اسلام آباد(ٹی این ایس) غزہ کی حالیہ صورتحال میں عالمی یوم القدس

 
0
20

…..`
غزہ کی حالیہ صورتحال کی وجہ سے اس سال کا عالمی یوم القدس مختلف ممالک کے مسلمانوں کے لیے خصوصی اہمیت اختیار کر گیا ہے دنیا بھر میں مسلمان رمضان کے آخری جمعے کو یوم القدس کے طور پر مناتے ہیں۔ اس موقع پر پاکستان میں بھی ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ اس برس یوم القدس سے قبل فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا مسئلہ ہے اور قبلۂ اوّل کو صیہونی تسلط سے آزاد کرانے کے لیے جدوجہد کرنا تمام مسلمانوں کا مشترکہ فریضہ ہے۔عالم اسلام کے قلب اور انبیاء کی سرزمین پراسرائیل کا غاصبانہ قبضہ ایک ایسا جارحانہ عمل ہے، جس کے خلاف آج دنیا بھر کے منصف مزاج، آزاد انسان سراپا احتجاج ہیں۔ یہ احتجاج اسرائیل کے جرائم اور توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف فلسطین کی آزادی کے حق میں عالمگیر آواز بن کر استکباری قوتوں اور ان کے لوکل گماشتوں کی نیندیں حرام کرچکا ہے۔ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کا کہنا ہے کہ حماس معاہدے کے لیے اپنی شرائط پر قائم ہے جس میں اسرائیلی فوج کا غزہ سے انخلاء بھی شامل ہے۔ یوم القدس کے حوالے سے پیغام میں اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ ہم اپنے مطالبات پر قائم ہیں جس میں مستقل جنگ بندی، غزہ کی پٹی سے دشمن کا جامع اور مکمل انخلاء شامل ہے۔ اسی طرح تمام بے گھر لوگوں کی ان کے گھروں کو واپسی، غزہ میں ہمارے لوگوں کے لیے درکار تمام امداد کی اجازت، پٹی کی تعمیر نو، ناکہ بندی ختم اور قیدیوں کے تبادلے کا ایک باعزت معاہدہ حاصل کرنا شامل ہے۔
امام خمینی عالمی مسائل کے دقیق اور گہرے تجزیئے کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کرچکے تھے کہ مسئلہ فلسطین اور کشمیر سمیت تمام بین الاقوامی تنازعات کا حل استکباری طاقتوں کے خلاف مستضعف اقوام کی مزاحمت اور استقلال طلب جدوجہد میں ہی مضمر ہے۔ لہذا فلسطینی مظلوموں کی آواز کو عالمگیر جہت دے کر عالمی ضمیر کو جگانے کے لیے خمینی بت شکن نے یوم القدس منانے کا حکم دیا۔ امام راحل نے نام نہاد مسلم حکمرانوں کی طرح صرف زبانی جمع خرچ کو کافی نہیں سمجھا بلکہ استقامتی بلاک کو اسٹریٹیجک گائیڈ لائن اور مصافیاتی نظام العمل فراہم کرکے مقاومت اور مزاحمت کا راستہ دکھایا۔ دنیا بھر کےمسلمان عالمی یوم القدس کو اتحاد ، استقامت اور بیت المقدس کے تحفظ کا دن قرار دیتے ہوئے اسے شایان شان طریقے سے مناتے ہیں۔ یہ دن فلسطینی عوام کو ایک پیغام دیتا ہے کہ دنیا ان کے ساتھ ہے ، دنیا کے عوام ان کے ساتھ ہیں اور غاصب صیہونیوں کو بھی یہ دن ایک پیغام دیتاہے اور وہ پیغام یہ ہے کہ ظلم سے حکومت قائم تو کی جاسکتی ہے لیکن باقی نہیں رہ سکتی ۔واضح رہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی حضرت امام خمینی رح نے مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے، فلسطینیوں کی حمایت اور مسلم امہ کے درمیان بیت المقدس آزادی کا جذبہ بیدار کرنے کی غرض سے ماہ رمضان کے آخری جمعے، جمعۃ الوداع کو عالمی یوم القدس قرار دیا تھا۔ اس کے بعد سے ہرسال اس دن دنیا بھر میں عالمی یوم القدس منایا جاتا ہے۔ پاکستانی ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا ہے کہ مقبوضہ فلسطین کی ہولناک صورتحال پر پاکستان اپنے سنجیدہ تحفظات ریکارڈ کرتا ہے اور ہر برس فلسطین پر قراردادیں جمع کراتا ہے، ہم غزہ میں اسرائیلی مظالم کی مذمت کرتے ہیں اور جنوری میں غزہ کے حوالے سے عالمی عدالت انصاف کے آنے والے فیصلے پر عملدر آمد کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اسرائیل کو عالمی عدالت انصاف کے احکامات سے رو گردانی پر زیر احتساب لایا جائے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کو کئی برسوں سے بھارتی مظالم کا سامنا ہے، پاکستان جموں و کشمیر کے مسئلے کا حل کشمیری عوام کی خواہشات و اقوام متحدہ قراردادوں کے مطابق چاہتا ہے۔
پاکستان میں ایران کے سفارت خانے نے عالمی یوم قدس کے موقع پر جاری بیان میں کہا ہے کہ فلسطین عالم اسلام کا سب سے بڑا اور اہم ترین مسئلہ ہے، یوم القدس خاص طور پر فلسطینی کاز کے لیے وقف ہے، یہ دن دنیا کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ خود ارادیت کے اصول پر مبنی آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے معاہدے کی تجدید کرے۔ سفارتخانے سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ رمضان المبارک کا آخری جمعہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے اتحاد کی علامت کے طور پر عالمی یوم قدس کے نام سے جانا جاتا ہے، بلا شبہ فلسطین عالم اسلام کا سب سے بڑا اور اہم ترین مسئلہ ہے۔یوم القدس خاص طور پر فلسطین اور فلسطینی کاز کے لیے وقف ہے لیکن اس سے آگے یہ عالم اسلام کے اتحاد و یکجہتی کے محور کے طور پر، قتل و غارت اور غاصبانہ قبضے کے ظلم کے خلاف جنگ میں مسلم ممالک کی بیداری اور اتحاد کا دن ہے۔ یہ دن دنیا کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ بے گھر فلسطینی قوم کے 70 سال کے جبر کو یاد کرے اور خود ارادیت کے اصول پر مبنی آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے معاہدے کی تجدید کرے۔ اسلامی جمہوریہ ایران ہمیشہ فلسطین کے کاز کا حامی رہا ہے اور اس کا کھل کر اعلان بھی کیا ،فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت کرنا کوئی وقتی حکمت عملی نہیں اور یہ نہ صرف مذہبی عقائد سے جڑی ہے بلکہ سب سے اہم بات کہ یہ ایک انسانی فریضہ ہے جو اسلامی جمہوریہ اور اس کے آئین کی روح اور ماہیت کے عین مطابق ہے، اس سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ ایک منصفانہ، حق و انصاف اور حقیقت پر مبنی راہ حل فراہم کرنے کے طریقہ کار اور اقدامات میں حصہ لیا ۔ سفارتخانے نے یوم قدس منانے کے ساتھ اقوام متحدہ کی قرارداد میں درج مجوزہ منصوبے کی بنیاد پر ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی ضرورت کا اعادہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ایران اور پاکستان لوگوں کے حقوق کے تحفظ، فلسطین اور قدس کے مسئلے پر مشترک مؤقف رکھتے ہیں ۔ سفارتخانے کا کہنا ہے کہ یوم قدس تشدد، قتل و غارت اور امتیازی سلوک کی مذمت، فلسطینی عوام کے حقوق پر زور دینے اور حق خودارادیت کے دفاع کے لیے ایک بڑھتی عالمی مہم ہے، اسلامی جمہوریہ ایران عالم اسلام پر فلسطین کی مکمل آزادی اور صیہونی حکومت کے قبضے اور توسیع پسندی کا مقابلہ کرنے کی ضرورت پر زور اور دنیا بھر کے تمام مسلمانوں و آزاد لوگوں کو عالمی یوم قدس کی مہم میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہے۔