اسلام آباد (ٹی این ایس) اڑان پاکستان مقصد; اقتصادی بحالی: پائیدار اور جامع ترقی کی طرف ایک راستہ

 
0
308

( اصغر علی مبارک)
اسلام آباد (ٹی این ایس)معاشی ترقی وخوشحالی کے لئے اڑان پاکستان پروگرام کو حکومتی عزم کا بھرپور ذریعہ قرار دیا جاسکتا ہے جس کا مقصد آئندہ 5 سال ملک کو معاشی حوالے سے استحکام کی منزل پر پہنچانا اور اپنے اصلاحاتی ایجنڈا پر کاربند رہتے ہوئے آگے کی طرف لے جانا ہے،سیاسی استحکام کے حوالے سے نئے سال کو اہم قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ سیاسی قیادتیں پاکستان کو سیاسی ومعاشی حوالے سے آگے بڑھانے کیلئے پر عزم ہیں اگر مذاکراتی عمل نتیجہ خیز ہوتا ہے تو پھر معاشی حوالے سے آگے بڑھنے سے روکا نہیں جاسکے گا ،یہ استحکام معاشی استحکام کا ذریعہ بنے گا البتہ امن وامان کا یقینی قیام بھی حکومت اور ریاست کی ذمہ داری ہے ۔خصوصاً دہشتگردی کا بڑھتا رجحان امتحان ہے فوج اور دیگر اداروں نے پاک سرزمین کو دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خاتمہ کیلئے قربانیوں کی تاریخ رقم کی ہے اور آج بھی یکسوئی اور سنجیدگی سےسرگرم ہیں، وزیر اعظم شہباز شریف کو یہ کریڈٹ تو ملنا چاہیے کہ انہوں نے مشکل حالات میں ڈوبتی معیشت کو منجدھار سے نکالا اور آگے کی طرف بڑھانا شروع کردیا بلا شبہ انہیں اس حوالے سے ریاست کا بھی بھرپور اعتماد حاصل رہا اور انکی معاشی ٹیم نے بھی کام کیا، آج آئی ایم ایف سمیت عالمی مالیاتی ادارے اور چین، سعودی عرب سمیت مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک بھی شہباز شریف کی حکومت انکی اصلاحات پر اعتماد کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں اور یہ سب کچھ اسلئے ممکن ہواکہ مشکل حالات اور تلخ سیاسی حالات میں الجھنے کے بجائے انہوں نے معاشی مالی اور ترقی کے عمل پر توجہ مرکوز رکھی۔انکی گورننس اصلاحات اور اقدامات سے کہا جاسکتا ہے کہ قومی سطح پر ان کا بھرپور کردار معاشی بحالی ترقی اور ملک کو آگے لے جانے کا باعث بن سکتا ہے وزیر اعظم کا یہ کریڈٹ رہا کہ وہ اہم اور بڑے فیصلوں میں اپنے بڑے بھائی نواز شریف کی طرف دیکھتے رہے اور اڑان پاکستان کی افتتاحی تقریب میں بھی انہوں نے معاشی ترقی کے عمل کو ماضی میں نواز شریف کی پالیسیوں کے ساتھ مشروط کیا ۔گزشتہ ماہ وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک کو پائیدار ترقی کی طرف لے جانے کے لیے پانچ سالہ قومی اقتصادی منصوبہ ’اڑان پاکستان‘ پیش کیا تھا۔

وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے تمام متعلقہ وزارتوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اڑان پاکستان کے مطابق اپنے اہداف کو ترجیح دیں اور مستقل کوآرڈینیشن برقرار رکھنے اور پیش رفت کو یقینی بنانے کے لئے ایک سینئر فوکل پرسن مقرر کریں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اڑان پاکستان ایکشن پلان سے متعلق مشاورتی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔اجلاس میں تمام وزارتوں کے سیکرٹریز، سربراہان، پراجیکٹ ڈائریکٹرز اور وفاقی و صوبائی حکام نے شرکت کی۔ پائیدار ترقی کے حصول , تیز رفتار اقتصادی نمو کے حصول کے لئے وزیر منصوبہ بندی نے بنیادی ہدف پر روشنی ڈالی اور وزارتوں کو تین اہم عوامل کی نشاندہی کرنے کی بھی ہدایت کی جو معیشت کے استحکام میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔ صوبائی حکومتوں کے ساتھ تعاون کو مضبوط بنانے کے لئے احسن اقبال نے جامع حکمت عملی اور مجوزہ ورکشاپس کے ذریعے اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے جاری بیان میں احسن کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ طویل مدتی معاشی استحکام کے لیے برآمدات کی قیادت میں ترقی کی جانب منتقلی ضروری ہے۔ 40 ارب ڈالر کی موجودہ برآمدی سطح ناکافی ہے اور برآمدات کی نمو کو 100 ارب ڈالر تک بڑھایا جانا چاہیے۔ ملکی برآمدات کا دو تہائی حصہ کم ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل مصنوعات سے آتا ہے جس کی وجہ سے برآمدی نظام میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کی ضرورت ہے۔