پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی برادرانہ تعلقات ہیں، دونوں ممالک ثقافت، معیشت، تجارت اور دفاع سمیت مختلف شعبوں میں باہمی تعاون رکھتے ہیں، وزیر اعظم یہ دورہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی دعوت پر کر رہے ہیں، ان کا رواں برس کے دوران برادر اسلامی ملک سعودی عربکا 5واں دورہ ہے۔وزیر اعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ پانی کی کمی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، پانی کے شعبے میں بہتری اور کمی کو پورا کرنے کے لیے اقدامات اور مشترکہ کاوشیں کرنی ہوں گی۔ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ’ون واٹر سمٹ‘ سے خطاب کرتے ہوئےشہباز شریف نے کہا کہ 2022میں پاکستان میں سیلاب نے تباہی مچائی، پاکستان سب سے زیادہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہوا ہے، موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کی مدد کی ضرورت ہے۔ پانی کی کمی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے،ماحولیاتی تبدیلی کے باعث پانی کی کمی سے خشک سالی بڑھ رہی ہے۔ پانی کے وسائل کو محفوظ رکھنے کے لیے اہم اقدامات کرنا ہوں گے، پانی کے شعبے میں بہتری کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے، پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے مشترکہ کاوشوں کی ضرورت ہے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ون واٹر سمت کے انعقاد پر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے شکر گزار ہیں۔ واضح رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف پراثرخطاب سےکچھ دیر قبل ہی ’ون واٹر سمٹ‘ میں شرکت کے لیے سعودی عرب پہنچے تھے۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری بیان میں بتایا کہ وزیرِاعظم شہبازشریف اپنے 2 روزہ دورہ سعودی عرب پر ریاض پہنچےہیں۔انہوں نے بتایا کہ ریاض کے نائب گورنر شہزادہ محمد بن عبدالرحمن بن عبد العزیز نے وزیرِ اعظم کا کنگ خالد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر استقبال کیا، اس موقع پر پاکستان کے سعودیہ میں سفیر احمد فاروق، پاکستانی و سعودی اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔
وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات بھی طےہے وزیراعظم سعودی عرب، فرانس، قازقستان اور عالمی بینک کے اشتراک سے منعقدہ ون واٹر سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گےقبل ازیں دورے کے حوالے سے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا تھا وزیر اعظم شہباز شریف سعودی عرب میں ہونے والی ’ون واٹر سمٹ‘ میں شرکت کریں گے، سعودی عرب، فرانس، قازقستان اور عالمی بینک کے اشتراک سے منعقد کی جانے والی اس سمٹ کا مقصد آبی وسائل کے انتظام کے لیے عالمی تعاون کو فروغ دینا اور اعلیٰ سطح پر سیاسی وعدوں کے ذریعے مربوط بین الاقوامی نقطہ نظر کو فروغ دینا ہے۔جاری بیان کے مطابق وزیراعظم سربراہی اجلاس میں کلیدی خطاب کریں گے جس میں تازہ پانی کے وسائل اور آبی زمینوں کے تناظر میں بحالی، تحفظ اور موافقت پر توجہ دی جائے گی۔وزیراعظم پاکستان کی طرف سے پانی کے تحفظ کو فروغ دینے، آب و ہوا میں تبدیلی کے اثرات کو برداشت کرنے، پانی کے معیار کو بہتر بنانے، ذرائع معاش بڑھانے اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات پر بھی روشنی ڈالیں گے۔