اسلام آباد(ٹی این ایس) ملک بھر میں پولیو مہم کا آغاز

 
0
69

ملک بھر میں پولیو مہم کا آغاز
(اصغر علی مبارک)
.وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک بھر میں پولیو مہم کا افتتاح کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت صوبوں کے ساتھ مل کر پاکستان کے ماتھے پر لگے پولیو کے داغ کو ختم کردے گی۔
وزیر اعظم نے بچوں کو پولیو کے قطرے پلا کر ملک بھر میں پولیو مہم کا باقاعدہ آغاز کیا۔
اس موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ آج یہاں ہم نے پولیو کی مہم کا آغاز کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہماری اس مہم کا انتہائی قابل ٹیم کی نگرانی میں آغاز ہو رہا ہے اور مجھے پوری امید ہے کہ وفاقی حکومت صوبوں کے ساتھ مل کر پاکستان کے ماتھے پر لگے پولیو کے داغ کو ختم کردے گی۔ان کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ یہ بیماری پاکستان کی سرحدوں سے ہمیشہ کے لیے چلی جائے گی اور دوبارہ کبھی واپس نہیں لوٹے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہماری پولیو ٹیم، پولیو کے اہلکار خاص طور پر جن علاقوں میں سیکیورٹی کا مسئلہ ہوتا ہے، وہاں سیکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ اس مہم کے موثر نتائج سامنے لائیں گے اور آنے والے ماہ و سال میں اس کا خاتمہ ہو گا۔
شہباز شریف نے پولیو ٹیم کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ ہم آپ سب کی مجموعی کاوشوں سے ہم موثر طریقے سے اس چیلنج سے نمٹ سکیں گے اور دوبارہ پولیو پاکستان کی سرحدوں میں سر نہیں اٹھا سکے گا۔
واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے بڑے پیمارے پر شروع کی گئی پولیو مہم کے دوران 115 اضلاع میں 9 ستمبر سے 13 ستمبر تک ویکسینیشن مہم جاری رہے گی۔
وزیراعظم کی پولیو کے خاتمے کے لیے فوکل عائشہ رضا فاروق نے بتایا تھا کہ ٹیمیں 115 اضلاع میں گھر گھر جا کر پانچ سال کی عمر کے 3 کروڑ 30 لاکھ بچوں کو ویکسینیٹ کریں گی۔
اس مہم میں بلوچستان کے 36 اضلاع کو بھی شامل کیا گیا ہے، جہاں رواں سال اب تک 12 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ رواں سال اسلام آباد میں 16 سال بعد پولیو وائرس کا پہلا کیس منظر عام پر آیا تھا اور 2008 کے بعد پہلی بار 8 سالہ بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔

قومی ادارہ برائے صحت کے ریجنل ریفرنس لیبارٹری برائے پولیو نے بتایا تھا کہ اسلام آباد میں سنگجانی ٹول پلازہ کے قریب یونین کونسل رورل 4 میں پولیو کا تازہ کیس رپورٹ ہوا ہے۔
واضح رہے کہ سندھ خاص کر کراچی میں پولیو کی مہم جس تواتر کے ساتھ ہورہی ہے اس لحاظ سے نتیجہ برآمد نہیں ہورہا جو پولیو مہم کے موثر ہونے پر ایک بڑا سوالیہ نشان بناتا ہے اور ساتھ ہی اس سے متعلق کئی سوالات کو جنم دیتا ہے،
جیسے کیا مہم کے دوران استعمال ہونے والی ویکسین کی افادیت توقع سے کم ہے یا پھر لیڈرشپ کی ناکامی ہے جس کی وجہ سے کروڑوں اربوں روپے کی فنڈنگ سے ہونے انسدادِ پولیو مہم اپنی افادیت ثابت کرنے کے بجائے مزید مسائل کا باعث بن رہی ہے۔
کراچی میں ہونے والی حالیہ مہم جس میں پولیو کے ارباِبِ اختیار نے 95 فیصد ٹارگٹ حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے لیکن اصل حقیقت کیا ہے وہ ایک غیر جانب تحقیق کے ذریعے ہی سامنے آسکتی ہے۔ پولیو مہم اور اس سے متعلق ہونے والے دعوؤں کے حوالے سے
صحت کے ماہرین کا خیال ہے کہ پولیو کے اعداد و شمار میں مبینہ ہیرا پھیری کے ذریعے کامیابی کے جھنڈے گارے جارہے ہیں اور سندھ حکومت بھی اس حوالے سے خوش ہے کہ امدادی ادارے ان اعداو شمار کو دیکھ کر مطمئن ہیں اور پولیو کی مد میں مزید امداد دینے کے لئے راضی ہیں۔
اس صورتحال میں عوام ہی شکار ہوں گے۔ سندھ حکومت کو چاہئے کہ وہ جب خود کچھ کرنے کے قابل نہیں تو کم از کم غیر ملکی امدادی اداروں کو ہی عوام کی بھلائی کے لئے کام کرنے دے اور اپنے نااہل بیوروکریسی کو اس سے محفوظ رکھے کیونکہ سائیں سرکار اس میں بھی اشرافیائی حرکتوں سے والدین کو اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلوانے سے دور کر رہی ہے۔

