اسلام آباد(ٹی این ایس) پاک بحریہ 8 ستمبر 1965 کو دشمن کا غرور خاک میں ملا دیا

 
0
328

پاک بحریہ 8 ستمبر 1965 کو دشمن کا غرور خاک میں ملا دیا …….(اصغر علی مبارک)..8 ستمبر یوم بحریہ کے طور پر منایا جاتاہے، جس کا مقصد پاک-بھارت جنگوں کے دوران شہدا اور غازیوں کی جرات وبہادری کی لازوال داستانوں کوخراج تحسین پیش کرناہے۔8 ستمبر پاک بحریہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن ہے، یوم بحریہ اس عزم کے ساتھ منایا گیا کہ سمندری حدود کی حفاظت کے لیے بحری محافظ ہمہ وقت تیار ہیں جانوں کی پرواہ کیے بغیر پاک دھرتی کی حفاظت پاک بحریہ کا اولین مقصد ہے۔ بانی پاکستان محمد علی جناح نے مارچ 1948ءمیں پاکستان نيول اکیڈمی منوڑہ ميں خطاب ميں فرمایاتھا


— “آج پاکستان کے لیے ایک تاریخی دن ہے خاص کر ان لوگوں کے لیے جو بحریہ میں ہيں۔ مملکتِ پاکستان‎ اور اس کے ساتھ ہی ایک نئی پاک بحریہ وجود میں آگئی ہے۔ مجھے فخر ہے کے مجھے اس کا سربراہ اور آپ کے ساتھ مل کر اس کی خدمت کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ یہ میرا اور آپ کا فرض ہے کے آنے والے مہینوں میں اس بحریہ کو ہم ايک مستعد اور خوش باش بحریہ بنائيں” پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق 8 ستمبر 2024 پاکستان نیوی کی جانب سے یومِ بحریہ انتہائی عقیدت اور ملی جزبے سے منایا جارہا ہے۔یوم بحریہ کی تقریبات کا آغاز پاکستان نیوی کی تمام مساجد میں ملکی سلامتی اور کشمیر کی جدوجہد آزادی کی کامیابی کیلئے خصوصی دعاؤں سے ہوا، 8 ستمبر 1965 کو آپریشن سومنات کے دوران پاک بحریہ کے جہازوں نے ہندوستانی بندرگاہ دوارکاپر حملہ کر کے ہندوستانی ریڈار سٹیشن تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ دشمن کا غرور بھی خاک میں ملا دیا ۔پاک بحریہ کی واحد آبدوز غازی نے جنگ کے دوران بحر ہند میں اپنا راج اور دبدبہ قائم رکھا اور 5 گنا بڑی بھارتی بحریہ کو بھارتی بندرگاہ میں مفلوج کر دیا، نیول چیف ایڈمرل نوید اشرف نے اپنے پیغام میں کہا کہ8ستمبر کا دن پاک بحریہ کی تاریخ کا سنہرا باب ہے جو ہمارے سرفروشوں کی لازوال قربانیوں اور جذبوں کی یاد دلاتا ہے پاکستان بحریہ خطے میں ایک مضبوط بحری قوت کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔ نیول چیف پاک بحریہ نے کہا کہ ملکی بحری دفاع کو مزید مضبوط کرنے کیلئے دور حاضر کے جدید جنگی جہا ز و ں، آبدوزوں اور میری ٹائم ایئر کرافٹس کو اپنے بحری بیڑے میں شامل کر رہی ہے، آج کے دن پاکستان نیوی کے آفیسرز ، سی پی اوز ، سیلرز اور سویلینز ملک کے ناقابل تسخیر دفاع اور کسی بھی جارحیت کی صورت میں آخری سانس اور خون کے آخری قطرے تک ثابت قدم رہنے کا عہد کرتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کاکہنا ہے کہ سمندری سرحدوں کے تحفظ میں پاک بحریہ کے کردار کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔پاک بحریہ کی خدمات و قربانیوں کی دل سے قدر کرتے ہیں۔ یوم پاک بحریہ پر اپنے بیان میں وزیراعظم شہبازشریف نے پاکستان بحریہ کے تمام اراکین کو دلی مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ پاک بحریہ کی مستقل مزاجی ان کی فرض شناسی اوروطن سے محبت کا ثبوت ہے، پاک بحریہ کی خدمات اور قربانیوں کی دل سے قدر کرتے ہیں۔پاک بحریہ 15 اگست 1947ءکو پاکستان کی ریاست کے قیام کے ساتھ وجود میں آئی تھی پاک بھارت جنگ 1965 کے وقت پاک بحریہ اچھی طرح تیار تھی۔ نيول چیف ایڈمرل افضل رحمان خان نے پاک بحریہ کے تمام لڑاکا یونٹس کو ساحل کے قريب دفاعی پوزیشن لینے کا حکم دیا، جب بھارتی فضائیہ کی بار بار کی کارروائیوں سے پاک فضائیہ کے آپريشن متاثر ہونا شروع ہوئے تو بحریہ کو تنازعے میں ایک زیادہ جارحانہ کردار سنبھالنا پڑا 2 ستمبر کو بحریہ کی پہلی طويل رينج آبدوز پی اين ايس/ايم غازی کو کموڈور نیازی کی کمان میں ہندوستانی بحریہ کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے اور انٹیلی جنس معلومات فراحم کرنے کيلئے تعینات کيا گيا۔ اسے ہدایت کی گئی کے بھارتی فريگيٹس، میزائیل کشتیاوں اور کورویٹٹیس کو مشغول کرنے کے علاوہ، طیارہ بردار جہاز وکرانت کی طرف سے درپیش خطرات سے بھی نپٹے۔ 8 ستمبر کی رات ایک پاکستانی سکواڈرن جو کے چار تباہ کن ڈيسٹرائر ایک فریگیٹ، ایک کروزر اور ایک آبدوز پہ مشتمل تھا اس نے کموڈور ایس ایم انور کے زیر کمان بھارتی فضائیہ کے دوارکا کے ساحلی قصبے ميں موجود ریڈار بيس پرہ کامیاب حملہ کیا اور ریڈار تنصیبات کو تباہ کر دیا گیا تھا- ہندوستانی بحریہ کسی بھی قسم کی جوابی کارروائی کرنے میں ناکام ہو گئی ۔ کارروائی کے بعدسکواڈرن تیزی سے دوارکا سے نکل گئے ۔ آبدوز غازی بھارتی بحریہ کے ممبئی ميں موجود مغربی بیڑے کے خلاف حرکت میں لائی گئی تھی۔ 22 ستمبر کو سونار سسٹم کے ذريعے لگاتار دو ہفتے پیچھا کرکے ہندوستانی فریگیٹ آئی اين ايس کوٹحر پے چار ہومنگ تارپیدو فائر کيے۔ دو تارپیدو ہندوستانی جہاز پے لگے 23 ستمبر کو، آبدوز غازی اپنے آپریشنز ختم کرکے کراچی روانہ ہو گئی۔ آپریشن دوارکا نے پاک بحریہ کا وقار بہت بڑھا ديا تھا۔ بھارتی بحری کمانڈروں نے پاک بحریہ کی طرف سے درپیش اہم خطرے اور اپنی بحریہ کی پاک بحریہ کا مقابلہ کرنے میں ناکامی کو جانچ ليا تھا۔ ليکن جنگ کے بعد ہندوستانی بحریہ کی آپریشنل صلاحیت پاک بحریہ کے مقابلے کئی گنا بڑھ گئی۔ پاکستان نے امریکا سے ٹینچ آبدوز اور فرانس سے تین ڈيفائن کلاس آبدوزيں حاصل کیں ،اس کے علاوہ بحری اسپیشل فورسز کمانڈوز 1966 میں قائم کی گئی۔ پاک بحریہ 15 اگست 1947ءکو پاکستان کے قیام کے ساتھ وجود میں آئی تھی۔ مسلح افواج کی ریکونسٹوشن کمیٹی نے شاہی ہندوستانی بحریہ کو پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کیا۔ شاہی پاک بحریہ کو دو سلوپ، دو فریگٹیس، چار مانیسویپر، دو بحری ٹرالرز، چار بندرگاہ لانچیز اور 358 اہلکار 180 افسران اور 34ريٹنگ ملے۔ پاکستان کے ساحل پر ڈیلٹا کے علاقے زيادہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو بندرگاہ ڈیفنس موٹر لانچیز کی ایک بڑی تعداد بھی ملی۔ 1956ء میں پاکستان کو ایک جمہوریہ قرار دیا گیا اور دولت مشترکہ کے حصے کے طور پر “شاہی” کا لاحقہ ختم کرديا گیا۔ بحریہ کو ایک مشکل تاریخ سے گذرنا پڑا،بحریہ کو صرف 200 افسران اور 3000 سيلر ملے جن ميں کموڈور ايچ ايم ايس چوہدری سینئر ترین افسر تھے۔ بحریہ کو ناکافی عملے، آپریشنل اڈوں کی کمی اور ٹیکنالوجی اور وسائل کی کمی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ويسے بھی تکنیکی عملے، ساز و سامان اور افسران کے لحاظ سے فوج اور فضائیہ کے مقابلے ميں سب سے چھوٹی شاخ تھی۔ ان تمام مشکلات کے باوجود بحریہ نے درپیش چیلنجوں کا سامنا کیا اور نوزائيدہ پاکستان میں ایک ہائی پروفائل بھرتی پروگرام کا آغاز کیا۔پاک بحریہ نے 1947 کی پاک بھارت جنگ میں حصہ نہيں ليا کيونکہ تمام لڑائی زمین تک محدودتھی۔ تاہم ریئر ایڈمرل جيمز وِلفریڈ جیفورد، چیف آف دی نيول سٹاف نے ایک” ہنگامی منصوبہ”(فریگٹیس اور بحری دفاع کو کام کرنے کے لیے مرحلہ)” بناليا تھا۔ 1948ء میں بحریہ میں بحری جاسوسی کے معملات کے یے ڈائریکٹوریٹ جنرل نيول انٹیل جنس کا محکمہ قائم کیا گیا تھا اور کمانڈر سید محمد احسن نے اس کے پہلے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔ 1947 ء کی جنگ کے خاتمے کے بعد بحریہ نے اپنے اڈوں کی توسیع کا کام شروع کر دیا اور کراچی ميں نيول ہيڈکوارٹرز کا قيام عمل ميں لايا گيا۔ 1949 میں اپنا پہلا او کلاس تباہ کن ( ڈيسٹرائر) بحری جہاز شاہی بحریہ سے خریدا ۔ پاک بحریہ کی آپریشنل تاریخ کا آغاز 1949 کو شاہی بحریہ کے دو عطیہ کردہ تباہ کن ( ڈيسٹرائر) بحری جہازوں پی اين ايس ٹیپو سلطان اور پی اين ايس طارق کے ساتھ ہوا۔ پی اين ايس طارق کی کمان لیفٹیننٹ کمانڈر افضل رحمان خان کو دی گئی جبکے پی اين ايس ٹیپو سلطان 30 ستمبر 1949 کو کمانڈر پی ايس ایونز کی کمان میں پاک بحریہ میں کميشن ہوا۔ ان دو جہازوں سے 25ويں تباہ کن( ڈيسٹرائر) سکواڈرن کی تشکیل دی گئی۔ 1950ء میں بحریہ ميں قوميتی پروگرام کو فروخ ديا گيا، جس میں مقامی افسران کی بڑی تعداد ميں ترقی دی گئی۔ ڈاکيارڈ، لاجسٹکس اور انجینرنگ کے اڈوں کی تشکیل ہوئی، توانا کوششوں سے مشرقی پاکستان میں بحری موجودگی کو فروخ ديا گيا تاکے مشرقی پاکستان سے لوگوں کی بھرتی کے لیے مواقع پیدا ہوں۔ اس مدت کے دوران شاہی بحریہ کے افسران کی جگہ مقامی افسران کو خاص اور کلیدی عہدوں پے لگايا گيا۔ ریئر ایڈمرل جيمز وِلفریڈ جیفورد بحریہ کے پہلے سربراہ کے طور پر جبکہ کمانڈر خالد جمیل نے بحریہ کے پہلے پاکستانی نائب سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ 1950 کی دہائی میں، وزارت خزانہ نے پاک فوج کی کور آف انجینئرز کو کراچی میں بحری ڈاکيارڈ اور نيول ہيڈکوارٹرز کی تعمیر کی زمہ داری سونپی۔ اس وقت کے دوران شاہی بحریہ کی سرپرستی میں بحریہ کے بحری جہازوں نے خیر سگالی مشنوں کی ایک بڑی تعداد ميں شرکت کی۔ پاک بحریہ کے بحری جہازوں نے دنیا بھر کا دورہ کیا۔ 1950 میں کموڈور چوہدری نے پی اين ايس مہران کی کمان سنبھالی۔ 1953ء میں وہ بحریہ کے پہلے پاکستانی سربراہ بن گئے۔ 25ويں تباہ کن( ڈيسٹرائر) سکواڈرن کی کمان کيپٹن رومولڈ نالیکز کی ٹیمانسک نے سنبھالی۔ رومولڈ نالیکز کی ٹیمانسک پاک بحریہ میں خدمات انجام دینے والے پہلے پولش افسر تھے۔ 