قوم یہود سے ہماری جنگ ازل سے جاری ہے اور روز آخر سے کچھ پہلے تک جاری و ساری رہے گی، لیکن فتح ہماری ہی ہوگی، شکست قوم یہود کا مقدر لکھ دی گئی ہے اور لکھے کو لکھنے والے کے علاوہ کوئی ٹال نہیں سکتا کیونکہ وہی مختار کل ہے۔اس لیے قوم یہود روز آخر سے پہلے تک جتنی اُچھل کود کرنا چاہتی ہے کر لے، مسلمانوں کی برداشت اور صبر اہل فلسطین نے بتا بھی دیا اور دکھا بھی دیا ہے۔ امن و سکون سے زندگی گزارنا یہود کی فطرت کے منافی ہے۔ انھوں نے اپنی قوم، زبان اور نسل سے آنے والے انبیائے کرام علیہم السلام کو سکون کا سانس نہیں لینے دیا۔ ان کی نافرمانی کی، انھیں ستایا، مذاق اڑایا، انھیں قتل کیا۔ پیکر عفت و عصمت حضرت بی بی مریم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پھانسی دینے کی کوشش کی۔ نبی آخر الزماںﷺ کے ساتھ بار بار معاہدے کیے اور ہر مرتبہ انھیں توڑ کر عہد شکنی اور غداری کے مرتکب ہوئے۔خلافت راشدہ کے دور میں انھیں مسلمانوں کے برابر اور بعض اوقات ان سے زیادہ حقوق دیے گئے۔ بدلے میں انھوں نے ہر دور میں مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور اسلامی سلطنتوں کے خلاف سازشیں کیں انھیں دیمک کی طرح چاٹا۔ اندلس کی اسلامی سلطنت کے خلاف سازشیں ہوں یا انقلاب فرانس، خلافت عثمانیہ کے سقوط کا المیہ ہو یا ارض حرمین میں غیر مسلم افواج کا پڑاؤ۔ مشرق وسطیٰ کو بدامنی کی طرف دھکیلنا ہو یا پاکستان کے خلاف سازشیں، ہر جگہ صیہونیت پنجے گاڑے نظر آئی، اس کی بد فطرتی کے آثار نظر آئے۔ اس وقت صیہونیت کا ننگا ناچ ارض مقدس فلسطین میں جاری ہے۔ غاصب صیہونی حکومت کی جنگی مشین، جو غزہ میں حماس کو تباہ کرنے کے درپے ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے وہ ہر طرح کا جرم انجام دے رہی ہے۔صیہونی فوجی مسلسل جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں، امریکا اور مغربی قوتیں ان جرائم میں اسرائیل کے برابر کے شریک ہیں۔ غزہ میں اسرائیلی درندگی ہر لمحہ بڑھ رہی ہے، اسپتال، مساجد، تعلیمی ادارے اور رہائشی عمارات سمیت کچھ بھی اس ناجائز اور دہشت گرد ریاست کی وحشیانہ بمباری سے محفوظ نہیں۔ بیشتر علاقے کھنڈر بن گئے ہیں لیکن اس سفاکی کو روکنے کے معاملے میں اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ سمیت عالمی برادری کا کردار اب تک زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھا ہے حالانکہ اقوام متحدہ کے خود اپنے متعدد کارکن اسرائیلی بمباری کا نشانہ بن چکے ہیں,غزہ میں جار ی موت کے اس رقص کی تفصیلات سے ذرائع ابلاغ بھرے پڑے ہیں لیکن اصل ضرورت اسرائیل کو فی الفور اس درندگی سے روکنے اور فوری جنگ بندی کی ہے۔

اسرائیل نے غزہ کی آبادی کو برسوں سے محصور رکھ کر اور رہائشی علاقوں کو وحشیانہ بمباری کا ہدف بناکر بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی اور بدترین جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے اس لیے عالمی برادری کو بلاتاخیر بین الاقوامی قانون کے مطابق اس کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ او آئی سی بھی اسرائیلی ہٹ دھرمی کے پیش نظر حالیہ سربراہی اجلاس میں پیش کی گئی اکثریتی رائے کو فوقیت دیتے ہوئے اسرائیل کو تیل کی فراہمی اور دیگر پابندیوں کی تجاویز پر فوری عمل درآمد شروع کرے اور عالمی برادری تنازع فلسطین کے پائیدار اور متفقہ دوریاستی حل کو کم سے کم مدت میں یقینی بنائے۔
