اسلام آباد (ٹی این ایس) صحافیوں کے احتجاج میں صدر مملکت کے دستخط سے پیکا ترمیمی بل قانون بن گیا

 
0
30

(اصغر علی مبارک)
اسلام آباد (ٹی این ایس) صحافیوں کے احتجاج میں صدر مملکت کے دستخط سے پیکا ترمیمی بل 2025 قانون بن گیا صدر مملکت آصف علی زرداری نے الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام ( پیکا) ترمیمی بل 2025 کی توثیق کردی ہےپاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یوجے) کی کال پر صحافی برادری نے متنازع پیکا ایکٹ ترمیمی بل کےخلاف کراچی، لاہور، اسلام آباد اور کوئٹہ سمیت ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے، صحافی رہنماؤں نے پیکا ایکٹ میں ترمیم کو مسترد کرتے ہوئے اسے آزادی صحافت پر حملہ قرار دے دیا۔ دریں اثنا، پیکا ایکٹ ترمیمی بل کے خلاف نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں بھی صحافی برادری نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس موقع پر مقررین نے کہا کہ حالیہ ترامیم کے تحت سائبر کرائمز کے قوانین آزادی اظہارِ رائے اور صحافت کی آزادی پر حملہ ہیں، صدر مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے پیکا ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط پر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) سمیت صحافی تنظیموں کا نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں احتجاج جاری رہا جبکہ بل نامنظور کے نعرے لگائے گئے۔ اسلام آباد پریس کلب احتجاج میں صحافی برادری نے بڑی تعداد میں شرکت کی، جس کی قیادت پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ نے کی جبکہ مظاہرین نے ہاتھوں میں پیکا ترمیمی بل کے خلاف بینرز اٹھا کر نعرے بازی کی۔اس موقع پر پریس کلب کے باہر پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی صحافیوں کے احتجاج سے اینکر پرسنز، نیشنل پریس کب کے عہدیداران نے خطاب کیا اور کہا کہ یہ قانون صحافیوں پر نہیں ہر شخص پر لاگو ہے جس کے ہاتھ میں موبائل ہے۔صدر پی ایف یو جے افضل بٹ نے صحافیوں کے احتجاج سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی پریس فریڈم کے لیے جدو جہد ہے، پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھتے ہوئے بھٹو نے پی ایف یو جے سے کیے گئے وعدے پورے کیے، آصف زرداری کے دستخط کے وقت بھٹو کی روح کانپی ہوگی، آج بینظیر کی روح بھی تڑپ رہی ہوگی۔

افضل بٹ نے مزید کہا کہ پرویز مشرف نے سارے چینلز پر پابندی لگائی، اس وقت بینظیر ہمارے پاس آئی اور ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا، صدر زرداری ہمیں موقع دیں ہم ان کو بتائیں گے، ان کو بتائیں گے کہ کونسی شق آئین و حقوق سے متصادم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر بل کو اعتراض لگا کر اس کو واپس بھیج دیتے، آج پیپلز پارٹی نے ہم سب کو مایوس کیا ہے، صدر مملکت کے اس اقدام کے بعد ملک بھر میں یوم سیاہ کی کال دیں گے، جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی تاریخ اور خدو خال سب کے سامنے رکھیں گے، یوم سیاہ کے دن پریس کلبز پر سیاہ پرچم لہرائے گے، سیاسی تقاریب کی کوریج کے دوران کالی پٹیاں باندھیں گے، اینکرز شو کے دوران کالی پٹیاں باندھیں۔سیکرٹری جنرل پی ایف یو جے رانا عظیم نے اپنے بیان میں کہا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے سچ عوام تک پہنچا، سوشل میڈیا سے فیک نیوز بھی آئیں، سوشل میڈیا سے لوگوں کی تذلیل بھی کی گئی، ہم جعلی خبروں کی مذمت کرتے رہے، فیک نیوز ہے کیا اس کا تعین ہونا چاہیئے۔ رانا عظیم نے کہا کہ پیکا کے ذریعے سارے میڈیا کو پابند سلاسل کرنا درست نہیں، بہت سی چیزیں جو بے نقاب ہوتی تھیں انہیں اب بچانا ہے، پیکا ایکٹ آزادی صحافت کے خلاف ہے، سوشل میڈیا کی وجہ سے حکومت کو کچھ معاملات سے پیچھے ہٹنا پڑا۔