وزیر اعظم موسمیاتی تبدیلیوں سے سیلابوں، غیر معمولی اور انتہائی موسمی حالات اور آبی وسائل اور ماحولیاتی نظام پر گرمی کے دباؤ کے اثرات سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کی اہمیت کے ساتھ آبی وسائل کے پائیدار انتظام کے لیے بامعنی عالمی تعاون پر زور دیں گے۔دورے کے دوران وزیراعظم کی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات بھی طے ہے، اس ملاقات میں خطے میں بدلتی ہوئی صورتحال سمیت دیگر اہم امور پر غور کیا جائے گا، شہباز شریف اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انتونیو گوتریس اور دیگر عالمی رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔وزیراعظم پاکستان نے پانی کے تحفظ کو فروغ دینے، آب و ہوا میں تبدیلی کے اثرات کو برداشت کرنے، پانی کے معیار کو بہتر بنانے، ذرائع معاش بڑھانے اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات پر بھی روشنی ڈالی۔وزیر اعظم نےموسمیاتی تبدیلیوں سے سیلابوں، غیر معمولی اور انتہائی موسمی حالات اور آبی وسائل اور ماحولیاتی نظام پر گرمی کے دباؤ کے اثرات سے نمٹنے کے لئے بین الاقوامی تعاون کی اہمیت کے ساتھ ساتھ آبی وسائل کے پائیدار انتظام کے لیے بامعنی بین الاقوامی تعاون پر بھی زور دیا۔وزیر اعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون اور سرمایہ کاری کی پیشرفت کے حوالے سے جائزہ اجلاس منعقد ہوا۔وزیراعظم نے دونوں ممالک کے مابین جاری مختلف منصوبوں کی پیشرفت پر اطمینان کا اظہار کیا، وزیر اعظم نے کہا کہ سعودی عرب پاکستان کا دیرینہ دوست ہے جس نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہےسعودی عرب کے ساتھ متعدد شعبوں میں اشتراک جاری ہے، پاکستان اپنے برادر ملک سعودی عرب کے ساتھ تعاون کو مزید وسعت دینے کا خواہشمند ہے۔وزیراعظم کو نومبر میں منعقدہ پاکستان سعودی عرب جوائنٹ ٹاسک فورس کے دوسرے اجلاس میں دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کی پیشرفت پر بریفنگ دی گئی جس کے مطابق قلیل عرصے میں دونوں ممالک کے درمیان سرمایہ کاری کے 34 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے جس میں سے 7 کو معاہدوں کی شکل دی جا چکی ہے جن کی مالیت 560 ملین ڈالر ہے۔اجلاس میں نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار، وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور احد خان چیمہ، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق مسعود ملک، خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے قومی کوآرڈینیٹر لیفٹیننٹ جنرل سرفراز احمد اور اعلیٰ سرکاری افسران شریک تھے۔واضح رہے کہ کوپ 29 کے آغاز سے پہلے کچھ حلقوں کی اس سے جو تھوڑی بہت توقعات وابستہ تھیں وہ بھی اتوار کو معلوم ہوا کہ بہت زیادہ تھیں۔ آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں 2035ء تک ترقی پذیر ممالک کو کاربن کے اخراج کو کم کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات سے نمٹنے کے لیے 300 ارب ڈالرز جمع کرکے دینے کا حتمی فیصلہ کیا گیا جبکہ بھارت کی نمائندہ نے اس عمل پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ بہ ظاہر کارآمد لگ رہا ہے لیکن امداد سے حقیقت میں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ایک ہفتہ قبل پاکستان کی سابق وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے کہا تھا کہ ’ہم یہاں زندگی اور موت کی وجوہات کی بنا پر ہیں‘ اور انہوں نے عالمی درجہ حرارت کے اضافے میں تاریخی بڑا حصہ ڈالنے والے ممالک سے ’عالمی معیار کی طے شدہ شراکت داریوں‘ کا مطالبہ کیا۔ ساتھ ہی انہوں نے نجی سیکٹر پر بہت زیادہ انحصار کرنے کے حوالے سے بھی خبردار کیا تھا۔ فطری طور پر جب کانفرنس کا انعقاد ہوا تب ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت کا منفی اثر کانفرنس کے پورے دورانیے میں محسوس کیا گیا۔ حتیٰ کہ اچھے وقتوں میں بھی امریکا نے موسمیاتی تبدیلیوں سے لڑنے کے لیے ایک اچھے رہنما کا کردار ادا نہیں کیا۔ بہت سے امریکی قانون ساز فوسل فیول کمپنیوں اور لابیسٹ کی جانب سے عطیات ملتی ہیں جن کی وجہ سے وہ گرین نیو ڈیل جیسے خیالات کی مخالفت کرتے ہیں۔ لیکن ٹرمپ اور ان کے کچھ قریبی اتحادی تیل اور گیس کی پیداوار بڑھانے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے تمام باتیں محض ایک دھوکا ہیں۔ ٹرمپ اور ان کے اتحادی ارجنٹینا کے صدر ہاویئر میلے سے اتفاق کر سکتے ہیں جو انتہائی دائیں بازو کے سیاست دان کے طور پر جانے جاتے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں اپنا ’پسندیدہ صدر‘ قرار دیا ہے۔ ہاویئر میلے نے صرف تین دن کے بعد ہی اپنے ملک کے وفد کو باکو کانفرنس سے نکل جانے کا حکم دیا کیونکہ ان کا خیال ہے کہ موسمیاتی بحران صرف ’سوشلسٹ کا جھوٹ‘ ہے۔ اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ آذربائیجان کی قیادت بھی اسی طرح کے خیالات رکھتی ہے۔ صدر الہام علیوف نے تیل اور گیس کو ’خدا کا تحفہ‘ قرار دیا لیکن انہوں نے ان دیگر قدرتی وسائل کا ذکر نہیں کیا جو انسان کی جانب سے توانائی کے نام پر فوسل فیولز جلانے کی وجہ سے خطرے میں ہیں۔ کیا قابل تجدید توانائی کے ذرائع جیسے سورج کی روشنی اور ہوا، خدا کا تحفہ نہیں ہیں؟ ایسا نہیں ہے کہ آذربائیجان میں سورج کی روشنی کی کمی ہے لیکن اس کی غیر ملکی آمدنی کا 90 فیصد فوسل فیولز کی برآمدات سے حاصل ہوتا ہے۔ اس میں اسرائیل کو تیل کی تقریباً 40 فیصد برآمدات ہوتی ہے جو اس وقت فلسطینیوں کے خلاف جاری نسل کشی میں اس کی سہولت کاری کرنے کے مترادف ہے۔ اس کے بدلے میں آذربائیجان اسرائیل سے ہتھیار حاصل کرتا ہے جو ناگورنو قرہ باغ کے آرمینیائی باشندوں پر نسل پرست تشدد کے لیے آذربائیجان کے کام آتے ہیں۔ ایسی کانفرنسز کا انعقاد تیل اور گیس پیدا کرنے والے ایسے ممالک میں زیادہ کارآمد ثابت ہوتا جو فوسل فیولز کے استعمال کو ترک کرنے میں واقعی دلچسپی رکھتے ہوں۔ تاہم اس سال کا میزبان پچھلے سال کے پیٹروسٹیٹ میزبان (پیٹرول کی پیداوار پر انحصار کرنے والا ملک) کے مقابلے میں فوسل فیولز کو ترک کرنے اور دیگر راستے تلاش کرنے میں کم دلچسپی رکھتے تھے۔ دبئی میں کوپ 28 کی قیادت ابوظبی نیشنل آئل کمپنی کے سربراہ نے کی تھی جہاں کانفرنس میں تیل اور گیس کے لابیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ پہلی بار کانفرنس نے باضابطہ طور پر فوسل فیولز اور موسمیاتی تبدیلی کے درمیان تعلق کو تسلیم کیا جو کئی دہائیوں سے واضح تھا لیکن اسے تسلیم نہیں کیا جارہا تھا۔ ایسا سعودی عرب کی شدید مخالفت کے باوجود ہوا جہاں ولی عہد کے وژن 2030ء منصوبے میں سعودیہ کی منافع بخش تیل کی صنعت سے نقصان اٹھانے والے ممالک کو معاوضہ ادا کرنے کا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا۔ سعودیہ عرب نے باکو کانفرنس میں بھی یہی طریقہ آزمایا لیکن وہ ناکام رہے۔ لیکن کیا اس سے واقعی فرق پڑتا ہے؟ موسمیاتی فنانس میں سالانہ 100 ارب ڈالر فراہم کرنے کا گزشتہ معاہدہ بھی پورا نہیں ہوپایا جس کی حتمی مدت 2020ء طے کی گئی تھی۔ اس رقم کو تین گنا (یا افراط زر پر غور کرتے وقت اسے دوگنا کرنا) کا نئے ہدف کو بھی ممکنہ طور پر انہی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سال کے اوائل میں دنیا درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری اضافے کی حد کو چھو سکتا ہے، گزشتہ کوپ معاہدوں کے باوجود کاربن کے اخراج میں اب بھی اضافہ ہو رہا ہے اور بہت سے ماہرین نے پیش گوئی کی کہ 2024ء گرم ترین سال ہوگا۔ موسمیاتی سائنسدان اکثر غیر متوقع
واقعات سے حیران رہ جاتے ہیں جیسا کہ سابق برطانوی وزیر اعظم ہیرالڈ میک ملن نے کہا تھا ’واقعات میرے پیارے واقعات‘۔ 2035ء تک جب 300 ارب ڈالر جمع کرنے کے ہدف کا حصول طے پایا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ دنیا کہاں کھڑی ہوگی۔ یہاں تک کہ اگر رقم جمع ہو بھی جاتی ہے تو شاید یہ رقم کارآمد نہ رہے کیونکہ اس وقت تک بہت تاخیر ہوسکتی ہے حتیٰ کہ تب تو شاید کھربوں ڈالرز بھی کسی کام نہ آئیں۔ یہ واضح ہے کہ موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کی کوششیں کس حد تک غیرمؤثر ہیں لیکن کوئی اگر یہ دلیل پیش کرسکتا ہے کہ امداد کیوں جمع نہیں کرنی چاہیے تو اسے ایک حقیقت پسندانہ متبادل بھی پیش کرنا ہوگا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ کوپ 30 کا انعقاد برازیل میں ہوگا جہاں کی موجودہ حکومت موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ شاید بہترین حل یہ ہو گا کہ گریٹا تھیونبرگ جیسے متحرک نوجوان ماحولیاتی کارکنان کو یہ ذمہ داری سونپی جائے کہ وہ راستہ تلاش کریں۔ لیکن میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ محض ایک خواب ہی ہو سکتا ہے۔واضح رہے کہ پاکستان نے کاربن مارکیٹ پالیسی تشکیل دے دی، پالیسی کے تحت ماحولیاتی آلودگی سے پاک منصوبے (گرین پروجیکٹس) بنانے کے لیے صوبوں کی صلاحیتیں بڑھائی جائیں گی، پاکستان عالمی کاربن مارکیٹ میں زیادہ سے زیادہ کریڈٹ لے سکے گا وزارت موسمیاتی تبدیلی نے قومی کاربن مارکیٹ پالیسی کو حتمی شکل دے دی ہے۔وزارت موسمیاتی تبدیلی کے ذرائع کے مطابق کاربن مارکیٹ پالیسی سے متعلق سمری وفاقی کابینہ کو ارسال کردی گئی ہے، کابینہ سے منظوری کے بعد پالیسی پر عملدرآمد کرایا جائے گا,کاربن کے اخراج کی وجہ سے پیدا ہونے والی آلودگی عالمی ماحول کے لیے شدید نقصان کا باعث بن رہی ہے، عالمی سطح پر آلودگی پھیلنے کے نتیجے میں دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر ماحولیاتی تبدیلیاں رو نما ہوئی ہیں، جن کے نتائج طاقتور سمندری طوفانوں، زلزلوں، سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے 2023 کو اب تک کا ’گرم ترین سال‘ قرار دیا گیا تھا، اقوام متحدہ نے رواں سال مارچ میں انتباہ جاری کیا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی رفتار اندازوں سے بھی زیادہ بڑھ چکی ہے۔پاکستان کی کاربن پالیسی کے تحت ’گرین پروجیکٹس‘ میں جنگلات، توانائی، ویسٹ منیجمنٹ کے منصوبے شامل کیے جائیں گے، ان منصوبوں کے ذریعے پاکستان عالمی کاربن مارکیٹ میں زیادہ سے زیادہ کریڈٹ لے سکے گا۔ کاربن پالیسی کے تحت نیشنل کاربن رجسٹری کا قیام عمل میں لایا جائے گا، رجسٹری میں کاربن کریڈٹ سے متعلق ڈیٹا رجسٹر کیا جائے گا۔