پاکستانی رہنماؤں نے عالمی یوم القدس کو سرزمین فلسطین اور قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی کے لیے بھرپور طریقے سے آواز بلند کرنے کا دن قرار دیا ہے۔رہنماؤں نے امام خمینی رح کی جانب سے جمعتہ الوداع کو عالمی یوم القدس قرار دیئے جانے کو آپ کی بصیرت اور دوراندیشی کا ثبوت قرار دیتے ہوئے عالمی یوم القدس کے مظاہروں میں بھرپور طریقے سے حصہ لینے کی اپیل کی ہے۔ اسی سلسلے میں قدس کانفرنس کے موقع پر فلسطینی فاؤنڈیشن آف پاکستان نے کہا کہ صیہونی حکومت اور اس کی سرپرستی کرنے والی مغربی طاقتوں کی پوری کوشش ہے کہ مسئلہ فلسطین پس پشت چلا جائے ۔مسلمان اللہ رب العزت سے اپنا ناتا جوڑ کر خصوصی دعاؤں کا اہتمام کریں اورہر دعا میں فلسطین کے مظلوم عوام کو یاد رکھیں، بلا ناغہ تمام مساجد اور گھروں میں فجر کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھنے کا اہتمام کریں، پوری دنیا کے مسلمان اگر ہر گھر، ہر مسجد میں قنوت نازلہ کا اہتمام کرینگے تو اللہ رب العزت اسرائیلی درندوں کو نشان عبرت بنا کر مظلوم فلسطینیوں کی ضرور مدد فرمائے گا۔ ان شاء اللہ.. اسرائیل کا وجود اور فلسطین پر ظالمانہ قبضہ حقیقت میں اس دور کی بڑی طاقتوں کی سازشوں کا شاخْسانَہ ہے ۔ غاصب صہیونی ریاست کے ناجائز قیام سے لے کر اب تک اگر اس ظالم ریاست کے ظلم و تشدد اور مظلوم فلسطینیوں پر روا رکھے جانے والے انسانیت سوز اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اسرائیل نے آج تک جو کچھ کیا ہے اس کے پیچھے مغرب اور امریکہ کی بھرپور حمایت تھی ۔اسرائیل کے مظالم کے خلاف عالمی اداروں میں کئی دفعہ قراردادیں آئیں لیکن امریکہ نے کبھی بھی ان قراردادوں کو منظور نہیں ہونے دیا اگر کبھی غلطی سے کوئی قرارداد امریکہ کے ویٹو سے بچ بھی گئی تو اسرائیل نے امریکہ اور مغربی ملکوں کی حمایت کی وجہ سے اسے کبھی بھی قابل توجہ اور قابل عمل نہیں سمجھا۔امریکہ اور مغربی ممالک کی اس بے جا اور بھر پور حمایت نے اسرائیل کی غاصب صہیونی ریاست کو اتنا جری بنا دیا ہے کہ وہ نہ صرف علی الاعلان عالمی اداروں کے فیصلوں کو نہیں مانتی بلکہ ان فیصلوں اور قراردادوں کے خلاف عمل کرتی ہے۔امریکہ اور مغربی ممالک کی حمایت تو ممکن ہے اسلام دشمنی اور علاقے میں اپنی مرضي کی پالیسیاں مسلط کرنا ہو لیکن جو بات امت مسلم کو خون کے آنسو رلاتی ہے وہ علاقے کے عرب ممالک کے حکمرانوں کا منافقانہ رویہ ہے ۔ عرب ممالک کے سربراہ یوں تو اپنے ہر مسئلے کو عربوں کا مسئلہ قرار دے کر اسکے لئے شب و روز کوششیں کرتے ہیں لیکن فلسطین کے مسئلے پر ان کا رویہ ہمیشہ دفاعی یا انتہائي کمزور رہا ہے ۔عالمی اداروں کی خاموشی ، عرب حکمرانوں کا منافقانہ رویہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے دوہرے معیار اور عالمی برادری کی عدم توجہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ امت مسلمہ اتحاد و وحدت اور اسلامی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطین کے مسئلے کے حل کے لئے میدان عمل میں آجائے یوم القدس اس بات کا بہترین موقع ہے کہ ہم امت واحدہ کی صورت میں اپنے تمام تر فروعی اختلافات اور مسائل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے قبلۂ اوّل کی آزادی کے لئے سراپا احتجاج بن جائيں ۔ امام خمینی (رح) کے بقول یوم القدس یوم اسلام ہے اور فلسطین کا مسئلہ صرف فلسطینیوں کا نہیں تمام عالم اسلام کا مسئلہ ہے.