اس موقع پر صحافی رہنما آصف بشیر چوہدری نے پیکا ایکٹ کی منظوری کے بعد صحافیوں کے احتجاج سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیکا کو قانون کا درجہ دے دیا گیا ہے، اس ایکٹ کے ذریعے حکومت چار ادراے بنا رہی ہے، اداروں کے عہدے دار حکومت کے چنیدہ ہوں گے، عہدوں کی معیاد بھی نہیں بتائی جارہی۔ آصف بشیر چوہدری نے کہا کہ چاروں اداروں کو پارلیمان کی کمیٹی بناتی، ایسا عمل بالکل بھی نہیں کیا گیا، ایک ٹربیونل میں صحافی بٹھایا جائے گا، اس صحافی کا چناؤ بھی حکومت کرے گی، پی ایف یو جے سمجھتی ہے سوشل میڈیا کی ریگولیشن وقت کا تقاضہ ہے۔جے یو آئی کے سینٹر کامران مرتضی کی جانب سے صدر مملکت کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں پیکا ایکٹ پر دستخط نہ کرنے کی یقین دہانی سے آگاہ کیا۔ سینٹر کامران مرتضی نے بتایا کہ میری موجودگی میں مولانا فضل الرحمان کی صدر مملکت آصف زرداری سے گفتگو ہوئی۔پی آر اے پاکستان نے پیکا ایکٹ کی منظوری دینے پر ایوان صدر کے کردار پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ہمیں صدر مملکت کی جانب سے وعدہ خلافی کرنے کی توقع نہیں تھی ، پی آر اے نے پیپلز پارٹی کے پارلیمان و کمیٹیوں میں کردار پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ پی آر اے پاکستان کا ورچوئل ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں صدر مملکت کی جانب سے یقین دھانی کے باوجود پیکا بل پر دستخط کیے جانے کے اقدام کو نامناسب قرار دیا۔آر آئی یو جے کے صدر طارق ورک نے کہا کہ حکومت نے بل پاس کرکیا، اس سے قبل پی ٹی آئی کی حکومت بھی بل لارہی تھی، پی ٹی آئی حکومت کی خواہش تھی، بل پاس کرنے کی ہماری جدوجہد نے ہمیں کامیاب کیا، ن لیگ پی پی پی کے رہنما مولانا فضل الرحمان نے ہمارا ساتھ دیا تھا۔ صدر آر آئی یو جے نے کہا کہ ہم نے صحافت کرنی ہے حکومت نے چلے جانا ہے، پی ٹی آئی کے دور میں موجودہ حکومت ہمارے ساتھ تھی، اس بل سے ہمارے صحافی متاثرین ہیں، اس بل کے حوالے سے ہمارے ساتھ کوئی مشاورت نہیں کی گئیں۔ طارق ورک نے مزید کہا کہ اسمبلی کے ایجنڈے پر بل نہیں تھا راتوں رات بل منظور کیا گیا، پی ایف یو جے کے صدر نے تحریک کا اغاز گزشتہ روز شروع کیا تھا۔متنازع پیکا ترمیمی بل کی منظوری کے بعد اپوزیشن ارکان طیش میں آگئے، احتجاج کرتے ہوئے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں، صحافیوں نے بھی پریس گیلری سے واک آؤٹ کیا۔ گزشتہ جمعرات کو قومی اسمبلی سے کثرت رائے سے منظوری کے بعد پیکا ترمیمی بل 2025 اگلے روز سینیٹ میں پیش کیا گیا تھا جسے چیئرمین سینیٹ نے قائمہ کمیٹی کو بجھوا دیا تھا۔ علاوہ ازیں صحافتی تنظیموں نے اپنے الگ الگ بیانات میں پیکا ترمیمی بل کی مذمت کی تھی,۔وفاقی وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین نے کہا تھاکہ بل کا تعلق اخبار یا ٹی وی سے نہیں، صرف سوشل میڈیا کو ڈیل کرے گا، صحافیوں کا اس بل سے کوئی معاملہ نہیں، یہ بل قرآنی صحیفہ نہیں، اس میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شبلی فراز نے تقریباً اس بل کو سپورٹ کیا، ایوان بالا میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے کہا کہ ایک قانون بننے میں وقت لگتا ہے، وزیر قانون آتے ہیں، آج ایک قانون بنا ہے، اور وہ کہتے ہیں کہ بس کومہ وغیرہ کی درستگی کی ضرورت ہے، فوری طور پر اسے منظور کرلیں۔ شبلی فراز نے کہا تھاکہ صحافی آج اپنے پیشہ ورانہ امور کے حوالے سے تحفظات پر احتجاج پر مجبور ہیں، کیا حکومت نے متعلقہ شراکت داروں سے مشورہ کیا ہے؟ یہ قانون برائے اصلاح نہیں، قانون برائے سزا ہے، اور ہم اس کے لیے استعمال نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے کہا تھاکہ اگر سینیٹ اس قانون کو منظور کرلیتا ہے تو لوگ کہیں گے ان سب نے مل کر اسے منظور کیا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے، ہم نے اس بل کی مخالفت کی ہے، اس قانون کے بعد کسی پر بھی پیکا لگا دیں، حکومتی بنچز میں کسی نے اس بل کو پڑھا بھی نہیں ہوگا۔ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سینیٹر ایمل ولی خان نے کہا تھاکہ پیکا قانون سے بوٹوں کی خوشبو آرہی ہے، اظہار رائے پر پابندی لگائی جارہی ہے، اس بل کو مسترد کرتے ہیں، میڈیا سے مشاورت نہیں کی گئی, یاد رہے کہ 23 جنوری کو قومی اسمبلی نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل منظور کیا تھا اور گزشتہ روز یہ بل سینیٹ سے بھی منظور ہوگیا تھا۔ وفاقی حکومت نے 22 جنوری کو پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا ایوان زیریں میں ترمیمی بل وفاقی وزیر رانا تنویر نے پیش کیا تھاجبکہ صحافیوں اور اپوزیشن نے پیکا ترمیمی بل کے خلاف ایوان زیریں سے واک آؤٹ کیاتھا۔ سائبر کرائم قوانین میں تبدیلیوں کا تازہ ترین مسودہ جس کا عنوان ’الیکٹرانک جرائم کی روک تھام (ترمیمی) بل 2025‘ تھا، کو ایک روز قبل وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا صدر مملکت نے الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام (پیکا) ترمیمی بل 2025 پر دستخط کردیے ہیں، صدر کے دستخط کے بعد پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 قانون بن گیا ہے۔مولانا فضل الرحمٰن نے صدر مملکت آصف علی زرداری کو پارلیمنٹیری رپورٹرز ایسوسی ایشن کے وفد اور صدر عثمان خان کی بریفنگ سے متعلق خدشات سے آگاہ کیا۔دی پریونشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (ترمیمی) بل 2025 میں سیکشن 26 (اے) کا اضافہ کیا گیا ہے، جس کے تحت آن لائن ’جعلی خبروں‘ کے مرتکب افراد کو سزا دی جائے گی، ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ جو بھی شخص جان بوجھ کر جھوٹی معلومات پھیلاتا ہے، یا کسی دوسرے شخص کو بھیجتا ہے، جس سے معاشرے میں خوف یا بےامنی پھیل سکتی ہے، تو اسے تین سال تک قید، 20 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ وفاقی کابینہ کو بھیجے گئے ابتدائی مسودے پر سیاسی جماعتوں اور ڈیجیٹل حقوق کے رہنماؤں کی جانب سے شدید تنقید کے بعد کچھ تبدیلیاں تجویز کی گئی تھیں۔ ان تجاویز میں شامل کیا گیا کہ ’صرف متاثرہ شخص ہی شکایت درج کراسکتا ہے اور اس بات کا تعین کرنے کے لیے میکنزم ہونا چاہیے کہ آیا شکایت کنندہ متاثرہ شخص تھا یا نہیں۔

اس کے علاوہ اس بات کا تعین بھی پہلے سے کیا جانا چاہیے کہ آیا درج کی گئی شکایت، درخواست گزار کے حقوق کی خلاف ورزی میں شمار ہوتی ہے یا نہیں۔ پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کے مطابق سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہو گا، جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں بھی دفاتر قائم کیے جائیں گے۔ ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن اور رجسٹریشن کی منسوخی، معیارات کے تعین کی مجاز ہو گی جب کہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کے ساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائے گی۔ پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کے علاوہ متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت جاری کرنے کی مجاز ہوگی، سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کا متاثرہ فرد 24 گھنٹے میں اتھارٹی کو درخواست دینے کا پابند ہو گا۔ ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی کل 9 اراکین پر مشتمل ہو گی، سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا ایکس آفیشو اراکین ہوں گے، بیچلرز ڈگری ہولڈر اور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15 سالہ تجربہ رکھنے والا شخص اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جاسکے گا، چیئرمین اور 5 اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لیے کی جائے گی۔ حکومت نے اتھارٹی میں صحافیوں کو نمائندگی دینے کا بھی فیصلہ کیا ، ایکس آفیشو اراکین کے علاوہ دیگر 5 اراکین میں 10 سالہ تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ وئیر انجینئر بھی شامل ہوں گے جب کہ ایک وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل نجی شعبے سے آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہو گا۔ ترمیمی ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کرے گی، ٹربیونل کا چیئرمین ہائی کورٹ کا سابق جج ہو گا، صحافی، سافٹ ویئر انجینئر بھی ٹربیونل کا حصہ ہوں گے۔ترمیمی بل کے مطابق پابندی کا شکار اداروں یا شخصیات کے بیانات سوشل میڈیا پر نہیں اپلوڈ کیے جا سکیں گے، ترمیم کے تحت سوشل میڈیا شکایت کاؤنسل قائم کی جائے گی، سوشل میڈیا شکایات کاؤنسل 5 اراکین اور ایک ایکس آفیشو رکن پر مشتمل ہو گی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی جانب سے ہدایات پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں اتھارٹی ٹربیونل سے رجوع کرے گی۔ترمیمی ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کرے گی، ٹربیونل کا چیئرمین ہائی کورٹ کا سابق جج ہو گا، صحافی، سافٹ ویئر انجنیئر بھی ٹربیونل کا حصہ ہوں گے۔ ترمیمی بل کے مطابق ٹربیونل کے فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں 60 دنوں میں چیلنج کیا جا سکے گا، فیک نیوز پھیلانے والے شخص کو تین سال قید یا 20 لاکھ جرمانہ عائد کیا جاسکے گا۔ سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کی تحقیقات کے لیے وفاقی حکومت قومی سائبر کرائم تحقیقاتی ایجنسی قائم کرے گی، ایجنسی کا سربراہ ڈائریکٹر جنرل ہو گا، تعیناتی 3 سال کے لیے ہو گی۔ اس کے علاوہ، اتھارٹی کے افسران اور اہلکاروں کے پاس مساوی پوسٹ کے پولیس افسران کے اختیارات ہوں گے، نئی تحقیقاتی ایجنسی کے قیام کے ساتھ ہی ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ تحلیل کر دیا جائے گا۔یاد رہے کہ فیک نیوز اور اس پر سزا کا تعین ٹربیونل کرے گا، اس ترمیم کے تحت حکومت کو سوشل میڈیا اکاؤنٹس بلاک کرنے اور ختم کرنے کا اختیار بھی ہوگا۔ یہ قانون سوشل میڈیا کے لیے ہوگا لیکن مین اسٹریم ٹی وی چینلز پر بھی لاگو کیا جاسکتا ہےکابینہ کی قانونی اصلاحات کمیٹی نےبھی ترمیمی بل اور ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن ایجنسی کے قیام کی تجویز دی تھی۔پچھلے سال وزارت آئی ٹی نے نیشنل سائبرکرائم انویسٹگیشن اتھارٹی بنانے سے متعلق ایس ار او جاری کیا تھا۔پیکا ترمیمی بل 2024 اور ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن ایجنسی کی انچارج وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی ہوگی۔اتھارٹی ڈیجیٹل حقوق سے متعلق معاملات پر حکومت کو تجاویز دے گی، ڈیجیٹل اتھارٹی انٹرنیٹ کے ذمہ دارانہ استعمال اور ضوابط کی تعمیل کو یقینی بنائے گی، اس کے علاوہ مثبت ڈیجیٹل ایکو سسٹم کو فروغ دینے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ تعاون میں سہولت فراہم کرے گی۔ ڈیجیٹل رائٹس اتھارٹی آن لائن مواد کو ریگولیٹ کرے گی جبکہ اتھارٹی سوشل میڈیا پر قانون کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرے گی، ڈیجیٹل رائٹس اتھارٹی نئے پیکا قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرے گی۔ اس کے علاوہ ڈیجیٹل حقوق کے قوانین کو نافذ کرنے کے لیے قواعد بھی بنا سکے گی جبکہ آن لائن دائرے میں صارف کی حفاظت کو فروغ دینے اور بنیادی حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے ایک محفوظ اور قابل اعتماد ڈیجیٹل ماحول بنایا جائے گا۔