اسلام آباد(ٹی این ایس) الیکشن کمیشن کا سپریم کورٹ کے حکم پر عمل درآمد کا فیصلہ

 
0
310

 .الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کا فیصلہ کیاہے سپریم کورٹ کے حکم پر عملد رآمد کے سلسلے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اہم اجلاس ہوا۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عملدرآمد کرنے کا فیصلہ کیا تاہم الیکشن کمیشن کی لیگل ٹیم کو ہدایات جاری کی گئیں کہ اگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے کسی پوائنٹ پر عملدرآمد میں رکاوٹ ہے تو وہ فوراً اس کی نشاندہی کریں تاکہ مزید رہنمائی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے۔ اجلاس کے دوران ایک سیاسی پارٹی کی طرف سے چیف الیکشن کمشنر اور معزز ممبران الیکشن کمیشن کو مسلسل اور بےجا تنقید کا نشانہ بنانے پر کمیشن نے اس کی شدید مذمت کی اور اسے مسترد کر دیا۔ الیکشن کمیشن نے کہا کہ اراکین سے استعفے کا مطالبہ مضحکہ خیز ہے، کمیشن کسی قسم کے دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے آئین اور قانون کے مطابق کام کرتا رہے گا۔ الیکشن کمیشن نے کہا کہ اس نے کسی فیصلے کی غلط تشریح نہیں کی، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن کو درست قرارنہیں دیا جس کے خلاف پی ٹی آئی مختلف فورمز پر گئی اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا۔ پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن ٹھیک نہیں تھے جس کے قانونی نتائج میں الیکشنز ایکٹ کی دفعہ 215 کےتحت انتخابی نشان بلا واپس لیا گیا، لہذا الیکشن کمیشن پر الزام تراشی انتہائی نامناسب ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ جن 39 ایم این یاز کو پی ٹی آئی کا رکن اسمبلی قرار دیا گیا ہے انہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی سے اپنی وابستگی ظاہر کی تھی جب کہ کسی بھی پارٹی کا امیدوار ہونے کے لیے پارٹی ٹکٹ اور حلف نامہ ریٹرننگ افسر کے پاس جمع کروانا ضروری ہے جو کہ ان امیدواروں نےجمع نہیں کروایا تھا، لہذا ریٹرننگ آفسران کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ ان کو پی ٹی آئی کا امیدوار قرار دیتے۔ الیکشن کمیشن نے کہا کہ جن 41 امیدواروں کو آزاد قرار دیا گیا ہے، انہوں نے نہ تو اپنے کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی کا ذکر کیا اور نہ پارٹی س وابستگی ظاہر کی اور نہ ہی کسی پارٹی کا ٹکٹ جمع کروایا، لہذا ریٹرننگ افسروں نے ان کو آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی۔ الیکشن جیتنے کے بعد قانون کے تحت تین دن کے اندر ان ایم این ایز نے رضاکارانہ طور پر سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی۔ سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل میں آئی، سنی اتحاد کونسل کی یہ اپیل مسترد کردی گئی، پی ٹی آئی اس کیس میں نہ تو الیکشن کمیشن میں پارٹی تھی اور نہ ہی پشاور ہائیکورٹ کے سامنے پارٹی تھی اور نہ ہی سپریم کورٹ میں پارٹی تھی۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز بھی اس سلسلے میں چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی الیکشن کمیشن کا ایک اجلاس ہوا تھا جو بےنتیجہ ختم ہوگیا تھا اور الیکشن کمیشن نے معاملے پر مشاورت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اجلاس میں الیکشن کمیشن کے اراکین، سیکریٹری اور متعلقہ ونگز کے حکام شریک ہیں جبکہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں موجود تھے۔ الیکشن کمیشن کے اجلاس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق غور کیا جارہا ہے، حکام الیکشن کمیشن کو فیصلے سے متعلق بریفنگ دے ر ہیں۔