چین مخالف اتحاد ’کواڈ‘ پاک چین سی پیک پراجیکٹ کے لیے مسئلہ؟ (. .اصغر علی مبارک. ..).
سی پیک بی آر آئی کا فلیگ شپ پراجیکٹ ہے اور کواڈ میں شامل چین مخالف عناصر چین پاکستان تعلقات اور سی پیک کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
چین نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے تحت پاکستان میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کے نام سے ایک پراجیکٹ شروع کیا، جس کے تحت توانائی، معیشت، ٹرانسپورٹ، تجارت اور دوسرے کئی شعبوں میں کام جاری ہے۔
چین مخالف اتحاد ’کواڈ‘ بغیر کسی شک و شبے کے ایک سی پیک مخالف اتحاد ہے، پاکستان اورچین کے درمیان ’ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہرے‘ تعلقات موجود ہیں، جبکہ بھارت اور پاکستان دائمی دشمنی میں الجھے ہوئے ہیں۔دوسری طرف امریکہ اور بھارت خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کو بھی شک اور ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مقصد خطے میں چین کے اثر رسوخ پر کنٹرول حاصل کرنا ہے چین نے کواڈ پلان کی بھرپور مخالفت کی۔ کیا چین مخالف اتحاد ’کواڈ‘ پاکستان چین کے سی پیک پراجیکٹ کے لیے معاشی مسائل کا باعث بن سکتا ہے؟
سی پیک پر اعتراضات اٹھانے والے پاکستان چین تعلقات کے علاوہ اس پراجیکٹ کو بھی کمزور کرنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ حقیقتا ’کواڈ‘ کا مقصد ایک مخصوص ہدف ہی ہےبھارت کے خلاف توازن قائم کرنے کی پاکستان کی کوششوں میں چین ایک اہم ستون رہا ہے امریکہ چین کے خلاف اپنے اہداف کے حصول کی غرض سے بھارت اور دوسرے ممالک کو استعمال کر رہا ہے کواڈ کے ایک اعلامیے میں ’ایک آزاد اور کھلے انڈوپیسفک کا مشترکہ وژن‘ پیش یا گیا، اور مشرقی اور جنوبی بحیرہ چین میں ایک مخصوص اصول پر مبنی میری ٹائم آرڈر جاری کیا گیا، جس کا مقصد کواڈ رکن ممالک کا چینی سمندری دعوؤں کا مقابلہ کرنا تھا۔
انڈوپیسفک میں چین ایک بڑا ملک ہے، جو بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کے ذریعے خطے اور دنیا میں اپنا اثر رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے اور امریکہ کے لیے ایک مستقل درد سر بنتا جا رہا ہے۔ بی آر آئی چین کا ایسا منصوبہ ہے جس کے مقاصد میں بیجنگ کا بین الاقوامی تجارت محفوظ تجارتی راستے بنانے، چینی کمپنیوں کے لیے بیرون ملک منڈی کی فراہمی، اور چین کے وسطی صوبوں کی معیشتوں کو متحرک کرنے کی کوششیں شامل ہیں۔ چین ہی وہ پہلا ملک ہے جس نے کواڈ کو ایشیائی نیٹو قرار دیتے ہوئے اس کی سفارتی طور پر مخالفت کی تھی اورچین ہی کی مخالفت کے باعث آسٹریلیا ابتدا میں اتحاد سے علیحدگی اختیار کر گیا تھا۔امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کا کواڈ (کواڈرلیٹرل سکیورٹی ڈائیلاگ) کے نام سے کیےجانا جانے والا اتحاد بنیادی طور پر چین مخالف ہونے کے باعث پاکستان کے لیے بلاواسطہ سکیورٹی اور معاشی مسائل کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ بین الاقوامی امور کے ماہرین چار انڈوپیسفک ممالک کے اتحاد میں بھارت کی موجودگی کو پاکستان کے لیے تشویش کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ کواڈ پاکستان کے لیے دو حوالوں سے اہم ہے، جن میں چار رکنی اتحاد کا چین مخالف ہونے کے علاوہ اس میں بھارت کی موجودگی ہیں۔