اسلام آباد (ٹی این ایس) امریکہ کا ایران پر حملہ;عالمی امن شدید خطرے میں

 
0
38

(اصغر علی مبارک)

اسلام آباد (ٹی این ایس) ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکہ کے حملے کے بعد عالمی امن شدید خطرے میں ہے اور یہ خطرہ بدستور موجود ہے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی جانب سے ایکس پر قرآن پاک کی سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 126 کا ترجمہ پوسٹ کیا گیا ہے ’اور فتح صرف اللہ کی طرف سے ہے، جو غالب ہے، حکمت والا ہے‘ (سورۃ آل عمران 3:126)۔ انہوں نے اپنے پیغام میں لکھا کہ یقیناً اللہ تعالیٰ ایرانی قوم کو، حق کو، اور سچائی کے ساتھ کھڑے ہونے والوں کو ضرور فتح عطا فرمائے گا، ان شاء اللہ۔ ایرانی قوم کے نام پیغام میں خامنہ ای نے کہا کہ میں اپنی عزیز قوم سے کہنا چاہتا ہوں کہ اگر دشمن کو یہ محسوس ہوا کہ آپ ان سے ڈرتے ہیں، تو وہ آپ کو کبھی نہیں چھوڑے گا۔ ان کا کہنا تھاکہ آپ نے آج تک جو رویہ اختیار کیا ہے، اُسے جاری رکھیں، اور اسی قوت، ہمت اور استقامت کے ساتھ آگے بڑھیں۔ سپریم لیڈر نے مزید لکھا کہ امریکا (جو صیہونی حکومت کا دوست ہے) میدان میں آ چکا ہے، اسرائیل کا امریکا سے مدد مانگنا خود اس حکومت کی کمزوری اور بے بسی کی علامت ہے۔ امریکہ نے جنگ کا دائرہ وسیع کر دیا ہے، اب جو کچھ ہو گا اس کا ذمے دار امریکا کو ٹھہرانا چاہیے ایران کے لیے آبنائے ہرمز بند کرنا مشکل نہیں، ایسا ہوا تو کئی ممالک کی معیشت متاثر ہو گی ایران پر حملے میں امریکا نے ماضی کے برخلاف اقوامِ متحدہ، آئی اے ای اے اور امریکی انٹیلی جنس ڈائریکٹر سمیت پوری عالمی برادری اور قوانین کو نظر انداز کیا۔وزیراعظم شہباز شریف اور ایران کے صدر مسعود پزشکیان کے درمیان ٹیلیفون پر بات چیت ہوئی، شہباز شریف نے ایران پر امریکی حملوں کی مذمت کی۔شہباز شریف نے کہا کہ امریکی حملوں میں ان تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا جو عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے تحفظات کے تحت تھیں، حملے آئی اے ای اے کے قانون اور دیگر بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہیں، اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل51 کے تحت ایران کو حق کا دفاع ہے۔ایرانی صدر نے ایران کے عوام اور حکومت کے ساتھ اظہارِ یک جہتی پر وزیرِ اعظم شہباز شریف کا شکریہ ادا کیادوسری طرف چین نے ایران پر امریکی حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔چینی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ امریکی حملے سے مشرقِ وسطیٰ کے کشیدہ حالات مزید بدتر ہوں گے، ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملہ قابلِ مذمت ہے۔اس دوران روسی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ امریکی حملہ بین الاقوامی قانون، یو این چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔اس کے علاوہ فرانسیسی وزیرِ خارجہ نے تمام فریقین تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ این پی ٹی کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے بات چیت سے ہی حل نکل سکتا ہے،دوسری طرف ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کے ایران اور امریکا کے درمیان جاری تنازع کے ممکنہ طور پر پورے خطے میں پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر سعودی عرب میں ہائی الرٹ کردیا گیا ہے جبکہ بحرین اور کویٹ نے بھی ہنگامی اقدامات کرلیے ہیں۔ برطانوی وزیرِ اعظم نے ایران کو مذاکرات میں واپس آنے اور کشیدگی کے خاتمے کا سفارتی حل تلاش کرنے کا پیغام دیا۔ روس,چین, شمالی کوریا اور دیگر ممالک پہلے ہی امریکی پالیسیوں سے ناخوش ہیں رہی سہی کسر امریکی حملے نے پوری کردی ہے۔یمن کی حوثی اکثریتی تنظیم انصار اللّٰہ نے کہا ہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں سے جنگ کا آغاز ہوگیا ہے ایران کی جوہری تنصیب کو تباہ کرنا جنگ کا خاتمہ نہیں، بلکہ یہ ایک آغاز ہے۔ایران نے جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کے بعد اسرائیل پر جوابی میزائل حملہ کردیا، تل ابیب اور مقبوضہ بیت المقدس میں متعدد دھماکے سنے گئے ہیں ایران کی ایٹمی توانائی ایجنسی نے تین تنصیبات پر امریکی حملے کی تصدیق کی ہےجبکہ واضح کیا ہے کہ پرامن ایٹمی پروگرام جاری رکھا جائے گاایرانی حکام کا دعویٰ ہے کہ ایران نے حملے سے پہلے تینوں ایٹمی تنصیبات خالی کرالی تھیں، نشانہ بنائے گئے سائٹس میں کوئی مواد نہیں تھا جو اخراج کا باعث بنے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ایران پر امریکی حملے کو کشیدگی میں خطرناک اضافہ قرار دیاہے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر امریکی حملے کے بعد اپنے بیان میں انتونیو گوتریس نے کہا کہ اس بات کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے کہ یہ تنازع تیزی سے قابو سے باہر ہوسکتا ہے۔ تنازع سے خطے اور دنیا پر تباہ کن اثرات پڑسکتے ہیں، تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، آگے بڑھنے کا واحد راستہ سفارت کاری ہے، واحد امید امن ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے جوہری تنصیاب پر امریکی حملے کے بعد سرکاری ردعمل جاری کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ امریکی حملہ افسوسناک، اشتعال انگیز اور دور رس نتائج کا حامل ہوگا ایکس پر جاری بیان میں عباس عراقچی نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن امریکا نے ایران کی پُرامن جوہری تنصیبات پر حملہ کر کے اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون، اور این پی ٹی (جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے) کی سنگین خلاف ورزی کی ہے اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک کو اس انتہائی خطرناک، قانون شکن اور مجرمانہ طرزِ عمل پر شدید تشویش ہونی چاہیے۔ یہ یاد رکھیں کہ پاکستان ترکی سمیت دیگر ممالک مسئلہ حل کرنے میں مصروف تھے لیکن امریکی انتظامیہ نے ایرانی حکام سے مذاکرات کے اعلان کے بعد حملہ کے غلطی کی ہےاور یہ اس وقت ہوا جب اسلامی ممالک امن عمل کے لیے ترکی میں اکٹھے تھے۔ ترک صدر سے ملاقات کے بعد پاکستان سمیت دیگر ممالک نےمشرق وسطیٰ میں امن کی امید ظاہر کی تھی ۔ ایران کی درخواست پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی )کا ہنگامی اجلاس استنبول میں منعقد ہواہے علاقائی ممالک نے ایران سے یکجہتی کا اظہار کیاہےاس موقع پر نئی دہلی میں تعینات ایرانی سفارتکار نےمطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیلی حملوں کی مذمت کرے کیونکہ یہ فوجی جارحیت بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے فرانسیسی ہم منصب ایمانوئل میکرون کو واضح کیا کہ ان کا ملک جنگ کی دھمکیوں کے باعث کسی صورت اپنے جوہری حقوق سے دستبردار نہیں ہوگا، ترک صدر رجب طیب ایردوان نے اجلاس سے خطاب کرتےہوئےکہا کہ نیتن یاہو ہٹلر پورےخطے کو تباہی کی طرف دھکیلنا چاہتا ہے،ترک صدر نے کہا کہ مسلمانوں کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے اور یہ وقت ہے کہ اپنے اختلافات کو ختم کرکے ایک ہوجائیں،نیتن یاہو حکومت خطے میں امن کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے،سیکریٹری جنرل اوآئی سی نے اسرائیل کی ایران اور غزہ پر جارحیت کو ناقابل قبول قرار دیا اور کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہرملک کواپنے دفاع کا حق حاصل ہے، ایران اسرائیل تنازع کا پرامن حل تلاش کیا جانا چاہیے، ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی نے اس موقع پر کہا کہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف اپنےدفاع کاحق ہے، اسرائیل نے15 جون کو ہونے والے مذاکرات سے 2 روز قبل ایران پر حملہ کیا، اسرائیلی حملے سے ظاہر ہےکہ وہ سفارتکاری کے خلاف ہے۔قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن بن جاسم الثانی نےاسرائیل کے اس اقدام کو “ایران کی خودمختاری اور سلامتی کی کھلی خلاف ورزی، اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں کی واضح خلاف ورزی” قرار دیا۔ ترک رہنما نے کہا کہ اسرائیل کو “فوری طور پر روکا” جانا چاہیے۔پاکستان خطے کا اہم ملک ہے اور پاکستان کے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی امریکی صدر سے اڑھائی گھنٹے کی ملاقات میں ایران اسرائیل جنگ کا موضوع زیر بحث آیا جس پر پاکستانی موقف جاندار تھاامریکی میڈیا نے کہا ہے کہ امریکا نے ایران کے فردو جوہری سائٹ حملے میں 6 بنکر بسٹر بم استعمال کیے، امریکا نے دیگر ایرانی جوہری سائٹس پر حملے میں 30 ٹوماہاک میزائل استعمال کیے ایران میں حکومت کی تبدیلی کا منصوبہ زیر غور نہیں۔فردو اور نطنز ایٹمی تنصیبات پر حملہ ایران کے مقامی وقت کے مطابق رات ڈھائی بجے کیا گیا۔فردو اور نطنز پر امریکی حملوں کی توقعات تھیں مگر اصفحان زیادہ پیچیدہ اور کم زیرِ بحث ہدف تھا، وہاں لیبارٹریز اس بات پر تحقیق کرتی تھیں کہ یورینیئم کو کس طرح اس درجے پر لایا جائے جہاں وہ ایٹمی ہتھیار بنانے میں استعمال کیا جاسکتا ہے اور 60 فیصد تک افزودہ یورینیئم کو وہاں رکھا جاتا تھا۔ اس تنصیب کو عالمی معائنہ کار جانتے تھے۔ فردو ایٹمی تنصیب قم شہر کے قریب پہاڑوں میں 260 فٹ نیچے واقع ہے اصفحان میں واقع ایٹمی پلانٹ میں 3 ہزار سائنسدان کام کرتے تھے جہاں چین کے تیار کردہ 3 نیوکلیئر ری ایکٹرز موجود ہیں۔امریکی میڈیا کے مطابق اس تنصیب کا تحفظ کرنے کے لیے روسی دفاعی نظام بھی نصب تھا۔ایرانی تنصیبات پر حملے سے چند گھنٹے قبل امریکا نے اپنے بی ٹو بم بار طیارے بحرالکاہل کی جانب روانہ کئے تھے، یہ امریکی بم بار طیارہ 30 ہزار پاؤنڈ وزنی بنکر بسٹر بم گرا سکتا ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو ردعمل کی صورت میں مزید مہلک حملوں کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب یا تو امن ہوگا یا پھر ایران کے لیے سانحہ ہوگا۔ واشنگٹن میں اپنے خطاب میں امریکی صدرنے کہا کہ حملوں میں ایران کی فردو، نطنز اور اصفہان کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ ایران کی تنصیبات ختم کردی گئی ہیں، ایران کو اب امن قائم کرنا چاہیے، امن قائم نہ کرنے کی صورت میں مستقبل کے حملے بہت زیادہ شدید ہوں گے۔دوسری جانب، امریکی کانگریس کی ڈیموکریٹ رکن سارا جیکبز نے ایران پر صدر ٹرمپ کے فضائی حملوں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کے ایران پر حملے نہ صرف غیر آئینی ہیں، بلکہ یہ ایک خطرناک اشتعال انگیزی ہے یاد رہے کہ یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب ایران اور اسرائیل کے درمیان شدید کشیدگی جاری ہے اور ایران کی جانب سے اس حملے پر ردعمل کا شدت سے امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔امریکی انٹیلی جنس ذرائع کا کہنا ہے کہ فردو کی تنصیب کو نشانہ بنانے پر ایران جوہری ہتھیار بنانے کی جانب قدم اٹھا سکتا ہے۔ ایران کے پاس اتنی افزودہ یورینیم موجود ہے جو بم تیار کرنے کے لیے درکار ہوتی ہےایران کے جوہری ارادوں پر بحث طویل عرصے سے امریکی پالیسی حلقوں میں تنازع کا باعث رہی ہے، اور اب فردو پر حملےپر معاملہ دوبارہ شدت اختیار کر گیا ہے وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیویٹ نے ایک نیوز بریفنگ میں کہا کہ ایران کے پاس جوہری بم بنانے کے لیے درکار تمام مواد موجود ہے۔’یہ بات بالکل واضح ہونی چاہیے، ایران کے پاس جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے لیے تمام ضروری وسائل موجود ہیں، اب صرف سپریم لیڈر کے فیصلے کی ضرورت ہے اور اس فیصلے کے بعد بم کی تیاری میں صرف چند ہفتے لگیں گے,امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایران صرف 15 دن میں جوہری ہتھیار تیار کر سکتا ہے انٹیلی جنس اہلکاروں کا ماننا ہے کہ ایران نے بڑی مقدار میں یورینیم اس لیے جمع کیا ہے تاکہ وہ ضرورت پڑنے پر فوری طور پر جوہری بم کی تیاری کی جانب بڑھ سکےیاد رہے کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے 2003 میں ایک فتویٰ جاری کیا تھا، جس میں جوہری ہتھیاروں کی تیاری کو ممنوع قرار دیا گیا، امریکی انٹیلی جنس اہلکار نے کہا کہ یہ فتویٰ اس وقت مؤثر ہے جب سے اسرائیل نے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے شروع کیے ہیں، اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ ایران بم بنانے کے اجزا حاصل کرنے سے چند ہفتے کی دوری پر ہےادھر 10 جون کو کانگریس میں بیان دیتے ہوئے سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل ای کوریلا نے کہا تھا کہ ایران کا جوہری ذخیرہ اور دستیاب سینٹری فیوجز اسے ایک ہفتے میں ہتھیاروں کے قابل مواد تیار کرنے کے قابل بنا سکتے ہیں، اور 10 جوہری ہتھیار تیار کیے جا سکتے ہیں۔ ایران کے پاس موجود یورینیم کا ذخیرہ 60 فیصد تک افزودہ ہے جبکہ جوہری بم بنانے کے لیے اسے مزید افزودہ کر کے 90 فیصد تک پہنچانا ضروری ہوتا ہے، یورینیم کی افزودگی کا مطلب یہ ہے کہ قدرتی یورینیم میں موجود بھاری آئسوٹوپ ’یو 238‘ کی مقدار کم کی جائے اور ہلکے آئسوٹوپ ’یو 235‘ کی مقدار بڑھائی جائے، جو جوہری ردعمل کو برقرار رکھ سکتا ہے۔