(اصغر علی مبارک)
اسلام آباد (ٹی این ایس) پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی برادری کے ساتھ کھڑا ہے ۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھاری قیمت ادا کی، اور ہم دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گےہم نے 9/11 کے بعد دہشت گردی کا سامنا کیا، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 88 ہزار پاکستانی شہید ہوئے، ہم نے اس ناسور کو شکست دی، اربوں ڈالر کا نقصان ہوا، ہمیں اس سرکل سے نکلنے کیلئے ادھار اور قرضے لینا پڑتے ہیں…..
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دہشتگردی کے خلاف تعاون میں پاکستان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ منصب سنبھالنے کے بعد کانگریس سے پہلے طویل ترین خطاب میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دہشتگردی کے خلاف تعاون میں پاکستان کا شکریہ ادا کیا صدر ٹرمپ نے 2021 میں کابل دھماکے کے دہشتگرد کی گرفتاری میں تعاون پر حکومت پاکستان سے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ اس دہشتگرد کی گرفتاری میں مدد پر پاکستان کا خصوصی طورپر شکریہ اداکرتا ہوں، ساڑھے تین سال پہلے داعش نے 13 امریکیوں کو افغانستان میں قتل کیا، افغانستان میں امریکیوں کو ہلاک کرنے والا اس وقت امریکا لایا جارہا ہے تاکہ وہ امریکا میں قانون کا سامنا کرسکے۔ امریکی صدرنے کہا کہ انتہاپسند دہشتگردی کے خلاف ہیں، مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہےکہ افغانستان میں دہشتگردی کا بڑا ذمہ دارپکڑاگیا ہے۔
وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دہشتگردی کے خلاف تعاون میں پاکستان کی کوششوں کو تسلیم کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر جاری بیان میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ٹرمپ نے افغانستان میں انسداد دہشتگردی کی کوششوں میں پاکستان کےکردارکا اعتراف کیا، افغانستان میں انسداد دہشتگردی کی کوششوں میں پاکستان کے کردار اور حمایت کو تسلیم کرنے اور سراہنے پر ہم صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ ٹرمپ نے داعش کمانڈر شریف اللہ کی گرفتاری کے تناظر میں پاکستان کےکردارکو سراہا، شریف اللہ افغانستان کا شہری اور ایک مطلوب دہشتگرد ہے،اس موقع پر امریکی صدر نے افغانستان سے انخلا کو انتہائی شرمناک بھی قرار دیا۔ امریکی صدر نے کانگریس سے تاریخ کا طویل ترین خطاب کیا، ان کے خطاب کا دورانیہ ایک گھنٹہ 39 منٹ اور 31 سیکنڈ تھا جب کہ اس سے قبل 1993 میں صدر کلنٹن نے ایک گھنٹہ 5 منٹ تقریر کی تھی۔ خبر ایجنسی نے دعویٰ کیا ہےکہ پاکستان نے سی آئی اے کی دی گئی معلومات کی بنیاد پر داعش کےکمانڈر کو گرفتار کرلیا جو 2021 میں افغانستان میں امریکی فوج کے انخلا کے موقع پر کی گئی بھیانک دہشتگردی کی سازش میں ملوث تھا۔ خبر ایجنسی کے مطابق 2021 میں کابل ائیرپورٹ کے ایبی گیٹ پر دہشتگردی کے اس واقعے میں 13 امریکی فوجی اور 170 افغان شہری مارے گئے تھے۔ محمد شریف اللہ داعش کے ان لیڈروں میں سے ایک ہے جس نے مبینہ طورپر اس دہشتگردی کی سازش کی تھی، وہ دہشتگرد جعفر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اسے پاکستانی خفیہ ایجنسی نے گرفتار کیا تھا اور اب اسے پاکستان سے امریکا لایا جارہا ہے جسے بدھ کو ہی امریکا لایاجائےگا۔ امریکی اہلکار نے خبرایجنسی کو بتایا کہ 26 اگست کو دہشتگردی کی اس واردات کا شریف اللہ ہی ماسٹرمائنڈ ہے۔ یہ یاد رکھیں کہ پاکستان نے سی آئی اے کی دی گئی معلومات کی بنیاد پر داعش کےکمانڈر کو گرفتار کیا جو 2021 میں افغانستان میں امریکی فوج کے انخلا کے موقع پر کی گئی بھیانک دہشتگردی کی سازش میں ملوث تھا۔2021 میں کابل ائیرپورٹ کے ایبی گیٹ پر دہشتگردی کے اس واقعے میں 13 امریکی فوجی اور 170 افغان شہری مارے گئے تھے۔ محمد شریف اللہ داعش کے ان لیڈروں میں سے ایک ہے جس نے مبینہ طورپر اس دہشتگردی کی سازش کی تھی، وہ دہشتگرد جعفر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اسے پاکستانی خفیہ ایجنسی نے گرفتار کیا تھا اور اب اسے پاکستان سے امریکا لایا جارہا ہے جسے بدھ کو ہی امریکا لایاجائےگا۔ امریکی اہلکار نے خبرایجنسی کو بتایا کہ 26 اگست کو دہشتگردی کی اس واردات کا شریف اللہ ہی ماسٹرمائنڈ ہے۔ صدر ٹرمپ نے عہدہ سنبھالتے ہی سی آئی اے ڈائریکٹر جان ریٹکلف کو ہدایت دی تھی کہ وہ ایبی گیٹ دہشتگردی میں ملوث عناصر کو پکڑنا ترجیح بنائیں، سی آئی اے ڈائریکٹر نے عہدہ سنبھالنے کے دوسرے ہی روز پاکستان میں سینئر حکام کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا تھا اورپھر فروری میں ہوئی میونخ سکیورٹی کانفرنس میں بھی پاکستان کے ایک اعلیٰ سکیورٹی عہدیدار کےساتھ اس معاملےپر بات کی تھی۔ دوسری جانب کانگریس سے خطاب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ساڑھے تین برس پہلے داعش نے13امریکیوں کوافغانستان میں قتل کیا تھا، انہیں یہ اعلان کرکے خوشی ہےکہ افغانستان میں دہشتگری کا بڑا ذمہ دارپکڑاگیا۔ صدر ٹرمپ نے یہ بھی بتایا کہ افغانستان میں امریکیوں کوہلاک کرنیوالا دہشتگرد اس وقت امریکا لایا جارہا ہے جہاں اسے قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ اس گرفتاری پروہ پاکستان کاخصوصی طورپر شکریہ اداکرتے ہیں۔
پاکستان نے ہمیشہ انسداد دہشتگردی کی کوششوں میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے جس کا مقصد دہشتگردوں اور عسکریت پسند گروہوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے سے روکنا ہے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہم دہشتگردی کی تمام شکلوں سے نمٹنے کے لیے پر عزم ہیں اور اس کوشش میں پاکستان نے عظیم قربانیاں دی ہیں جن میں ہمارے 80 ہزار سے زیادہ بہادر فوجیوں اور شہریوں کی جانیں بھی شامل ہیں۔ ہم علاقائی امن اور استحکام کے لیے امریکا کے ساتھ قریبی شراکت داری جاری رکھیں گے۔اس حقیقت کو یاد رکھیں کہ 22 جون 2024 کو پاکستان نے ایک بار پھر خطے میں دہشتگردی کا مسئلہ عالمی سطح پر اٹھایاتھا، پاکستانی سفیر منیر اکرم نے اقوام متحدہ سے افغانستان میں دہشتگردی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا مطالبہ کیاتھا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے سلامتی کونسل میں خطاب کرتے ہوئے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو خطے اور عالمی برادری کے لیے براہ راست خطرہ قرار دیا تھا۔ پاکستانی سفیر نے عالمی برادری سے افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کا مطالبہ کیا تھا، اور افغان حکومت پر زور دیا تھاکہ وہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کریں۔ انہوں نے کہاتھا کہ اگرچہ افغان عبوری حکومت نے داعش کے خلاف جنگ میں اہم پیشرفت کی ہے تاہم القاعدہ اور ٹی ٹی پی سمیت دوسرے کئی دہشت گرد گروپ ابھی بھی اُن کے ملک میں فعال ہیں۔ منیر اکرم کا کہنا تھا افغانستان میں دہشت گردوں کے کچھ دیگر گروپس بھی موجود ہیں، جن میں القائدہ، ٹی ٹی پی، اے ٹی آئی ایم، آئی ایم یو شامل ہیں، یہ وہ تمام گروپس ہے جن کے خلاف افغان عبوری حکومت کو فوری اور سخت اقدمات اٹھانے چاہیے۔ انہوں نے کہا تھاکہ ان میں سے کچھ گروپس افغانستان کے تمام پڑوسی ممالک کے لیے براہ راست خطرہ ہے اور یہ عالمی برادری کے لیے بھی شدید خطرہ ہے، جب کہ یہ دہشت گردانہ گروپس افغان عبوری حکومت کے لیے بھی شدید خطرہ ہے، کیوں کہ جب تک یہ گروہ ملک کے اندر اور باہر آزادانہ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے تب تک افغانستان میں معاشی اور اقتصادی ترقی کے مقاصد حاصل نہیں کئے جا سکتے۔
پاکستانی سفیر نے کہاتھا کہ ان گروپوں میں ٹی ٹی پی پاکستان کے لیے براہ راست اور سنگین خطرے کا باعث ہے، ٹی ٹی پی اور اس کی ذیلی تنظیمیں پاکستان پر کئی حملوں کی ذمہ دار ہیں۔چھبیس اگست 2024کو بلوچستان کے مختلف اضلاع میں ٹارگٹ کلنگ اور خود کش حملے میں 60 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کلاچی میں رواں ایک حاضر سروس لیفٹننٹ کرنل اور فرنٹیئر کانسٹبلری (ایف سی) کے تین اہلکاروں سمیت سات افراد کے اغوا کی دو مختلف وارداتیں رپورٹ ہوئی ۔ ایسے میں حکومتِ پاکستان ان تمام واقعات کا ذمہ دار افغانستان میں موجود افغان طالبان کو گردانا تھا۔ پاکستان نے آخری مرتبہ 2014 میں آپریشن ‘ضربِ عضب’ کی صورت میں دہشت گردوں کے خلاف منظم کارروائی کی تھی لیکن اس آپریشن کی توجہ دہشت گردوں کے خاتمے کے بجائے انہیں سرحد پار دھکیلنے پر تھی۔ ہ ٹی ٹی پی ایک دہشت گرد تنظیم ہے جس کا کوئی سیاسی وجود نہیں ہے اس لیے اس کے خاتمے کے لیے فوجی آپریشن ضروری ہےپاکستان یہ دعویٰ کرتا ہے کہ افغانستان میں موجود شدت پسند تنظیمیں مضبوط اور ان کے نیٹ ورکس کی جڑیں کافی گہری ہو گئی ہیں جب کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا افغانستان میں چھوڑا گیا اسلحہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ہاتھ لگ چکا ہے جو پاکستانی میں کی جانے والی کارروائیوں میں اس اسلحہ کا استعمال کرتی ہیں۔ طالبان حکومت کے فوجی سربراہ قاری فصیح الدین فطرت کالعدم ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ پاکستان میں ہونے والے حملوں میں افغان سرزمین استعمال نہیں ہوتی۔افغانستان میں طالبان حکومت کو اقتدار سنبھالے4 سال مکمل ہو چکے ہیں اور اقتدار کے ساتھ ساتھ زمینی صورتِ حال بھی طالبان کی مکمل گرفت میں آ چکی ہےخیبر پختونخوا اور بلوچستان دہشتگردوں کا خاص ٹارگٹ بنے ہوئے ہیں ۔دہشتگردوں کا نیٹ ورک تہہ در تہہ ہے ۔ اس نیٹ ورک کا ایک حصہ خود کش اسکواڈز پر مشتمل ہے ۔انکے ٹرنینگ کیمپ پاکستان کی حدود سے باہر خصوصاً افغانستان میں ہیں۔یہ اسمگلنگ ڈرگز اغوا برائے تاوان اور دیگر جرائم کرنیوالوں پر مشتمل ہیں ۔یہ لوگ سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے ہیں انکا مقصد سکیورٹی فورسز کا مورال ڈائون کرنا اور عوام میں یہ تاثر پیدا کرناہے کہ دہشتگرد سکیورٹی فورسز سے زیادہ طاقتور ہیں ۔ پاکستان میں دہشتگردی کا آغاز 1980ء کی دہائی میں افغان جنگ کے دوران اُس وقت ہوا جب پاکستان نے افغانستان میں سو ویت یونین کے خلاف مزاحمت کیلئے امریکہ اور عالمی طاقتوں کے ساتھ اتحاد کیا، افغان جہاد کے بعد یہ گروہ ملک کے اندر مختلف شدت پسند تنظیموں کی شکل اختیار کر گئے۔