1956ء میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر آئین منظور کیا اور پاکستان کو ایک اسلامی جمہوریہ قرار دیا۔ تب بحریہ کے نام سے “شاہی” کا لاحقہ ختم کرديا گیا اور پاک بحریہ نامزد کیا گیا اور نيول جیک میں ملکہ کے رنگ کی جگہ پاکستان کے پرچم کے سبز اور سفید رنگ نے لے لی۔ تینوں مسلح افواج کی سنيارٹی کی ترتیب بحریہ، فوج اور فضائیہ سے تبدیل کرکے فوج، بحریہ اور فضائیہ کردی گئی۔ فروری 1956ء میں برطانوی حکومت نے پاکستان کے ليے کئی اہم لڑاکا بحری جہازوں کا اعلان کیا يہ جہاز ایک کروزر اور چار تباہ کن( ڈيسٹرائر), امریکی فوجی امدادی پروگرام کے تحت دستیاب فنڈز سے خریدے گئے۔ 1956ء سے 1963 کے درميان چند اضافی جہازوں کا حصول جن میں دو تباہ کن( ڈيسٹرائر)، آٹھ ساحلی مانیسویپرس اور ایک تيل ٹينکر جہاز، کمیونسٹ مخالف سمجھوتوں سیٹو اورسينٹو میں پاکستان کی شرکت کا براہ راست نتیجہ تھا۔ اس عرصے کے دوران بحریہ نے پہلی آبدوز حاصل کرنے کی کوشش تھی لیکن پاکستان میں بگڑتی ہوئی سیاسی صورت حال کی وجہ سے يہ کوشش ناکام ہو گئی۔ اگست 2012 میں پاک بحریہ نے بحری سٹریٹیجک فورس کمانڈ ہیڈکوارٹر کا افتتاح کيا، جس کا مقصد جوابی جوہری حملے کی صلاحیت کی نگرانی ہے11 سے 21 مئی 2008 کے درمیان، پاکستانی جنگی بحری جہازوں پی اين ايس بدر ، پی اين ايس شاہجہان , پی اين ايس نصر اور پاک فضائیہ کی بارود ڈسپوزل ٹیم نے شمالی بحیرہ عرب ميں”انسپائرڈ یونین”نامی کثیر الملکی مشقوں میں امریکی بحریہ کے تباہ کن( ڈيسٹرائر) جہازوں کورتس اور روز کے ہمراہ شرکت کی۔پاک بحریہ نے کچھ امن کارروائیوں ميں جن ميں خاص طور پر 26 دسمبر 2004 ء کو ہونے والا سانحہ سونامی تھا حصہ ليا۔ پاکستان نے سری لنکا، بنگلہ دیش اور مالدیپ ميں امداد اور بچاؤ کے کام میں مدد کرنے کے لیے بحری جہاز روانہ کيے۔ پاکستان بحریہ کے روانہ کردہ بحری جہازوں ميں دو جنگی بحری جہاز، پی اين ايس طارق،پی اين ايس نصر اور لوجسٹک سپورٹ جہاز شامل تھے۔ بحریہ کے سربراہ چيف آف نيول اسٹاف ایڈمرل کی ہدايات کے تحت، فوری طور پر پاک بحریہ کے جہازوں نے مالدیپ کی حکومت کی مدد کرتے ہوئے جزائر سے وہاں پھنسے لوگوں کے انخلاء کو يقينی بنايا۔ پاک بحریہ نے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر سفارتی اور مالی امداد کے ساتھ دو مزید جہاز انڈونیشیا اور سری لنکا کے لیے بھیجے۔ بعد ازاں پاک بحریہ نے ایک امدادی مشن کے تحت سری لنکا کو دو مزید بحری جہاز پی اين ايس خيبر اور پی اين ايس معاون بھیجے۔ امدادی کارروائیوں کا دائرہ بنگلہ دیش تک پھلايا گيا اور پاکستان کی دیگر مسلح افواج کے یونٹوں کو لے کر پاکستان بحریہ کے جہاز، بنگلہ دیش میں دسمبر 1971ء کے بعد پہلی بار پہنچے۔1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران پی اين ايس/ايم غازی آبدوز پراسرار حالات میں اپنے سيلروں اور افسروں سميت 1971 کی جنگ ميں ڈوب گئی تھی بحریہ نے “آپریشن مدد” کے تحت پاکستان بھر میں اگست 2010 ميں 352,291 سے زائد افراد کو بچایا۔ بحریہ نے سیلاب زدگان کے لیے 43,850 کلو خوراک اور امدادی سامان فراہم کيا۔