یاد رہے کہ 12 جولائی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دے دیا تھا۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 13 رکنی فل بینچ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جمال خان مندوخیل کے اختلافی نوٹ کے مطابق جن امیدواروں نے کاغذات نامزدگی واپس لینے والے دن تک کوئی اور ڈیکلیریشن جمع نہیں کرایا کہ وہ پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا حصہ ہیں، لہٰذا الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ شامل کر کے مخصوص نشستوں کی تقسیم کرے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیس فیصلے کی غلط تشریح کی۔یاد رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف سے وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے وزیراعظم ہاؤس میں ملاقات اسلام آباد میں کی۔ملاقات میں سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے سے متعلق وزیراعظم کو بریفنگ دی گئی۔ ایڈہاک ججز کی تعیناتی کا معاملہ بھی زیرغور آیا۔یاد رہے کہ یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے جب کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں دینے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کا فیصلہ کرلیا۔اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مشیر عالم اور جسٹس (ر) مقبول باقر کے بعد جسٹس (ر) مظہر میاں عالم خیل نے بھی ایڈہاک جج کی ذمہ داری لینے سے معذرت کر لی۔جوڈیشل کمیشن نے جسٹس ریٹائرڈ سردار طارق مسعود اور جسٹس ریٹائرڈ مظہر عالم میاں خیل کو سپریم کورٹ میں ایڈہاک جج تعینات کرنے کی سفارش کردی۔جسٹس منیب اختر نے جسٹس سردار طارق مسعود کی بطور ایڈہاک جج تعیناتی پر اختلاف کیا، تاہم جوڈیشل کمیشن نے جسٹس سردار طارق مسعود کے نام کی منظوری 8:1 کے تناسب سے دی۔ اسی طرح جسٹس ریٹائرڈ مظہر عالم میاں خیل کے نام کی منظوری 6:3 کے تناسب سے دی گئی۔ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی کی جانب سے جسٹس ریٹائرڈ مظہر عالم میاں خیل کی تعیناتی کی مخالفت کی گئی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈہاک ججز کی تقرری کے لیے 4 ریٹائرڈ ججز کے نام تجویز کیے ہیں، ان ججز میں جسٹس ریٹائرڈ مشیر عالم، جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر، جسٹس ریٹائرڈ مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس ریٹائرڈ طارق مسعود کے نام شامل کیے گئے۔تاہم 16 جولائی کو سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مشیر عالم نے ایڈہاک جج بننے سے معذرت کرلی تھی،اس کے بعد 18 جولائی کو جسٹس (ر) مقبول باقر نے بھی ایڈہاک جج بننے سے معذرت کرلی تھی،آج جسٹس (ر) مظہر عالم میاں خیل نے بھی ایڈہاک جج کی ذمہ داری لینے سے معذرت کر لی تھی۔وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے گزشتہ روز کہا تھا کہ ایڈہاک ججز تعینات ہونے چاہئیں، ایڈہاک ججز کی تعیناتی کی آئین اجازت دیتا ہے اور ان کی تقرری چیف جسٹس نے نہیں بلکہ جوڈیشل کمیشن نے کرنی ہے۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا تھا کہ ایڈہاک ججز کی تقررری چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نہیں کریں گے بلکہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے یہ فیصلہ کرنا ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت میں پڑھ کر سنایا تھا ۔انہوں نے سنی اتحاد کونسل کے حوالے سے کہا کہ ان کا مؤقف وہی ہے جو جسٹس یحیٰی آفریدی نے اپنے نوٹ میں بیان کیا کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ لیا نہ کوئی نشست جیتی جبکہ اس نے مخصوص نشستوں کی فہرست بھی جمع نہیں کروائی۔ انہیں کوئی سیٹ الاٹ نہیں کی جاسکتی۔

 

