راولپنڈی(ٹی این ایس) عام انتخابات ؛ جمہوریت کے فروغ کے لیےاہم قدم قرار

 
0
521

وفاقی دارالحکومت سمیت چاروں صوبوں سے نتائج میں مبینہ دھاندلی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں,امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین اور آسٹریلیا کی جانب سے بھی پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات پر سوالات اٹھائے ہیں۔جس کے بعد ملک کے متعدد قومی و صوبائی حلقوں کے نتائج کو روکنے اور وہاں دوبارہ گنتی کروائے جانے کی درخواستیں الیکشن کمیشن میں دائر کر دی گئی ہیں۔ان ممالک کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ انتخابات کے روز موبائل سروسز کی بندش اور بعدازاں انتخابی نتائج میں تاخیر نے انتخابات کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ انتخابی عمل کو دیکھنے کے لیے پاکستان آنے والے کامن ویلتھ وفد کے سربراہ نے انتخابی عمل کو پرامن قرار دیتے ہوئے کچھ تحفظات کا اظہار کیا۔ میں خود اصغر علی مبارک اپنے حقیقی بھائی عظمت علی مبارک اور بہنوں طاہرہ بانو مبارک اور ایڈووکیٹ عظمیٰ مبارک نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مشاہدہ کیا کہ لوگ پاکستانی سیاست اور اس کی ترقی کے بارے میں بہت زیادہ باخبر ہیں۔ آٹھ فروری الیکشن ڈے کی بات کی جائے تو عوام کو سب سے پہلا سرپرائز موبائل نیٹ ورک اور سیلولر انٹرنیٹ کی بندش کی صورت میں ملا، حالانکہ ایک دن قبل ذرائع ابلاغ پر پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی کی جانب سے کہا گیا تھا کہ عام انتخابات کے دن موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ موبائل سروس اور انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے عوام کو رابطے اور اپنا پولنگ اسٹیشن معلوم کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں اور پیپلز پارٹی نے انٹرنیٹ اور موبائل سروس بحال کرنے کا مطالبہ کیا، جبکہ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ عوام سے رابطہ کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ تاہم الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ سکیورٹی معاملات کی وجہ سے موبائل سروس بند کی گئی ہے، الیکشن کمیشن کا اس فیصلے سے کوئی تعلق نہیں اور اس سے انتخابی عمل میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی۔ الیکشن کے دن دہشت گردی اور ہنگاموں کے کچھ واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔ خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان اور بلوچستان کے ضلع خاران میں دہشت گردی کے دو الگ الگ واقعات میں سیکورٹی فورسز کے سات اہلکار شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔ نگران حکومت نے الیکشن کے دن موبائل سروس بند رکھنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے اس کی وجہ دہشت گردی کے واقعات کو قرار دیا۔شام پانچ بجے پولنگ کا وقت ختم ہوا تو توقع کے برعکس انتخابی نتائج کا عمل غیرمعمولی تاخیر کا شکار ہوا۔ رات دس بجے تک ایک اندازے کے مطابق مختلف حلقوں کے 10 فیصد نتائج میڈیا پر رپورٹ ہوئے۔ ابتدائی رجحان سے واضح ہو گیا کہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد ارکان کو برتری حاصل ہو رہی ہے۔