اسلام آباد (ٹی این ایس) بھارت نے کئی دہائیوں سے آبی جارحیت شروع کر رکھی ہےجبکہ کسی بھی پاکستانی حکومت نے پاکستان کے مستقبل کے دریاؤں کے بارے میں نہیں سوچا اس وقت ہمارے دریاؤں پر بھارت نے بے شمار ڈیم بنا لیے ہیں ،بھارت جب چاہتا ہے ان میں پانی چھوڑ دیتا ہے ،جس کے سیلاب سے سینکڑوں دیہات بہہ جاتے ہیں یہ حقیقت ہے کہ ہم پاکستانی بھی ڈیم نہ بناکےبھارت کی طرح آبی جارحیت کرکے بھارت جیسے ہو گئے ہیں چند سال قبل پاکستانی سپریم کورٹ کے ایک جج نے کہا تھا کہ ڈیم بنوائیں گے چوکیدار بنیں گےلیکن تمام کوششیں رائیگاں جاتی رہیں ,
بھارت نے ہٹ دھرمی برقرار رکھتے ہوئے کہا ہے کہ بین الاقوامی ثالثی عدالت کو پاکستان کے ساتھ آبی معاہدے پر فیصلہ دینے کا اختیار حاصل نہیں ہے، بھارت نے کبھی اس عدالت کی قانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا۔ دوسری جانب اطلاعات کے مطابق بھارت حسب عادت بغیر اطلاع کے دریائے ستلج اور جہلم میں مزید پانی چھوڑ رہا ہے، جس سے شدید سیلابی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے، وسیع پیمانے پر جانی ومالی نقصانات کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ بھارت نے اپنے جارحانہ رویے اور آبی وسائل پر غیر قانونی قبضے کے ذریعے خطے میں نہ صرف پاکستان کے لیے مسائل پیدا کیے ہیں بلکہ عالمی آبی قوانین کی بھی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ بھارت کا بین الاقوامی ثالثی عدالت کو تسلیم نہ کرنا اور اس کی قانونی حیثیت سے انکار کرنا پاکستان کے لیے ایک چیلنج ہے، کیونکہ یہ عدالت سندھ طاس معاہدے کے تحت طے پانے والے تنازعات کو حل کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی۔ بھارت کا یہ رویہ نہ صرف سفارتی اصولوں کے خلاف ہے بلکہ بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی بھی ہے۔ اس رویے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت اپنے مقاصد کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہے، چاہے اس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے تعلقات مزید کشیدہ ہوں اور خطے میں عدم استحکام پیدا ہو۔بھارت کی جانب سے پاکستان کے دریاؤں کا پانی روکنا ’آبی جارحیت‘ ہےسندھ طاس معاہدہ، جو 1960 میں دونوں ممالک کے درمیان طے پایا تھا، پانی کے انتظام میں ایک تاریخی دستاویز ہے، لیکن بھارت نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کرکے پاکستان کے آبی حقوق کی صریح خلاف ورزی کی ہے۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان آبی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور باہمی تعاون کا ایک سنگ بنیاد ہے، جس کا مقصد خطے میں امن و امان کو برقرار رکھنا تھا، لیکن بھارت نے اپنی ہٹ دھرمی اور مذموم حکمت عملی کے ذریعے اسے ہمیشہ کمزور کیا ہے۔بھارت مسلسل معاہدہ سندھ طاس کی خلاف ورزی کررہا ہے ہمارے دریاؤں پر بھارت نے تقریباً 14 ڈیم بنا لئے ہیں۔