لہٰذا الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ درست تھا کہ مخصوص نشستوں کو خالی نہیں رکھا جا سکتا لیکن چونکہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کی دوڑ سے باہر نکال کردیا تھا اس لیے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی ہے اور کمیشن کو کسی امیدوار کو آزاد قرار دینے کا اختیار نہیں ہے۔ پی ٹی آئی نے بھی الیکشن کمیشن کے ایسے فیصلے کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا‘۔ پی ٹی آئی نے بھی الیکشن کمیشن کے ایسے فیصلے کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا تھاچیف جسٹس نے بھی پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت مان کر مخصوص نشستیں دینے کا حکم صادر کیا تھا۔ بات 11 یا 8/5 ججز کے فیصلے کی ہے تو اس کو یوں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس فل کورٹ کے 13 ججز میں صرف دو جج صاحبان جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان ایسے جج تھے جنہوں نے سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں رد کرکے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا جس کا مطلب ہے کہ تحریک انصاف یا سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں مل سکتیں جبکہ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں آٹھ ججز کی اکثریت نے تحریک انصاف کو مکمل ریلیف دے کر الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیا,چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے الگ نوٹ ضرور دیے ہیں لیکن انہوں نے بھی تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کی مخالفت نہیں کی۔ اس تناسب سے اس 13 رکنی فل کورٹ میں سے 11 ججز وہ ہیں جنہوں نے قومی اور صوبائی اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی 77 مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو دینے کا فیصلہ دیا اس پورے تنازعہ کی جڑ بلے کا وہ انتخابی نشان تھا جو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو اس لیے نہیں دیا کیونکہ اس نے بارہا انتباہ کے باوجود انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کروائے۔ جب پی ٹی آئی کو سمجھایا گیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات نہ کروانے سے ان کا نقصان ہوسکتا ہے تو تب بات کافی آگے نکل چکی تھی اور سیاسی جماعت نے خانہ پوری کے لیے ایک گاؤں میں کچھ لوگ بلا کر جلدبازی میں انتخابات کروا کر گوہر خان کو نیا چیئرمین منتخب کردیا اور یہی رپورٹ الیکشن کمیشن میں پیش کردی۔ الیکشن کمیشن نے 23 دسمبر 2023ء کو ان انٹرا پارٹی انتخابات کو غیرقانونی قرار دے کر پی ٹی آئی کو بلے کا انتخابی نشان دینے سے انکار کردیا۔ جب معاملہ پشاور ہائی کورٹ میں گیا تو ڈویژنل بینچ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم کرکے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان الاٹ کردیا۔ الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 13 جنوری 2024ء کو الیکشن کمیشن کے فیصلے کو درست قرار دے کر پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔عدالتی فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی کے جتنے امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے، ان سب کو آزاد حیثیت سے الگ الگ انتخابی نشان الاٹ کیے گئے۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس وقت آیا تھا کہ جب انتخابات میں کچھ دن باقی رہ گئے تھے اور مجبوری کی بنا پر امیدواروں کو بیگن، جوتا، قلم دوات، ٹرک، ڈھول، بوتل اور مختلف انتخابی نشانات پر انتخابات میں حصہ لینا پڑا اور اپنے مخالف امیدواروں کو نشانے پر رکھ کر مسلم لیگ (ن) و دیگر جماعتوں کو ان کے سیاسی گڑھ اور مضبوط حلقوں سے شکست سے دوچار کیا تھا اب پی ٹی آئی کا ایک اور امتحان شروع ہوا ۔ انتخابات میں جو کچھ ہوا، کس نے کیا کیا اور کیسے کیا، لیکن پی ٹی آئی کے منتخب اراکین اب آزاد ممبران پارلیمنٹ کہلوائے جانے لگے اور الیکشن کمیشن نے آزاد رکن کی حیثیت میں ان کی کامیابی کے نوٹیفکیشنز بھی جاری کردیے۔ اب دوسرا مرحلہ سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستیں دینے کا ہوتا ہے۔ آئین کی شق 51 واضع کرتی ہے کہ منتخب سیاسی جماعتوں کے ان کی کامیابی کی تناسب سے مخصوص نشستیں الاٹ کی جا سکتی ہیں جس سے مراد آزاد حیثیت میں کامیاب قرار دیے جانے والے گروپ کے پاس مخصوص نشستیں حاصل کرنے کا کوئی قانونی جواز باقی نہیں بچا تھا۔پی ٹی آئی کے اکابرین نے اس پر قانونی ماہرین سے طویل مشاورت کرکے اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ کسی نہ کسی سیاسی، مذہبی اور الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ جماعت کی چھتری کے نیچے جمع ہوجائیں تاکہ انہیں قومی و صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں سے محروم نہ کیا جاسکے۔پاکستان تحریک انصاف کے پاس کئی آپشنز تھے لیکن انہوں نے ایسی جماعت کا انتخاب کیوں کیا جس نے انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا تھا۔ یہ سوال ابھی بھی اٹھ رہے ہیں کی یہ فیصلہ بانی عمران خان نے خود لیا یا یہ فیصلہ خان صاحب کی سیاسی سرپرستوں کا تھا؟ معاملہ ابھی تک ایک راز ہی ہے لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ بات طے ہے کہ یہ فیصلہ کسی قدر درست تھا۔اب پی ٹی آئی، سنی اتحاد کونسل بن گئی یا سنی اتحاد کونسل دو رنگے جھنڈے میں شامل ہوئی؟ کل تک یہ بات کسی کو بھی سمجھ نہیں آرہی تھی۔ حلف برداری کے بعد سنی اتحاد کونسل نے الیکشن کمیشن سے فریاد کی کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ہمارے کامیاب اراکین کے تناسب سے ہمیں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشتیں الاٹ کی جائیں۔سنی اتحاد کونسل/ پی ٹی آئی کی نظر پارلیمنٹ کی کُل 77 مخصوص نشستوں پر تھی جن میں قومی اسمبلی کی 23، پنجاب اسمبلی کی 30، خیبرپختونخوا اسمبلی کی 25 اور سندھ اسمبلی کی تین مخصوص نشستوں شامل تھیں۔ ایوانِ زیریں میں 20 مخصوص نشستیں خواتین اور تین اقلیتوں کے لیے، کے پی اسمبلی میں کل 25 نشستیں جن میں سے 21 خواتین اور چار اقلیتوں کے لیے، سندھ اسمبلی میں تین نشستیں جن میں دو خواتین اور ایک اقلیت کے لیے جبکہ پنجاب اسمبلی میں27 خواتین اور تین اقلیتی نشستیں شامل تھیں۔اس درخواست پر الیکشن کمیشن میں دلائل دیے گئے۔ پارلیمنٹ، وفاقی حکومت، سنی اتحاد کونسل سب کے وکلا جمع ہوئے۔ سب نے اپنا اپنا مؤقف پیش کیا۔ اس منظرنامے میں پی ٹی آئی فریق نہیں تھی بلکہ ان کا مقدمہ سنی اتحاد کونسل لڑ رہی تھی۔ دلائل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے فیصلہ محفوظ کرلیا جو 1-4 اراکین کے تناسب یعنی اکثریت سے سنایا گیا۔الیکشن کمیشن کا فیصلہ یہ تھا کہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی قانون کے مطابق حالیہ انتخابات میں مخصوص نشستوں کے لیے فہرست جمع کروانے کی تاریخ 24 جنوری 2024ء تھی اور اس دوران حتمی تاریخ تک سنی اتحاد کونسل نے کوئی فہرست جمع نہیں کروائی جبکہ تحریک انصاف چونکہ بطور سیاسی پارٹی نہیں رہی تھی، اس لیے ان کے امیدواروں کو آزاد امیدوار قرار دے کر انتخابی نشانات جاری کردیے گئے۔