بحریہ 2006 سے ملک بھر دہشت گردی کے خلاف مہم کے حصہ کے طور پر دہشت گرد عناصر کی سراغ رسانی کر رہی ہے۔ فوج اور فضائیہ پر دباؤ کو کم کرنے کے لیے بحریہ نے شمالی پاکستان میں بے شمار آپریشنز کيے اور اس کے زمينی لڑاکا دستوں نے زمينی فوج کے شانہ بشانہ طالبان کيخلاف مغربی سرحدوں پے لڑائی ميں حصہ ليا۔ 22 مئی 2011 کو پاکستانی طالبان کے ساتھ بحریہ کی پہلی جھڑپ سندھ میں سب سے گنجان آباد پاکستانی فوجی تنصیب پاک فضائیہ کے فیصل ایئر فورس بیس کراچی کے قریب واقع بحری ہوائی اڈے پی اين ايس مہران بحری ہوائی بازو کے جہازوں کے بیس میں ہوئی۔ اس دہشت گردانہ حملے کے دوران تقریباً 15 حملہ آور کار ہلاک ہو ئےپاک بحریہ پاکستان کی بحری حدود اور سمندری اور ساحلی مفادات کی محافظ ہے۔ یہ پاکستان کی دفاعی افواج کا حصہ ہے۔ پاک بحریہ پاکستان کی دفاعی افواج کے بحری جنگ وجدل کی شاخ ہے یہ پاکستان کی 1,046 کلومیٹر لمبی ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ بحیرہ عرب اور اہم شہری بندرگاہوں اور فوجی اڈوں کے دفاع کی ذمہ دار ہے۔ پاکستان کے دفاع کے لیے پاک بحریہ کا موجودہ اور بنیادی کردار ہے۔ اکیسویں صدی میں پاک بحریہ نے محدود بیرون ملک آپريشنز کیے اور پاکستان انترکٹک پروگرام کے قیام میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے پاک بحریہ جدت و توسیع کے مراحل سے گذر رہی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی اس کا اہم کردار رہا ہے۔ 2001ء سے پاک بحریہ نے اپنی آپریشنل گنجائش کو بڑھایا اور عالمی دہشت گردی، منشیات سمگلنگ اور قزاقی کے خطرے کا مقابلہ کرنے کی قومی اور بین الاقوامی ذمہ داری میں تيزی لائی۔ 2004 میں پاکستان نیٹو مشترکہ ٹاسک فورس کا رکن بن گیا۔ پاکستان کے آئین کے تحت صدر پاکستان پاکستانی مسلح افواج کا کمانڈر ان چیف ہوتا ہے۔ چیف آف نيول اسٹاف چار ستارے والا ایڈمرل ہوتا ہے پاک بحریہ کا سربراہ ہوتا ہے جس کو وزیر اعظم پاکستان صدر پاکستان سے مشاورت کے بعد مقرر کرتا ہےجدید بحری جنگی جہاز پی این ایس بابر اور پی این ایس حنین پاک بحریہ کے بیڑے میں شامل ہوگئےہیں ۔پاک بحریہ کے بیڑے میں دو نئے اسٹیٹ آف دی آرٹ جہاز پی این ایس بابر اور پی این ایس حنین جدید ترین ٹیکنالوجی اور میزائل سسٹم سے لیس ہیں۔ صدر زرداری نے کہا کہ پی این ایس بابر اور حنین کی شمولیت سے پاک بحریہ کی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا۔ نیول چیف ایڈمرل نوید اشرف نے بھی تقریب سے خطاب کیا اور کہا کہ دونوں جہاز جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں، روایتی اور غیر روایتی خطرات سے نمٹنے کیلئے پاک بحریہ کی آپریشنل تیاریاں ضروری ہیں، منصوبوں میں مدد دینے پر ترکی اور رومانیہ کے مشکور ہیں۔پی این ایس حنین اور پی این ایس بابر بیک وقت سمندر میں موجود جہاز، گہرے پانیوں میں چھپی آبدوز اور فضا میں اڑتے دشمن کے ائیر کرافٹس کو نشانہ بناسکتے ہیں یہ جہاز جہاں دفاعی ضروریات پوری کرتے ہیں تو وہیں انہیں سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن کیلئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