ماضی کے معاشی چیلنجز پر روشنی ڈالتے ہوئے وفاقی وزیر نے دعویٰ کیا کہ ناقص گورننس کی وجہ سے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) 2018 میں 1100 ارب روپے سے کم ہو کر 2022 میں 400 ارب روپے رہ گیا ہے۔ پاکستان نے مشرق وسطیٰ کے 2 بینکوں کے ساتھ 6 سے 7 فیصد شرح سود کی شرائط پر ایک ارب ڈالر قرض پر اتفاق کیا ہے۔ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ایک انٹرویو کے دوران وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نےبتایا کہ “دو اداروں کے ساتھ ہم ٹرم شیٹ پر دستخط کرنے میں آگے بڑھ گئے ہیں – ایک دو طرفہ اور دوسرا تجارت (مالیات) کے لئے۔یہ قرضے قلیل مدتی یا ایک سال تک کے ہیں۔ پاکستان بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے 7 ارب ڈالر کا بیل آؤٹ حاصل کرنے کے بعد اپنی مالی حالت کو بہتر بنانے کا ارادہ رکھتا ہے، جس کا پہلا جائزہ فروری کے آخر میں مقرر کیا گیا ہے۔اورنگ زیب نے کہا کہ ہم فروری کے آخر میں ای ایف ایف کا پہلا باضابطہ جائزہ لیں گے۔ “مجھے لگتا ہے کہ ہم اس جائزے کے لئے اچھی پوزیشن میں ہیں۔ آئی ایم ایف توسیعی فنڈ سہولیات (ای ایف ایف) ان ممالک کو مالی امداد فراہم کرتی ہیں جو ساختی کمزوریوں کے نتیجے میں درمیانی مدت کے ادائیگیوں کے توازن کے سنگین مسائل کا سامنا کر رہے ہیں جن کو حل کرنے کے لئے وقت درکار ہوتا ہے ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں وزیر خزانہ پاکستان محمد اورنگزیب نےلکھا ہے کہ ٹیکسوں اور معاشی استحکام میں پاکستان کا ”جدید نقطہ نظر“ دیگر ترقی پذیر معیشتوں کے لئے ”قابل قدر رہنما اصول“ پیش کرتا ہے۔

وزیر خزانہ اس وقت ڈبلیو ای ایف کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے ڈیوس میں موجود ہیں جو 20 سے 25 جنوری کے درمیان ہو رہا ہے۔ سالانہ اجلاس 2025 اہم عالمی اور علاقائی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے عالمی رہنماؤں کو جمع ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ان میں جغرافیائی سیاسی جھٹکوں کی روک تھام، معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے ترقی بڑھانا اور توانائی کی منصفانہ اور جامع منتقلی کو فروغ دینا شامل ہے۔وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ”پاکستان کی اقتصادی بحالی: پائیدار اور جامع ترقی کی طرف ایک راستہ“ کے عنوان سے لکھے گئے آرٹیکل میں کہا کہ پاکستان نے اقتصادی استحکام اور ترقی کی طرف ایک انقلابی سفر شروع کیا ہے۔ پاکستان نے بڑے چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے پائیدار اور جامع ترقی سے متعلق ایک مضبوط بنیاد بنانے کے لیے فیصلہ کن اصلاحات نافذ کی ہیں۔ مضمون میں کہا گیا ہے کہ آج ان کوششوں کے نتائج واضح ہو رہے ہیں اور معیشت لچک اور نئی صلاحیت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ محمد اورنگ زیب نے کہا کہ جب انہوں نے وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھالا تو پاکستان کو مالی اور مانیٹری پالیسی کے شدید دباؤ کا سامنا تھا۔ افراط زر کی شرح ریکارڈ 38 فیصد تک پہنچ گئی تھی جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ترین سطح پر آگئے تھے کیونکہ اس سے خوراک اور ایندھن جیسی ضروری اشیا کی درآمدات کی جاسکتی تھیں۔ ان کے بقول کووڈ 19 کے پیچیدہ اثرات اور تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں 30 بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے اور ان عوامل نے ہمارا مزید امتحان لیا۔ ان کے عہدہ سنبھالنے کے بعد ضروری اصلاحات کا ایک سلسلہ نافذ کیا گیا۔ ان میں زرمبادلہ کی شرح کو مستحکم کرنا، مالیاتی پالیسیوں کو سخت کرنا اور ہدف شدہ مالیاتی مداخلت کے ذریعے افراط زر پر قابو پانا شامل ہے۔ آئی ایم ایف کی 7 ارب ڈالر مالیت کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کی مدد سے ہم نے توانائی اور ٹیکس جیسے اہم شعبوں میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات کا آغاز کیا۔ اس کوشش کا مرکز ’اڑان پاکستان‘ تھا جو 2024 میں شروع کیا گیا اقتصادی تبدیلی کا منصوبہ ہے۔ اس اقدام کا مقصد پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ، برآمداتی مسابقت میں اضافہ اور پبلک فنانس کو بہتر بنانے کے ذریعے 2028 تک پائیدار، برآمدات پر مبنی 6 فیصد جی ڈی پی نمو حاصل کرنا ہے۔ وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ اڑان پاکستان منصوبے میں بچوں کی غذائی قلت، تعلیمی نتائج اور صاف توانائی کو اپنانے جیسے اہم چیلنجز سے نمٹنا بھی شامل ہیں۔ اپنے ترقیاتی فریم ورک میں پائیداری کو ضم کرکے ہم اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جیز) کے حصول کے لئے عالمی کوششوں میں حصہ ڈال رہے ہیں۔ جون 2024 میں حکومت نے اصلاحات پر مبنی بجٹ پیش کیا جس کا مقصد 13 ٹریلین روپے کی آمدنی حاصل کرنا تھا جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہے۔ ان اصلاحات میں زراعت، رئیل اسٹیٹ اور تجارت جیسے کم ٹیکس والے شعبوں کو ہدف بنا کر ٹیکس بیس کو وسیع کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، جبکہ عملدرآمد اور شفافیت کو بڑھانے کے لئے ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو جدید بنانے سے ٹیکس انتظامیہ کو بہتر بنانے میں مدد ملی ہے۔ انہوں نے مزید لکھا کہ پاکستان کی معیشت بحالی کی راہ پر گامزن ہے، افراط زر (جنوری 2025 میں) 4.1 فیصد تک کم ہوگئی ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر دو ماہ تک ضروری درآمدات کیلئے کافی ہیں۔ اشیاء کی برآمدات میں 7.1 فیصد اضافہ ہوا ہے اور آئی ٹی کے شعبے میں سالانہ بنیادوں پر 28 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کے ڈیفالٹ کے خطرے میں 93 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جو ملک کے مالیاتی استحکام پر اعتماد بحال ہونے کا اشارہ ہے۔ مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کار بشمول آرامکو، بی وائی ڈی اور سام سنگ جیسی عالمی کمپنیاں اس معاشی بحالی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں جو پاکستان کے منافع بخش سرمایہ کاری کے مرکز کے طور پر صلاحیت کی عکاسی کرتی ہے۔ وزیر خزانہ نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ کئی ماہ سے سرپلس میں ہے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد ”دو سال کی بلند ترین سطح“ پر ہے۔ ان کے مطابق مالی سال 2025 کی پہلی ششماہی میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) میں 20 فیصد اضافہ ہوا۔ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ جیسے اقدامات سے 9 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری ہوئی ہے جبکہ ترسیلات زر اس سال ریکارڈ 35 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ مزید برآں، پاکستان کی ایکویٹی مارکیٹ نے ڈالر کے لحاظ سے 87 فیصد منافع دیا، جس سے سرمایہ کاروں کے مضبوط جذبات کی نشاندہی ہوتی ہے۔

 

وزیر خزانہ نے یہ بھی کہا ہےکہ پاکستان کی ترقی کا اعتراف کیا گیا اور تینوں سرفہرست عالمی ریٹنگ ایجنسیوں نے ملکی ریٹنگ کو اپ گریڈ کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ موڈیز نے ہمارے پالیسی اقدامات کے اثرات کو تسلیم کرتے ہوئے ستمبر 2024 میں پاکستان کے معاشی نقطہ نظر پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے ’مثبت‘ کردیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ بیرونی امداد کے چکر سے نکلنے کے لیے پاکستان محصولات، توانائی، سرکاری اداروں (ایس او ایز) اور نجکاری میں بنیادی خامیوں کو دور کر رہا ہے۔ وفاقی حکومت کو حقوق دینے، ایس او ایز میں اصلاحات اور برآمدات پر مبنی ترقی کو فروغ دینے سے داخلی آمدنی کے ذرائع مضبوط ہوں گے اور بین الاقوامی فنڈنگ پروگراموں پر انحصار کم ہوگا۔انہوں نے عالمی اسٹیک ہولڈرز کو دعوت دی کہ وہ زراعت، آئی ٹی، قابل تجدید توانائی، کان کنی اور معدنیات، ٹیکسٹائل اور ملبوسات، فارماسیوٹیکل جیسے ترجیحی شعبوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے پاکستان کے سفر میں مدد کریں, غیر معمولی افرادی قوت، وافر قدرتی وسائل اور بے پناہ پیداواری صلاحیت کے ساتھ پاکستان نئی بلندیوں کو چھونے کے لیے تیار ہے جس سے علاقائی استحکام اور عالمی اقتصادی ترقی میں مدد ملے گی۔