انتخابی نتائج کا عمل سست روی کا شکار رہا، اور الیکشن کمیشن نے اپنے کوڈ آف کنڈکٹ کے برعکس رات دو بجے کے بعد مختلف حلقوں کے نتائج جاری کرنا شروع کیے۔ زیادہ تر نتائج اگلے روز 9 فروری کی صبح 10 بجے کے بعد جاری کیے گئے۔ جس سے بالخصوص ان حلقوں کے نتائج پر سوالیہ نشان پیدا ہوئے جن میں جیت کا مارجن چند ہزار ووٹوں پر مشتمل تھا۔ وزارت داخلہ نے کسی قسم کے دھاندلی کے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ رابطے میں فقدان کی وجہ سے نتائج کے عمل کو مکمل کرنے میں تاخیر ہوئی، نتائج کے عمل کو فول پروف اور سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں، جس کی وجہ سے بروقت نتائج جاری نہ ہو سکے۔غیر جانبدار حلقوں کی طرف سے مجموعی طور پر الیکشن عمل اور زیادہ تر انتخابی نتائج پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے۔ انتخابی عمل کی نگرانی کرنے والے غیرسرکاری ادارے ’فافن‘ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عام انتخابات کے دوران پولنگ اسٹیشن پر شفافیت نظر آئی، تاہم ریٹرنینگ آفیسرز کے دفاتر میں طریقہ کار پر صحیح طریقے سے عمل نہیں کیا گیا۔ ’فافن‘ نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نتائج میں تاخیر اور دوسرے تحفظات دور کرنے کی کوشش کرے۔ پانچ کروڑ سے زائد افراد نے حق رائے دہی استعمال کیا اور یوں ووٹر ٹرن آؤٹ 48 فیصد رہا۔ پی ٹی آئی اعلیٰ قیادت کو مختلف مقدمات میں خصوصی عدالتوں سے چند دن قبل سزائیں سنائی گئیں۔ خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ تحریک انصاف کا ووٹر مایوس ہو کر گھر بیٹھ جائے گا۔تحریک انصاف کے ووٹرز نے حیران کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا،انتخابی نتائج سے ظاہر ہوا کہ نہ صرف تحریک انصاف کا ووٹر ثابت قدم رہا، بلکہ پارٹی کے خلاف چلنے والی مہم سے متاثر ہو کر معتدل اور خاموش اکثریت نے بھی غیر سیاسی قوتوں کے خلاف تحریک انصاف کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔نتیجے میں اکثریتی مینڈیٹ تحریک انصاف کو ملا، عوام نے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد ارکان کو جتوایا اور ان ارکان کی تعداد کسی بھی دوسری جماعت کے جیتنے والے ارکان سے زیادہ ہے۔ پی ٹی آئی کو کچھ حلقوں کے نتائج پر اعتراضات ہیں، لیکن ان کی جانچ میں طویل عرصہ لگ سکتا ہے۔ قومی اسمبلی کی 101نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں، جن میں سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ارکان کی تعداد 90 سے زائد ہے۔مسلم لیگ ن 75 نشستوں پر کامیاب ہوئی، جبکہ پیپلز پارٹی نے 54 نشستوں پر سبقت حاصل کی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان قومی اسمبلی کی 17 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی، جبکہ مسلم لیگ ق 3 اور جے یو آئی (ایف) کے حصے میں4نشستیں آئی ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی، مسلم لیگ ضیاء ، نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، پختونخوا نیشنل پارٹی اور مجلس وحدت المسلمین ایک، ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ عام انتخابات میں اہم امیدواروں سراج الحق، غلام بلور، ایمل ولی خاں، خواجہ سعد رفیق، رانا ثناء اللہ، انجینئر خرم دستگیر، شیخ رشید احمد، چوہدری نثار علی خان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، مولانا فضل الرحمن کو تحریک انصاف کے علی امین گنڈاپور کے مقابلے میں شکست ہوئی، تاہم وہ پشین سے کامیاب قرار پائے۔ میاں نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کو بھی ایک، ایک نشست پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔جہانگیر ترین اور پرویز خٹک نے تحریک انصاف سے الگ ہو کر اپنی جماعتوں کی بنیاد رکھی، تاہم انہیں الیکشن میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی دو نشستوں این اے 8اور این اے 35 کے سوا 264 عام نشستوں پر انتخابات کا انعقاد ہوا، حکومت سازی کے لیے 134 نشستوں کی سادہ اکثریت درکار ہے۔ مخصوص نشستوں کے اضافے کے بعد حکومت سازی کے لیے درکار نمبر 169ہے۔ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد ارکان کی تعداد 92ہے، جبکہ اس کی اتحادی جماعت مجلس وحدت المسلمین بھی ایک نشست پر کامیاب ہوئی ہےمسلم لیگ ن، استحکام پاکستان پارٹی اور مسلم لیگ ق کی مجموعی نشستوں کی تعداد 78 بنتی ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کی طرز پر نئی حکومت کی بنیاد رکھےگی ۔مسئلہ یہ ہے کہ سب جماعتوں کا فوکس اس پر ہےکہ اسے اقتدار میں سے زیادہ سے زیادہ حصہ ملے، الیکشن وعدے اور عوامی خدمت کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئےہیں ۔ اگرچہ ملکی ترقی، استحکام اور قومی حکومت کے نام پر کیا وعدہ کیاجارہا ہے ماضی میں بدقسمتی سے اپوزیشن کے طور پر تحریک انصاف نے اچھا کردار ادا نہیں کیا۔ اسے منفی سیاست کے بجائے اب بہترین جمہوری روایات کے مطابق پارلیمنٹ میں بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس سے جمہوری روایات کو فروغ اور ملکی سیاست کو استحکام ملے گا۔پاکستان میں انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تاریخ بہت پرانی ہے اور شاید ہی کوئی ایسا الیکشن ہو جس میں ہارنے والی جماعت نے سیاسی مخالفین یا اداروں پر انتخابی فراڈ میں ملوث ہونے کا الزام نہ لگایا ہو۔ کبھی فوج پر مداخلت کا الزام لگتا ہے تو کبھی کسی مخصوص جماعت پر ووٹوں کی چوری کا۔ کبھی ’35 پنکچرز‘ کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہوئے ووٹ چوری کرنے کی بات کی گئی تو کبھی امیدواروں کے اغوا اور تشدد کی خبریں سامنے آئیں۔ غرض ہر الیکشن میں کوئی نہ کوئی سقم ضرور رہ جاتا ہے۔ الیکشن کے بعد سیاسی جماعتوں اور کامیاب ہونے والے امیدوارں کا جوڑ توڑ اس کے علاوہ ہے۔ جب 1990 کے عام انتخابات ہوئے تو فوجی جرنیلوں پر الزام لگا کہ انھوں نے اسلامی جمہوری اتحاد کی مالی مدد کی تھی۔ سنہ 1993 میں ہونے والے انتخابات میں نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ نے الزام لگایا کہ پی پی پی کے حق میں مبینہ الیکشن دھاندلی ہوئی، سنہ 1997 میں یہی الزام پاکستان مسلم لیگ پر لگا۔ سنہ 2002 کے عام انتخابات فوجی جنرل پرویز مشرف کے زیرِ سایہ ہوئے اور اس وقت جلا وطن نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی سیاسی جماعتوں پر بہت پابندیاں لگائی گئی تھیں۔2008 کے انتخابات سب سے زیادہ پرتشدد تھے جن میں بہت سے امیدوار دہشت گرد حملوں میں ہلاک ہوئے جبکہ سنہ 2013 کے انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف نے الزام لگایا کہ ملک میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے ذریعے پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت بنائی گئی ہے اور عمران خان کی جانب سے 40 حلقوں کو ’کھولنے‘ کا مطالبہ کیا گیا۔