دوسری طرف چین بھارت چپقلش بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے اور کواڈ میں بھارت کی موجودگی بھی اسے چین مخالف ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ایک مشترکہ بیان میں رکن ممالک نے خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت کا براہ راست ذکر کیے بغیر واضح کیا کہ انہیں کہا سے خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔کواڈ کے بیان میں یوکرین کے تنازع کا بھی حوالہ دیا گیا معاشی طور پر مضبوط پاکستان، کسی بھی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہوگا.امریکہ اور بھارت چین کے بڑھتے اثر و رسوخ سے خائف ہیں,
امریکہ بحرہ ہند میں اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے، اور ایسی کسی کوشش سے چین کا متاثر ہونا لازمی ہے، جو چین کے قریب ہونے کے باعث پاکستان کے لیے نقصان کا باعث بن سکتا ہے امریکہ پاکستان سے کولڈ وار والا کام لینا چاہتا ہے، اور اس مرتبہ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان چین کے مفادات کے خلاف کام کرے۔ لیکن پاکستان کے لیے ایسا ممکن نہیں ہے، کیونکہ پاک چین تعلقات پاکستانی معیشت کے لیے بہت ضروری ہیں کواڈ جتنا مضبوط ہوگا پاکستان کے مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے، کیونکہ اس کا براہ راست اثر پاکستان کی سکیورٹی پالیسی پر پڑ سکتا ہے۔پاکستان کو جیو اکنامکس پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے پاکستانی عوام کی معاشی بہبود کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کے لیے اپنے جغرافیے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ معاشی طور پر مضبوط پاکستان کسی بھی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہو سکتا ہے۔ اندرون طور پر معاشی استحکام ہی پاکستان کو کسی بین الاقوامی سازش یا مخالفت سے بچا سکتا ہے۔ پاکستان کو سیاسی اور معاشی استحکام کی کوششوں کو تیز کرنا ہو گا، جس کے لیے سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کے کردار اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان دنیا میں کسی امریکہ مخالف اتحاد میں شامل ہو کر بھی اپنے مفادات کا تحفظ کر سکتا ہے۔
اس سلسلے میں روس اور ایران چین اور پاکستان کے ساتھ مل کر ایک پر اثر بلاک کی شکل میں اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اقدامات کر سکتے ہیں۔ پاکستان، روس، چین، ایران اور ترکی کے درمیان اتحاد امریکہ اور بھارت مخالف ایجنڈے پر اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی چھٹی سالانہ سربراہ میٹنگ میں کواڈ رہنماؤں سے ہاٹ مائیک پر کی جانے والی گفتگو سامنے آگئی ہے۔ ڈیلاویر میں امریکی صدر جو بائیڈن کی صدارت میں کواڈ رہنماؤں کا اجلاس ہوا جس میں امریکی صدر کے علاوہ جاپان، آسٹریلیا اور بھارت کے وزرائے اعظم نے شرکت کی۔اس سربراہی اجلاس کو بہت اہم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اس کے بحرالکاہل اور بحیرہ ہند کے خطے میں دفاعی اور سلامتی کے حوالے سے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اجلاس کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن کی کواڈ رہنماؤں سے ہاٹ مائیک پر کی جانے والی گفتگو منظر عام پر آگئی۔ بتایا گیا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے ریمارکس دیے کہ چین مسلسل جارحانہ رویے سے مختلف محاذوں پر ہمارا امتحان لے رہا ہے جس میں معاشی اور ٹیکنالوجی کے میدان بھی شامل ہیں، لیکن ہم یقین رکھتے ہیں کہ بہترین مقابلے کے لیے بہترین سفارتکاری کی ضرورت ہوتی ہے۔کواڈ اجلاس کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن کو یہ کہتے بھی سنا گیا کہ چین کے صدر شی جن پنگ اپنے جارحانہ مفادات کے لیے سفارتی اسپیس حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔امریکی صدر جو بائیڈن کے ریمارکس جنوب اور مشرقی چین کے سمندری تنازع کے حوالے سے انتہائی اہم ہیں، بین الاقوامی ٹربیونل کے مطابق چین کا اس سمندری خطے پر کوئی قانونی حق نہیں ہے تاہم چین کا واضح مؤقف ہے کہ پورا ساؤتھ چائنا سمندر ان کی ملکیت ہے۔جو بائیڈن کا کواڈ رہنماؤں کے اجلاس میں یہ بھی کہنا تھا چین کے صدر کا تمام فوکس اندرونی معاشی چیلنجز پر ہے تاکہ وہ چین کے اندر ہونے والی افراتفری کو کم کر سکیں۔کواڈ سمٹ میں رہنماو ں نےبحیرہ جنوبی چین میں چین اور اس کے پڑوسیوں کے درمیان تنازعے کے بارے میں بات چیت کی ہے۔چین کے صدر شی جن پنگ کواڈ پر اعتراض کرتے رہے ہیں۔ وہ اسے بیجنگ کو گھیرنے اور تنازعات کو بڑھانے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔امریکی صدر جو بائیڈن نےکواڈ سمٹ میں آسٹریلیا، بھارت اور جاپان کے رہنماؤں کا امریکی ریاست ڈیلاویئر میں خیرمقدم کیا اور چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف سفارتی اقدامات پر بھی تبادلہ خیال کیا ۔سمٹ کے ایجنڈے میں بحر ہند میں سکیورٹی تعاون کو بڑھانا اور انڈوپیسیفک کے پانیوں میں سرگرم غیر قانونی ماہی گیری کے بحری بیڑوں، جن میں سے زیادہ تر چینی ہیں، کو ٹریک کرنے میں پیش رفت شامل ہیں۔صدر بائیڈن 5 نومبر 2024کے انتخابات کے بعد عہدہ صدارت سے سبکدوش ہونے والے ہیں۔ امسال صدارتی مقابلہ ان کی نائب صدر کملا ہیرس اور ریپبلکن ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کواڈ اتحاد کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کر چکے ہیں. ایک واضح سوال یہ ہے کہ کیا جو بائیڈن کی مدت صدارت ختم ہونے کے بعد بھی کواڈ گروپ باقی رہ سکے گا۔ اگر ٹرمپ جیت گئے، تو وہ اگلے سال وائٹ ہاوس میں ہوں گے جب کہ جاپانی وزیر اعظم فومیو کیشیدا بھی اگلے ماہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔ایک سینئر امریکی اہلکار نے کہاہے کہ ”کواڈ سمٹ کے دوران بہت سے مختلف امور اور باتیں دیکھنے کو ملیں گے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ کواڈ ایک دو طرفہ ادارہ ہے، جو باقی رہے گایہ کوئی راز نہیں ہے کہ یہ ایک ایسی شراکت داری ہے، جو اگرچہ چین کے خلاف نہیں ہے، لیکن چین کا متبادل پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے سینٹر فار نیو امریکن سکیورٹی میں ایشیا سے متعلق پالیسی کی ماہر لیزا کرٹس کے مطابق، ”کواڈ بحری سکیورٹی کا نیا اقدام چین کو ایک بہت مضبوط اشارہ بھیجے گا، کہ اس کی سمندری ‘غنڈہ گردی‘ ناقابل قبول ہے، اور یہ کہ اس اتحاد کے ہم خیال ممالک کی طرف سے مربوط کارروائی کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا جائے گا۔