نام: ا قراء لالی
عنوان:خواب ایک دیوانے کا
لاہور کی سرد رات تھی۔ دھند اور دھوئیں نے آسمان کو ڈھانپ رکھا تھا، اور سڑک کنارے ایک شخص ٹوٹی ہوئی فٹ پاتھ پر بیٹھا کانپ رہا تھا۔ اُس کے چہرے پر تھکن کے آثار تھے، آنکھوں میں نیند کے باوجود سکون کا نام و نشان نہ تھا۔ اُس نے اپنے پرانے کمبل کو مزید لپیٹا اور سامنے جلتے اسٹریٹ لائٹ کی مدھم روشنی کو دیکھتے ہوئے سوچ میں گم ہو گیا۔
یہ اُس کی روزمرہ کی زندگی تھی. بھوک، پریشانی، اور تھکن۔ اُس نے اپنے آس پاس دیکھا, دھواں، شور، اور فٹ پاتھ پر بے بسی کے مارے لوگ۔ وہ اٹھا , لیکن اس کی نظریں دور کہیں خلا میں جمی ہوئی تھی, جیسے وہ کچھ تلاش کر رہا ہو یا شاید کسی سوچ میں گم ہو. اس نے اپنے قریب پڑی ایک پتھر کو ٹھوکر ماری اور دھیرے سے بڑبڑایا,”یہ زندگی بھی کیا زندگی ہے؟”. اور تھکے قدموں کے ساتھ ایک بینچ پر جا بیٹھا۔ یہ بینچ ہی اُس کے لیے عارضی سکون کا واحد ذریعہ تھا۔
بینچ پر بیٹھتے ہی اُس نے آنکھیں بند کیں اور ایک گہری سانس لی۔ اچانک اُسے محسوس ہوا کہ ہوا میں تازگی آ گئی ہے۔ اُس نے آنکھیں کھولیں تو منظر بدل چکا تھا۔ دھند اور دھواں غائب تھا۔ ہوا صاف تھی، جیسے کسی نے شہر کو دھو ڈالا ہو۔ اُس نے اپنی خشک اور پھٹی ہوئی ہتھیلیوں کو دیکھا, وہ نرم اور صاف لگ رہی تھیں۔
وہ حیرانی سے اٹھا اور ارد گرد دیکھا۔سامنے ایک چھوٹا سا ہوٹل تھا جس کے باہر صاف ستھری میزیں لگی تھیں. اس نے ایک لمحے کے لیے سوچا,” کاش میں بھی وہاں بیٹھ کر گرم چائے پی سکوں” ۔ مالک اُسے دیکھ کر مسکرایا اور کہنے لگا ۔ “بابا جی! چائے پیو گے؟” اُس نے حیرت سے پوچھا، “میں؟”
“ہاں، ہاں، آپ ہی کو کہہ رہا ہوں۔”
چائے کی خوشبو نے اُس کے دل کو پرسکون کر دیا۔ اُس نے پہلا گھونٹ لیا تو جیسے اُس کے جسم میں زندگی لوٹ آئی۔ اس نے چائے کے گھونٹ لیے اور ارد گرد نظر دوڑائی. سڑک پر گاڑیاں ترتیب سے چل رہی تھی. کوئی ہارن نہیں بجا رہا تھا. لوگ سکون سے فٹ پاتھ پر چل رہے تھے. اس نے دور ایک ہسپتال دیکھا, ہسپتال کے باہر مریضوں کی لمبی قطار نہیں تھی. اندر سے کوئی چیخ و پکار کی آواز نہیں آرہی تھی. لگتا تھا ڈاکٹرز اپنی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں. اُس کے دل میں سکون کی ایک لہر دوڑ گئی۔
چائے ختم کرتے ہی اس نے آگے بڑھنے کا سوچا اور سڑک پر چلنے لگا۔اس نے آس پاس دیکھا کوئی بچہ بھیک نہیں مانگ رہا تھا, نہ ہی کوئی بچہ مزدوری کر رہا تھا.مانو جیسے یہ سب کوئی خواب ہو.
ایک طرف ایک پارک تھا، جہاں ہر عمر کے لوگ خوش نظر آ رہے تھے۔ پارک میں ہریالی تھی، بچے جھولے لے رہے تھے،خواتین محفوظ دِکھ رہی تھیں,سب بے فکر ہو کر اپنے کام میں مگن تھے۔
وہ چلتے چلتے تھک گیا اور بیٹھ گیا۔ اُس نے ایک بار پھر آسمان کی طرف دیکھا۔ چاند اتنا صاف تھا کہ اُس کے دل میں امید جاگ اٹھی۔ اُس نے خود سے کہا، “شاید میری زندگی بھی ایسے ہی بدل سکتی ہے۔ شاید یہ دنیا واقعی ٹھیک ہو رہی ہے۔”
لیکن یہ خوش فہمی زیادہ دیر نہ رہی۔ اچانک کسی نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ وہ چونک کر اٹھا۔ سامنے ایک پولیس والا کھڑا تھا۔ “ابے، یہاں کیا کر رہا ہے؟ چل، اُٹھ!”
اُس نے گھبرا کر چاروں طرف دیکھا۔ دھواں واپس آ چکا تھا۔ فٹ پاتھ پر بچے پھر سے مزدوری کر رہے تھے۔ اسپتال کے باہر مریض کراہ رہے تھے۔ پارک کی ہریالی اجڑ چکی تھی۔
اُسے سمجھ آ گیا,یہ سب کچھ ایک خواب تھا، خواب ایک دیوانے کا۔
“یہ خواب، ایک دیوانے کا تھا ایسے دیوانے کا، جو اندھیروں میں روشنی کے خواب دیکھنے کی جرات کرتا ہے، لیکن جب آنکھ کھلتی ہے، تو حقیقت کی تلخی اُس خواب کو مٹا دیتی ہے۔”