریفننگ کا بھی انعقاد کیا ہے اسلام آباد پی این سی اے اور لوک ورثہ میں تقاریب میں کشمیری ثقافت کو اجاگر کیا گیا ,اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے اور خود پر ہونے والے مظالم ناانصافیوں اور بھارتی جبر و استبداد کا مقابلہ بے سروسامانی کے عالم میں تو کشمیری کئی دہائیوں سے کرتے آرہے تھے لیکن مودی حکومت نے اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے ظلم و ستم کے ہتھکنڈوں سے انہیں جھکانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور ایک انتہائی مکارانہ اقدام یہ کیا کہ بھارتی آئین میں موجود آرٹیکل370 ختم کر دیا ، جس کے ختم ہونے سے بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کی جو خصوصی اہمیت اور حیثیت تھی وہ ختم ہوگئی۔اس آرٹیکل کے تحت اب غیر کشمیر ا فراد وہاں جائیدادیں بھی خرید سکیں گے اور سرکاری نوکریاں بھی حاصل کر سکیں گے اور بااثر اور معتمول ہندو تو کشمیری خواتین سے شادی کرنے کے عزائم کا اظہار بھی کرتے ہیں، جس کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ بھارتی آئین میں آرٹیکل35A اور آرٹیکل 370 کیا ہے اس کا اگر سرسری جائزہ لیا جائے تو اس معاملے کے دو حصے ہیں۔ پہلے مرحلے1947 میں مہاراجہ ہری سنگھ جو و ادی کا حکمران تھا اس نے ابتدا میں یہ فیصلہ کیا کہ وہ ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے رہے گا جبکہ وادی مسلمانوں کی واضح اکثرت کی حامل ریاست تھی اس لئے فطری طور پر اسے پاکستان کا حصہ بننا تھا۔1947 میں بھارت نے اپنی فوجیں سرینگر میں اتار دیں اور طاقت کے ذریعے مہاراجہ ہری سنگھ کو بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کرنے پر مجبور کردیا۔ اس دستاویز میں بھی مہاراجہ نے صرف جنگلوں میں اپنی خود مختاربھارت کو منتقل کرنے کی حامی بھری، دفاع خارجہ امور اور مواصلات اس کے علاوہ تمام امور پر جموں وکشمیر کے عوام اور انکی اسمبلی کا حق تھا او وہ ان کے انتظام انصرام اپنی مرضی سے چلانے کیلئے بااختیار تھے تاہم بعد ازاں جب 1949 میں بھارت کا آئین بن رہا تھا اور ریاست نے اپنی آئینی تجاویز مکمل نہیں کی گئی تھیں تو اس آئین میں بھارت نے کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370 بھی شامل کردیا جو سارے بھارت میں کسی اور ریاست کو حاصل نہیں تھا۔ اس کی بنیاد وہی دستاویز الحاق ہے جس پر مہاراجہ سے جبراً دستخط کرائے تھے لیکن بعد ازاں کشمیری لیڈروں کو یہ احساس ہوا کہ بھارت کے کچھ حلقے ریاست کی آبادی کی صورت کو بدلنا چاہتے ہیں خصوصاً اس حوالے سے کہ وہاں دیگر علاقوں سے لا کر نئی قوموں کو بسایا جائے۔


یہ ایک بڑی تشویش کی بات تھی اور کشمیری عوام اس بات کو قبول کرنے کیلئے کسی صورت بھی آمادہ نہیں ہوسکتے تھے کہ وادی میں ان کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا جائے ،اس بات کا اندازہ یا خوف کشمیریوں کو آزادی کے بعد پیدا نہیں ہوا تھا بلکہ آزادی سے قبل ہی ایک سے زیادہ مواقعوں پر یہ اندیشہ پیدا ہوا۔ اس وقت بھی جب مقامی آزادی کے خدشات دور کرنے کیلئے مہاراجہ نے وہ احکامات جاری کئے جسکی رو سے کشمیریوں کو یہ حقوق حاصل ہوگئے کہ ان کے علاوہ کوئی غیر کشمیری ریاست میں جائیداد خریدنے کا حق نہیں ر کھتا اور انہیں سرکاری نوکریاں اورسرکاری وسائل سے پیدا شدہ سہولتوں تک ترجیحانہ رسائی ہوتی تاہم ضرورت اس بات کی تھی ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے لیکن دوسری جانب بھارتی بے چینی اور اضطراب کے عالم میں کشمیری آئین ساز اسمبلی سے الحاق کے دستاویز کی منظوری کا انتظار کررہی تھی۔ اس پس منظر میں وزیراعظم نہرو نے کشمیری قیادت کے ساتھ 1952 میں طویل مذاکرات کئے جس کے نتیجے میں ایک معاہدہ طے پا گیا جب کے تحت مذکورہ آئینی تحفظات فراہم کر دیئے جائیں گے اورکشمیر آئین ساز اسمبلی دستاویز الحق کی توثیق کر دے گی۔چنانچہ اس تناظر میں 1954 میں بھارتی آئین کا نیا آرٹیکل 35A ایک صدارتی حکم کے ذریعے شائع کر دیا گیا کہ اس آرٹیکل کی رو سے ریاستی اسمبلی کو یہ اختیارات حاصل ہونگے ۔ (اول) ریاستی اسمبلی اس بات کا تعین کریگی کہ مقامی شہری(کشمیری) کون ہے۔(دو) ایسے مقامی اور مستقل شہریوں کو خصوصی توجہ دینی ہوگی ۔ جس میں سرکاری نوکریوں میں ترجیح دینا جبکہ دیگر لوگوں کو رہائش کی مشروط اجازت دینا۔ مقامی شہریوں کو دیگر سرکاری سہولیات کی ترجیح کی فراہمی اور جائیداد کا حق مقامی شہریوں تک محدود کرنا۔ لیکن جموں و کشمیر میں مودی حکومت نے آرٹیکل 370 ختم کرنے کے وار سے صورتحال میں کیا تبدیلی آئی ہے اس سے مودی حکومت کے عزائم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، جموں وکشمیر کے پاس دوہری شہریت ہوتی ہے۔ جموں وکشمیر کی کوئی خاتون اگر ہندوستان کی کسی ریاست کے شخص سے شادی کرے تو اس خاتون کو جموں وکشمیر کی شہریت ختم ہو جائے گی۔ اگر کوئی کشمیری خاتون پاکستان کے کسی شخص سے شادی کرے تو اس کے شوہر کو بھی جموں وکشمیر کی شہریت مل جاتی ہے۔ جموں وکشمیر ہندوستان کے ترانے یا قومی علامتوں کی بے حرمتی جرم نہیں ہیں۔ یہاں ہندوستان کی سپریم کورٹ کا حکم بھی قابل قبول نہیں۔ جموں و کشمیر کا جھنڈا الگ ہوتا ہے۔بھارت کا کوئی بھی عام شہری ریاست جموں وکشمیر کے اندر جائیداد نہیں خرید سکتا اور یہ قانون صرف بھارت کے عام شہریوں تک ہی محدود نہیں بلکہ بھارتی کارپوریشنز دیگر سرکاری اداروں پر بھی لاگو ہوتا ہے کہ وہ ریاست کے اندر بلا قانونی جائیدادیں حاصل نہیں کر سکتیں۔ جموں وکشمیر میں خواتین پر شریعت قانون نافذ ہوتا ہے۔ یہاں پنچائیت کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔ جموں وکشمیر کی اسمبلی کی مدت کار6 سال ہوتی ہے جبکہ ہندوستان کی دیگر ریاستوں کی اسمبلی کی مدت کار پانچ سال ہوتی ہے۔ ہندوستان کی پارلیمنٹ جموں وکشمیر کے سلسلے میں بہت ہی محدود دائرے میں قانون بناسکتی ہے لیکن اس کے نفاذ میں آرٹیکل 370 ایک شیلٹر کی حیثیت رکھتا تھا، جسے ختم کرنے سے اب تمام صورتحال تبدیل ہوگئی اور مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے کشمیری ان تمام مراعات اور استحقاق سے محروم کر دیئے گئے ہیں۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل360 کے تحت بھارت کی وفاقی حکومت کسی ریاست یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کرسکتی ہے۔ تاہم آرٹیکل 370 کے تحت بھارتی حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔ بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 ختم کئے جانے کے خلاف پوری وادی میں احتجاج کو کم وبیش طویل عرصہ ہونے کو آیا ہے ،لیکن حالات نہ صرف بدترین ہو چکے ہیں بلکہ ان میں بہتری تو کجا معمول پر آنے کے بھی کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔5 اگست 2019 سے نافذ کئے جانیوالا کرفیو ابھی تک جاری ہے پوری وادی محاصرے میں ہے، مواصلاتی نظام منجمد کر دیا گیا ہے،5 اگست کو کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت نے پوری ریاست پر سخت مواصلاتی پابندیاں نافذ کر دی تھیں جن کی زد میں سوشل میڈیا بھی بری طرح آیا لیکن خبر کے ذریعے خاموش کی جانے والی آوازیں آج بھی چیخوں کی طرح شور مچارہی ہیں، احتجاج کررہی ہیں، التجا کررہی ہیں اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھارہی ہیں جنہیں سننے کے لئے سماعتوں کی نہیں بلکہ دل اور بیدار ضمیر کی ضرورت ہے بھارت نے غیر ملکی صحافیوں، تجزیہ نگاروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں پر مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے کی غیر اعلانیہ پابندی عائد کر رکھی ہے البتہ اپنے ہم خیال طبقات کو وہاں لے جانے کیلئے خصوصی اقدامات کئے جاتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل نئی دہلی میں متعین غیر ملکی سفیروں کو وادی کا دورہ کرانے کی دعوت دی گئی تو ان شخصیات کو فہرست میں شامل نہیں کیاگیا جنہوں نے و ادی میں آزادانہ گھوم پھر کرعوام کے جذبات جاننے اور حالات کا اپنی مرضی کے مقامات پر جا کر جائزہ لینے کی خواہش ظاہر کی تھی کشمیری رہنمائوں آل پارٹی حریت کانفرنس اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے ارکان سے رابطہ کرنے پر زور دیا تھا لیکن انہیں بتایا کہ ایسا ممکن نہیں ہے چنانچہ سفیروں اور دیگر سفارتکاروں کی بڑی تعداد نے وادی کا دورہ کرنے سے انکار کردیاتھا ۔پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر منانے کا آغاز کب اور کیوں ہوا؟ یہ قصہ کافی دلچسپ ہے۔ عمومی طور پر قومی سطح پر منائے جانے والے دنوں کی کوئی تاریخی نسبت ہوتی ہے لیکن غالباً پانچ فروری ایک ایسا دن ہے جو قومی سطح پر منایا تو ضرور جاتا ہے لیکن اس دن کی کوئی خاص نسبت یا تاریخی حیثیت نہیں,یوم یکجہتی کشمیر منانے کا سلسلہ گذشتہ 33 سال سے بلا تعطل جاری ہے جس میں پاکستان اور دنیا کے کئی ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں احتجاجی جلسے منعقد کرتی ہیں اور سرکاری سطح پر تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے۔ اس دن کو منانے کی شروعات کب اور کیسے ہوئی، کس شخصیت نے سب سے پہلے یہ تجویز پیش کی اور وہ کیا حالات تھے جو پانچ فروری 1990 کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کا باعث بنے۔.اس دن کو منانے کا آغاز تقسیم کشمیر سے قبل ہی 1932 میں متحدہ پنجاب سے ہو گیا تھا تاہم یہ سلسلہ ٹوٹتا اور جڑتا رہا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کیا جاتا رہا تاہم اس کے لیے کوئی خاص دن مقرر نہیں تھا اور یہ سلسلہ بھی مسلسل نہیں رہا۔ شیخ عبداللہ اور اندرا گاندھی کے درمیان ہونے والے معاہدے کے وقت 1975 میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 28 فروری کوکشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن منانے کا اعلان کیا۔ اس دور کی میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ یہ احتجاج اس قدر سخت تھا کہ پورا پاکستان بند ہو گیا اور لوگوں نے اپنے مویشیوں کو پانی تک نہیں پلایا۔ یہ دن منانے کی تجویز وزیر اعظم بھٹو کو دینے والوں میں جماعت اسلامی کی سربراہ قاضی حسین احمد کے علاوہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے اس وقت کے صدر سردار محمد ابراہیم خان پیش پیش تھے۔تاہم کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے ایک دن مخصوص کرنے کا مطالبہ 1990 میں قاضی حسین نے میاں نواز شریف کی مشاورت سے کیا اور اس کی فوری تائید وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی کی۔ یہ وہ وقت تھا جب بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلح تحریک اپنے ابتدائی مراحل میں تھی اور تنازع کشمیر کے سیاسی طور پر حل ہونے کے امکانات سے مایوس کشمیری نوجوان عسکری تحریک میں شامل ہو رہے تھے۔ ہلاکتوں اور ہجرتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اسی دوران 29 تا 31 دسمبر 1988 جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم سارک کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا اور ہندوستان کے وزیر اعظم راجیو گاندھی اس اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان آئے۔ اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور محترمہ بے نظیر بھٹو ملک کی وزیر اعظم تھی۔ انہیں مشورہ دیا گیا کہ سارک اجلاس میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بات نہ کی جائے اور یہ مشورہ مان بھی لیا گیا۔ نتیجتاً نہ صرف سارک اجلاس کے ایجنڈے سے کشمیر غائب ہو گیا بلکہ اسلام آباد میں پارلیمنٹ کی عمارت کے ساتھ ہی واقع پاکستان کے زیر انتظام کشمیرکے ملکیتی ’آزاد جموں وکشمیر ہاوس‘کا سائن بورڈ بھی اتار لیا گیا۔ جب تک اجلاس کے شرکا اور ان کے ساتھ آنے والے وفود اسلام آباد میں موجود رہے، یہ سائن بورڈ بھی غائب رہا۔سارک اجلاس کے دوران مشترکہ پریس بریفنگ میں بھی تنازع کشمیر کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کی جانب سے کوئی بات نہ ہوئی البتہ ایک صحافی کے سوال پر راجیو گاندھی بولے کے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کوئی بے چینی نہیں، وہاں کے لوگ پانچ چھ بار انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں اوروہ نظام سے مطمئن ہیں، وہاں کوئی آزادی کی تحریک نہیں ہے۔ راجیو گاندھی نے تو ان انتخابات کو کشمیر میں استصواب رائے یا ریفرنڈم کا متبادل قراردیا۔حیران کن طور پر محترمہ بے نظیر بھٹو نے صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ’اس معاملے میں ہمارا اپنا موقف ہے۔میاں نواز شریف اس وقت اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ جماعت اسلامی اس اتحاد کا حصہ تھی اور اس کے سربراہ قاضی حسین احمد اور میاں نواز شریف کے درمیان گاڑھی چھنتی تھی۔ اسلامی جمہوری اتحاد قومی اسمبلی میں اپوزیشن میں تھا اور پنجاب کی صوبائی حکومت بھی اسی اتحاد کے پاس تھی۔ میاں نواز شریف اور قاضی حسین احمد نے اس معاملے پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ آنے والے سالوں میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلح تحریک اپنے عروج کی طرف رواں تھی اور بھارت کی افواج اس تحریک کو کچلنے کے لیے طاقت کا کھل کر استعمال کر رہی تھیں۔ نتیجتاً بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیری نوجوانوں کی ہلاکتیں روز کا معمول بن گئیں۔ ہزاروں کی تعداد میں نوجوان عسکری تنظیموں کاحصہ بن گئے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد میں لوگ اسلحہ اور عسکری تربیت حاصل کرنے کے لیے لائن آف کنٹرول عبور کر کے پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر آنے لگے۔ ان میں ہزاروں کی تعداد میں وہ خاندان بھی شامل تھے جو لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقوں کے علاوہ کشمیر کے کئی شورش زدہ علاقوں سے ہجرت کر رہے تھے۔عسکریت پسندوں کی بھارتی فوج کے ساتھ چھڑپوں کے نتیجے میں فوج کی جانب سے آبادیوں پر ہونے والے کریک ڈاؤن میں خواتین اور بچوں سمیت ہر عمر کے لوگوں کی ہلاکت اور خواتین کے ریپ کی اطلاعات بین الاقومی میڈیا میں آنا شروع ہوئیں اور پاکستان میں سیاسی و مذہبی جماعتوں میں بے چینی پیدا ہونا شروع ہوئی۔ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف کی مشاورت سے کشمیر میں مسلح عسکری تحریک کی حمایت کا اعلان کیا اور پانچ فروری 1990 کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کا اعلان کر دیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کشمیر کے معاملے پر پہلے ہی اپوزیشن کے نشانے پر تھی لہٰذا وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے بغیر تاخیر اس اعلان کی تائید کی اور آنے والے سالوں میں پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کے باقاعدہ سلسلہ شروع ہو گیا۔ تاہم اس دن کو سرکاری طور پر منانے کے آغاز 2004 میں ہوا جب اس وقت کے وزیر اعظم ظفر اللہ خان جمالی اور وزیر امور کشمیر و گلگلت بلتستان آفتاب احمد خان شیرپاو نے یہ دن سرکاری طور پر منانے کے اعلان کیا۔ پانچ فروری 2004 کو وزیر اعظم جمالی نے مظفرآباد میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی اور جموں وکشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ تب سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ ہر سال اسی دن یہ مشترکہ اجلاس منعقد ہوتا ہے اور وزیر اعظم پاکستان یا ان کا نامزد نمائندہ اس اجلاس میں ضرور شامل ہوتا ہے۔