کچھ سخت شقوں پر تنقید کے بعد، یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ مسودہ کو واپس آئی ٹی کی وزارت کو بھیج دیا جائے گا تاکہ اس میں توازن پیدا ہو سب تسلیم کرتے ہیں کہ نفرت انگیز تقریر، بچوں کے ساتھ بدسلوکی، ہراساں کرنے، تشدد پر اکسانے یا ریاست مخالف سرگرمیوں کو ہوا دینے کے لیے آن لائن ٹولز سب سے مؤثر اور آزاد ذریعہ ہےاس چیز کو اب روکنا ہوگا، لیکن اس کے ساتھ ہی کسی بھی قانون میں حکام کو سیاسی انتقام کے لیے آزادی نہیں ملنی چاہیے اور نہ ہی انہیں احتساب سے بالاتر اختیارات دینے چاہئیں۔ میڈیا اور تفریحی مواد سماجی طور پر قابل قبول ہونا چاہیے، لیکن یہ ذمہ داری سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے انسٹاگرام، ٹک ٹاک، ایکس (سابقہ ٹویٹر)، یوٹیوب اور فیس بک پر بھی عائد ہوگی کہ وہ ایسے مواد کو بلاک کریں جو کسی بھی ملک کی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہو۔ یاد رہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کے 2 لاکھ 50 ہزار سے زائد ملازمین مناسب قانونی تحفظ کے بغیر کام کر رہے ہیں، جس میں مناسب اجرت اور کام کے بہتر ماحول جیسے مسائل شامل ہیں۔ 25ستمبر 2024 کوان مشاہدات کا انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ، ایڈووکیسی اینڈ ڈیولپمنٹ (ایراڈا )کی بریفینگ میں دعویٰ کیا گیا جسے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کیا گیا تھارپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ڈیجیٹل جرنلزم کی طرف ٹرانسفارمیشن میں حکومت لیبر قوانین میں اصلاحات کرنے میں ناکام رہی ہے، قانونی طور پر تسلیم نہ ہونے کے سبب ڈیجیٹل صحافیوں کے حقوق کو نقصان پہنچا ہے۔ تمام صحافیوں کے تحفظ کے لیے جامع قوانین کی اشد ضرورت ہے۔ موجودہ قانون ’دی نیوز پیپرز ایمپلائز ایکٹ (نیکوسا) 1973‘ میں اخبار میں کام کرنے والے صحافیوں کی حیثیت کو تسلیم کرتا ہے۔ بدقسمتی سے جدید ٹیکنالوجی کے سبب پرنٹ میڈیا سکڑ رہا ہے اور ڈیجیٹل میڈیا سے وابستہ صحافیوں کوقانونی تحفظ میسر نہیں۔ نیکوسا اخبار کے صحافیوں کو فوری برطرفی سے تحفظ کے حقوق بھی فراہم کرتا ہے، تاہم ڈیجیٹل میڈیا پر کام کرنے والے صحافیوں کو سماجی تحفظ اور پنشن جیسے فوائد میسر نہیں۔صحافیوں کو درپیش یہ صورتحال ان کو مؤثر انداز سے اپنے فرائض کو سرانجام دینے میں خلل ڈالتی ہے۔ قوانین کی عدم موجودگی کی وجہ سے زیادہ تر براڈکاسٹ اور ڈیجیٹل جرنلسٹ فریقین کے ساتھ مختلف نوعیت کے معاہدوں سے بھی محروم ہیں۔رپورٹ میں اخبارات کے ملازمین کی تنخواہوں کا تعین کرنے کے لیے نیکوسا کے تحت قائم کیے گئے ’دی ویج بورڈ‘ کو بھی ناکافی قرار دیا گیا تھا اب تک 8 ویج بورڈ ایوارڈکو گرانٹس دیئے جا چکے ہیں، آٹھواں ایوارڈ دسمبر 2019 میں طے کیا گیا تھا، جومارچ 2020 میں شائع ہوا تھا اور فروری 2020 میں نافذ ہواتھا، تاہم 5سال بعد بھی اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ ویج بورڈ کے فیصلوں کو نافذ کرنے کے لیے 1976 میں قائم کیے گئے امپلی منٹیشن ٹریبونل فار نیوز پیپر ایمپلائز (آئی ٹی این ای ) میں بھی اسی طرح کی خامیاں ہیں، گزشتہ دہائی میں آئی ٹی این ای نے 2783 کیسز نمٹائے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ 2021 ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ میڈیا میں کام کرنے والے افراد کو صحافی اور میڈیا پروفیشنلز کے طور پر تسلیم کرتا ہے، تاہم براڈکاسٹ اور ڈیجیٹل میڈیا کے صحافیوں کوملازمت کے خاطر خواہ حقوق میسر نہیں۔صحافیوں کے تحفظ کے قانون میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ صحافی کے میڈیا ہاؤسز کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے صحافی کو ایک سال کے اندر اندر اس حوالے سے تحفظ فراہم کریں۔واضح رہے کہ 9 مئی 2024 کو سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے وزیراعظم شہباز شریف نے پیکا ایکٹ 2016 میں ترمیم کی منظوری دی تھی