الیکشن کمیشن کے بقول قانون پر عمل نہ کرنے اور فہرست مقررہ مدت میں جمع نہ کروانے پر سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں دی جا سکتیں اور آئین کے مطابق یہ نشستیں صرف سیاسی جماعتوں کو ہی دی جا سکتی ہیں اس لیے کمیشن نے پارٹی پوزیشن کے تناسب سے یہ نشستیں مسلم لیگ (ن)، پی پی پی، جے یو آئی ایف سمیت دیگر جماعتوں کو الاٹ کردیں۔ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی اور کئی دنوں کی سماعت کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو درست قرار دے کر مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو الاٹ کرنے کا حکم صادر کردیا۔ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو پشاور ہائی کورٹ میں بھی سنی اتحاد کونسل نے چیلنج کیا اور اس میں یہ استدعا کی گئی کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر 77 مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دی جائیں۔ 14 مارچ کو پشاور ہائی کورٹ کے پانچ ججز پر مشتمل بینچ نے سنی اتحاد کی اپیل مسترد کرکے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو قانون کے مطابق درست قرار دے دیا۔ اسی طرح اضافی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی یا سنی اتحاد کے بجائے دیگر کامیاب سیاسی جماعتوں کے حصے میں آگئیں۔یہاں سے سپریم کورٹ میں اس مقدمے کی کہانی کی شروعات ہوئی جب سنی اتحاد کونسل نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا تو چیف جسٹس آف پاکستان نے سینیئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین ارکان پر مشتمل بینچ تشکیل دیا جس نے نوٹس جاری کرکے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کردیا جس کے نتیجے میں قومی اور صوبائی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر حلف لینے والے ممبران کی رکنیت بھی معطل کردی۔قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر پارٹی پوزیشن کے مطابق تحریک انصاف/ سنی اتحاد کونسل کی قومی اسمبلی میں کُل 92 نشستیں ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق قومی اسمبلی پارٹی کو 23 نشستیں ملنے کے بعد یہ تعداد 115 ہوجائے گی جوکہ بڑی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) سے7 نشستیں زیادہ ہے کیونکہ ایوانِ زیریں میں مسلم لیگ (ن) کے پاس 108 ممبران موجود ہیں۔حکومتی اتحاد کی دیگر جماعتوں میں سے پی پی پی کے پاس 68، ایم کیوایم 21، مسلم لیگ (ق) 5، استحکام پاکستان پارٹی 4 جبکہ نیشنل پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی اور ضیا لیگ کے پاس ایک ایک نشست موجود ہے۔ اس طرح حکمران اتحاد کے پاس 209 کی اکثریت موجود ہے جبکہ پی ٹی آئی کی اتحادی جماعتوں کو ملا کر اگر عددی اکثریت دیکھی جائے تو کل اراکین کی تعداد 103 بنتی ہے جس میں جمعیت علمائے اسلام کی 8 نشستیں، 8 آزاد اراکین، بلوچستان نیشنل پارٹی، پختون ملی عوامی پارٹی اور وحدت المسلمین کا ایک ایک ممبر ایوان کا حصہ ہے۔الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف/سنی اتحاد کونسل کی نشستیں 104 ہیں جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق انہیں 30 نشستیں الاٹ ہوں گی تو ان کی نشستوں کی تعداد بڑھ کر 134 ہوجائے گی جبکہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) و دیگر کی 238 نشستیں ہیں جن میں اکثریتی جماعت مسلم لیگ جس کے پاس 205 ممبران ہیں جبکہ دیگر جماعتوں میں پیپلز پارٹی 14، پاکستان مسلم لیگ 10، استحکام پاکستان پارٹی 6، مسلم لیگ ضیا، مجلس وحدت مسلمین اور تحریک لبیک پاکستان کی ایک ایک نشست ہے۔
