راولپنڈی(ٹی این ایس) الیکشن 2024; ووٹر ٹرن آؤٹ 47.6 فیصد,عام انتخابات کے نتائج جاری

 
0
88

.عام انتخابات کے بعد وفاق اور صوبوں میں حکومت کی تشکیل کے لیے مشاورت کا عمل جاری ہے اور وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے تقریب حلف برداری 3مارچ کو ہونے کا امکان ہے۔ مسلم لیگ(ن) کی جانب سے وزارت عظمیٰ کے لیے نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے کے لیے مریم نواز شریف کو نامزد کیا ہے جس کے بعد جلد ہی قومی اسمبلی اور دیگر صوبائی اسمبلیوں کا اجلاس جلد بلائے جانے کا امکان ہے۔ پاکستان مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ق) اوردیگر اتحادی جماعتوں کی جانب سے مل کر حکومت بنانے کے اعلان کے بعد آج پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں ابتدائی ٹریڈنگ کے دوران زبردست تیزی کا رجحان ہے، بینچ مارک کے ایس ای-100 انڈیکس 926 پوائنٹس بڑھ گیا۔

پی ایس ایکس ویب سائٹ کے مطابق کے ایس ای-100 انڈیکس 926 پوائنٹس یا 1.51 فیصد اضافے کے بعد 62 ہزار 153 تک پہنچ گیا، جو گزشتہ روز 61 ہزار 226 پر بند ہوا تھا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز سیاسی بے یقینی کے سبب ٹریڈنگ کے آغاز پر پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کمی کا رجحان مثبت میں تبدیل ہو گیا تھا، اور بینچ مارک کے ایس ای-100 انڈیکس 161 پوائنٹس بڑھا تھا۔گزشتہ ہفتے انتخابات کے بعد اگلے روز (9 فروری) انڈیکس میں 2300 پوائنٹس کی شدید مندی دیکھی گئی تھی، تاہم یہ بحالی کے بعد 1200پوائنٹس کی تنزلی پر بند ہوا تھا۔نئی قومی اسمبلی کا اجلاس 29 فروری کو بلائے جانے کا امکان ہے اور وزیراعظم کی تقریب حلف برداری 3مارچ کو ہونے کا امکان ہے۔ موجودہ صدر مملکت عارف علوی کی مدت صدارت 9 نومبر 2023 کو ختم ہو چکی اور اس لیے اب نئے صدر مملکت پاکستان کا انتخاب 9 مارچ تک مکمل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق آصف علی زرداری کو صدرپاکستان منتخب کیے جانے کا امکان ہے جبکہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو اسپیکر قومی اسمبلی بنائے جانے کا امکان ہے۔پاکستان مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ق) اورت دیگر اتحادی جماعتوں نے ساتھ چلنے اور مل کر حکومت بنانے کا کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو بھی مفاہمت کے عمل کا حصہ بننے کی دعوت دی ہے۔مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کے لیے شہباز شریف جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے مریم نواز کو نامزد کیا۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق صدر مسلم لیگ (ن) شہباز شریف کی زیرقیادت اتحادی حکومت بنانے کا اعلان کرنے والی 6 جماعتوں (مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، مسلم لیگ ق، استحکامِ پاکستان پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی) کی جیتی ہوئی جنرل نشستوں کی کُل تعداد 152 ہوگئی۔ رپورٹ کے مطابق اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جماعتیں خواتین کی 60 اور 10 اقلیتی نشستوں کے اضافے کے بعد مرکز میں حکومت بنانے کے لیے 169 کی کم از کم مطلوبہ تعداد آسانی سے حاصل کر لیں گی۔

تاہم یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا یہ جماعتیں مجموعی طور پر 224 نشستیں حاصل کر پائیں گی یا نہیں جوکہ 336 رکنی قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے درکار ہوتی ہیں۔ اگر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار مجلس وحدت المسلمین (ایم ڈبلیو ایم) میں شامل ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں (جیسا کہ پی ٹی آئی نے اعلان کیا ہے) تو اسے بھی خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں میں حصہ ملے گا۔