ایک بات سمجھ سے باہر ہے کہ ایمرجنسی آپریشن سینٹر سندھ کے سابق کوآرڈینیٹر فیاض حسین عباسی کو ایسی کیا آفت آگئی تھی کہ انھیں ان کی سیٹ سے ہٹا کر سندھ کو دس سال پیچھے دھکیل دیا گیا کیونکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ فیاض عباسی نے سندھ کو تین سال تک مسلسل پولیو سے محفوظ رکھا اور دنیا سندھ کو پولیو فری کا سرٹیفیکیٹ دینے ہی والی تھی کہ عباسی کو تبدیل کردیا گیا اور ای او سی سندھ کے نئے کووآرڈینیٹر ارشاد علی سوڈھر بنادیئے گئے جن کی برکت سے سندھ ماشاءاللہ تین سال بعد پھر پولیو وائرس کی فصل کی آبیاری کر رہا ہے بلکہ تین سالوں تک ایک بھی کیس نہ آنے والے سندھ میں 2023 سے اب تک پانچ کیسز آگئے جن میں ایک 2024 میں تین کیسز جو کہ کیماڑی کراچی، شکارپور اور حیدرآباد میں سامنے آئے ہیں اور جس طرح پورے سندھ میں انوائرمنٹل سیمپلز مثبت آرہے ہیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ پولیو کی آبیاری کے نتیجے میں ہمیں جلد ہی مزید پھل پولیو سے متاثرہ بچوں کی صورت میں ملیں گے۔

