کشمیر (ٹی این ایس) دنیا بھر میں کشمیری یوم الحاق پاکستان منایا ، پاکستان نے یوم الحاق پاکستان پر کشمیریوں کی حمایت کا اعادہ کیا ,پاکستان کشمیریوں کی سفارتی، اخلاقی اور سیاسی حمایت جاری رکھے گاپاکستان اور کشمیریوں کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں کی امنگوں اور اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل کی حمایت کی ہے۔ پاکستان یہ حمایت اس وقت تک برقرار رکھے گا جب تک کشمیریوں کو ان کا حقِ خود ارادیت اور ان کی آزادی نہیں دی جاتی یہ یاد رکھیں کہ معرکہ حق میں پاکستان کی تاریخی فتح کے بعدعسکری عزائم رکھنے والا بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنی رہی سہی حمایت بھی گنوا چکا ہے۔ کشمیریوں کا جذبۂ حریت آج بھی توانا ہے۔ کشمیریوں میں یہ جذبہ ان کے اجداد کی دین ہے جنہوں نے ڈوگرا راج کے خلاف جدوجہد کی تھی۔ گزشتہ 7 دہائیوں سے کشمیریوں کو ان کے حقِ خودارادیت سے محروم رکھا گیا ہے لیکن اس کے باوجود بھی کشمیری اپنے اس حق کے حصول کے لیے کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں اور کسی بھی طرح کے مظالم اور جبر انہیں اپنے عزم سے پیچھے نہیں ہٹا سکے۔ 19 جولائی 1947 کو کشمیریوں نے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا تھا، سردار محمد ابراہیم خان کی رہائشگاہ پر 19 جولائی 1947 کو ہونے والے اجلاس میں کشمیر کے حقیقی نمائندوں نے پاکستان سے الحاق کی قرارداد منظور کرنے کا تاریخی فیصلہ کیا تھا یہ فیصلہ جموں و کشمیر کے لاکھوں کشمیری مسلمانوں کی امنگوں کے پیش نظرکیا گیا تھا۔ بھارتی ظلم و جبر کے باوجود مقبوضہ کشمیر کے کشمیری آج بھی پاکستان کے ساتھ ہیں۔صدر مملکت آصف علی زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف اور دیگر سیاسی شخصیات نے یوم الحاق پاکستان کے موقع پر خصوصی پیغامات جاری کیے,وزیراعظم شہبازشریف نے اپنے پیغام میں کہا کہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت جاری رکھی جائے گی، کشمیریوں کی لازوال قربانیوں کی داستان آج بھی جاری ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ کشمیریوں کے جذبہ آزادی میں اضافہ ہوا ہے، 10 لاکھ بھارتی فوج کی درندگی اور سفاکیت کشمیریوں کے عزم کو توڑنے میں ناکام ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ یوم الحاق کشمیر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے سری نگر اجلاس کی یاد میں منایا جاتا ہے، اس دن کشمیر کے غیور عوام نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد منظور کی تھی۔کشمیریوں کی 1947 میں شروع ہونے والی قربانیوں کی داستان آج بھی جاری ہے، کشمیریوں کی تیسری نسل حق خوداردیت کے لیے اپنے آبا و اجداد کی طرح پر عزم ہے۔صدر پاکستان آصف علی زرداری کا اپنے پیغام میں کہنا تھا کہ یومِ الحاق کشمیریوں کی پاکستان سے فطری رشتے کی علامت ہے، کشمیری عوام کی جدوجہد رائیگاں نہیں جائے گی۔وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ یوم الحاق کشمیر پر شہدا کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے پاکستان سے نظریاتی نسبت کو زندگی سے عزیز تر جانا۔انہوں نے کہا کہ یوم الحاق کشمیر تاریخ کی روشن صبح ہے، کشمیریوں نے ایسا فیصلہ کیا جو وقت کی گرد، ظلم کی دھند اور بندوقوں کی گونج میں بھی نہ مٹ سکا، پاکستان اپنے بھائیوں کی سفارتی، اخلاقی اور سیاسی حمایت جاری رکھے گا۔وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق نے اپنے پیغام میں کہا کہ پاکستان سے محبت کشمیریوں کے جسموں میں خون بن کر دوڑتی ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے اپنے پیغام میں کشمیریوں کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا۔