امریکا اور اسرائیل کا خیال ہے کہ ایران کے پاس جوہری بم بنانے کی تکنیکی صلاحیت موجود ہے، لیکن کسی بھی انٹیلی جنس رپورٹ میں یہ نہیں کہا گیا کہ ایران نے واقعی بم بنانے کا عمل شروع کر دیا ہے۔امریکی انٹیلی جنس کا اندازہ ہے کہ اگر ایران ایک سادہ اور کم جدید بم بنانے کا راستہ اختیار کرے، جو میزائل پر نصب نہ ہو سکے، تو وہ بم بنانے کا وقت کم کر سکتا ہے، ایسا ابتدائی طرز کا بم ممکنہ طور پر اُس بم سے مشابہ ہو گا جو امریکا نے ہیروشیما پر گرایا تھا، جس کا وزن تقریباً 10 ہزار پاؤنڈ اور لمبائی 10 فٹ تھی اور جسے میزائل کے بجائے جہاز سے گرایا گیا تھا۔ یاد رہے کہ یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب ایران اور اسرائیل کے درمیان شدید کشیدگی جاری ہے اور ایران کی جانب سے اس حملے پر ردعمل کا شدت سے امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔امریکی انٹیلی جنس ذرائع کا کہنا ہے کہ فردو کی تنصیب کو نشانہ بنانے پر ایران جوہری ہتھیار بنانے کی جانب قدم اٹھا سکتا ہے۔ ایران کے پاس اتنی افزودہ یورینیم موجود ہے جو بم تیار کرنے کے لیے درکار ہوتی ہےایران کے جوہری ارادوں پر بحث طویل عرصے سے امریکی پالیسی حلقوں میں تنازع کا باعث رہی ہے، اور اب فردو پر حملےپر معاملہ دوبارہ شدت اختیار کر گیا ہے وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیویٹ نے ایک نیوز بریفنگ میں کہا کہ ایران کے پاس جوہری بم بنانے کے لیے درکار تمام مواد موجود ہے۔’یہ بات بالکل واضح ہونی چاہیے، ایران کے پاس جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے لیے تمام ضروری وسائل موجود ہیں، اب صرف سپریم لیڈر کے فیصلے کی ضرورت ہے اور اس فیصلے کے بعد بم کی تیاری میں صرف چند ہفتے لگیں گے,امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایران صرف 15 دن میں جوہری ہتھیار تیار کر سکتا ہے انٹیلی جنس اہلکاروں کا ماننا ہے کہ ایران نے بڑی مقدار میں یورینیم اس لیے جمع کیا ہے تاکہ وہ ضرورت پڑنے پر فوری طور پر جوہری بم کی تیاری کی جانب بڑھ سکےیاد رہے کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے 2003 میں ایک فتویٰ جاری کیا تھا، جس میں جوہری ہتھیاروں کی تیاری کو ممنوع قرار دیا گیا، امریکی انٹیلی جنس اہلکار نے کہا کہ یہ فتویٰ اس وقت مؤثر ہے جب سے اسرائیل نے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے شروع کیے ہیں، اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ ایران بم بنانے کے اجزا حاصل کرنے سے چند ہفتے کی دوری پر ہےادھر 10 جون کو کانگریس میں بیان دیتے ہوئے سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل ای کوریلا نے کہا تھا کہ ایران کا جوہری ذخیرہ اور دستیاب سینٹری فیوجز اسے ایک ہفتے میں ہتھیاروں کے قابل مواد تیار کرنے کے قابل بنا سکتے ہیں، اور 10 جوہری ہتھیار تیار کیے جا سکتے ہیں۔ ایران کے پاس موجود یورینیم کا ذخیرہ 60 فیصد تک افزودہ ہے جبکہ جوہری بم بنانے کے لیے اسے مزید افزودہ کر کے 90 فیصد تک پہنچانا ضروری ہوتا ہے، یورینیم کی افزودگی کا مطلب یہ ہے کہ قدرتی یورینیم میں موجود بھاری آئسوٹوپ ’یو 238‘ کی مقدار کم کی جائے اور ہلکے آئسوٹوپ ’یو 235‘ کی مقدار بڑھائی جائے، جو جوہری ردعمل کو برقرار رکھ سکتا ہے۔