اسلام آباد (ٹی این ایس) دہشت گردی کے خلاف جنگ;پاکستانی فوجی اور سول قیادت ایک پیج پر

 
0
37

اصغر علی مبارک

اسلام آباد (ٹی این ایس) پاکستان کا بڑا چیلنج دہشت گردی ہےحالیہ کچھ عرصے میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بہت زیادہ شدت آئی ہے , دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی فوجی اور سول قیادت ایک پیج پر ہیں, اسلام آباد میں جعفر ایکسپریس پر حملے کے حوالے سے وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا کہ مشرقی پڑوسی پاکستان میں دہشت گردی کا مین اسپانسر ہے، جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد بھارتی میڈیا جعلی اے آئی ویڈیوز کے ذریعے پروپیگنڈا کرتا رہا اور دہشت گردوں کی پروپیگنڈا ویڈیوز دنیا کو دکھاتا رہا۔ جعلی ویڈیوز کے ذریعے پاکستان کے خلاف بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی،بھارتی میڈیا نے جھوٹی ویڈیوز سے ملکی تشخص خراب کرنے کی کوشش کی۔دہشت گردوں نے منظم انداز میں کارروائی کی، جعفر ایکسپریس واقعہ انتہائی دشوار گزار علاقے میں پیش آیا، ٹرین سے پہلے دہشت گردوں کی بڑی تعداد نے ایف سی چیک پوسٹ پر حملہ کیا،جہاں ایف سی کے 3 جوان شہید ہوئے۔ دہشت گردوں نے آئی ای ڈی کی مدد سے ریلوے ٹریک کو دھماکے سے اڑایا اور مسافروں کو ٹرین سے اتار کر ٹولیوں میں تقسیم کیا،سوشل میڈیا پر ٹرین واقعے کی اے آئی سے جعلی ویڈیوز بنائی گئیں، بھارتی میڈیا جعلی اے آئی ویڈیوز کے ذریعے پروپیگنڈا کرتا رہا۔
یہ یاد رکھنا چاہیےکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ محض سیکیورٹی ادارے نہیں جیت سکتے۔ اس کے لیے سیاسی قیادت سمیت دیگر فریقین کو فرنٹ فٹ پر اس جنگ کا سامنا کرنا ہوگا۔ ۔دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ نئی نہیں ,پچھلی کئی دہائیوں سے ہمیں مختلف نوعیت کی دہشت گردی کا سامنا ہے۔دہشت گردی سے جڑے مسائل کا تعلق علاقائی اور عالمی سطح سے جڑے معاملات سے ہے۔دہشت گردوں کے خلاف یہ جنگ جیتنے کے لیے پاکستان کو عالمی تعاون درکار ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ اگر امریکا اپنے چھوڑے ہتھیار افغانستان سے واپس لے تو خطے میں امن بحال ہو سکتا ہے۔ پاکستان کو افغانستان سے دہشت گردوں کی در اندازی کے خطرات لاحق ہیں۔ پاکستان بار بار افغانستان کو یہ باور کرا چکا ہے کہ اس کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ لیکن نہ تو عالمی دنیا نے اور نہ ہی افغانستان نے اس معاملے میں کوئی بڑی پیش رفت کی ہے۔ افغانستان وہ کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے جو پاکستان چاہتا ہے۔ عالمی دہشت گردی انڈیکس 2025 میں پاکستان دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کی رپورٹ میں گزشتہ 17 سال کے دوران دہشت گردی کے رجحانات اور اثرات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔2024 میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 45 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2023 میں 517 حملے رپورٹ ہوئے جو 2024 میں بڑھ کر 1099 ہو گئے ہیں جو گزشتہ ایک دہائی میں سب سے بڑا سالانہ اضافہ ہے۔اس رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی سب سے خطرناک دہشت گرد تنظیم کے طور پر سامنے آئی ہے جو 2024 میں پاکستان میں 52 فیصد ہلاکتوں کی ذمے دار تھی۔گزشتہ برس ٹی ٹی پی نے 482 حملے کیے جن میں 558 افراد جاں بحق ہوئے جو 2023 کی 293 ہلاکتوں کے مقابلے میں 91 فیصد زیادہ ہے۔ رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد دہشت گردوں کو وہاں محفوظ پناہ گاہیں مل گئی ہیں,پاکستان نے کئی بار افغان طالبان حکومت کو یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں ان کی مدد اور تعاون کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔لیکن افغان طالبان اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور ٹی ٹی پی کے حوالے سے جو ہمارے تحفظات ہیں ان پر کوئی توجہ دینے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔ یقینی طور پر ہمیں افغان طالبان پر دوحہ معاہدے کی پاسداری کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے اور یہ کام بڑی طاقتوں کی مدد اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں, لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا کہ دہشت گردوں نے 11مارچ کی رات یرغمالیوں کے ایک گروپ کو لسانی بنیاد پر چھوڑا، جسی کی کچھ لاجسٹک وجوہات تھیں کیونکہ اتنے لوگوں کو قابو نہیں کیا جاسکتا، دوسرا یہ کہ انہیں خود کو انسانیت دوست ہونے کا تاثر دینا تھا۔انہوں نے بتایا کہ دہشت گردوں نے اپنے کچھ ساتھیوں کو ٹرین پر چھوڑا اور ایک بڑی تعداد پہاڑوں میں اپنے ٹھکانوں کی جانب چلی گئی، جن کی نگرانی کرنے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے انہیں نشانہ بناکر ختم کیا اور ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ترجمان پاک فوج کے مطابق دہشت گردی کی پوری کارروائی کے دوران دہشت گردی افغانستان میں اپنے ہینڈلر سے مسلسل رابطے میں تھے، انہوں نے بتایا کہ 12 مارچ کی صبح ہماری فورسز نے اسنائپرز کے ذریعے دہشتگردوں کو نشانہ بنایا تو یرغمالیوں کا ایک گروپ دہشتگردوں کے چنگل سے بھاگ نکلا، جنہیں ایف سی کے جوانوں نے ریسکیو کیا جبکہ دہشت گردوں کی فائرنگ سے کچھ یرغمالی شہید بھی ہوئے۔انہوں نے بتایا کہ 12 مارچ کی دوپہر اسپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) کی ضرار کمپنی نے آپریشن کی کمان سنبھالی اور یرغمالیوں کے درمیان موجود خودکش بمباروں کو اسنائپر کی مدد سے نشانہ بنایا تو یرغمالیوں کو پھر بچ نکلنے کا موقع ملا اور دہشت گردوں کے نرغے سے نکل مختلف سمتوں میں بھاگ نکلے۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شہریف نے بتایا کہ ٹرین کے باہر سے یرغمالی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تو ایس ایس جی کی ضرار کمپنی کے جوان انجن کے راستے ٹرین میں داخل ہوئے بوگی بہ بوگی پوری ٹرین کو دہشت گردوں سے پاک کیا اور یرغمال بنائے گئے خواتین اور بچوں کو ریسکیو کیا۔ آپریشن اس قدر مہارت سے کیا گیا کہ پوری کارروائی کے دوران کسی معصوم یرغمالی کی جان نہیں گئی، جو شہادتیں ہوئیں وہ آپریشن شروع کیے جانے سے قبل ہوئیں، دہشتگردوں نے 24 گھنٹے کے دوران کئی یرغمالیوں کو شہید کیا تاہم آپریشن کے دوران وہ چاہ کر بھی کسی کی جان نہیں لے سکے، دوران آپریشن ضرار کمپنی کی جانب ایک اسنائپر کا فائر آیا تھا، بعدازاں مذکورہ دہشت گرد کو بھی نشانہ بنایا گیا دہشت گردوں کے پاس غیرملکی اسلحہ اور آلات موجود تھے، آپریشن میں بازیاب ہونے والے مسافروں کو خوراک مہیا کی گئی اور فورسز کی نگرانی میں محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا، پریس کانفرنس کے دوران آپریشن کے مختلف مراحل اور یرغمالیوں کی محفوظ مقام پر منتقلی کی وڈیو بھی دکھائی گئی۔ ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ تاریخ میں ٹرین کو یرغمال بنانے کے جتنے واقعات ہیں، یہ واقعہ آپریشن کے حوالے سے سب سے زیادہ کامیاب ترین تھا، جہاں 36 گھنٹے کے اندر انتہائی دور افتادہ مقام پر خودکش بمباروں کی موجودگی کے باوجود پاک فوج، ایئرفورس اور ایف سی نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ اس آپریشن کو مکمل کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ دہشت گردی کا ایک اور واقعہ ہے جس کے لنکس پڑوسی ملک افغانستان سے ملتے ہیں، یہ جاری عمل کا ایک حصہ ہے، کیوں کہ یہاں جو تشکیلات آتی ہیں، افغانی اس کا حصہ ہوتے ہیں، یہاں جو خودکش بمبار آتے ہیں وہ افغانی ہوتے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے اسکرین پر تصاویر دکھاتے ہوئے کہا کہ حال میں ہلاک خارجی بدرالدین یہ نائب گورنر صوبہ باغدیس کا بیٹا تھا، خارجی میجب الرحمٰن افغانستان کی آرمی میں ایک بٹالین کمانڈر تھا اور یہ پاکستان میں دہشت گردی کر رہا تھا، اسی طرح ابھی بنوں واقعہ ہوا، اس میں بھی افغان دہشت گرد ملوث تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اسی طرح ان کے پاس سے جو ہتھیار ملے وہ بھی افغانستان سے لائے گئے تھے، لیکن جو بلوچستان میں واقعہ ہوا ہے اور اس سے پہلے جو واقعات ہوئے ہیں، اس کا مین اسپانسر مشرقی پڑوسی ہے۔ اس موقع پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے گرفتار بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے اعترافی ویڈیو بیانات دکھائے گئے، جس میں وہ کہہ رہا ہے کہ را کا ہدف اور مقصد بلوچستان میں متعدد دہشت گردی کی کارروائیاں کرنا ہے، اس وقت میرا پاکستان آنے کا مقصد بلوچ قوم پرستوں کے ساتھ ملاقات کرنا ہے اور را کے 30 سے 40 کارندوں کے مکران کوسٹ کے اطراف بلوچ قوم پرستوں کے ساتھ کارروائی کرنا ہے اور مقصد یہ ہے کہ را کے کارندے فیلڈ میں رہیں کہ وہ بلوچ قوم پرستوں کی مدد اور ان کی سہولت کاری کرسکیں تاکہ وہ مخصوص اہداف کو نشانہ بنا سکیں، اور ملٹری کی طرز کا کنشکن تمام آپریشن کیا جاسکے کیونکہ بلوچستان کی تحریک سمندر کے ذریعے نہیں ہوتی، مقصد ہے کہ بلوچ قوم پرستوں کو محفوظ زمین فراہم ہوسکے اور سمندر کی طرف سے مکمل طور پر کوآرڈینیڈ ہو’ڈی جی آئی ایس پی آر نے سابق بھارتی آرمی چیف کا بیان میں چلوایا، جس میں وہ کہہ رہا ہے کہ ’اگر ہم قوم پرست تحریکوں کو بڑھاوا دیتے ہیں تو اگر ہم تیل پھینکیں گے تو یقیناً پاکستان فوج، جو ان کا اندرونی ماحول ہے‘ انہوں نے ہتھیار ڈالنے والے بلوچوں کا بیان بھی دکھایا، جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ’کوئی جنگ نہیں ہو رہی ہے، لوگ صرف اپنے ذاتی مفادات کے لیے عام معصوم بلوچوں کو مروا رہے ہیں، اس تمام سازشوں میں خاص کر بھارت کا ہاتھ ہے‘۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ اس لیے جعفر ایکسپریس کا واقعہ ہوا ہے، یہ اسی پالیسی کا تسلسل ہے، وہیں سے پش کیا گیا کہ یہ کام کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور سلام پیش کرتے ہیں، ان بہادر جوانوں کو جنہوں نے اپنی مصنوبہ بندی، دلیری سے ایک انتہائی خطرناک صورتحال سے معصوم جانوں کو بچایا۔ ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ یہ جو گرد ہے، اس کے خلاف افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے ادارے لڑتے ہیں، دہشت گردی کے خلاف پوری قوم نے لڑنا ہوتا ہے، اگر آپ احاطہ کریں تو 2014 کے نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے اتفاق رائے ہوا تھا، جس میں تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز نے بیٹھ کر فیصلہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح پچھلی حکومت نے نظرثانی شدہ نیشنل ایکشن پلان دیا تھا، جس میں 14 نکات تھے، اور ہی 14 نکات وژن عزم استحکام میں شامل ہیں، تمام اسٹیک ہولڈرز متفق ہیں کہ یہ 14 کام کریں گے تو دہشتگردی کا خاتمہ ہوگا۔ پریس کانفرنس کے آغاز میں وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز کو کامیاب کارروائی پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں، پاک فوج کا یرغمالیوں کی رہائی کو ممکن بنانا قابل تعریف ہے۔ بدامنی پھیلانے والے عناصر سے کوئی رعایت نہیں برتی جائےگی، علیحدگی پسندوں سے دہشت گردوں جیسا برتاؤ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ جعفر ایکسپریس پر حملے کی مذمت کرنے پر امریکا، چین، روس، برطانیہ، ایران، ترکی ،اردن، متحدہ عرب امارات، بحرین، یورپ، اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری اور یورپی سفیر کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بلوچ روایات میں اس طرح واقعات کو اس نظر سے دیکھاجاتا ہے جس کا بلوچ روایات سے کوئی تعلق نہیں، بلوچ روایتوں کے امین ہیں مگر دہشت گردوں نے ان تمام روایات کو پامال کردیا ہے، اس لیے میں کہتاں ہیں انہیں بلوچ نہ کہا جائے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والے خوارج کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، اسی طرح بلوچیت کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کا بلوچیت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لڑائی کا بلوچیت اور حقوق سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ خالصتاً شیطانی قوتیں اور دہشتگرد ہیں، جو پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرکے اسے توڑنا چاہتے ہیں۔ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ افغان سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہو رہی ہے، بہت پہلے سے ہو رہی ہے، انہوں نے دوحہ میں دنیا کے ساتھ معاہدہ کیا ہے کہ ان کی سرزمین کسی اور کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، یہ دنیا کو بھی سوچنا پڑے گا کہ یہ خطرہ صرف پاکستان کے لیے نہیں ہے۔ واضح رہے کہ 11 مارچ کو دہشت گردوں نے بولان پاک کے علاقے میں ریلوے ٹریک کو دھماکے سے اڑایا، اور جعفر ایکسپریس پر حملہ کر کے 400 سے زائد مسافروں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ اگرچہ دور دراز علاقے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا تھا، لیکن سیکیورٹی فورسز نے ڈھاڈر کے علاقے میں بولان پاس میں یرغمالیوں کو بچانے کے لیے ایک بڑا آپریشن کیا تھا۔ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے بتایا تھا کہ جعفر ایکسپریس کے یرغمالی مسافر بازیاب ہوگئے اور تمام 33 دہشت گرد ہلاک کردیے گیا، تاہم آپریشن شروع ہونے سے پہلے دہشت گردوں نے 21 شہریوں کو شہید کیا۔دریں اثنا، صدرمملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم محمد شہباز شریف نے علیحدہ علیحدہ بیان میں جعفر ایکسپریس آپریشن مکمل کرنے اور یرغمال شہریوں کو بازیاب کرنے پر پاک فوج اور سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔صدر مملکت آصف علی زرداری نے جعفر ایکسپریس آپریشن مکمل کرنے پر سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کیا، انہوں نےآپریشن کے دوران 21 شہریوں اور 4 ایف سی جوانوں کی شہادت پر گہرے دُکھ اور افسوس کا اظہار کیا تھا۔ اپنے بیان میں صدر مملکت آصف علی زرداری نے سیکیورٹی فورسز کی جانب سے موثر کاروائی میں 33 دہشت گرد جہنم واصل کرنے پر فورسز کی بہادری کی تعریف کی، صدر مملکت نے شہریوں اور مسافروں کو بازیاب کرانے پر سیکیورٹی فورسز کی پیشہ وارانہ مہارت کو سراہا تھا۔ صدر مملکت نے جامِ شہادت نوش کرنے پر 4 ایف سی جوانوں کو خراج عقیدت پیش کیا تھا۔ بعدازاں، وزیراعظم محمد شہباز شریف نے جعفر ایکسپریس آپریشن مکمل کرنے اور یرغمال شہریوں کو بازیاب کرنے پر پاک فوج اور سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین کیا تھا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آپریشن انتہائی مہارت کے ساتھ کیا گیا، ہمارے بہادر جوانوں اور افسروں نے بہادری اور دلیری کا مظاہرہ کیا، 33 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا تھا۔ شہباز شریف کی آپریشن میں سیکیورٹی فورسز کے جوانوں اور ٹرین کے مسافروں کی شہادت پر رنج و الم کا اظہار کیا تھا، وزیراعظم نے شہدا کے لیے دعائے مغفرت اور لواحقین کے لیے صبر و استقامت کی دعا کی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ نہتے اور معصوم شہریوں کی جان و مال کو نقصان پہنچانے والوں کا دین اسلام اور اس ملک سے کوئی تعلق نہیں، معصوم شہریوں پر حملہ کرنے والوں کو ہر محاذ پر شکست دینے کے لیے پر عزم ہیں۔ شہباز شریف نے کہا تھاکہ ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک دہشتگردوں کے خلاف ہماری جنگ جاری رہے گی، وزیراعظم محمد شہباز شریف کل بلوچستان کے شہریوں سے اظہار یکجہتی اور سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظر بلوچستان کا دورہ  کیا تھا