پالیسی کے مطابق پولیو کیس کی مکمل تحقیقات کی جاتی ہے اور اس کی رپورٹ ایک ہفتے کے اندر اندر تمام متعلقہ اداروں اور افراد میں تقسیم کی جاتی ہے تاکہ ماحولیاتی نمونوں کے مثبت آنے سے لے کر بچوں میں پولیو وائرس کی ترسیل تک کی مکمل تفصیلات موجود ہوتی ہیں جس سے متعلقہ افراد اپنے مخصوص ضلعوں میں پولیو کے سدباب کے لئے لائحہ عمل ترتیب دے سکیں لیکن سندھ سرکار کے ناک نیچے چلنے والے ادارے ایمرجنسی آپریشن سینٹر سندھ کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کیس آئے یا کچھ بھی ہو وہ اپنے روزمرہ کے کاموں سے فارغ ہی نہیں ہوتے۔ جب ہی آج تک 2024 میں آنے والے تینوں پولیو کیسز میں سے کسی ایک کی بھی ابھی تک کوئی تحقیقات نہیں کروائی گئی کیونکہ کوآرڈینیٹر سمیت تمام متعلقہ افسران ایک دوسرے پر الزام تراشی اور خود کو محفوظ رکھنے کے لئے اپنے سے نیچے والوں کو بلی کا بکرا بنانے کے ماہر ہیں اس کی تازہ مثال پرمیننٹ ٹرانزٹ پوائنٹ (پی ٹی پی) جو کہ ایم-9 ٹول پلازہ جامشورو پر واقع ہے جہاں سے 9 تجربے کار پولیو کارکنان کو ان کی نوکری برخاست کردیا گیا اور ان کی جگہ مبینہ طور پر رشتے داروں اور جاننے والوں کو نوکری پر رکھا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حیدرآباد سے بھی ایک پولیو کا کیس سامنے آگیا۔ اس طرح کے کئی واقعات کراچی کے سوشل موبالائزرز کے ساتھ بھی ہوچکا ہے جنھیں اپنی دم بچانے کے لئے بھینٹ چڑھادیا گیا۔ حالیہ رپورٹس میں ی ہبات دیکھنے میں آئی ہے کہ سندھ کے چیف سیکریٹری سید آصف حیدر شاہ نے بھی پولیو کے سلسلے میں کئی اہم میٹنگز کی صدارت کی لیکن ذرائع کے مطابق ان میٹنگز کا حال بھی بس نشستن، گفتن، خواردن و برخاستن ہی رہی۔ اب بھلا سائیں سرکار سے کون سوال کرے کہ آخر ان سب واقعات کے ذمہ داران کو کب تک عوام مسلط رکھا جائے گا۔ سندھ کے عوام کا خیال ہے کہ سابق کوآرڈینیٹر فیاض حسین عباسی کو یا تو پھر سے ایمرجنسی آپریشن سینٹر کا کوآرڈینیٹر مقرر کیا جائے یا پھر انھیں وزیااعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا پولیو فوکل پرسن بنایا جائے تاکہ ان کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکے۔پولیو وائرس کی وجہ سے ہونے والی ایک موذی بیماری ہے، پولیو زندگی بھر کے لئے معذوری کا باعث بنتی ہے اور جان لیوا بھی ہوسکتی ہے، اس کے لئے کوئی علاج دستیاب نہیں ہے مگر اس سے ویکسین کی مدد سے بچا جاسکتا ہے۔پولیو مائلائٹس (پولیو) ایک وبائی (تیزی سے پھیلنے والا) مرض ہے جو پولیو وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے، یہ اعصابی نظام پر حملہ آور ہوتا ہے اور ٹانگوں اور جسم کے دوسرے اعضاء کے پٹھوں میں کمزوری کی وجہ بن سکتا ہے یا چند صورتوں میں محض چند گھنٹوں میں موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔پولیو وائرس کسی متاثرہ فرد کے پاخانے سے آلودہ ہوجانے والے پانی یا خوراک میں موجود ہوتا ہے اور منہ کے ذریعے صحت مند افراد کے جسم میں داخل ہو سکتا ہے، وائرس کی تعداد جسم میں جا کر کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور متاثرہ فرد کے جسم سے ایسی جگہوں پرخارج ہوتا ہے جہاں سے بہ آسانی کسی دوسرے انسانی جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔گو کہ ہر شخص کے لئے یہ خطرہ موجود ہے، لیکن پولیو زیادہ تر پانچ سال سے کم عمر کے ایسے بچوں کو متاثر کرتا ہے جنہیں پولیو سے بچاؤکے قطرے نہ پلائے گئے ہوں فالج کا شکار ہونےوالوں میں سے5سے 10 فیصد وائرس کی وجہ سے اپنے سانس کے پٹھوں کی حرکت بند ہوجانے کی وجہ سے مر جاتے ہیں یہ کہ پولیو ٹانگوں اور بازوؤں کو مفلوج کرنے کی وجہ بنتا ہے جس کا علاج ممکن نہیں ہے اور یہ بچوں کو زندگی بھر کے لئے معذور بنا دیتا ہے۔ کچھ مریضوں میں جب وائرس سانس لینے کے عمل کو مفلوج کر دے تو پولیو موت کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔بچوں کو اورل پولیو ویکسین (او پی وی) کے دو قطرے دیے جاتے ہیں گھر گھر مہم اس لئے چلائی جاتی ہیں کہ ہر بچے تک پہنچا جاسکے تاکہ کوئی بھی بچہ پولیو ویکسین کے دو قطروں سے محروم نہ رہ جائے اور اسے پولیو کے خلاف تحفظ فراہم کر دیا جائے۔
پولیو ایک سنگین اور ممکنہ طور پر مہلک متعدی بیماری ہے۔ پولیو وائرس ایک شخص سے دوسرے شخص میں پھیلتا ہے اور دوسرے شخص کو متاثر کرتا ہے۔ یہ وائرس متاثرہ شخص کے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ جس کے نتیجے میں فالج ہو سکتا ہے۔