شفاف انتخابات اس وقت ہوتا ہے جب پورا انتخابی عمل رائے دہندگان کی مرضی کی عکاسی کرتا ہے اور یہ کہ وہ کیسے ووٹ دیتے ہیں۔ لوگوں کو اس عمل پر اعتماد کرنے کے قابل ہونے کی ضرورت ہے تاکہ وہ انتخابات کے دن ووٹ ڈالیں۔ ’انتخابات کو شفاف طریقے سے کروایا جانا چاہیے جس سے یہ یقینی ہو کہ ہر کسی کے پاس وہ معلومات ہیں جن کی انھیں ضرورت ہے۔انتخابات میں سب شامل ہوں۔ یہ صرف ووٹرز کو ووٹ دینے کی اجازت دینے کے بارے میں نہیں ہے۔ اس میں تمام سیاسی جماعتوں کا حصہ لینا بھی شامل ہے، بغیر کسی تشدد کے انتخابی مہم چلانا بھی اس کا اہم جزو ہے۔صاف و شفاف انتخابات کا معیار وہ ہے جہاں امیدوار اور شہری آزادانہ طور پر حصہ لے سکتے ہیں اور ووٹوں کی درست گنتی ہو، مگر یہ معاملہ دنیا کے ہر حصے میں تنزلی کا شکار ہیں۔اس بات کا خطرہ ہے کہ خراب معیار کے انتخابات دنیا کی جمہوریتوں میں ایک معمول بن جائیں گے۔کوئی بھی انتخابات کامل نہیں ہوتے لیکن صاف و شفاف انتخابات ووٹروں کو اپنی حکومت کا انتخاب کرنے اور اپنے رہنماؤں کو جوابدہ ٹھہرانے کا اختیار دیتے ہیں۔ممالک کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ ایک جمہوری، مستحکم اور خوشحال پاکستان کی حمایت کرتے ہیں جو انسانی حقوق، میڈیا کی آزادی، آزادی اظہار رائے سمیت جمہوری اصولوں کے وعدوں کا پابند ہے۔جمہوریت ایک پیچیدہ اصطلاح ہے جس کی کئی تشریحات کی جاتی ہیں۔ یہ ایک سیاسی، اخلاقی، معاشی اور معاشرتی ڈھانچے کا نام ہے۔ جمہوریت کے وضع کردہ اصولوں کی بنا پر ہم کسی حکومت، ریاست، معاشرے یا نظریے کو جانچ سکتے ہیں کہ کیا وہ نظام یا نظریہ جمہوری ہے یا نہیں۔جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں ،جمہوریت ایک طرز حکومت ہے جسے آسان الفاظ میں عوام کی حکومت کہا جا سکتا ہے۔ آمریت کے برخلاف اس طرز حکمرانی میں تمام فیصلے عوامی نمائندے کرتے ہیں۔ جمہوریت کی دو بڑی قسمیں ہیں: بلا واسطہ جمہوریت اور بالواسطہ جمہوریت۔ بلاواسطہ جمہوریت میں قوم کی مرضی کا اظہار براہ راست افراد کی رائے سے ہوتا ہے،حالیہ عام انتخابات سیاسی جماعتوں کی طرف سے متنازعہ رہے ہیں۔لیکن اسے جمہوریت کی طرف ایک قدم کہا جا سکتا ہے۔نتائج سے یہ نظر آ رہا ہے کہ ملک میں آئندہ حکومت بھی اتحادی جماعتوں سے قائم ہو گی اور کسی ایک جماعت کو واضح برتری حاصل نہیں ہوگی۔ سیاسی جماعتوں کے لیے یہ ایک اہم موقع ہے کہ وہ مل بیٹھیں اور بات چیت کرتے ہوئے ایسا نظام وضع کریں جو آئندہ انتخابات میں شفافیت کو یقینی بنائے۔ پاکستانی لوگ سیاست اور اس کی ترقی کے بارے میں بہت زیادہ باخبر ہیں۔ امید ہے کہ ان انتخابات کے بعد بالآخر ملک میں استحکام آئے گا جمہوریت کا ماخذ ایک یونانی لفظ ’ڈیماس کریٹاس‘ ہے جس کے معنی ہیں عوام کی حکومت۔ جمہوری حکومت سے مراد ایک ایسی حکومت ہے جس میں اختیارات اور فیصلہ سازی کا منبع عوام ہوتے ہیں۔ عوام اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ انہیں کس طرح کا حکومتی، انتظامی، عدالتی، معاشی اور معاشرتی نظام پسند ہے۔ جمہوری نظامِ حکومت کی ایک شکل نمائندہ حکومت ہوتی ہے جس میں عوام اپنے نمائندے منتخب کر کے نظامِ حکومت انہیں سونپ دیتے ہیں،جمہوریت کا تصور ہیروڈوٹس کے زمانے سے موجود ہے اور مختلف یونانی فلاسفہ نے اپنی مختلف تشریحات پیش کی ہیں۔ ارسطو جو کہ اس نظام کے حق میں نہیں تھا وہ اسے ایک ایسے نظام کے طور پہ دیکھتا ہے جس میں کارِ حکومت ایک ہجوم کو تفویض کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بر عکس ’سیلی‘ کے نزدیک جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جس میں ہر کسی کی شراکت ہوتی ہے یعنی یہ سب کی منشأ کا ترجمان ہوتا ہے۔جدید جمہوریت کے پسِ منظر میں تین بہت بڑے تاریخی عوامل کار فرما ہیں : برطانوی پارلیمانی نظام، انقلابِ فرانس، اور صنعتی انقلاب۔ جدید جمہوری نظام کی بنیاد انیسویں صدی میں رکھی گئی جو کہ بیسویں صدی تک تمام یورپ میں پھیل گیا۔ چرچل کے نزدیک آج تک جتنے بھی نظام آزمائے گئے ہیں جمہوریت ان میں سے بہترین نظام ہے اور کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار برٹرینڈ رسل بھی کرتے ہیں۔ اگر جمہوریت کی موجودہ قسموں پہ غور کیا جائے تو تین طرح کے جمہوری نظام سامنے آتے ہیں : خالص جمہوریت جیسا کہ امریکہ، برطانیہ اور سویڈن میں ہے، نیم جمہوریت جیسا کہ یوگو سلاویہ اور ہمارے مشرقی پڑوسی ملک میں ہے اور جعلی جمہوریت جو کہ مشرقی یورپ اور اکثر اوقات مملکتِ خداداد میں پائی جاتی ہے۔ جمہوریت جانچنے کا بڑا سادہ سا پیمانہ یہ ہے کہ کیا اس ملک میں لوگوں کو اپنی بات کے اظہار اور ریاستی پالیسیوں پہ آزادانہ رائے زنی کرنے اور تنقید کرنے کی آزادی ہے یا نہیں۔ کیا اس ملک میں مضبوط اپوزیشن موجود ہے یا نہیں۔ کیا وہاں پہ آئین اور قانون کی حکمرانی ہے یا جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون رائج ہے۔ کیا اس ملک میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی ہے یا نہیں۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں یا قانون کا اطلاق مختلف لوگوں کے لئے مختلف ہوتا ہے۔ کیا ہر کسی کی جان اور مال محفوظ ہے یا نہیں۔ معاشی اور معاشرتی انصاف موجود ہے یا معاشرہ طبقاتی نظام میں بٹا ہوا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا اس ملک کا میڈیا آزاد ہے یا اس پہ طرح طرح کی قدغنیں لگائی جاتی ہیں,جمہوریت ایک بہترین نظام ہونے کے ناطے عوام پہ کچھ غیر معمولی ذمہ داریاں بھی عائد کرتا ہے۔ جمہوریت کے فروغ کے لئے سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ عوام روشن خیال، تعلیم یافتہ اور باشعور ہوں۔ وہ ہمہ وقت باخبر ہوں اور کسی بھی قیمت پر اپنے بنیادی انسانی حقوق پامال نہ ہونے دیں۔ وہ اپنے حقِ حکمرانی کے تحفظ کے لئے ہمہ وقت تیار رہیں۔ اختلافِ رائے کا احترام کیا جائے اور منطقی استدلال پہ کامل یقین رکھا جائے۔ ریاست کے اعضا اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ریاست کی بہتری کے لئے کوشاں رہیں۔ سیاسی پارٹیوں پہ چند افراد یا خاندانوں کی اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے۔ جمہوریت ہی میں ترقی و خوشحالی کا راز مضمر ہے لیکن ایسا ہونا صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب جمہوریت کی عائد کردہ ذمہ داریوں کو دیانتداری کے ساتھ پورا کیا جائے۔.