تاہم مجلس وحدت المسلمین نے چونکہ صرف خیبرپختونخوا سے محض ایک نشست جیتی ہے، اس لیے پی ٹی آئی صرف خیبرپختونخوا سے خواتین کے لیے مختص 10 مخصوص نشستوں کی حقدار ہوگی۔صدر مسلم لیگ (ن) شہباز شریف نے جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات میں اتحاد میں شامل ہونے کی دعوت دے دی. مولانا فضل الرحمٰن نے شہباز شریف کو اس ضمن میں اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کی قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 4 ہو گئی ہے، تاہم پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے اپنی قیادت کو آئندہ مخلوط حکومت میں شامل نہ ہونے کا مشورہ دیا ہے۔مولانا فضل الرحمٰن نے جے یو آئی (ف) کے ساتھ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی شکایات کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کی جماعت کی اکثریت کی رائے ہے کہ اپوزیشن میں بیٹھا جائے، تاہم فیصلہ مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں کیا جائے گا۔پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پاکستان پیپلزپارٹی سے ایک بار پھر شہباز شریف کی زیر قیادت بننے والی وفاقی کابینہ میں شامل ہونے کے لیے درخواست کردی۔ مسلم لیگ (ن) اتحادیوں کو وفاقی حکومت میں وزارتیں دینے کے حوالے سے کمیٹی تشکیل دے گی، کمیٹی اتحادی جماعتوں سے ملکر ن لیگ کی قیادت کو آگاہ کرے گی۔ مسلم لیگ (ن) جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن (یو آئی ف) سے بھی حکومت میں شامل ہونے کی درخواست کرے گی الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں 8 فروری کو عام انتخابات کے انعقاد کے بعد قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے غیرحتمی نتائج جاری کردیے قومی اسمبلی کی 266 نشستوں میں سے 264 نشستوں کے غیرحتمی نتائج جاری کیے گئے ہیں، حلقہ این اے-88 کے غیرحتمی نتائج روک دیے گئے ہیں جبکہ این اے-8 پر امیدوار کے انتقال کے باعث انتخابات ملتوی کیے جاچکے ہیں۔ 264 نشستوں میں سے آزاد امیدوار 101 نشستیں لے کر سب سے آگے ہیں، مسلم لیگ (ن) 75 اور پیپلز پارٹی نے 54 نشستیں حاصل کی ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے 17 نشستیں حاصل کیں، جمعیت علمائے اسلام (پاکستان) نے 4 جبکہ پاکستان مسلم لیگ نے 3 نشستیں جیتیں۔ استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) نے 2 اور بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) نے بھی 2 نشستیں حاصل کیں۔ مجلس وحدت المسلمین (ایم ڈبلیو ایم) پاکستان، پاکستان مسلم لیگ (ضیا)، پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے ایک، ایک نشست حاصل کی۔الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کی 297 نشستوں میں سے 296 نشستوں کے غیرحتمی نتائج جاری کیے ہیں جبکہ رحیم یارخان کے حلقہ پی پی-266 پر انتخابات ملتوی کیے گئے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کی 296 نشستوں میں سے 138 نشستوں پر آزاد امیدواروں نے کامیابی حاصل کرلی جبکہ مسلم لیگ (ن) صوبائی اسمبلی میں اکثریت جماعت بن گئی جس کے 137 امیدوار کامیاب ہوگئے۔ غیرحتمی نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی نے پنجاب اسمبلی کی 10، مسلم لیگ (ق) نے 8 جبکہ تحریک لبیک، مسلم لیگ (ضیا) اور استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) نے ایک، ایک نشست پر کامیابی حاصل کی۔ پنجاب اسمبلی کے ایک حلقے پی پی 266 پر انتخابی عمل ملتوی کردیا گیا ہے۔الیکشن کمیشن نے سندھ اسمبلی کی 130 نشستوں میں سے 129 نشستوں کے غیرحتمی نتائج جاری کردیے ہیں جبکہ حلقہ پی ایس 18 گھوٹکی کا نتیجہ روک لیا گیا ہے جس پر 15 فروری کو دوبارہ انتخابات ہوں گے۔ غیر حتمی نتائج کے مطابق سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی (پی پی پی) 84 نشستوں کے ساتھ صوبے کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان 28 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے، آزاد امیدواروں نے 13 نشستیں حاصل کیں، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) اور جماعت اسلامی 2، 2 نشستوں پر کامیاب قرار پائیں۔ الیکشن کمیشن نے خیبرپختونخوا اسمبلی کی 115 نشستوں میں سے 112 نشستوں کے غیرحتمی نتائج جاری کردیے ہیں۔ پی کے-22 اور پی کے-91 پر انتخابات ملتوی کردیے گئے ہیں جبکہ پی کے-90 کے غیرحتمی نتائج روک لیے گئے ہیں۔ غیر حتمی نتائج کے مطابق خیبرپختونخوا میں آزاد امیدواروں نے 90 نشستیں جیت لی ہیں، جمعیت علمائے اسلام (پاکستان) کے امیدوار 7 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔ مسلم لیگ (ن) 5 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے، پیپلزپارٹی 4 نشستوں پر کامیاب ہوئی۔ جماعت اسلامی 3، تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز 2 اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) ایک نشست پر کامیابی حاصل کرسکی۔ الیکشن کمیشن نے بلوچستان اسمبلی کی تمام 51 نشستوں کے غیرحتمی نتائج جاری کردیے ہیں۔ بلوچستان اسمبلی میں پیپلزپارٹی نے 11، جمعیت علمائے اسلام (پاکستان) نے 11 جبکہ مسلم لیگ (ن) نے 10 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ آزاد امیدوار 6، بلوچستان عوامی پارٹی نے 4، نیشنل پارٹی نے 3 جبکہ عوامی نیشنل پارٹی نے 2 نشستیں حاصل کیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)، جماعت اسلامی اور حق دو تحریک کا ایک ایک امیدوار کامیاب ہوا۔الیکشن 2024 کے متعلق فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے ووٹر ٹرن آؤٹ پر جائزہ رپورٹ جاری کردی جس کے مطابق انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ 47.6 فیصد رہا ہے۔ ووٹرز سے متعلق فافن کی جانب سے جاری جائزہ رپورٹ قومی اسمبلی کے 264 حلقوں کے فارم 47 پر مبنی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ الیکشن 2018 میں ووٹر ٹرن آؤٹ 52.1 فیصد تھی، الیکشن 2024 میں 6.06 کروڑ ووٹرز نے ووٹ کا حق استعمال کیا، سال 2018 میں رجسٹرڈ ووٹرز تعداد 10.6 کروڑ تھی، الیکشن 2024 میں تعداد 12.86 کروڑ ہوگئی۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کے حلقوں میں سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ این اے 214 تھرپارکر میں 70.9 فیصد رہا جبکہ قومی اسمبلی کے حلقوں میں سب سے کم ٹرن آؤٹ این اے 42 جنوبی وزیرستان میں 16.3 فیصد تھا، اسلام آباد میں 2018 کا ووٹر ٹرن آؤٹ 58.3 فیصد تھا جو الیکشن 2024 میں 54.2 فیصد رہا۔ رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں 2018 کا ووٹر ٹرن آؤٹ 44 فیصد تھا، الیکشن 2024 میں یہ 39.5 فیصد رہا، پنجاب میں 2018 کا ووٹر ٹرن آؤٹ 56.8 فیصد تھا، الیکشن 2024 میں یہ 51.6 فیصد رہا، سندھ میں 2018 کا ووٹر ٹرن آؤٹ 47.2 فیصد تھا جو الیکشن 2024 میں 43.7 فیصد رہا، بلوچستان میں 2018 کا ووٹر ٹرن آؤٹ 45.3 فیصد تھا، یہ الیکشن 2024 میں 42.9 فیصد تھا۔ خواتین کے ووٹ ڈالے جانے کی شرح کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ الیکشن 2018 کے برعکس 2024 میں کسی حلقے سے خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 10 فیصد سے کم نہیں رہا، قومی اسمبلی کے 254 حلقوں میں خواتین ووٹرز کی تعداد 29 لاکھ اور مرد ووٹرز کی 11 لاکھ بڑھی، قومی اسمبلی کے 254 حلقوں میں مرد ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 55.6 فیصد جبکہ خواتین کا 45.6 فیصد رہا۔ اس میں مزید بتایا گیا ہے کہ ریٹرننگ افسران نے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے 20 حلقوں کے فارم 47 میں مرد اور عورت ووٹرز کی تعداد الگ الگ نہیں لکھی ہے۔ قومی اسمبلی کے کم از کم 24 حلقوں میں مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد جیت کے مارجن سے زیادہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ اس بات کا انکشاف الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری غیر حتمی انتخابی نتائج کے جائزے کے بعد ہوا ہے۔ جن حلقوں میں یہ مارجن سامنے آیا ان میں سے 22 حلقے پنجاب جب کہ ایک ایک حلقہ خیبر پختونخوا اور سندھ کا ہے۔ ان 24 میں سے 13 حلقوں میں مسلم لیگ (ن) نے کامیابی حاصل کی جب کہ پانچ حلقوں میں پاکستان پیپلز پارٹی، 4 میں پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد اور 2 حلقوں میں دیگر آزاد امیدواروں نے فتح سمیٹی۔ قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 11 (شانگلہ) میں مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر انجینئر امیر مقام نے 59ہزار 863 ووٹ لے کر پی ٹی آئی حمایت یافتہ امیدوار کو 5ہزار 552 ووٹوں کے فرق سے شکست دی، مقابلے میں مسترد شدہ ووٹس کی تعداد 5ہزار 743 تھی۔ اسی طرح این اے 50 (اٹک) سے مسلم لیگ (ن) کے ملک سہیل خان نے ایک لاکھ 19 ہزار 75 ووٹ حاصل کیے، انہوں نے چوہدری پرویز الٰہی کی بھانجی ایمان وسیم کو ہزار 886 ووٹوں کے فرق سے شکست دی، اس حلقے میں مسترد ووٹوں کی تعداد 9ہزار 938 تھی۔ این اے 59 (تلہ گنگ چکوال) میں مسلم لیگ (ن) کے سردار غلام عباس نے ایک لاکھ 41 ہزار 680 ووٹ لے کر اپنے قریبی حریف پی ٹی آئی حمایت یافتہ محمد رومان احمد کو ایک لاکھ 29 ہزار 716 ووٹ حاصل کیے، جیت کا مارجن 11 ہزار 964 رہا جب کہ مسترد ہونے والے بیلٹ پیپرز کی تعداد 24ہزار547 رہی جو کہ کسی ایک حلقے میں مسترد ووٹوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔قومی اسمبلی کے 265 حلقوں سے تقریباً 20 لاکھ بیلٹ پیپرز کو گنتی سے الگ کر دیا گیا۔ چار حلقوں میں 15 ہزار سے زیادہ بیلٹ پیپرز گنتی سے خارج کیے گئے، 21 حلقوں میں 10 سے 15 ہزار کے درمیان ووٹس کو شمار ہی نہیں کیا گیا جب کہ حلقوں کی بڑی تعداد (یعنی 137) میں 5 سے 10 ہزار کے درمیان ووٹ گنتی سے خارج کیے جانے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ مجموعی طور 67 حلقوں میں 5 ہزار سے کم لیکن ایک ہزار سے زیادہ ووٹس کو گنتی سے خارج کیا گیا جب کہ صرف چھ حلقوں میں ایک ہزار سے کم ووٹ خارج کیے گئے۔ ووٹروں کی گنتی میں سب سے زیادہ بیلٹ پیپرز کو این اے 59 تلہ گنگ چکوال (24ہزار 547 بیلٹ) سے الگ کیا گیا، اس کے بعد این اے 213 عمرکوٹ میں (17ہزار 571 بیلٹ پیپرز ) کو الگ کیا گیا۔ اعداد و شمار کے جائزے کے مطابق سب سے کم ووٹ جس حلقے میں شمار نہیں کیے گئے وہ کراچی ایسٹ کا حلقہ این اے 236 تھا جہاں صرف 51 ووٹوں کو حاصل کردہ ووٹس سے الگ کیا گیا۔