اسلام آباد (ٹی این ایس) غلام مصطفی سہڑ ۔۔۔۔عظیم والدین کا بیٹا

 
0
23

اسلام آباد (ٹی این ایس) کمرے کا دروازہ دھیمی چاپ کے ساتھ کھلا، اور میں قدم رکھتے ہی ایک عجیب سکون اور خادمیت محسوس کرنے لگا، جیسے کسی عوام دوست کا کمرہ ہو جس میں ہر چیز حکمت اور احتساب کی عکاسی کرتی ہو۔ دیواروں پر لگی فائلوں کی قطاریں، لکڑی کی بھاری الماریوں کی چمک، اور ہوا میں موجود خاموشی کی گونج نے ایک ایسا ماحول بنایا تھا جو بظاہر سادہ مگر حقیقت میں طاقت، نظم اور خادمیت سے بھرپور تھا۔

میں ڈسٹرکٹ پریس کلب خانیوال کے صدر راشد بن امیر کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا، اور وہاں فائلوں، موبائلز اور مسائل میں غرق وہ افسر—غلام مصطفی سہڑ—مجھ پر ایسے اثر ڈالے جیسے ایک خاموش طوفان کی شدت مگر شکل میں مکمل سکون۔ یہ مرہم نواز کا وژن ہے، سول سروس کا حقیقی چہرہ، والدین کی تربیت اور اساتذہ کی محنت کا عکس ہے۔ وہ اچھے خاندان اور شرافت والے خون سے تعلق رکھتے ہیں، اور ہر عمل میں ایمانداری، شرافت اور فرض شناسی کی جھلک نمایاں ہے۔ کوئی تکبر نہیں، کوئی نخرہ نہیں، نہ ہی دکھاوے کی چمک۔ وہ صرف کام میں غرق، ہر مسئلے کی حقیقت پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

اگرچہ میرا ان سے ذاتی تعلق نہیں تھا، لیکن ان کے ملنے، بولنے، سننے اور سمجھنے کا انداز فوراً دل کو چھو گیا۔ ہر لفظ میں احتساب کی مٹھاس اور خاموشی کی طاقت جھلک رہی تھی، اور میں فوراً سمجھ گیا کہ یہ شخص معمولی افسر نہیں، بلکہ ضلعی انتظامیہ کا زندہ، چمکتا ہوا اور بااخلاق کردار ہیں۔

میں راشد بن امیر کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے ایک ایسے افسر سے ملوانے کے لیے اپنے ساتھ لایا، ورنہ میں ریونیو خانیوال کے سسٹم کی پیچیدگی اور کند روی دیکھ کر حیران رہ جاتا۔ میرا ذاتی کوئی مسئلہ نہیں تھا، میں صرف سرکاری زمین پر ناجائز قبضہ ختم کروانے کی جدوجہد میں مصروف تھا، مگر کاغذوں، دستخطوں اور سسٹم کی لمبی قطاروں نے میری برداشت کو آزما لیا تھا۔ ہر دستخط کے لیے گھنٹوں انتظار، ہر درخواست پر بے حسی اور تھکا ہوا رویہ—یہ سب کچھ ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے دفن شدہ امید کی دھوپ میں ہم کھڑے ہوں۔

چٹ سسٹم، جسے مریم نواز دفنانا چاہتی ہیں، یہاں بوجھ بن کر سامنے آیا تھا، کچھ لوگوں کی اکڑ اور بے حسی ، اور بے رخی نے دل کو مایوسی سے بھر دیا۔ میں حیرت زدہ، تھکا ہوا اور دل پر بھاری احساس لیے، وہاں کھڑا تھا کہ راشد بن امیر نے مجھے غلام مصطفی سہڑ سے ملوایا۔