حالیہ انتخابات میں راولپنڈی کے امیدوار قومی اسمبلی حلقہ این اے 56 راولپنڈی اصغر علی مبارک نے کہا ہے کہ کمشنرراولپنڈی عالمی سازش کا حصہ بنے ہیں،سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر الزامات انکوائری نگران حکومت کا فوری طور پر سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ میں حالیہ انتخابات کے امیدواروں میں سے ایک تھا اور میرے پاس تمام متعلقہ ریکارڈ موجود ہیں اور کمیشن کے سامنے پیش کروں گا عام انتخابات جمہوریت کے فروغ کے لیے ایک قدم ہےعوام اور ملک دوبارہ جلد انتخابات کا متحمل نہیں ہوسکتے ، راولپنڈی کے حلقہ 56 اور این 57 کے ریٹرننگ آفیسرز بطور جج خدمات انجام دے چکے ہیں راولپنڈی کے ریٹرننگ آفیسرزمشترکہ بیان کے بعد نگران حکومت کی ذمہ داری ہے کہ فوری طور پر جوڈیشل کمیشن کے ذریعے تحقیقات کا اعلان کرے۔ چیف الیکشن کمشنرسکندر سلطان راجہ اور چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف کردار کشی کی مہم قابل مذمت ہے یہ ضروری ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو یہ احساس ہو کہ انتخابات میں جیت اور ہار جمہوری عمل کے بنیادی پہلو ہیں، انتخابی بے ضابطگیوں کے حوالے سے کسی قسم کے خدشات کا اظہار دستیاب چینلز کے ذریعے قانونی راستے اختیار کرکے کریں ,پہلی بار نہیں ہوا کہ پاکستان میں انتخابات کے نتائج دیر سے سامنے آئے ہوں۔ مگر حالیہ تاریخ میں یہ پہلی بار ضرور ہوا کہ الیکشن کے دن اور اگلی رات ملک بھر میں موبائل فون نیٹ ورکس بند رہے، اور 24 گھنٹے گزرنے پر بھی مکمل نتائج سامنے نہیں آ سکے۔ گذشتہ واقعات نے بظاہر پہلے سے موجود تقسیم اور سیاسی دراڑ کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ اگلی حکومت کس کی ہوگی، اس معاملے پر عوام میں کنفیوژن پائی جاتی ہے۔ پہلے سے ہی ریاستی اداروں پر اعتبار کم ہو رہا ہے۔سوشل میڈیا پر کئی صارفین الیکشن کمیشن اور نگران حکومت پر تنقید کرتے نظر آئے تو دوسری جانب فوج اور عدلیہ کو بھی اس افراتفری کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔لیکن اس تقسیم، کنفیوژن اور عوامی غصے کا نتیجہ کیا نکلے گا ابتدائی نتائج نے سب کو حیران کر دیا کیونکہ توقعات کے برعکس پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار کو برتری حاصل تھی۔ تاہم چند ہی گھنٹوں میں رزلٹ کی آمد کا سلسلہ رُک گیا۔ اس موقع پر سوشل اور مین سٹریم میڈیا پر بحث جاری رہی جس میں سوالات بھی تھے اور شکوک و شبہات بھی۔ عوام کی نظریں الیکشن کمیشن آف پاکستان پر تھیں مگر وہ بھی بے بس نظر آ رہا تھا۔ رات بارہ بجے بھی موبائل نیٹ ورکس بحال نہیں ہوئے تھے اور ووٹوں کی گنتی کے نتائج منظر عام پر نہیں آ رہے تھے۔ ایسے میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں اور حامیوں نے سوشل میڈیا پر اپنی جیت کا اعلان کیا اور نتائج میں تاخیر کو ’دھاندلی کی کوشش‘ قرار دیا۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن نے رات ایک موقع پر اعلان کیا کہ آدھے گھنٹے میں نتائج آنا شروع ہو جائیں گے مگر صبح تین بجے تک بھی الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر کوئی تفصیل موجود نہیں تھی۔ یہی اعلان صبح دوبارہ کیا گیا اور کہا گیا کہ نتائج دس بجے تک سامنے آ جائیں گے تاہم یہ بھی نہ ہوسکا۔ نگران حکومت قوم کو انتخابات کے پُرامن انعقاد پر مبارکباد دیتی نظر آئی اور وزارت داخلہ موبائل نیٹ ورکس بند رکھنے کے فیصلے کا دفاع کرتی رہی۔