آزادی کے بعد بھارت نے 102 ڈیم بنائے جبکہ ہمارے ہاں صرف دو ڈیم منگلا اور تربیلا ہی بن سکے ہیں، جبکہ تیسرا کالا باغ ڈیم سیاست کی نذر ہو چکا ہے بھارت نے ان دریاؤں پر بھی ڈیم بنا لیے ہیں، جن کے پانی پر پاکستان کا حق ہے ۔اور علاوہ ازیں بھارت بذریعہ پائپ پاکستان کے دریاؤں سے چوری کر رہا ہے آبی جارحیت سےبھارت نے دریائے چناب کو بیاس اور راوی دریاؤں سے ملانے کے منصوبے پر کام تیز کر دیا ہے تاکہ پاکستان کو پانی سے محروم کرنے کا اپنا مذموم منصوبہ مکمل کر سکے۔ بھارت دریائے چناب کو بیاس سے جوڑنے کے لیے جسپہ ڈیم کے ذریعے کام کر رہا ہے۔ اس منصوبے کے لیے بھارت کے 2011–2012 کے بجٹ میں فنڈز مختص کیے گئے تھے، جس کے تحت چناب کو سولنگ نالہ جو راوی میں گرتا ہے سے ملانے کے لیے 23کلومیٹر لمبی کنکریٹ سرنگ تعمیر کی جا رہی ہے جس سے پانی رنجیت ساگرڈیم کی جانب موڑا جاسکے گا۔چناب، جسے اکثر ’’چاند کا دریا‘‘ بھی کہا جاتا ہے، ہماچل پردیش میں محض 130 کلومیٹر کے رقبے پر بہتا ہے، جو کہ اس کے کل 61000 مربع کلومیٹر کے دریائی حوض کا صرف 7500 مربع کلومیٹر بنتا ہے۔ اس کے باوجود، ہماچل پردیش میں 49 پن بجلی منصوبے تعمیر کیے جا رہے ہیں جنہوں نے جنوبی ایشیا کے آزاد دریا کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔بھارت پہلے ہی 9.7 کلومیٹر طویل باگرو ناولے سرنگ مکمل کر چکا ہے، جو ملک کی سب سے بڑی آبی سرنگ ہے اور 12000 فٹ بلند پہاڑوں میں 14.2کلومیٹر طویل زوجی لا سرنگ بھی آخری مراحل میں ہے خدشہ ہے کہ یہ مہارت چناب کو بیاس اور راوی سے جوڑنے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے، جس سے پانی رنجیت ساگر ڈیم کی طرف موڑا جا سکے گا جو 2001 میں راوی پر تعمیر ہوا تھا۔ دریاؤں کے پانی اور آبی حیات کو محفوظ بنانے کے لئے عوامی شعور اجاگر کرنا ضروری ہے یاد رکھیں کہ دریائے سندھ پاکستان کا سب سے بڑا دریا ہے ۔ دریائے سندھ کی شروعات تبت کی ایک جھیل مانسرور کے قریب سے ہوتی ہے ۔ اس کے بعد دریا بھارت اور پاکستان کشمیر سے گزرتا ہوا صوبہ کے پی کے میں داخل ہوتا ہے ۔ صوبہ کے پی کےمیں اسے اباسین بھی کہتے ہیں، جس کا مطلب ہے دریاؤں کا باپ۔ دریائے سندھ کو شیر دریا بھی کہا جاتا ہے ۔ صوبہ کے پی کے میں دریا پہاڑوں سے میدانوں میں اتر آتا ہے اور اس کے بعد صوبہ پنجاب اور سندھ سے گزرتا ہوا کراچی کے قریب بحیرہ عرب میں گرتا ہے ۔دریائے سندھ ہڑپہ کے مغرب میں کہیں نزدیک ہی بہتاتھا۔ہڑپہ میں سنسکرت کا لفظ سرحد کا کنارہ ظاہر کرتا ہے۔گویا یہ پنجاب کے پانچ معاون اور سندھ ساگر کے مسروبہ علاقو ں کی حد پر تھا۔رگ وید میں ہڑپہ کی لڑائی اسی حد پر ہوئی تھی۔دریائے سندھ آہستہ آہستہ مغرب کی طرف ہٹنا شروع ہوا اور پانچ معاون دریا بھی اپنا اپنا راستہ بدلنے لگے۔سکندر اعظم کے حملے کے وقت دریائے چناب اور دریائے سندھ کہروڑ کے قریب ملتے تھے۔اسی دور میں دریائے چناب دریائے جہلم کے مسروبہ علاقوں میں گھس گیا۔راوی اور بیاس بٹالہ کے قریب مل کرہڈیارہ ڈرین میں اکھٹے بہنے لگے۔جس کے کنارے 1965ء کی جنگ ہوئی تھی اور وہ لاہور اور قصور کے درمیان بہتا ہے۔قدیم زمانے میں کسی زلزلے کے نتیجے میں راوی بٹالہ کے اوپر شمال کی طرف مڑ گیا۔ بٹالہ پر مرکوز روہی نالہ اور پٹی نالہ اسی کی چھوڑی ہوئی یادگاریں ہیں۔بیاس کی وادی کے گردو نواح میں زلزلہ کے باعث قصور کہروڑ پکا لمبائی میں بہاولنگر سے ساہیوال کے قریب پانچ ہزار سال پہلے پوری زمین دھنس گئی تھی اور اس کی وجہ سے کئی شہر مٹی کا ڈھیر ہوگئے۔بیاس بھی اپنی رہگزر چھوڑ کر جنوب مغرب کی جانب چلا گیا۔ دریائے پنجند پنجاب کے ضلع بہاولپور میں دریا ہے ۔ دریائے پنجند پر پنجاب کے دریا یعنی دریائے جہلم، دریائے چناب، دریائے راوی، دریائے بیاس اور دریائے ستلج کے پانچ دریاؤں کا سنگم ہوتا ہے ۔ جہلم اور راوی چناب میں شامل ہوتے ہیں، بیاس ستلج میں شامل ہوتا ہے اور پھر ستلج اور چناب ضلع بہاولپور سے شمال میں اوچ شریف کے مقام پر مل کر دریائے پنجند بناتے ہیں۔ مشترکہ دریا تقریباً 45 میل کے لئے جنوب مغرب میں بہتا ہے اور پھر کوٹ مٹھن کے مقام پر دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے ۔دریائے شکسگام ،دریائے یارکمد کا ایک معاون دریا ہے ۔اسکے دیگر نام دریائے کلیچن اور دریائے میوزتگھ ہیں۔ یہ وادی شکسگام میں قراقرم پہاڑی سلسلے کے متوازی شمال مغربی سمت بہتا ہے ۔ دریا چین اور پاکستان کے درمیان سرحد بناتا ہے ۔ دریائے شگر گلگت بلتستان، پاکستان میں واقع ایک دریا ہے ۔یہ دریائے سندھ کا ایک معاون دریا ہے ۔جو وادی سکردو میں اس میں شامل ہوتا ہے ۔ دریائے شیوک لداخ انڈیا سے نکلتا ہے اور بلتستان ضلع گانچھے سے بہتا ہوا دریائے سندھ میں گرتا ہے، اس کی لمبائی 550 کلومیٹر ہے ۔دریائے نیلم کشمیر میں دریائے جہلم کا ایک معاون دریا ہے ۔ بھارت میں اسے دریائے کشن گنگا بھی کہتے ہیں۔
یہ آزاد کشمیر کے شہر مظفر آباد کے قریب دریائے جہلم میں گرتا ہے ۔دریائے ٹوچی جسے دریائے گمبیلا بھی کہتے ہیں، افغانستان سے وزیرستان میں داخل ہو کر وادی داوڑ کو سیراب کرتے ہوئے تنگہ سے گزرتا ہوا بنوں میں داخل ہوتا ہے جہاں اسے گریڑا کا نام دیا گیا ہے ۔ دریائے پنجکورہ شمالی پاکستان میں ایک دریا ہے ۔ دریا سلسلہ کوہ ہندوکش میں لات کے مقام سے نکلتا ہے ۔ یہ دیر بالا اور پھر دیر زیریں سے بہتے ہوئے مالاکنڈ کے قریب دریائے سوات میں شامل ہو جاتا ہے ۔ اس کا نام فارسی سے ماخوذ ہے ۔ پنج یعنی پانچ اور کورہ یعنی دریا۔دریائے پونچھ،دریائے پونچھ جموں و کشمیر، بھارت اور آزاد کشمیر، پاکستان کا ایک دریا ہے ۔ یہ شمال مغرب کی طرف بہتا ہے ۔ اس کے بعد یہ جنوبی سمت بہتے ہوئے منگلا جھیل میں داخل ہو جاتا ہے ۔اس کے دو معاون سواں اور بیتار ہیں۔دریائے ڈوری جسے دریائے لورا بھی کہا جاتا ہے، افغانستان اور پاکستان کا ایک دریا ہے ۔