میں نے جب غلام مصطفی سہڑ سے ہاتھ ملایا تو ایسا محسوس ہوا جیسے ایک اندرونی توانائی سرایت کر گئی ہو، مگر وہ افسر خندہ پیشانی اور پُرامن انداز سے پیش آیا۔ ہر مصافحہ میں وہ نہ صرف اعتماد بلکہ ایک غیر معمولی گرم جوش سکون بھی منتقل کرتے تھے۔ وہ کھڑے ہو کر سب سے مل رہے تھے، ہر شخص کے ساتھ یکساں رویہ اور احترام سے پیش آ رہے تھے۔

ان میں کوئی غرور یا تکبر نہیں، نہ ہی انسانوں سے خوف محسوس کرتے ہیں۔ ان کا انداز عوام دوست، خادم اور مضبوط شخصیت کا ہے، جو ہر ملاقات میں ظاہر ہوتی ہے۔ ہر حرکت، ہر لب کی مسکراہٹ، اور ہر نظر میں خادمیت کی مٹھاس جھلک رہی تھی، جیسے کسی کے سامنے بیٹھ کر انسان کو اپنی مکمل توجہ، ایمانداری اور شفقت کا احساس دلایا جا رہا ہو۔ ایسے افسر کے سامنے رہ کر انسان فوراً سمجھ جاتا ہے کہ یہ محض حکومتی عہدہ نہیں، بلکہ عوام کے لیے امید اور سکون کا سرچشمہ ہیں۔

غلام مصطفی سہڑ دفتر میں بیٹھے بیوروکریٹس کی طرح محض کاغذ نہیں دیکھتے بلکہ عوام کے بیچ جا کر صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں، چاہے وہ صحت کی مہم ہو، تعلیم کی نگرانی ہو یا کوئی ایمرجنسی ریسپانس۔ ان کی موجودگی میں ہر مہم کی کامیابی کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے۔ ڈینگی اور پولیو جیسی مہمات میں ان کی قیادت نے نہ صرف کیسز میں کمی لائی بلکہ عوامی اعتماد بھی بحال کیا۔

تعلیم اور سماجی خدمات میں بھی ان کی موجودگی واضح ہے۔ کالجز اور سکولز کے مسائل، شادیوں کے NOC، پناہ گاہیں، معذور افراد کی امداد اور چائلڈ لیبر کی روک تھام—یہ سب ان کی نگرانی میں ہوتے ہیں۔ عوامی شکایات کا فوری حل اور پروگرامز کی کامیاب عمل درآمد، یہ سب ان کی کارکردگی کا پیمانہ ہیں۔ ترقیاتی منصوبے، انتخابات، انکراچمنٹ ہٹانا، ٹریفک پلاننگ اور بس سٹینڈز کی نگرانی بھی ان کے کندھوں پر ہیں، اور یہ کام اکثر رپورٹوں میں نظر آتے مگر حقیقت میں ان کا اثر عام شہری تک محدود رہتا ہے۔

خصوصی طور پر سیلاب کے بعد غلام مصطفی سہڑ کی قیادت اور خادمیت سب پر ظاہر ہوئی۔ اجڑے گھروں، بہتے کھیتوں اور ٹوٹ پھوٹ کے شکار مکانوں کے منظر میں وہ سب سے آگے تھے۔ متاثرین کی بحالی، کھیتوں کی دوبارہ آبادی، اور مکانوں کی مرمت کے لیے فوری اقدامات کرنے میں انہوں نے کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ ہر خاندان کی مصیبت، ہر کھیت کے نقصان اور ہر مکان کی تباہی ان کی نظر سے اوجھل نہ رہی۔ وہ نہ صرف حکمت اور منصوبہ بندی سے کام لیتے بلکہ متاثرین کے ساتھ ہمدردی اور انسانی رابطے کے ذریعے ہر مسئلے کا عملی حل یقینی بناتے۔ اجڑے کھیتوں میں پانی کے گہرے نشانات، ٹوٹے مکانوں کی چھتیں، اور مصیبت زدہ خاندانوں کی نظر میں غلام مصطفی سہڑ کی موجودگی ایک امید کی کرن کے مانند تھی۔ لوگ کہتے، “یہ افسر صرف کاغذوں میں نہیں، بلکہ حقیقت میں ہمارا سہارا ہے۔”