چینی صدر کواڈ پر اعتراض کرتے رہے ہیں۔ وہ اسے بیجنگ کو گھیرنے اور تنازعات کو بڑھانے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔چین تقریباً پورے جنوبی بحیرہ چین پر اپنا دعویٰ کرتا ہے، جس میں فلپائن، برونائی، ملائیشیا اور ویتنام کے خصوصی اقتصادی زون کے علاقے بھی شامل ہے۔ چین مشرقی بحیرہ چین کے ان علاقوں پر بھی اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے، جنہیں جاپان اور تائیوان اپنا قرار دیتے ہیں۔ چین خود مختار تائیوان کو بھی اپنا علیحدگی پسند صوبہ سمجھتا ہے۔بھارت، امریکہ،آسٹریلیا اور جاپان پر مشتمل گروپ “کواڈ” کے سربراہوں نے 4 مارچ 2022 کو تائیوان کے حوالے سے ایک ہنگامی میٹنگ کی۔ ان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ یوکرین میں جو کچھ ہو رہا ہے ویسا انڈوپیسیفیک خطے میں ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔میٹنگ کے بعد ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ خطے کے تمام ملکوں کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام ہونا چاہیے تاکہ وہ فوجی، اقتصادی اور سیاسی دباؤ سے آزا د رہیں۔جو بائیڈن نے اپنے اختلافات کو تصادم میں بدلے بغیر چین کا مقابلہ کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے، اور وہ جلد ہی چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ دوبارہ بات کرنے والے ہیں۔ لیکن چین کے ساتھ تعلقات پر توجہ مرکوز کرنے کی ان کی خواہش مشرق وسطیٰ میں تنازعات اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے پیچھے چلی گئی ہے۔اسی دوران سابق امریکی صدر اور موجودہ صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت اگلی کواڈ میٹنگ کی میزبانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔امریکہ کی طرف سے سربراہ کانفرنس 2024 کی میزبانی کے بعد بھارت کی اگلی کواڈ 2025 میں سربراہ کانفرنس کی میزبانی کی درخواست قبول کرلی ہے،کواڈ کی میٹنگ میں صحت عامہ، کینسر کے علاج، ٹیکنالوجی اور بنیادی ڈھانچے کے اقدامات پر بھی بات چیت متوقع ہے۔کواڈ کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف پانچ سال پہلے تک یہ گروپ صرف ایک تصور تھا۔ سنہ 2017 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کو اس کے خطے میں الجھائے رکھنے کی کوشش میں اس گروپ کو عملی شکل دینے کے لیے پیش رفت کی تھی۔اس گروپ میں شامل چار ملکوں کے چین کے ساتھ تعلقات میں بتدریج بگاڑ کی وجہ سے اس کی اہمیت میں اضافہ ہو گیا ہے۔اس گروپ کے حالیہ اجلاس میں بحیرہ ہند اور بحرالکاہل کے خطے پر گفتگو مرکوز رہے گی۔کواڈ گروپ میں مذاکرات کو باہمی مفادات کے مسائل پر مرکوز رکھنے پر اتفاق ہے اور ان میں چین بلاشبہ ایک مشترکہ تشویش کا باعث ہے۔خطے میں جہاں سمندری حدود پر تنازعات موجود ہیں اور انڈیا کی شمالی سرحد پر جھگڑا ہے، چین کی پالیسی میں جارحیت کا عنصر تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔چین اپنی بحری قوت میں اضافے کے لیے بے شمار پیسہ خرچ کر رہا ہے اور حال ہی میں چین نے سولومن جزائر کے ساتھ ایک سکیورٹی معاہدہ کیا ہے جس سے آسٹریلیا کو شدید تشویش لاحق ہو گئی ہے۔