صوبہ قندھار، افغانستان میں 320 کلومیٹر اور پھر بلوچستان، پاکستان میں بہتا ہے ۔ اسے پاکستان میں لورا کہا جاتا ہے ، افغانستان میں داخل ہونے کے بعد اسکا نام کدھنائی ہے اور اسپن بلدک میں اسے ڈوری کہا جاتا ہے ۔دریائے ژوب بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں واقع ہے ۔ دریا کا نام اصل ایران زبان سے ہے ۔ پشتو زبان میں، ژوب کا مطلب بہتا ہوا پانی ہے ۔دریائے ژوب شمالی بلوچستان میں زمین کو سیراب کرتا ہے دریائے بیاس کوہ ہمالیہ سے نکلتا ہے اور مشرقی پنجاب ’’بھارت‘‘ کے اضلاع امرتسر اور جالندھر کے درمیان سے گزرتا ہوا فیروز پور کے قریب دریائے ستلج سے مل جاتا ہے دریائے جہلم کوہ ہمالیہ میں چشمہ ویری ناگ سے نکل کر سری نگر کی ڈل جھیل سے پانی لیتا ہوا پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور جنوب مغرب کو بہتا ہوا تریموں کے مقام پر یہ دریائے چناب سے مل جاتا ہے دریائے حب پاکستان میں کراچی کے قریب واقع ایک چھوٹا دریا ہے ۔ یہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں کوہ کیرتھر سے شروع ہوکر بحیرہ عرب میں گرتا ہے ۔یہ دریا صوبہ بلوچستان اور صوبہ سندھ کے مابین سرحد بناتا ہے ۔ 1981ء میں اس دریا پر ایک ڈیم بنایا گیا جسے حب ڈیم کہتے ہیں۔ دریائے استور دریائے سندھ کا ایک معاون دریا ہے جو کہ وادی استور میں سے بہتا ہے دریائے باڑہ کی ابتداء وادی تیراہ، تحصیل باڑہ، خیبر ایجنسی سے ہوتی ہے ۔ یہ دریائے کابل جو کہ ورسک ڈیم سے نکلتا ہے میں شامل ہونے کے بعد پشاور میں داخل ہوتا ہے ۔دریائے توی ایک ایسا دریا ہے کہ جموں شہر میں بہتا ہے ۔ عام طور پر بھارت میں دیگر دریاؤں کے طرح دریائے توی بھی مقدس سمجھا جاتا ہے ۔جموں شہر کے بعد یہ پاکستان میں پنجاب کے دریائے چناب میں شامل ہو جاتا ہے ۔دریائے جندی جسے کوٹ اور منظری بابا کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، پاکستان کے شمالی علاقے مالاکنڈ، چارسدہ، خیبر پختونخوا سے شروع ہونے والا ایک دریا ہے ۔ دریائے روپل شمالی پاکستان میں روپل گلیشیر سے شروع ہونے والا ایک برفانی دریا ہے ۔ یہ دریائے استور میں مل جاتا ہے ۔دریائے شنگھو لداخ کے علاقے میں بہتا ہے ۔ دریائے شنگھو بھارت سے پاکستان میں آزاد کشمیر کے مقام پر داخل ہوتا ہے۔
پنجاب کو پانچ دریاؤں کی سرزمین کہا جاتا ہے ان میں چناب، ستلج، جہلم اور راوی کے ساتھ پانچواں دریا “دریائے بیاس” ہے،
دریائے چناب ،چن اور آب سے مل کر بنا ہے چن کا مطلب چاند اور آب کا پانی ہے ،یہ بھارت کی ریاست ہماچل سے آنے والا ایک اہم دریا ہے ۔یہ جموں کشمیر سے بہتا ہوا پنجاب سے گزرتا ہے اور تریموں کے مقام پر جہلم سے مل جاتا ہے ،پھر راوی کو ملاتا ہےدریائے چناب جسے رومانی دریا بھی کہتے ہیں سوہنی مہینوال،ہیررانجھا اور سسی پنوں کی داستانیں اسی دریا سے منسوب ہیں۔ وزیرآباد،رسول نگر،جلالپور،پنڈی بھٹیاں، چنیوٹ،جھنگ ،سوہدرہ،اور شورکوٹ دریائے چناب کے بائیں کنارے پر واقع ہیں۔