غلام مصطفی سہڑ کی قیادت اور عمل میں عوام کی خدمت اور خادمیت ہمیشہ نمایاں رہی۔ سیلاب، زلزلہ یا کسی بھی بحران کے لمحے میں فوری فیصلے اور ٹیم ورک ان کی حقیقی قابلیت کو پرکھتے ہیں۔ یہ وہ لمحے ہیں جب ایمانداری اور فوری ردعمل فرق پیدا کرتے ہیں اور اکثر یہی فرق زندگی اور موت کے درمیان ہوتا ہے۔

ان کی کارکردگی پاکستان کے سول سرونٹس کے لیے معیار کی مانند ہے۔ وہ اپنے فرائض میں ہر لمحہ مکمل توجہ اور ایمانداری دکھاتے ہیں اور ہر چیلنج کو حکمت عملی اور عملی بصیرت سے حل کرتے ہیں۔ پرفارمنس ایویلیوئیشن رپورٹس (PERs) کے معیاروں پر وہ نہ صرف پورا اترتے ہیں بلکہ اکثر توقعات سے بڑھ کر نتائج دیتے ہیں۔ ان کی قیادت میں کام کی رفتار اور معیار دونوں نمایاں ہوتے ہیں۔ PERs میں ان کا نام ہمیشہ اعلی گریڈنگ کے لیے رہتا ہے، کیونکہ غلام مصطفی سہڑ شفافیت، ذمہ داری اور عوامی خدمت کو مقدم رکھتے ہیں، جو ضلعی انتظامیہ میں حقیقی اثر پیدا کرتا ہے۔

غلام مصطفی سہڑ محدود وسائل، سیاسی دباؤ اور متنوع ذمہ داریوں کے باوجود اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ پنجاب کی ڈینگی مہم اور سیلاب متاثرین کی بحالی میں ان کی قیادت سے نہ صرف کیسز اور نقصان میں واضح کمی آئی، بلکہ عوام کا اعتماد بھی بحال ہوا۔ ضلعی کوآرڈینیشن میں مرکزی کردار ادا کرتے ہوئے غلام مصطفی سہڑ عوام کی فلاح، نقصان زدہ کھیتوں اور مکانات کی بحالی کے حقیقی علمبردار ثابت ہوئے۔

ان کے ہر عمل میں ایک واضح خادمیت اور عوامی خدمت کا فلسفہ جھلکتا ہے۔ وہ نہ صرف اپنے عہدے کی ذمہ داری پوری کرتے ہیں بلکہ ہر شہری کے مسئلے کو ذاتی اہمیت دیتے ہیں۔ چاہے کوئی معمولی شکایت ہو یا بڑا ترقیاتی منصوبہ، ہر کام کی رفتار اور معیار میں ان کی محنت کی جھلک نظر آتی ہے۔ ان کے دفتر میں فائلوں کی قطاریں اور دستاویزات کی ترتیب کسی عام بیوروکریٹ کی طرح نہیں، بلکہ ہر فائل ایک کہانی، ہر کاغذ ایک ذمہ داری اور ہر دستخط ایک عہد کی علامت ہے۔

یہ کالم ہر شہری کے لیے ایک پیغام ہے: حقیقی قیادت وہ ہے جو نظر آنے میں کم، کام کرنے میں زیادہ ہو۔ غلام مصطفی سہڑ کی کہانی صرف ایک افسر کی نہیں، بلکہ ایک ضلعی نظام، عوامی خدمت اور انسانی ذمہ داری کی بھی کہانی ہے۔ ان کی محنت، ایمانداری اور خلوص کی بدولت ضلع کی ترقی، عوامی بھلائی اور بحران زدہ علاقوں میں حقیقی مدد ممکن ہوئی ہے، اور یہی وہ معیار ہے جس پر ہر سول سرونٹ کو فخر ہونا چاہیے۔