نائب صدر پیپلزپارٹی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ پاکستان عالمی فورمز پر کشمیریوں کے لیے آواز بلند کرتا رہے گا۔وفاقی وزیر امور کشمیر وگلگت بلتستان انجینئر امیر مقام نے کشمیریوں کے جذبے کو سلام پیش کیا۔حریت رہنما یٰسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک نے کہا کہ آج کا دن کشمیری قوم کی طرف پاکستان کے ساتھ وابستگی، امیدوں، اعتبار اور محبت کا دن ہے۔اگرچہ مقبوضہ کشمیر میں 7 دہائیوں سے زیادہ عرصے سے بھارت کا جابرانہ قبضہ برقرار ہے لیکن 5 اگست 2019ء کو کیے گئے بھارت کے یکطرفہ اقدام نے کشمیر کی پُرتشدد تاریخ میں ایک سفاک باب کا اضافہ کردیا۔بھارتی حکومت نے غیر قانونی طور پر ریاست جموں و کشمیر کا الحاق کیا، اسے تقسیم کیا اور اسے بھارتی یونین میں ضم کردیا۔ یہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ کشمیر پر ایسی 11 قراردادیں موجود ہیں۔ خاص طور پر یہ سلامتی کونسل کی قرارداد 38 کی خلاف ورزی تھی جس کے پیرا 2 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ تنازع کا کوئی بھی فریق کشمیر کی صورتحال میں کوئی مادی تبدیلی نہیں لاسکتا۔کشمیر میں طویل لاک ڈاؤن ہے جبکہ مواصلاتی نظام کو بند کردیا گیا، فوجی محاصرہ سخت کردیا گیا، عوامی اجتماع پر پابندی عائد کردی گئی، میڈیا کو خاموش کردیا گیا اور کشمیری رہنماؤں بشمول بھارت نواز سیاستدانوں کو اس اقدام کے خلاف عوامی بغاوت سے روکنے کے لیے جیلوں میں بند کردیا گیا جس اقدام نے کشمیری عوام کو ان کے حقوق سے محروم کردیا۔ بی جے پی حکومت نے کشمیریوں کو بے اختیار کرنے، حق رائے دہی سے محروم کرنے اور کشمیر کی مسلم شناخت کو تبدیل کرنے کے لیے کئی طرح کے انتظامی، آبادیاتی اور انتخابی اقدامات کیے ہیں۔حکومتِ پاکستان مستقل بنیادوں پر مسئلہ کشمیر اور بھارت کی جانب سے کی جانے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کو دنیا کے سامنے لارہی ہے۔کشمیری قابض قوت کی جانب سے آبادی کو تبدیل کرنے کے عزائم سے لاعلم نہیں, بھارت نے پہلی مرتبہ اس حکمتِ عملی کا استعمال تقسیمِ برِصغیر کے وقت کیا تھا۔ نومبر 1947ء میں مہاراجہ کی ڈوگرا افواج اور آر ایس ایس کے نظریات کے حامل بلوائیوں نے جموں میں تقریباً 3 لاکھ کشمیری مسلمانوں کا قتلِ عام کیا تھا۔ اس نسل کشی کا نتیجہ جموں کے تقریباً 10 لاکھ مسلمانوں کی جبری بے دخلی کی صورت میں نکلا تھا۔ اس نسل کشی کو ریاست کی حمایت حاصل تھی اور یہ جموں کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی کوشش تھی۔ جموں میں مسلمان آبادی کا تناسب 60 فیصد سے زیادہ تھا اور یوں انہیں وہاں اکثریت حاصل تھی، لیکن اس قتلِ عام اور جبری بے دخلی کے نتیجے میں جموں میں مسلمان آبادی اقلیت بن گئی, ہندوستان کے حد بندی کمیشن نے مئی 2022ء میں نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے منصوبے کا اعلان کیا جس کا مقصد جموں کو زیادہ نمائندگی دینا تھا تاکہ جموں و کشمیر اسمبلی میں سیاسی توازن کو ہندوؤں کے حق میں کیا جاسکے۔ مسلمان جموں و کشمیر کی آبادی کا 68 فیصد سے زیادہ ہیں جبکہ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق ہندو 28 فیصد کے قریب ہیں۔ بی جے پی حکومت حلقہ بندیوں کے منصوبے کے ذریعے مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔بھارت کی طرف سے متعارف کروائے گئے نئے ڈومیسائل قوانین کے ذریعے بھی آبادیاتی تبدیلیوں کی کوشش کی گئی ہے۔غیر کشمیریوں کو 34 لاکھ سے زیادہ نام نہاد ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے ہیں۔ یہ افراد 2019ء میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کی منسوخی کے بعد ڈومیسائل کے اہل ہوئے تھے۔ جولائی 2022ء میں مقبوضہ وادی میں چیف الیکشن آفیسر نے کسی بھی ہندوستانی شہری کو، یہاں تک کہ عارضی رہائشیوں کو بھی کشمیر میں ووٹنگ کا حق دینے کا اعلان کیا تھا۔اس سے تقریباً 25 لاکھ اضافی ووٹر جن میں غیر مقامی بھی شامل ہیں، انتخابی فہرستوں میں شامل ہوجائیں گے اور کُل ووٹروں کی تعداد میں 30 فیصد اضافہ ہوجائے گا۔ حلقہ بندیوں کے منصوبے کی طرح اس اعلان نے بھی کشمیر میں غصے اور ناراضگی کو ہوا دی ہے۔کُل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنماؤں نے اس کی سخت مذمت کی اور روایتی طور پر بھارت کے حامی سابق وزرائے اعلیٰ اور سیاستدانوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ فاروق عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس نے کہا کہ ’غیر مقامی لوگوں کی شمولیت جموں و کشمیر کے لوگوں کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کی ایک واضح چال‘ ہے۔
لیکن ان میں سے کوئی چیز بھی مودی حکو مت کے اقدامات کو نہیں روک سکی۔پاکستان سے محبت کشمیریوں کے جسموں میں خون بن کر دوڑتی ہے یومِ الحاق کشمیریوں کی پاکستان سے فطری رشتے کی علامت ہے، کشمیری عوام کی جدوجہد رائیگاں نہیں جائے گی بی جے پی حکام نے جموں و کشمیر وقف بورڈ اور پورے خطے میں اس کی تمام جائیدادوں پر قبضہ کرلیا۔یوں مقبوضہ وادی میں مزارات سمیت مسلمانوں کے تمام اہم مذہبی مقامات کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوششیں شروع ہوگئیں۔ مذہبی رہنماؤں اور اسلامی اسکالروں کو گرفتار کیا گیا اور پورے مقبوضہ کشمیر میں مساجد میں نماز پر پابندی عائد کردی گئی۔کشمیر میں 2019ء میں جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی گئی تھی، کریک ڈاؤن کی آڑ میں حکام نے کروڑوں روپے مالیت کی جائیداد ضبط کرلی ہے۔ اس میں وہ گھر بھی شامل ہے جو کبھی حریت رہنما سید علی گیلانی کے زیرِ استعمال تھا۔ سید علی گیلانی کا انتقال 2021ء میں ہوا تھا اور بھارت نے ان کے باقاعدہ جنازے کی اجازت بھی نہیں دی تھی۔کشمیری ثقافت پر ہونے والے بی جے پی کے حملوں میں اردو کی حیثیت کو ختم کرنا بھی شامل ہے۔ 100 سال سے زیادہ عرصے تک اردو جموں و کشمیر کی سرکاری زبان تھی لیکن 2020ء میں اردو کی خصوصی حیثیت کو قانون سازی کے ذریعے ختم کردیا گیا جس نے جموں و کشمیر میں اردو اور انگریزی کے علاوہ ہندی، کشمیری اور ڈوگری کو سرکاری زبانیں بنا دیا۔ اب کشمیری زبان کے رسم الخط کو نستعلیق سے دیوناگری رسم الخط میں تبدیل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔لیکن ان میں سے کوئی بھی اقدام عالمی برادری کی توجہ حاصل نہیں کرسکا۔ ہاں انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے کشمیر میں میڈیا پر پابندیوں، بغاوت اور انسدادِ دہشتگردی کے قوانین کے تحت صحافیوں کی گرفتاری اور میڈیا پالیسی کے بعد پیدا ہونے والے خوف کے ماحول کی ضرور مذمت کی۔ہیومن رائٹس واچ نے آزاد میڈیا پر شدید کریک ڈاؤن کی مذمت کی اور کشمیر میں ’صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ہراساں کیے جانے، دھمکیاں دینے اور ان کے خلاف کارروائیوں‘ پر آواز اٹھائی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے میڈیا پر پابندیوں اور اظہار رائے کی آزادی پر بڑے پیمانے پر پابندیوں کے بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ کشمیر پریس کلب کو بند کردیا گیا ہے۔بی جے پی حکومت کا مقصد اگست 2019ء کے اقدام کو ’جائز‘ بنانا ہے اور خود کو یہ دعویٰ کرنے کے قابل بنانا ہے کہ جموں و کشمیر میں حالات ’معمول‘ پر ہیں۔ لیکن اس منصوبے کی حمایت کے لیے بھارت نواز کشمیری رہنماؤں کو آمادہ کرنے کی کوششیں بھی ناکام ہوگئیں ہیں۔