دریائے راوی کے کنارے لاہور، گوگیرہ،سیدپور، ساہیوال، چیچہ وطنی،عبدالحکیم واقع ہیں۔دریائے سندھ کے کنارے اٹک،مکھڈ، کالاباغ، میانوالی، کندیاں، پپلاں،بھکر،لیہ،ڈیرہ غازی خاں، مٹھن کوٹ، چاچڑاں وغیرہ شامل ہیں۔دریائے ستلج پر بھی ایک پتن جس کانام آج بھی مشہور ہے یہ اس دور کی بات ہے جب سڑکیں اور پختہ راستے ابھی موجود نہیں تھے اور نہ ہی ریلوے نظام بھی ابھی وجود میں آیا تھا۔اس لیے دریاؤں کے ذریعے ہی تجارت کی جاتی تھی۔دریائے جہلم کے کنارے پر میانی،اور پنڈدادنخان کے مقامات پر بہت مشہور پتن ہوا کرتے تھے جہاں سے نمک اور اور لکڑی کی تجارت عروج پر تھی۔جسے سکھر تک پہنچایا جاتا تھا۔دریائے چناب پر رسولنگر،محمود پور، چوچک وغیرہ کے مقامات میں پتن ہوا کرتے تھے۔ملتان تک تجارتی سامان انہی پتنوں کے ذریعے پہنچایا جاتا تھا۔پنجاب کے تمام دریا اپنا رخ تبدیل کرتے رہے ہیں بھارت سے آنے والے پانچ دریاؤں میں سندھ طاس نظام کے ستلج، بیاس، راوی، جہلم اور چناب شامل ہیں، یہ پنجند کے مقام پر اکٹھے ہوکر دریائے پنجند بناتے ہیں، جو کچھ فاصلے کے بعد دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے،چین، پاکستان اور بھارت تین ایسے ملک ہیں جو آپس میں دریاؤں کے مشترکہ نظام میں بندھے ہوئے ہیں، تینوں ملکوں میں درجنوں دریا بہتے ہیں لیکن یہ سارے دریا تین بڑے دریاؤں سے ہی تعلق رکھتے ہیں، جن میں سب سے بڑا دریا”دریائے سندھ“ ہے یہ چین کے علاقے تبت سے نکلتا ہے۔ ان دریاؤں سے کوئی خاص بڑے نالے نہیں نکلتے بلکہ ان میں دریائے سندھ کے بڑے معاون دریا جیسے جہلم، چناب، راوی، ستلج اور بیاس شامل ہیں۔بھارت سے دریائے ستلج بھارت میں دریائے بیاس سے ملتا ہے اور پھر پاکستان میں داخل ہوتا ہے، دریائے ستلج ہیڈ سلیمانکی سے ہوتا ہوا ہیڈ اسلام پہنچتا ہے جہاں سے یہ دریاطویل فاصلہ طے کرنے کے بعد پنجند کے مقام پر پہنچتا ہے۔دریائے راوی بھارتی پنجاب مادھو پاور سے ہوتا ہوا جیسر کے راستے پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور شاہدرہ سے ہوتا ہوا بلوکی سدھنائی کے سے ہوتا ہوا دریائے ستلج سے پہلے احمد پور سیال” کے قریب دریائے چناب میں مل جاتا ہے۔ دریائے جہلم آزاد کشمیر کے راستے کوہل سے ہوتا ہوا منگلہ ڈیم اور رسول سے طویل فاصلے کے بعد تریموں جھنگ کے مقام پر دریائے چناب میں شامل ہوتا ہے جبکہ دریائے چناب بھارتی پنجاب اکھنور سے ہیڈ مرالہ کے راستے پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور خانکی قادر آباد سے ہوتا ہوا پنجند کے مقام پر دریائے جہلم، راوی اور ستلج کے پانی سے مل کر دریائے پنجند بناتا ہے۔ دریائے راوی کو لاہور کی پہچان قرار دیا جاتا تھا لیکن یہ دریا اب صرف شہر بھر کا گندہ پانی سمیٹ رہا ہے ۔ دریائے چناب اور دریائے جہلم پنجاب کے وہ دو دریا ہیں جو بھارتی پنجاب میں داخل نہیں ہوتے، دریائے چناب کی مجموعی لمبائی تقریباً 960 کلومیٹر ہے، دریائے راوی اور دریائے ستلج بھارتی پنجاب سے پاکستانی پنجاب میں داخل ہوتے ہیں۔ دریائے بیاس پاکستان میں انفرادی طور پر داخل نہیں ہوتا، بھارتی پنجاب میں ہی دریائے بیاس دریائے ستلج میں شامل ہوجاتا ہے اور یہ دریائے ستلج پاکستان میں آتا ہے۔دریائے بیاس ہمالیہ کی پہاڑیوں میں پیدا ہوتا ہے۔ دریائے بیاس شمالی بھارت میں واقع ہے اور پانچ دریاؤں (پنجاب = پانچ آب) میں سے ایک ہے۔ دریائے بیاس کا منبع ہماچل پردیش کے ضلع کنور میں بیاس کنڈ کے مقام پر ہے، جو منالی کے قریب تقریباً 3,700 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔دریائے بیاس مشرق سے مغرب کی طرف بہتا ہوا پنجاب میں داخل ہوتا ہے اور پھر دریائے ستلج سے ملتا ہے۔قدیم ہندو گرنتھوں میں اس دریا کو ویپاشا کہا گیا ہے، جس کا مطلب ہے “بندھن سے آزاد کرنے والا”۔ یونانی مورخ اریان کے مطابق سکندر اعظم جب 326 ق م میں پنجاب آیا تو وہ اپنی فوج سمیت دریائے بیاس تک پہنچا، لیکن اس سے آگے بڑھنے سے اس کے سپاہی ڈر گئے کیونکہ آگے گنگا کے میدانوں کی وسعت اور بڑی فوجوں کا سامنا کرنا تھا اس طرح دریائے بیاس سکندر کی مہم کا آخری کنارہ بن گیا۔ مغلیہ اور سکھ دور میں بیاس کے کنارے آباد علاقے زرخیز اور تجارتی اہمیت رکھتے تھے بیاس دریا کو ماضی میں بار بار سیلابی طغیانی کا سامنا رہا ہے۔ خصوصاً برسات کے موسم جون تا ستمبر میں جب ہمالیہ کے پہاڑوں میں برف پگھلتی اور بارشیں ہوتی ہیں تو بیاس شدید سیلابی رُوپ اختیار کرتا۔ پنجاب کے کئی اضلاع ہوشیار پور,گورداسپور,فیروزپوراس سے متاثر ہوتے رہے، تاریخی حوالوں کے مطابق 19ویں صدی میں کئی بڑے سیلاب آئے جن سے بیاس کے کنارے کے گاؤں اجڑ گئے۔بیاس کا پرانا راستہ تقسیمِ ہند سے پہلے دریائے بیاس بھی پنجاب پاکستان کے دریاؤں میں شامل تھا۔ ریڈکلف لائن کھنچنے کے بعد بیاس اور ستلج بھارت کے حصے میں چلے گئے، مگر ان کا پرانا پانی پاکستان کے جنوبی مشرقی علاقوں تک آتا تھا۔ پاکستان میں بیاس کا پرانا راستہ ملتان ڈویژن کے جنوب مشرق میں دیکھا جا سکتا ہے وہاڑی اور بہاولپور کے درمیان پرانے بیاس کے خشک پل اور چینلز آج بھی موجود ہیں۔ 45 سال پہلے بیاس کے کچھ پانی کے ریلے مون سون میں پاکستان کے علاقے تک آ جایا کرتے تھے، اور مقامی لوگ بیڑیوں کے ذریعے اسے پار کرتے تھے معاہدہ سندھ طاس کے بعد بیاس، راوی اور ستلج کا مکمل پانی بھارت کے سپرد کر دیا گیا۔ اس کے بعد پاکستان میں بیاس کا پرانا راستہ صرف خشک نالوں اور ویران چینلز کی صورت میں باقی رہ گیا ہے دریائے بیاس کا آغاز ہماچل پردیش سے ہوتا ہے۔ یہ قدیم تاریخ میں سکندر اعظم کے سفر کا آخری پڑاؤ بنا۔ برسات میں بار بار سیلاب لاتا رہا۔ تقسیم سے پہلے اس کا پانی ملتان اور بہاولپور کے جنوب مشرقی حصوں تک پہنچتا تھا۔ آج پاکستان میں صرف اس کے پرانے راستے اور خشک پل باقی ہیں۔ دریائے سندھ کی شروعات تبت کی ایک جھیل مانسرور کے قریب سے ہوتی ہے، اس کے بعد دریا ئے سندھ مقبوضہ کشمیر سے ہوتا ہوا گلگت بلتستان کے ضلع اسکردو، پرتاب پل سے بشام میں خیبر پختونخوا کی حدود میں داخل ہوتا ہے اور تربیلا ڈیم پہنچتا ہے جہاں دریائے کابل کو ساتھ ملا نے کے بعد کالا باغ سے ہوتا ہوا چشمہ بیراج اوت اور تونسہ بیراج کے راستے سرکی پہنچتا ہے جہاں پانچوں دریا ستلج، بیاس، راوی، چناب اور ستلج دریائے پنجند کی شکل میں 71کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد مٹھن کوٹ کے مقام پر دریائے سندھ میں شامل ہوتے ہیں جہاں سے یہ گدو بیراج اور سکھر بیراج سے ہوتا ہوا کوٹری کے راستے 3180کلو میٹر کا سفر طے کر کے بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے۔ دریائے ستلج ، پنجاب کے دریاؤں ميں سے ایک دریا ہے۔ یہ تبت کی ایک جھیل راکشاستل سے نکلتا ہے اس کی کل لمبائی 1448 کلومیٹر ہے ستلج کو یونانی زبان میں سرخ دریا بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کا قدیم نام ستادری ہے تبت کے مقامی لوگ اسے دریائے ہاتھی بھی کہتے ہیں دریائے ستلج ہمالیہ کی گھاٹیوں سے گذر کر ہماچل پردیش کی ریاست میں 900 میل تک کے علاقے کو سیراب کرتا ہوا، ضلع ہوشیار پور کے میدانی علاقوں میں آ جاتا ہے۔ یہاں سے ایک بڑی نہر کی شکل میں جنوب مغرب کی طرف بہتا ہوا دریائے بیاس میں گر کر پاکستانی پنجاب کے ضلع قصور میں پاکستانی علاقہ میں داخل ہوتا ہے اور اوچ شریف سے ہوتا ہوا پنجند کے مقام پر دریائے چناب میں ضم ہوجاتا ہے یہ مقام بہاولپور سے 62 کلومیٹر مغرب میں ہے۔ دیپالپور کے نزدیک سلیمانکی ہیڈورکس سے گزرتا ہوا بہاولپور اور بہاولنگر کے اضلاع کی زمینوں کو سیراب کرتا ہے۔ء کے سندھ طاس معاہدہ کے تحت اس دریا کے پانی پر بھارت کا حق تسلیم کیا گیا ہندوستان نے دریائے ستلج پر بھاکرہ بند تعمیر کیا ہے، جس سے 450,000 کلو واٹ بجلی پیدا ہوتی ہے اس کے علاوہ ہندوستان نے دریائے ستلج سے سرہند کینال اور وادی ستلج کے نام سے نہری منصوبے تعمیر کرکے علاقے کو زرخیز بنا دیا ہے۔ اس دریا کے پانی سے بھارتی صوبوں پنجاب، ہریانہ اور راجستھان میں زرعی زمین سیراب کی جاتی ہے۔ دریائے ستلج میں بھارت سے پاکستانی علاقے میں پانی اب صرف سیلاب کی صورت میں داخل ہوتا ہے 1849ء میں سکھوں اور انگریزوں کے درمیان جنگ سے پہلے یہ دریا ایک سرحد کا کام انجام دیتا تھا۔ کوٹ مٹھن کے مقام پر دریائے ستلج، دریائے سندھ سے مل جاتا ہے۔ زمانہ قدیم میں دریائے ستلج تحصیل احمد پور شرقیہ کے قصبہ اچ شریف کے نزدیک سے گزرتا تھا۔ ماضی پنجاب کے تمام دریا ایک دوسرے کی گزرگاہ میں بہتے رہے ہیں۔1245ء میں جب مغل سردار منگوتہ نے ملتان پر حملہ کیا تو اس وقت ملتان شہردریائے چناب کے مغربی کنارے پر بہتا تھا۔البتہ امیر تیمور نے جب ملتان پر حملہ کیا تو ملتان کا شہر دریائے چناب کے مشرق میں واقع تھا۔اسی طرح پندرہویں صد ی میں دریائے چناب موجودہ جھنگ شہر کے مشرق میں بہتا تھااور آج کل یہ دریا جھنگ سے سات میل دور مغرب میں بہہ رہاہے۔