2001ء کے حملوں کے بعد دہشتگردی نے شدت اختیار کرلی اور امریکہ نے اپنی سر زمین پر دہشتگردی میں ملوث تنظیموں کا پیچھا کرنے کا فیصلہ کیا ۔ پاکستا ن نے امریکہ کے ساتھ مل کر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں شمولیت اختیار کی جسکا نشانہ افغانستان تھا ۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں پاکستان کو اپنی سر زمین پر خود کش حملوں ،بم دھماکوںاور مسلح کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔جس نے نہ صرف ملکی معیشت کو بری طرح نقصان پہنچا یابلکہ ہزاروں معصوم جانیں بھی ضائع ہوئیں۔ دو دہائیوں کے بعد افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے باوجود پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیاں جاری ہیں ۔ اعدادو شمار کے مطابق 2001ء سے لیکر 2019ء تک پاکستان میں دہشتگردی کی وجہ سے تقریبا 65 ہزار افراد جاں بحق ہوئے جن میں7 ہزار کے قریب سکیورٹی اداروں کے اہلکارشامل تھے۔ 2001ء سے 2023ء تک پاکستان کو ایک محتاط اندازےکے مطابق 127بلین ڈالرز کا نقصان ہوا۔ 2020ء کے قریب پاکستانی سکیورٹی فورسز نے ملک میں دہشتگردی پر قابو پالیا تھا لیکن 15اگست 2021ء کو افغانستان میں افغان طالبان کو اقتدار کی کرسی سونپ دی گئی ۔ اس کے بعد پاکستان کے ہزاروں کی تعداد میں قیدیوں کوافغانستان کی جیلوں سے رہا کر دیا گیاجنہوں نے واپس پاکستان آکر اپنے آپ کو منظم کرنے کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ دوبارہ دھماکے شروع کر دیئے اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں دہشتگردی کے پیچھے بیرونی ہاتھ ہیں جس میں افغانستان اور بھارت ملوث ہیں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازعے یا نفرت کی کوئی بنیاد نہیں ۔ پاکستان نے افغانستان پر کبھی حملہ نہیں کیا اور نہ ہی اسکے علاقے پر زبردستی قبضہ کیاہے لاکھوں افغان باشندوں کو اپنے ملک میں پناہ بھی دے رکھی ہے اکستان افغانستان میں امن کا خواہاں ہے دہشتگردی کے حل کیلئے سکیورٹی ایکشن پلان اداروں کی استعداد اور کارکردگی بہتر بنانے کیلئے فوری اقدامات کرنا ہوں گے ۔دہشتگردوں کی مالی معاونت روکنے کیلئے قوانین کے نفاذ کو یقینی بنانا ضروری ہے ۔ حالیہ نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں دہشتگرد تنظیموں کے خلاف بلوچستان میں جامع فوجی آپر یشن کی منظوری دی گئی ۔ کمیٹی کے اجلاس سے آرمی چیف نے اپنے خطاب میں دہشت گردوں اور انتشار پسندوں کو واضح پیغام دیتے ہوئے کہا کہ آئین ہم پر پاکستان کے اندرونی اور بیرونی تحفظ کی ذمہ داری عائد کرتا ہے، جو کوئی بھی پاکستان کے تحفظ میں رکاوٹ بنے گا اور ہمیں اپنا کام کرنے سے روکے گا اسے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ دہشتگرد چاہتے ہیں کہ لوگ ان کی موجودگی کو محسوس کریں اور ان پر دہشت طاری رہے۔اس علاقے میں جتنے بھی زمینی اور قبائلی تنازعات ہیں انہیں حل کرنے کیلئے مقامی عمائد ین سے مدد لی جانی چاہیے اور فرقہ وارانہ مسائل کے حل کیلئے تمام مسالک کے اہم علما کو اکٹھا کیا جانا چاہیے۔یہ درست ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دہشتگردی کے خلاف تعاون میں پاکستان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ہماری ان قربانیوں کا اب عالمی سطح پر بھی اعتراف کیا جانے لگا ہے لیکن جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ۔ یہ جنگ کا آخری مرحلہ ہے اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں ہمیں پہلے سے زیادہ چوکنا ہونے کی ضرورت ہے