بھارت کی جبر اور دھوکہ دہی کی پالیسیاں کشمیر میں طویل عرصے سے ناکام ہی رہی ہیں، اس نے لوگوں کو مزید متنفر کیا ہے اور ان میں موجود مزاحمت کے جذبے کو مزید مضبوط کیاآبادی کی تقسیم میں تبدیلی کے علاوہ بھارتی حکومت نے اردو زبان کو بھی ختم کرنے کے حوالے سے ایک قانون منظور کیا جبکہ اردو زبان 131 سال سے اس خطے کی سرکاری زبان ہے۔ عوامی مقامات کے مسلم نام بھی تبدیل کیے جارہے ہیں اور جبری حلقہ بندیوں کے ذریعے کشمیریوں کی نمائندگی کو بھی مصنوعی طور پر کم کیا جارہا ہے۔ ان تمام اقدامات کا مقصد کشمیریوں کو ان کی شناخت سے محروم کرنا ہےیہ تمام اقدامات اسی صورت میں ممکن ہوئے جب بھارت نے کشمیری عوام کی امنگوں کے برخلاف اور یکطرفہ و غیر قانونی طور پر آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کردیا۔ اگرچہ پاکستان نے کبھی بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی آئین کے کسی آرٹیکل کا نفاذ تسلیم نہیں کیا تاہم آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کا نتیجہ زمینی حالات میں مادی تبدیلی کی صورت میں نکلا ہے جو کہ دو طرفہ معاہدوں اور بین الاقوامی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ان سخت اقدامات کے خلاف بڑے پیمانے پر مزاحمت کو روکنے کے لیے بھارتی قابض افواج نے مقبوضہ کشمیر کو ایک ایسی جیل میں تبدیل کردیا ہے جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ کشمیر میں آج ہر 8 کشمیریوں کے لیے ایک بھارتی فوجی تعینات ہے۔ ہزاروں سیاسی قائدین، اساتذہ، سماجی کارکن، صحافی اور طلبہ جھوٹے مقدمات کے تحت بھارت بھر کی جیلوں میں قید ہیں۔ کئی حریت رہنماؤں کی حالت تشویشناک ہےان اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی حکومت کی ہندوتوا نظریات کی حامل سیاسی پالیسیاں اور اقدامات نہ صرف کشمیریوں کی سیاسی شناخت کے لیے خطرہ ہیں بلکہ یہ خطے کے امن اور آزادی و انتخاب کی اقدار پر قائم عالمی نظام کے لیے بھی خطرے کا باعث ہیں۔ بی جے پی کی حکومت میں بھارت طاقت کے استعمال اور فوجی مہم جوئی کے ذریعے اسٹیٹس کو کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں جنم لینے والے انسانی المیے سے توجہ ہٹانے کے لیے بھارت ایک جانب پاکستان میں دہشتگردی کی سرپرستی کررہا ہے تو دوسری جانب اس نے پروپیگنڈے کے تحت عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے۔
ان تمام باتوں کا ذکر بھارت کی سرپرستی میں پھیلائی جانے والی دہشتگردی کے حوالے سے پاکستان کے تیار کردہ ڈوزیئر میں موجود ہے۔بین الاقوامی شہرت یافتہ یورپی یونین ڈس انفو لیب نے پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے جعلی این جی اوز اور جعلی نیوز ویب سائٹس کا استعمال کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے نظام اور یورپی یونین کی پارلیمنٹ کو گمراہ کرنے کی بھارتی کوششوں کا انکشاف کیاحال ہی میں اعلیٰ بھارتی اہلکار نے اس بات کو تسلیم کیا کہ بھارت ایف اے ٹی ایف پر سیاسی طور پر اثر انداز ہوا تاکہ پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھا جائےیہ صورتحال پاکستان اور خطے کے حوالے سے کچھ اہم سوالات کو جنم دیتی ہے۔کشمیر میں ہونے والی جدوجہد حقیقی کشمیریوں کی جدوجہد ہے اور اسے بھارتی قابض افواج کے خلاف ہمیشہ عوامی حمایت حاصل رہے گی کشمیری اس وقت بھارتی قبضے کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے جب تک انہیں ان کے سیاسی حقوق حاصل نہیں ہوجاتے۔پاکستان کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑتا رہے گا مسئلہ کشمیر عالمی ضمیر کے سامنے ایک ادھورے وعدے کی حیثیت سے موجود ہے۔ وہ دن دُور نہیں جب کشمیری بھارتی جبر و استبداد سے آزاد ہوجائیں گے، انشا اللہ۔اور یہ یوم الحاق پاکستان یوم کشمیر کا پیغام ہے