وزیر خزانہ کے مطابق مشترکہ عالمی اہداف کو آگے بڑھانے کے حوالے سے موسمیاتی مطابقت اور پائیدار ترقی میں شراکت داری اہم ہے۔وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے ورلڈ اکنامک فورم میں ایک پینل ڈسکشن کے دوران کہا کہ پاکستان کے ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو میں بہتری آئی ہے اور قرض ٹو جی ڈی پی ریشو میں کمی ہوئی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان صحیح سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج کرنٹ اور فسکل اکاؤنٹ کا دہرا خسارہ ہے۔ انہوں نے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب کو ”پائیدار“ رکھنے کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ہم 9 سے 10 فیصد کے درمیان ہیں اور اب ساختی اصلاحات کے ذریعے 13.5 فیصد کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ حکومت اپنے اخراجات اور قرضوں کی ادائیگی کے حجم کو کم کرنے پر توجہ دے رہی ہے۔ پاکستان کے قرضوں اور جی ڈی پی کے تناسب میں بہتری آئی ہے اور یہ 78 فیصد سے کم ہو کر 67 فیصد رہ گیا ہے، اگرچہ ابھی بھی طویل سفر باقی ہے، لیکن ہم صحیح سمت میں گامزن ہیں۔ قرضوں کے استعمال کے موضوع پر سابق بینکر نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ قرض لینے میں کچھ غلط ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ کس چیز کے لئے قرض لیتے ہیں جبکہ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ قرضوں کو سبسڈی یا معمول کے اخراجات کی فنڈنگ کے بجائے پیداواری صلاحیت اور برآمدات کو بڑھانے کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے۔ ملکی اقتصادی ترقی کے راستے پر وزیر خزانہ نے اعتراف کیا کہ پاکستان کی اقتصادی ترقی میں تسلسل نہیں رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب جی ڈی پی کی شرح نمو 4 فیصد تک پہنچتی ہے تو چونکہ معیشت درآمدات پر منحصر ہے، ہم غیر ملکی زرمبادلہ سے محروم ہوجاتے ہیں اور ادائیگیوں کے توازن کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے، یہ صورتحال ہمیں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی مدد حاصل کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یقیناً ہم پائیدار ترقی چاہتے ہیں، لیکن یہ معیشت کے بنیادی ڈھانچے کو برآمدات پر مبنی بنانے کے ذریعے ہی ممکن ہوسکتی ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں توجہ حکومت سے حکومت (جی ٹو جی) تعاون سے ہٹ کر بزنس ٹو بزنس (بی ٹو بی) شراکت داری پر مرکوز ہوگی۔ حکومت کا مقصد چینی کمپنیوں کو قائل کرنا ہے کہ وہ اپنے مینوفیکچرنگ یونٹس کو پاکستان منتقل کریں تاکہ وہ پاکستان سے ایکسپورٹ کرسکیں۔ کیپٹل مارکیٹ میں تنوع لانے کے بارے میں محمد اورنگزیب نے کہا کہ پاکستان کا مقصد مصر کے تجربات سے سیکھ کر کیپٹل مارکیٹ تک رسائی کو متنوع بنانا اور کریڈٹ ریٹنگ کو بہتر بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پانڈا بانڈ جاری کرنے کی کوششیں بھی کررہے ہیں، کیونکہ پاکستان دنیا کی دوسری سب سے بڑی کیپٹل مارکیٹ تک رسائی چاہتا ہےمقامی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور ملک سے ہنر مند افرادی قوت کے انخلا کو روکنے کے منصوبے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں سابق بینکر نے کہا کہ میرے نقطہ نظر سے یہ کوئی بحث نہیں ہے لہذا اگر پاکستان کے نوجوان مردوں اور خواتین کے لئے اچھے مواقع دستیاب ہیں تو انہیں یقینی طور پر ان سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
ہمیں ضروری ماحولیاتی نظام تخلیق کرنا ہوگا جسے فراہم کرنے کیلئے حکومت سخت محنت کررہی ہے۔ وزیر خزانہ نے یہ بات دہرائی کہ حکومت کاروبار کرنے کے کام میں نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے آئی ٹی شعبے میں نوجوانوں کے لیے بے شمار مواقع موجود ہیں۔