سندھ اسمبلی کی ویب سائٹ کے مطابق تحریک انصاف کے حامی آزاد ممبران کی تعداد 9 ہے، تین مزید ممبران ملنے سے یہ تعداد بڑھ کر 12 ہوجائے گی جبکہ حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے 117 ممبران ہیں، ایم کیو ایم کے 37، ایک ممبر جماعت اسلامی سے ہیں۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کی کل 145 نشستوں میں اکثریت تحریک انصاف کو حاصل ہے جہاں ان کے پاس اب تک 93 نشستیں ہیں جو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں بڑھ کر 117 ہوجائیں گی۔ یہ بات واضع ہے کہ یہ فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں آیا ہے اس کے ساتھ حکمران اتحاد قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت سے محروم ہوگئی ہے۔ اگر فیصلہ ان کے حق میں آتا تو شاید وہ آئین سازی کے کچھ مزید مراحل طے کرلیتے اب ایسا ممکن نہیں لیکن سادہ اکثریت اب بھی ان کے پاس موجود ہے اور یہ اکثریت تب تک موجود رہے گی جب تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پیپلز پارٹی اپنے 68 ممبران کو حکومتی بینچز سے الگ کیا تو وہ حکومت کا آخری دن ہوگا۔پی ٹی آئی اب الیکشن کمیشن بالخصوص چیف الیکشن کمشنر کے استعفیٰ کا مطالبہ کررہی ہے لیکن الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے اس کے پاس جواز ہے کیونکہ اراکین کو آزاد قرار دینے کے پیچھے سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔چیف الیکشن کمشنر کے پاس عہدے پر رہنے کا قانونی جواز موجود ہے۔ پاکستان میں ایسی کوئی نظیر نہیں کہ اس طرح کے سیاسی دباؤ میں آکر اپنے عہدے چھوڑے جائیں۔ دوسری وجہ یہ کہ پاکستان تحریک انصاف پہلے دن ہی سے الیکشن کمیشن ہی نہیں بلکہ کسی بھی ادارے کو شفاف نہیں سمجھتی۔
بات یہ ہے کہ یہ پورا مقدمہ سنی اتحاد کونسل کا تھا۔ الیکشن کمیشن، پشاور ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ تک سنی اتحاد کونسل یہ مقدمہ فریق کے طور پر لڑتی رہی جبکہ پاکستان تحریک انصاف ایک غیرمؤثر یا مہمان اداکار کی طرح پس منظر میں تھی لیکن پی ٹی آئی کو سپریم کورٹ کی طرف سے وہ سب کچھ مل چکا ہے جو انہوں نے مانگا ہی نہیں تھا۔
کسی نے یہ نہیں کہا تھا مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو دی جائیں یا اس مقدمے میں ان سے انتخابی نشان چھن جانے کے حوالے سے کوئی دلیل نہیں دی گئی تھی۔ یہ بھی نہیں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کو اپنی جماعت کی شناخت واپس دی جائے اور پارلیمنٹ میں اس کے اراکین کو اراکین پی ٹی آئی کے طور پر بٹھایا جائے۔ کچھ حلقے یہ تنقید ضرور کررہے ہیں کہ اکثریت ججز نے وہی کام کیا جو کام افتخار چوہدری نے پیپلز پارٹی کی دشمنی میں این آر او کے مقدمہ کا فیصلہ دے کر کیا تھا۔ سپریم کورٹ کے اُس فیصلے کو اب تک تنقید کا سامنا ہے جس میں چیف جسٹس ارشاد حسن خان نے ظفر علی شاہ کیس میں جنرل مشرف کو آئین میں ترمیم کا وہ اختیار بھی دے دیا تھا جو انہوں نے کسی درخواست میں مانگا ہی نہیں تھا۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سےتاثر یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے محروم کرنے والا الیکشن کمیشن کا جو فیصلہ تھا جس پر بعد میں سپریم کورٹ نے مہر ثبت کردی تھی، کچھ جج حضرات نے اس فیصلے کا ازالہ کرکے تحریک انصاف کو وہ ریلیف دے دیا جو انہوں نے مانگا نہیں۔اس سے یہ بھی تاثر جاتا ہے کہ صرف ایک بڑے ادارے میں ہی نہیں بلکہ انصاف کے ادارے میں بھی دھڑا بندی ہے۔