اس معاہدے کا جو مسوداہ سامنے آیا ہے اور جس کی تصدیق آسٹریلیا کی حکومت نے کر دی ہے، اس کے تحت چین کے بحری جنگی جہاز ان جزائر پر لنگر انداز ہو سکیں گے اور چین ان جزائر میں امن و عامہ قائم رکھنے کے لیے سکیورٹی اہلکار بھی بھیج سکتا ہے۔چین کی بحریہ کی طرف سے جاپانی سمندری حدود کی خلاف ورزیوں پر جاپان کا کہنا ہے کہ یہ ایک معمول بن گیا ہے۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو یہ ظاہر ہے کہ وہ خطے میں اپنے مفادات کا تحفظ کرنا چاہتا ہےامریکہ کی قیادت میں انڈو پیسیفک اکنامک فریم ورک (آئی پی ای ایف) کا آغاز، جس میں 13 علاقائی ملک شامل ہیں، اس سمت میں ایک قدم ہے۔ اس کا مقصد خطے میں علاقائی ترقی، استحکام اور شمولیت کو فروغ دینا ہے۔ یہ امریکی صدر جو بائیڈن کی واشنگٹن میں ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشنز (آسیان) کے رہنماؤں کے ساتھ حالیہ ملاقات کے بعد ہوا ہے۔اس خطے کی اہمیت کو اس حقیقت سے سمجھا جا سکتا ہے کہ اس میں دنیا کی سب سے زیادہ استعمال ہونے والی سمندری گزرگاہیں ہیں، جن میں آبنائے ملاکا بھی شامل ہے۔ دنیا کی تقریباً 30-40 فیصد تجارت، بشمول مال اور خام تیل، ان راستوں سے ہوتی ہے۔کواڈ کے پاس سائبر سکیورٹی، صحت، انفراسٹرکچر اور تعلیم سمیت متعدد ورکنگ گروپس ہیں کواڈ میں افغانستان اور شمالی کوریا کے جوہری پروگرام جیسے مسائل پر بات ہوئی ہے۔ صدر بائیڈن نے حال ہی میں چین کو خبردار کیا تھا کہ اگر اس جزیرے پر حملہ ہوا تو امریکہ جزیرے کی حفاظت کے لیے فوجی مداخلت کرے گا۔ آسیان اور کواڈ دونوں گروپوں میں شامل کئی ممالک کا چین کے ساتھ تجارتی حجم بہت زیادہ ہے اور وہ بیجنگ کے ساتھ کسی بھی براہ راست تصادم سے بچنے کی کوشش کریں گے، کم از کم اس وقت تک جب تک کہ کواڈ خطے میں ایک سکیورٹی فراہم کنندہ کے طور پر ابھر کر سامنے نہیں آتا۔مزید برآں، بھارت کئی کثیر الجہتی فورمز میں چین کے ساتھ شراکت دار ہے، بشمول برکس – جس میں روس، جنوبی افریقہ اور برازیل بھی شامل ہیں۔کواڈ نے ایک طویل سفر طے کیا ہے لیکن اس کا اب بھی ایک غیر رسمی ڈھانچہ ہے اور اس کا کوئی سیکرٹریٹ نہیں ہے۔ اس لیے اسے ترقی کرتے رہنے کی ضرورت ہےکواڈ کے بارے میں بیجنگ کا ابتدائی ردعمل اسے مسترد کرنا تھا، یہ کہتے ہوئے کہ یہ گروپ ’سمندری جھاگ کی طرح پھیل جائے گا‘۔ لیکن بعد میں اس نے اس گروپ پر اپنی تنقید کو تیز کیا اور اسے ’ایشیئن نیٹو‘ کہا۔ چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ کواڈ ’چین پر قابو پانے کے لیے‘ تشکیل دیا گیا تھا۔چین نے جنوبی اور مشرقی بحیرہ چین کے متنازع حصوں میں سمندری نظام ’زبردستی تبدیل‘ کرنے کے الزامات کو مسترد کیا ہےچینی وزارت خارجہ نے انڈین اور جاپانی رہنماؤں کی جانب سے ’معاشی زبردستی‘ اور ’یکطرفہ کوششوں‘ کے بیانات کو مسترد کیا ۔چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ’جھوٹ اور الزامات کی بنیاد پر سفارتکاری بالکل بھی تعمیری نہیں ان کا کہنا تھا کہ ’معاشی زبردستی کی جائے پیدائش اور صدر دفتر واشنگٹن میں ہے۔ پہلی بات چین دھمکیاں نہیں دیتا اور نہ ہی تجارتی پابندیاں عائد کرتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ چین اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرتا۔ تیسری بات یہ کہ چین مختلف ممالک میں کمپنیوں کو بلاوجہ دباتا نہیں ہے۔ کسی بھی صورت میں معاشی زبردستی کا الزام چین پر عائد نہیں کیا جا سکتا۔خیال ر ہے کہ کواڈ اتحاد میں ایشیا پیسیفک علاقے میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ پر بات ہورہی ہے کواڈ یا کواڈرلیٹرل سکیورٹی ڈائیلاگ انڈوپیسفک کے کنارے پڑے چار ممالک، امریکہ، بھارت، آسٹریلیا اور جاپان کے درمیان ایک غیررسمی سٹریٹجک فورم ہے، جس کا خیال سب سے پہلے 2007 میں اس وقت کے جاپانی وزیر اعظم شنزو آبے نے پیش کیا تھا۔
درحقیقت کواڈ کا خیال 2004 میں سمندری طوفان سونامی کے بعد آیا، جب بھارت نے بحرالکاہل میں اپنے علاقوں اور پڑوسی ممالک کے لیے امدادی کارروائیاں شروع کیں، جن میں بعد ازاں امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا بھی شامل ہو گئے۔چین کے احتجاج اور تنقید کے باعث آسٹریلیا نے کواڈ سے دستبرداری اختیار کر لی، تاہم 2010 میں واشنگٹن اور سڈنی کے درمیان فوجی تعاون کے دوبارہ شروع ہونے کے نتیجے میں آسٹریلیا کو کواڈ کے زیر اہتمام بحری مشقوں میں شامل کیا گیا، اور یوں اس کی کواڈ میں واپسی ہوئی۔
سال 2012 میں جاپانی وزیر اعظم شنزو آبے نے ہی امریکہ، جاپان، بھارت اور آسٹریلیا پر مشتمل ایشیا کے ‘ڈیموکریٹک سکیورٹی ڈائمنڈ’ کے خیال پر زور دیا، اور سال 2017 میں کواڈ کے تحت فلپائن میں پہلی باضابطہ بات چیت ہوئی۔کواڈ کا بظاہر مقصد انڈوپیسفک میں سٹریٹجک سمندری راستوں کو فوجی یا سیاسی اثر سے پاک رکھنا ہے۔کواڈ کا بنیادی مقاصد میں قوانین پر مبنی عالمی ترتیب، نیویگیشن کی آزادی اور ایک آزاد تجارتی نظام کو محفوظ بنانے کے علاوہ انڈوپسفک ممالک کے لیے متبادل قرض کی مالی اعانت پیش کرنا بتائے جاتے ہیں۔کواڈ رہنما عصری عالمی مسائل جیسے کہ اہم اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز، کنیکٹیویٹی اور انفراسٹرکچر، سائبر سکیورٹی، سمندری تحفظ، انسانی امداد، آفات سے نجات، موسمیاتی تبدیلی، وبائی امراض اور تعلیم پر تبادلہ خیال کرتے رہے ہیں۔ جاپانی وزیر اعظم فیومیو کیشیدا نے اتحاد کی جانب سے ایشیا پیسفک خطے میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں کم از کم 50 ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔انڈوپیسفک، جسے بعض اوقات انڈو ویسٹ پیسفک یا انڈو پیسفک ایشیا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کرہ ارض پر پائے جانے والے سمندروں کا وہ حصہ ہے جو بحر ہند کے ٹراپیکل پانیوں، مغربی اور وسطی بحر الکاہل اور ان دونوں کو انڈنیشیا کے عمومی علاقے میں ملانے والے سمندروں پر مشتمل ہے۔ تاہم انڈوپیسفک میں بحر ہند اور بحر الکاہل کے معتدل اور قطبی علاقے اور ٹراپیکل مشرقی بحر الکاہل کے علاقے شامل نہیں کواڈ کے چارو رکن ممالک میں طرز حکومت جمہوری اور ان کا سمندر کنارے ہونے کے باعث اس اتحاد کو سمندری جمہورتیوں کا اتحاد بھی سمجھا جاتا ہے۔ دائرے کے اندر کا علاقہ انڈوپیسفک ریجن ہے۔