امریکا اور اسرائیل کا خیال ہے کہ ایران کے پاس جوہری بم بنانے کی تکنیکی صلاحیت موجود ہے، لیکن کسی بھی انٹیلی جنس رپورٹ میں یہ نہیں کہا گیا کہ ایران نے واقعی بم بنانے کا عمل شروع کر دیا ہے۔امریکی انٹیلی جنس کا اندازہ ہے کہ اگر ایران ایک سادہ اور کم جدید بم بنانے کا راستہ اختیار کرے، جو میزائل پر نصب نہ ہو سکے، تو وہ بم بنانے کا وقت کم کر سکتا ہے، ایسا ابتدائی طرز کا بم ممکنہ طور پر اُس بم سے مشابہ ہو گا جو امریکا نے ہیروشیما پر گرایا تھا، جس کا وزن تقریباً 10 ہزار پاؤنڈ اور لمبائی 10 فٹ تھی اور جسے میزائل کے بجائے جہاز سے گرایا گیا دوسری طرف ایران نے جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیاہےخبر رساں ادارے نے رپورٹ کیا ہے کہ اقوام متحدہ میں ایران کے مشن نے امریکا کے جانب سے اس کی جوہری تنصیبات پر کیے گئے حملوں کے بعد سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ایرانی مشن نے امریکی بمباری کو کھلی اور غیرقانونی جارحیت قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ اس کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی جائے۔مشن نے یہ بھی کہا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت سلامتی کونسل کی ذمہ داریوں کے دائرہ کار میں تمام ضروری اقدامات کیے جائیں تاکہ ان سنگین جرائم کے مرتکب کو مکمل طور پر جوابدہ ٹھہرایا جائے اور وہ سزا سے بچ نہ سکے۔تھا۔دوسری طرف امریکی وزیردفاع پیٹ ہیگ سیتھ کا کہنا ہے کہ ہم نے ایران کا ایٹمی پروگرام تباہ کردیاہے ایران نے جواب دیا تو گذشتہ رات سے زیادہ سخت جواب دیا جائے گا، خطے میں امریکی مفادات کا تحفظ کریں گےامریکی وزیردفاع نےایئرچیف کے ہمراہ بریفنگ دیتے ہوئے کہ کہا کہ ہم نے کئی بار کہا ایران ایٹمی ہتھیار حاصل نہیں کرسکتا، ایران نے حملہ کیا تو بھرپور جواب دیں گے کارروائی کا مقصد ایران میں رجیم چینج نہیں تھا، فردو تنصیبات بنیادی ہدف تھیں اور مطلوبہ نتائج حاصل کرلیے ہیں۔امریکی ایئرچیف نے کہا کہ گزشتہ رات صدر کی ہدایات پر آپریشن ’مڈانائٹ ہیمر‘لانچ کیا گیا، اس دوران 3 جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، ایرانی دفاعی نظام ہمارے طیاروں کو نہیں دیکھ پایاآپریشن کے دوران ایران میں 2 مقامات پر 14 میسیو آرڈیننس بم استعمال کیے گئے، اور اصفہان تنصیبات پر 2 درجن سے زائد ٹام ہاک میزائل داغے گئے۔ آپریشن مڈنائٹ ہیمر میں 145 امریکی طیاروں کے علاوہ آبدوزوں نے بھی حصہ لیا، جبکہ ایران پرحملے میں7 بی ٹو بمبار طیارے بھی شامل تھےایرانی وقت کےمطابق 2بج کر40 منٹ پر فردو تنصیبات پرحملہ کیا گیا، حملے میں کمیونیکیشن کا کم سے کم استعمال کیا گیا، اسٹرائیک پیکیج کو مختلف کمانڈ سینٹرز کی مدد حاصل تھی۔ ایران کے جوہری عزائم خاک میں مل چکے ہیں، اس کا براہ راست یا پراکسی کے ذریعے حملہ برا فیصلہ ہوگا، خطے میں امریکی اہلکاروں اور مفادات کی حفاظت کریں گے، اس وقت بھی متعدد امریکی طیارے فضا میں موجود ہیں۔امریکی حکام نے کہا کہ ایران پر حملہ انتہائی خفیہ مشن تھا اور صرف چند لوگ اس بارے میں جانتے تھے، صدر ٹرمپ امن چاہتے ہیں اور ایران کو اس راستے پر چلنا ہوگا۔