بلوچستان کی 2 سیاسی جماعتوں نے 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کو ملکی تاریخ کے بدترین انتخابات قرار دیا ہے اور مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی (پی کے این اے پی) کے چیئرمین خوشحال خان کاکڑ اور جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) کے صدر نوابزادہ شاہ زین بگٹی نے گزشتہ روز علیحدہ علیحدہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ان کی جماعتیں ’دھاندلی زدہ‘ انتخابات کے خلاف پرامن احتجاج کریں گی۔ 8 فوروری 2024 کو ملک بھر میں ہونے عام انتخابات کے نتائج میں مبینہ ردوبدل کے خلاف بلوچستان میں 4 جماعتی اتحاد کا احتجاج جاری ہے جب کہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں دھرنا چھٹے دن میں داخل ہوگیا۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی پر مبنی 4 جماعتی اتحاد کی کال پر کل بھی کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں ریلیاں نکالی جائیں گی اور مظاہرے کیے جائیں گے جب کہ ہفتہ کو کوئٹہ میں احتجاجی دھرنا دیا جائے گا۔

اس کے علاوہ مبینہ دھاندلی کے خلاف کوئٹہ ڈیرہ غاذی خان، کوئٹہ ڈیرہ اسماعیل خان اور کوئٹہ چمن قومی شاہراہ بھی بند ہے، قومی شاہراہوں کی بندش سے مسافروں کو مشکلات کا سامنا ہےالیکشن کمیشن نے بلوچستان کے علاقے حب میں صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 21 میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے دوران پولنگ ریکارڈ کو نقصان کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی مجلس وحدت المسلمین (ایم ڈبلیو ایم) کے ذریعے مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی امید دم توڑ گئی ہے۔ ذرائع الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ایم ڈبلیو ایم نے خواتین کی مخصوص نشستوں کے لیے ترجیحی فہرست جمع نہیں کرائی، الیکشن ایکٹ سیکشن 104 کے تحت ترجیحی فہرست جمع کرانے کا وقت بھی گزر گیا ہے۔
مزید بتایا کہ تاریخ گزرنے کے بعد ترجیحی فہرست میں تبدیلی یا اضافہ ممکن نہیں ہے، فہرستوں میں ترجیح تبدیلی کی جاسکتی ہے اور نہ ہی کسی نام کو نکالا جاسکتا ہے، پی ٹی آئی کوالحاق کے باوجود مخصوص نشستیں نہیں مل سکیں گی۔جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ ہم انتخابی نتائج مسترد کرتے ہیں اور نواز شریف کو اپوزیشن میں ساتھ بیٹھنے کی دعوت دیتے ہیںجمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ ہمارا پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے جسموں کا نہیں دماغوں کا جھگڑا ہے، گر ان کے دماغ ٹھیک ہوجائیں تو صلح ہوسکتی ہے۔ جے یو آئی کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس کے بعد سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمٰن نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ے یو آئی (ف) کی نظر میں پارلیمنٹ نے اپنی اہمیت کھودی ہے، لگتا ہے فیصلے ایوان میں نہیں میدان میں ہوں گے، انتخابی دھاندلی میں 2018 کا بھی ریکارڈ توڑ دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم الیکشن کمیشن کے شفاف الیکشن کے بیان کو مسترد کرتے ہیں،الیکشن کمیشن اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں یرغمال رہا، اسلام دشمن عالمی قوتوں کے دباؤ پر ہماری جیت کو شکست میں بدلا گیا ہے، ہم اپنے نظریے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، اگر الیکشن شفاف ہوئے ہیں تو 9 مئی کا بیانیہ ختم ہوگیا ہے۔عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے انتخابات میں مبینہ دھاندلی اور نتائج میں تبدیلی کے خلاف مظاہروں کا اعلان کردیا۔اے این پی خیبر پختونخوا کے صدر ایمل ولی خان نے کہا کہ احتجاجی تحریک کا آغاز 20 فروری کو ضلع صوابی سے کیا جائے گا۔