پاکستان کی کاربن مارکیٹ میں حصہ ڈالنے کی پوری صلاحیت ہے، ملک میں کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے متعدد منصوبے زیر عمل ہیں، باکو میں ہونے والی کوپ 29 کانفرنس میں عالمی سطح پر کاربن کریڈٹ مارکیٹ کے رولز کو حتمی شکل دی گئی تھی۔ رولز فائنل ہونے کے بعد آرٹیکل 6 پیرس ایگریمنٹ مکمل طور پر فعال ہوچکا ہے۔ایشیائی ترقیاتی بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان کو کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے بین الاقوامی وعدوں کو پورا کرنے کے لیے صنعت میں کوئلے سے گیس کی طرف منتقلی، ٹرانسپورٹ کو بجلی پر منتقل کرنے اور کھانا پکانے کے لیے گیس سے بجلی کی جانب منتقلی کے ذریعے کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے بین الاقوامی وعدوں کو پورا کرنے کے لیے 2050 تک 390 ارب ڈالر سے زیادہ کی اضافی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مطلوبہ توانائی کی توسیع کے منصوبے بڑی سرمایہ کاری کے وعدوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے پن بجلی کی پیداوار میں 153 ارب ڈالر، جوہری توانائی میں 103 ارب ڈالر، ہوا کی توانائی میں 62 ارب ڈالر اور شمسی توانائی میں 51 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ بجلی کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے اور گرڈ کے استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن شعبوں میں بھی 22 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ توانائی کے شعبے میں یہ بڑی سرمایہ کاری توانائی کی بچت کے حصول کے لیے ٹرانسپورٹ اور مقامی شعبوں میں درکار سرمایہ کاری کے علاوہ ہے رپورٹ میں میں کہا گیا ہے کہ براہ راست حکومتی فنڈنگ محدود ہونے کا امکان ہے، اس لیے زیادہ تر فنڈز غیر ملکی اور ملکی نجی شعبے سے براہ راست سرمایہ کاری، ایکویٹی فنڈنگ، بینک کریڈٹس اور بانڈ ایشوز کے ذریعے آنا ہوں گے، اور بین الاقوامی مالی امداد کی ضرورت ہوگی جس کے لیے بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہوگی۔ ’اس بڑے پیمانے پر فنڈنگ کے ممکن ہونے کے لیے سرمایہ کاری کے لیے ماحول حوصلہ افزا ہونا چاہیے بتایا گیا ہے کہ کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے توانائی کے شعبے سے گرین ہاؤس گیسز کا اخراج 2030 میں موجودہ سطح سے تقریباً 23 فیصد اور 2050 میں 36 فیصد کم کرنا ہوگا، اسی صورت میں تقریباً ایک تہائی کم اخراج کے باوجود موجودہ شرح نمو ممکن ہوگی۔ اس کے لیے مالیاتی ثالثی کے نظام کو مضبوط بنانے، نجی شعبے کے لیے مراعات کو ماحولیاتی پالیسی کے اہداف کے ساتھ ہم آہنگ کرنے، ریگولیٹری نظام کو ان اہداف کو مؤثر طریقے سے سپورٹ کرنے کو یقینی بنانے، اور پروجیکٹ کی تیاری اور عمل درآمد کا ایک ایسا نظام تیار کرنے کی ضرورت ہوگی جو کثیر الجہتی اور دو طرفہ ڈونر تنظیموں کی ضروریات کو پورا کرے۔ ان شعبوں میں کوئی بڑی پیش رفت ہوتی ہے تب ہی یہ سوچنا حقیقت پسندانہ ہو گا کہ کاربن کے کم اخراج کو مکمل طور پر فنڈ اور لاگو کیا جا سکتا ہے۔ مزید برآں، توانائی کی ترسیل کے مؤثر نظام کی منصوبہ بندی، رسد اور طلب میں لچک کے لیے مناسب طریقہ کار اور مراعات، قلیل مدتی نظام میں توازن، اور استحکام کے طریقہ کار کو کاربن کے کم اخراج والے راستے پر منتقلی کی حمایت کرنے کی ضرورت ہوگی۔