اسلام آباد (ٹی این ایس) واقعہ کربلاحق وباطل کا سب سے بڑا معرکہ

 
0
38

اسلام آباد (ٹی این ایس) شاعرِ مشرق علاّمہ اقبال نےکیا خوب کہا ہے کہ”غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم”نہایت اس کی حسینؑ، ابتدا ہے اسمٰعیل”
واقعہ کربلا حق وباطل کا سب سے بڑا معرکہ ہے جو تاقیامت زندہ وجاوید رہے گا فلسفہ شہادت امام حسین علیہ السلام عالم اسلام کیلئےصبرواستقامت‘ راست بازی‘ ایثار‘ محبت دین اور نظام الٰہی کیلئے سب کچھ اللہ کے راستے میں قربان کر دینے کانام ہے سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کربلا میں روز عاشورا شہید ہوئے۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اس سے پہلے 2 محرم الحرام کے دن امام حسین علیہ السلام نے نماز ظہر کے لئے اقامہ پڑھنے کا حکم دیااور نماز ادا کی اور حر اور اس کے سپاہیوں نے بھی امام حسین علیہ السلام کی امامت میں نماز پڑھی۔اسی دن عصر کے وقت امام حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ روانگی کی تیاری کریں اور پھر نماز عصر کے وقت امام علیہ السلام پھر بھی اپنے خیمے سے باہر آئے اور مؤذن کو اذان عصر دینے کو کہا اور نماز عصر ادا کرنے کے بعد لوگوں سے مخاطب ہوئے اور حمد و ثنائے پروردگار کے بعد فرمایا: “اے لوگو! خدا سے ڈرو اور حق کو اہل حق کے لئے قرار دوگے تو خداوند متعال کی خوشنودی کا سبب فراہم کرو گے؛ ہم اہل بیتِ محمدؐ منصب خلافت اور تمہاری ولایت و امامت امامت کے کہیں زیادہ حقدار ہیں ان غیر حقی دعویداروں کی نسبت، جن سے اس منصب کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے اور تمہارے ساتھ ان کا رویہ غیر منصفانہ ہے اور وہ تمہاری نسبت ظلم و جفا روا رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر تم ہمارا حق تسلیم نہیں کرتے ہو اور ہماری اطاعت کی طرف مائل نہیں ہو اور تمہاری رائے تمہارے خطوں میں لکھے ہوئے مضمون سے ہم آہنگ نہیں ہے تو میں یہیں سے واپس چلا جاتا ہوں”
حر نے کہا “مجھے ان خطوط و مراسلات کا کوئی علم نہيں جن کی طرف آپ نے اشارہ کیا اور مزید کہا”ہم ان خطوط کے لکھنے والوں میں سے نہیں ” ہمیں حکم ہے کہ آپ کا سامنا کرتے ہی آپ کو ابن زياد کے پاس لے جائیں”
امامؑ نے اپنے قافلے سے مخاطب ہوکر فرمایا “واپس لوٹو!”، جب وہ واپس جانے لگے تو حر اور اس کے ساتھ سدّ راہ بن گئے اور حر نے کہا “مجھے آپ کو ابن زیاد کے پاس لے جانا ہے ”
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا “خدا کی قسم! تمہارے پیچھے نہیں آؤں گا” حر نے کہا “میں آپ کے ساتھ جنگ و جدل پر مامور نہیں ہوں,لیکن مجھے حکم ہے کہ آپ سے جدا نہ ہوں حتی کہ آپ کو کوفہ لے جاؤں, پس اگر آپ میرے ساتھ آنے سے اجتناب کرتے ہيں تو ایسے رستے پر چلیں جو کوفہ کی طرف جارہا ہو نہ ہی مدینہ کی طرف, تا کہ میں ایک خط عبید اللہ بن زیاد کے لئے روانہ کروں, آپ بھی اگر چاہيں تو ایک خط یزید کے لئے لکھیں! تا کہ شاید یہ امر عافیت اور امن و آشتی پر ختم ہوجائے؛ میرے نزدیک یہ عمل اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ میں آپ کے ساتھ جنگ و جدل میں آلودہ ہوجاؤں”صبح ہوتے ہی امام حسین علیہ السلام نے البیضہ نامی منزل پر توقف فرمایا اور نماز صبح ادا کی اور پھر اپنے اصحاب اور اہل خاندان کے ساتھ روانہ ہوئے حتی کہ ظہر کے وقت سرزمین نینوا میں پہنچےابن زياد کے قاصد نے ایک خط حر کے حوالے کیا جس میں ابن زیاد نے لکھا تھا “میرا خط موصول ہوتے ہی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ سختی سے پیش آو اور انہیں کسی بےآب و گیاہ زمین پر رکنے پر مجبور کرو! میں نے اپنے ایلچی کو حکم دیا ہے کہ وہ تم سے جدا نہ ہو یہاں تک کہ وہ تمہاری طرف سے میرے فرمان پر عملدرآمد کی خبر مجھے پہنچا دے۔ حر نے ابن زياد کا خط امام حسین علیہ السلام کو پڑھ کر سنایا، امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: “ہمیں “نینویٰ” یا “غاضریہ” جانے دو”امام حسین علیہ السلام
حر نے کہا: “یہ ممکن نہیں کیونکہ عبید اللہ نے اپنا قاصد مجھ پر جاسوس قرار دیا ہے! امام حسین علیہ السلام نے اپنا سفر جاری رکھا یہاں تک کہ “کربلا” پہنچ گئے۔ حر اور اس کے ساتھی امام حسین علیہ السلام کے سامنے آکر کھڑے ہوئے اور انہیں سفر جاری رکھنے سے باز رکھا امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب 2 محرم سنہ 61 ہجری کو کربلا کی سر زمین پر پہنچے ہیں جب حر نے امام حسین علیہ السلام سے کہا: “یہیں اتریں کیونکہ فرات قریب ہے”۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: “اس جگہ کا نام کیا ہے؟”۔ سب نے کہا: كربلا۔ فرمایا: یہ كَرْب (رنج) اور بَلا کا مقام ہے۔ میرے والد صفین کی طرف جاتے ہوئے یہیں اترے اور میں آپ کے ساتھ تھا۔ رک گئے اور اس کا نام پوچھا۔ تو لوگوں نے اس کا نام بتا دیا اس وقت آپ نے فرمایا: “یہاں ان کی سواریاں اترنے کا مقام ہے، اور یہاں ان کا خون بہنے کا مقام ہے”، لوگوں نے حقیقت حال کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: “خاندان محمدؐ کا ایک قافلہ یہاں اترے گا”امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: یہ ہماری سواریاں اور ساز و سامان اتارنے کی جگہ ہے اور یہاں ہمارا خون بہنے کا مقام ہے۔ اور اس کے بعد حکم دیا کہ سازوسامان یہیں اتار دیا جائے اور ایسا ہی کیا گیا اور وہ پنج شنبہ جمعرات دو محرم کا دن تھامنقول ہے کہ کربلا میں پڑاؤ ڈالنے کے بعد، امام حسین علیہ السلام نے اپنے فرزندوں، بھائیوں اور اہل خاندان کو اکٹھا کیا اور ان سب پر ایک نگاہ ڈالی اور روئے؛ اور فرمایا: خداوندا! ہم تیرے نبیؐ کی عترت اور خاندان ہیں جنہیں اپنے شہر و دیار سے نکال باہر کیا گیا ہے اور حیران و پریشان اپنے نانا رسول اللہؐ کے حرم سے نکالا گیا ہے؛ اور بار خدایا! بنو امیہ نے ہمارے خلاف جارحیت کی؛ خداوندا! پس ان سے ہمارا حق لے لے اور ظالموں کے خلاف ہماری نصرت فرما”۔ اس کے بعد آپ نے اصحاب کی طرف رخ کیا اور فرمایا ”لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین صرف ان کی زبانوں تک محدود ہے اس وقت تک دین کی حمایت و پشت پناہی کرتے ہیں جب تک ان کی زندگی فلاح و رفاہ میں ہو اور جب بھی بلاء اور آزمائش کی گھڑی ہو تو دیندار بہت قلیل ہیں,اس کے بعد امام حسین علیہ السلام نے سرزمین کربلا کو ـ جس کا رقبہ 4×4 میل تھا ـ نینوی’ اور غاضریہ کے باشندوں سے 60000 درہم کے عوض خرید لیا۔ اور ان پر شرط رکھی کہ آپ کی قبر کی طرف لوگوں کی راہنمائی کریں گے اور تین تک ان کی پذیرائی اور ضیافت کا اہتمام کریں گےعمر ابن سعد نے کربلا پہنچتے ہی امام حسین علیہ السلام کے ہاں ایک قاصد روانہ کرنا چاہا تا کہ آپؑ سے پوچھ لے کہ اس سرزمین میں کس لئے آئے ہیں اور چاہتے کیا ہیں “۔ اس نے یہ کام عزرہ (عروہ) بن قیس احمسی اور امامؑ کو دعوت نامے بھجوانے والے عمائدین کو انجام دینے کی تجویز دی؛ مگر ان سب نے یہ کام انجام دینے سے اجتناب کیا ,
9 محرم کے عصر کو عمر سعد کا لشکر جنگ کے لئے تیار ہوا لیکن امام حسین علیہ السلام نے اپنے اللہ تعالی سے مناجات کے لیے اس رات کی مہلت مانگی۔ امام حسینؑ نے رات کے ابتدائی حصے میں اپنے اصحاب کو جمع کیا اور خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:میرے خیال میں یہ آخری رات ہے جو دشمن کی طرف سے ہمیں مہلت دی گئی ہے۔ آگاہ ہو جاؤ کہ میں نے تمہیں جانے کی اجازت دے دی ہے۔ پس سب کے سب مطمئن ہو کر یہاں سے چلے جائیں کیونکہ میں نے تمہاری گردن سے میری بیعت اٹھا لی ہے۔ اب جبکہ رات کی تاریکی چھا گئی ہے اس سے فائدہ اٹھا کر سب چلے جائیں۔
اس موقع پر سب سے پہلے آپ کے اہل بیت پھر آپ کے اصحاب نے پرجوش انداز میں امام کے ساتھ وفاداری کا اعلان کیا اور اپنی جانوں کو آپ پر قربان کرنے اور آپ سے دفاع کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ تاریخی مصادر میں اس گفتگو کے بعض حصوں کو ذکر کیا گیا ہے۔آدھی رات کو ابو عبداللہ الحسینؑ اطراف میں واقع پہاڑیوں اور دروں کا معائنہ کرنے کے لئے باہر نکلے تو نافع بن ہلال جملی کو معلوم ہوا اور امام حسین علیہ السلام کے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے۔
خیام کے اطراف کا معائنہ کرنے کے بعد امام حسین علیہ السلام بہن حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے خیمے میں داخل ہوئے۔ نافع بن ہلال خیمے کے باہر منتظر بیٹھے تھے اور سن رہے تھے کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے بھائی سے عرض کیا: کیا آپ نے اپنے اصحاب کو آزمایا ہے؟ مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ لوگ بھی ہم سے منہ پھیر لیں اور جنگ کے دوران آپ کو دشمن کے حوالے کر دیں”۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: “خدا کی قسم! میں نے انہیں آزما لیا ہے اور انہیں سینہ سپر ہو کر جنگ کیلئے اس طرح آمادہ پایا ہے کہ گویا یہ لوگ میری رکاب میں جنگ کرنے کو شیرخوار بچے کی اپنی ماں کے ساتھ رکھنے والی انسیت کی طرح انس رکھتے ہیں۔نافع نے جب محسوس کیا کہ اہل بیتِ امام حسین علیہ السلام آپ کے اصحاب کی وفاداری کے سلسلے میں فکرمند ہیں چنانچہ وہ حبیب بن مظاہر اسدی سے مشورہ کرنے گئے اور دونوں نے آپس کے مشورے سے فیصلہ کیا کہ دوسرے اصحاب کے ساتھ مل کر امامؑ کے اہل بیتِ کو یقین دلائیں کہ اپنے خون کے آخری قطرے تک امام حسین علیہ السلام کا دفاع کریں گے۔حبیب بن مظاہر نے اصحاب امام حسین ؑ کو بلایا، بنی ہاشم کو خیموں میں واپس بھیج دیا پھر اصحاب سے مخاطب ہو کر جو کچھ نافع نے امام حسین علیہ السلام اور حضرت زینب سلام اللہ علیہاسے سنا تھا، کو دھرایا۔تمام اصحاب نے کہا: “اس خدا کی قسم جس نے ہمارے اوپر احسان کرکے ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے، اگر امام حسین علیہ السلام کے حکم کی انتظار میں نہ ہوتا تو ابھی ان (دشمنوں) پر حملہ کرتے اور اپنے جانوں کو امام پر قربان کرنے کے ذریعے پاک اور اپنی آنکھوں کو بہشت کی دیدار سے منور کرتے۔” حبیب ابن مظاہر دوسرے اصحاب کے ہمراہ ننگی تلواروں کے ساتھ حرم اہل بیت کے قریب گئے اور بلند آواز سے کہا: “اے حریم رسول خداؐ یہ آپ کے جوانوں اور جوانمردوں کی شمشیریں ہیں جو کبھی بھی نیام میں واپس نہ جائيں یہاں تک کہ آپ کے بدخواہوں کی گردنوں پر اتر آئیں؛ یہ آپ کے فرزندوں کے نیزے ہیں اور انھوں نے قسم اٹھا رکھی ہیں انہیں صرف اور صرف ان لوگوں کے سینوں میں گھونپ دیں جنہوں نے آپ کی دعوت سے روگردانی کی ہیں عاشورا کی صبح کو امام حسین ؑ نے اپنے اصحاب کے ساتھ نماز ادا کی۔ نماز کے بعد آپ نے اپنی مختصر فوج(32 سوار اور 40 پیادہ) کے صفوں کو منظم فرمایا۔ آپ نے لشکر کے دائیں بازو کو زہیر بن قین اور بائیں بازو کو حبیب بن مظاہر کے سپرد کیا اور پرچم بھائی ابوالفضل العباسؑ کے حوالے کیا۔ روز عاشورا کے اہم واقعات میں سے ایک حر بن یزید ریاحی کا لشکر عمر بن سعد سے نکل کر امام حسین علیہ السلام کے لشکر میں شامل ہونا ہے میدان کے دوسری جانب عمر سعد نے اپنے لشکر کے ـ جو ایک قول کے مطابق 4000 افراد پر مشتمل تھاـ صفوں کو منظم کیا، عمرو بن حجاج زبیدی کو میمنہ، شمر بن ذی الجوشن کو میسرہ، عزرة بن قیس احمسی کو سوار دستے اور شبث بن ربعی کو پیادہ دستے کی کمانڈ دے دی۔امام حسین علیہ السلام نے اتمام حجت کی خاطر اپنے کچھ ساتھیوں سمیت دشمن کی طرف تشریف لے گئے اور ان کو وعظ و نصیحت فرمائی۔شروع میں دونوں لشکر گروہی شکل میں ایک دوسرے پر حملے کرتے رہے۔ بعض تاریخی مصادر کے مطابق پہلے ہی حملے میں امام حسینؑ کے 50 اصحاب شہید ہو گئے۔ اس کے بعد انفرادی طور پر تن بہ تن لڑائی شروع ہوئی۔ امامؑ کے با وفا اصحاب دشمن کو امام حسینؑ کے نزدیک ہونے نہیں دیتے تھےغیر ہاشمی اصحاب اور ساتھیوں کی شہادت کے بعد بنی ہاشم کے جوان یکے بعد دیگرے میدان میں جانے لگے اور بنی ہاشم میں سے سب سے پہلے میدان میں جانے والا جوان حضرت علی اکبر تھا ان کے بعد ایک ایک کر کے امام بنی ہاشم کے جوانوں نے اپنی اپنی قربانی پیش کیں۔ ابوالفضل العباسؑ جو لشکر کے علمدار اور خیموں کے محافظ تھے، نہر فرات سے خیمہ گاہ حسینی میں پانی لاتے ہوئے دشمن کے ہاتھوں شہید ہوئےبنی‌ہاشم کے جوانوں کی شہادت کے بعد امام حسین علیہ السلام خود جنگ کیلئے تیار ہوئے لیکن دشمن کے لشکر سے آپ کے ساتھ مقابلہ کرنے کیلئے کوئی میدان میں آنے کیلئے تیار نہ تھے۔ جنگ کے دوران باوجود اینکہ آپؑ تنہا تھے اور آپ کا بدن زخموں سے چور چور تھا، آپ نہایت بہادری کے ساتھ تلوار چلاتے تھےآپ کی شہادت کے بعد دشمن کی فوج نے آپ کے جسم مبارک پر موجود ہر چیز لوٹ کر لے گئے قیس بن اشعث اور بحر بن کعب نے آپ کی قمیص اسود بن خالد اودی نے آپ کے نعلین‌، جمیع بن خلق اودی نے آپ کی تلوار شمشیر، اخنس بن مرثد نے آپ کا عمامہ، بجدل بن سلیم نے آپ کی انگوٹھی اور عمر بن سعد نے آپکی زرہ لوٹ لی, اس کے بعد دشمن نے خیموں پر حملہ کیا اور ان میں موجود تمام سامان لوٹ لیا اور اس کام میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے تھے۔ شمر امام سجادؑ کو قتل کرنے کی خاطر دشمن کے ایک گروہ کے ساتھ خیموں میں داخل ہوئے لیکن حضرت زینب سلام اللہ علیہا اس کام میں رکاوٹ بنیں۔
ابن سعد نے اہل حرم کو ایک خیمے میں جمع کرنے کا حکم دیا پھر ان پر بعض سپاہیوں کی پہرے لگا دیا گیا۔ ابن زیاد کے حکم پر عمر سعد نے اپنی فوج کے دس سپاہیوں کے ذریعے امام حسین علیہ السلام اور ان کے با وفا اصحاب کے جنازوں پر گھوڑے دوڑائے گئے جس سے شہداء کے جنازے پایمال ہو گئےعمر بن سعد نے اسی دن امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کو خولی اور حمید ابن مسلم کے ساتھ کوفہ عبیداللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا۔ اسی طرح اس نے اپنی سپاہیوں کو دیگر شہداء کے سروں کو بھی ان کے جسم سے جدا کرنے کا حکم دیا اور اس سب کو جن کی تعداد 72 تھیں، شمر بن ذی الجوشن، قیس بن اشعث، عمرو بن حجاج اور عزره بن قیس کے ساتھ کوفہ روانہ کیاواقعہ عاشورا کے دن امام زین العابدینؑ سخت بیمار تھے۔ اسی وجہ سے آپ جنگ میں شرکت نہ کر سکے یوں مردوں میں سے صرف آپ زندہ بچ گئے اور حضرت زینب سلام اللہ علیہاسمیت اہل حرم کے دوسرے افراد کے ساتھ دشمن کے ہاتھوں اسیر ہوئے۔ عمر بن سعد اور اسکے سپاہی اسرا کو کوفہ میں ابن زیاد کے پاس لے گئے پھر وہاں سے انہیں یزید بن معاویہ کے پاس شام میں لے جایا گیا۔مؤرخین کے مطابق عمر بن سعد کے کربلا سے چلے جانے کے بعد شہداء کو 11 محرم الحرام کے دن دفن کیا گیا