نتائج سے یہ نظر آ رہا ہے کہ ملک میں آئندہ حکومت بھی اتحادی جماعتوں سے قائم ہو گی اور کسی ایک جماعت کو واضح برتری حاصل نہیں ہوگی۔ سیاسی جماعتوں کے لیے یہ ایک اہم موقع ہے کہ وہ مل بیٹھیں اور بات چیت کرتے ہوئے ایسا نظام وضع کریں جو آئندہ انتخابات میں شفافیت کو یقینی بنائے۔ ملک میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد کوئی بھی جماعت سادہ اکثریت حاصل نہیں کر پائی اور کوئی بھی جماعت اپنے طور پر وفاق میں حکومت تشکیل دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے جبکہ دوسری جانب مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف پاکستان بھر کے مختلف شہروں میں متعدد سیاسی جماعتیں احتجاج میں مصروف ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار اور جماعت کے حامی اسٹیبلشمنٹ پر الزامات لگا رہے ہیں کہ وہ انتخابی عمل میں دھاندلی کے مرتکب ہوئی ہے۔ عدلیہ جو کسی بھی واقعے کا سو موٹو نوٹس لے سکتی ہے، انھوں نے نہ تو موبائل نیٹ ورکس بند ہونے کا نوٹس لیا، نہ کل شب ہونے والی مبینہ دھاندلی کی خبر لی اور نہ ہی یہ نوٹس لیا کہ نتائج میں اتنی دیر کیوں ہو رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں اور اداروں نے اس بار بھی ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا۔ہمارا خیال تھا کہ اب معامالات درست ہوں گے، ماضی کی غلطیوں سے سیکھا جائے گا۔ یہ انتخابات پر امن ہوئے، لوگ سسٹم پر اعتبار کرتے ہوئے ووٹ ڈالنے نکلے۔ اپنا ردعمل پرچی سے دیا جو کہ خوش آئند تھا۔ یہی جمہوریت کی کامیابی ہے۔ انتخابی نتائج کے دوران ’پی ٹی آئی کی کامیابی کے ابتدائی اشارے، اور پھر اچانک نتائج کا دیر تک اعلان نہ ہونا، الیکشن کمیشن کی مکمل خاموشی، اور پھر ایسے سرکاری نتائج جن میں فوج کی ترجیحی جماعت سیاسی اتحاد بناتی نظر آرہی ہیں، یہ سب آخری لمحہ کی دھاندلی کی پیشنگوئی کرتا ہےپاکستان ایک ایسے نتیجے کی طرف جا رہا ہے جس سے عوام کی مرضی کی عکاسی نہیں ہوتی۔ ’یہ پاکستان کی پہلے سے کمزور جمہوریت کے لیے ایک اور دھچکا ہو گا۔یہ انتخابات پاکستان میں قوم کو مزید تقسیم کریں گے جو پہلے ہی پولرائزیشن کا شکار ہے۔ پاکستان کو اس وقت نہ صرف شدید معاشی بحران کا سامنا ہے بلکہ دہشت گردی میں بھی دوبارہ اضافہ ہو رہا ہے۔کمشنر راولپنڈی نے اپنی ڈویژن میں قومی اسمبلی کی 13 نشستوں پر مبینہ دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے ’اعتراف جرم‘ کیا اور سزا کے طلبگار ہوئے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے معاملے کے تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ خیال رہے کہ راولپنڈی ڈویژن میں قومی اسمبلی کی کل 13 میں سے 11 نشستوں پر ن لیگ کو کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ سابق کمشنر راولپنڈی نے پریس کانفرنس کے دوران بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں چاہتا ہوں میں سکون کی موت مروں میں اس طرح کی زندگی نہیں جینا چاہتا۔ میں نے بڑا جرم کیا ہے۔ میں اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کرتا ہوں۔ مجھے اس کی بھرپور طریقے سے سزا دینی چاہیے۔‘ انھوں نے الزام عائد کیا کہ راولپنڈی ڈویژن میں ’70، 70 ہزار کی لیڈ‘ سے ہارنے والے انتخابی امیدواروں کو مبینہ طور پر جعلی مہریں لگا کر جتوایا گیا ہے۔ انھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ ’اس ساری غلط کاری کی ذمہ داری میں اپنے اوپر لے رہا ہوں اور ساتھ بتا رہا ہوں جو چیف الیکشن کمشنر ہیں، چیف جسٹس ہیں وہ اس کام میں پورے شریک ہیں۔‘چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے لیاقت علی چٹھہ کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا ہے اور ثبوت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کے الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ’الیکشن کمیشن کے کسی عہدیدار نے الیکشن نتائج کی تبدیلی کے لیے کمشنر راولپنڈی کو کبھی بھی کوئی ہدایات جاری نہیں کیں, یہ بات درست ہے کہ کمشنر کا انتخابی عمل یا الیکشن ڈیوٹی سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہوتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ ڈپٹی کمشنر انتخابات کے دوران بطور ریٹرنگ افسران اور ڈپٹی ریٹرنگ افسران کام کر رہے ہوتے ہیں کسی بھی صوبے میں پہلے وزیراعلیٰ ہوتا ہے جس کے ماتحت صوبائی چیف سیکریٹری ہوتا ہے اور پھر اس کا رابطہ تمام ڈویژنز کے کمشنرز سے ہوتا ہے اور اس طرح کسی بھی صوبے کا کام چلتا ہےہر ڈویژن کے اندر ایک انٹیلیجنس کمیٹی بنتی ہے جو انتخابات کی نگرانی یا مانیٹرنگ کرتی ہے جسے ڈسٹرکٹ انٹیلیجنس کمیٹی کہا جاتا ہے۔ اس میں آئی ایس آئی، آئی بی، سپیشل برانچ کے لوگ ہوتے ہیں اور ڈی پی او اور ڈپٹی کمشنر بھی موجود ہوتے ہیں۔اس کمیٹی میں کمشنر نہیں ہوتا، نہ ہی آر اوز یا ڈی آر اوز ہوتے۔‘’اس کمیٹی میں جو بھی فیصلے ہوتے ہیں وہ کمشنر کے علم میں ہوتے ہیں کیونکہ ڈپٹی کمشنر رپورٹنگ کر رہا ہوتا ہے۔خیال رہے کہ سنہ 2013 کے عام انتخابات کے بعد بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا تھا جب سابق ایڈیشنل سیکریٹری الیکشن کمیشن افضل خان کی جانب سے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ان کی جانب سے پنجاب الیکشن کمیشن کے اس وقت کے ایڈیشنل سیکریٹری ریاض کیانی، چیف جسٹس افتخار چوہدری اور جسٹس تصدق حسین جیلانی پر بھی الزام عائد کیا تھا۔ ان الزامات کے جواب میں ریاض کیانی نے افضل خان پر دو کروڑ روپے کے ہتکِ عزت کا کیس کیا تھا تاہم افضل خان نے سنہ 2016 میں اپنے الزامات واپس لیتے ہوئے ایڈیشنل سیکریٹری سے معافی مانگ لی تھی ,نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے ملک میں ہونے والے حالیہ عام انتخابات کو جمہوریت کے فروغ کی جانب ایک قدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابی بے ضابطگیوں کے حوالے سے کسی قسم کے خدشات کے لیے دستیاب قانونی راستے اختیار کیے جائیں۔ میڈیا ونگ سے جاری بیان میں انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ملک میں حال ہی میں ہونے والے عام انتخابات جمہوریت کے فروغ کی طرف ایک قدم ہے اور معاشرے کے تمام طبقات کی جانب سے نمایاں ٹرن آؤٹ کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے۔پاکستان کے قانون ساز، عدالتی اور انتظامی شعبے پر عزم ہیں اور سب کو غیر جانبدارانہ انصاف فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ہم امید کرتے ہیں کہ یہ عمل باہمی افہام و تفہیم اور احترام کے ساتھ جلد از جلد اختتام پذیر ہوگا۔