اسلام آباد (ٹی این ایس) پاک سعودیہ نیٹو طرز تاریخی معاہدے,افواج پاکستان کی کامیابیوں کا ثمر

 
0
23

اسلام آباد (ٹی این ایس) پاکستان اور سعودی عرب نے نیٹو طرز کے دفاعی معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ کسی ایک پر حملہ دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ مثال کے طور پر اگر انڈیا پاکستان پر حملہ کرتا ہے تو سعودی عرب جنگ میں شامل ہو جائے گا۔اس میں کوئی شک نہیں کوئی دوسرا لیڈر شہباز شریف جیسانہیں ہوسکتا معرکہ حق پاک بھارت جنگ کے بعد شہباز شریف ایک عظیم عالمی رہنما بن کےابھر ے جبکہ قطر پر اسرائیلی حملے کے دوران شہباز شریف زیرک اورسمجھدار عالمی رہنما کے طورپرسامنے آئےہیں, سعودی عرب حکومت کیطرف سے برادرانہ محبت اور احترام کا مظاہرہ, عالم اسلام میں یہ مقام اللہ کی مہربانی، شہباز شریف کی سفارتی مہارت اور ہماری افواج کی بے مثال کامیابیوں کا ثمر ہے شہباز شریف عالمی رہنما جبکہ پاکستان امت مسلمہ کیلئے امید کی کرن بن چکاہے ایٹمی پاکستان کا مشرق وسطیٰ میں اسرائیل مخالف اتحاد کیلئے مسلم امہ کے ساتھ کھڑے ہونے کا پیغام ایک امید ہے وزیراعظم پاکستان شہباز شریف اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان تاریخی باہمی دفاعی معاہدہ طے پایا۔ سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درمیان قریباً 8 دہائیوں پر محیط تاریخی شراکت داری، بھائی چارہ اور اسلامی یکجہتی کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ اسٹریٹجک مفادات اور قریبی دفاعی تعاون کے تناظر میں ولی عہد و وزیرِاعظم سعودی عرب شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز اور وزیرِاعظم شہباز شریف نے پاکستان اور سعودی عرب کے مابین ’اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے‘ پر دستخط کیے یہ معاہدہ جو دونوں ممالک کی اپنی سلامتی کو بڑھانے اور خطے اور دنیا میں سلامتی اور امن کے حصول کے لیے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتا ہے، اس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو فروغ دینا اور کسی بھی جارحیت کے خلاف مشترکہ دفاع و تحفظ کو مضبوط بنانا ہے۔

معاہدے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ایک ملک کے خلاف کسی بھی جارحیت کو دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا۔ شہباز شریف نے اپنے اور پاکستانی وفد کے پرتپاک استقبال اور فراخدلی سے مہمان نوازی پر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔وزیرِ اعظم شہباز شریف نے خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود، ولی عہد و وزیرِ اعظم سعودی عرب شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز اور سعودی عرب کے برادر عوام کے لیے مسلسل ترقی، خوشحالی اور فلاح و بہبود کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ ولی عہد نے شہباز شریف کی اچھی صحت، تندرستی اور پاکستان کے برادر عوام کی مزید ترقی اور خوشحالی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود، ولی عہد و وزیرِ اعظم سعودی عرب شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز اور سعودی عرب کے برادر عوام کے لیے مسلسل ترقی، خوشحالی اور فلاح و بہبود کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ وزیراعظم ہاؤس سے جاری اعلامیے کے مطابق سعودی عرب کے ولی عہد و وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نے ریاض کے الیمامہ پیلس میں وزیراعظم پاکستان کا استقبال کیا۔ اور دونوں رہنماؤں نے پاکستان اور سعودی عرب کے وفود کی موجودگی میں مذاکرات کا باضابطہ اجلاس منعقد کیا اجلاس کے آغاز میں وزیراعظم شہباز شریف نے خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کے لیے خیرمقدم کا اظہار کرتے ہوئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ فریقین نے دونوں ممالک کے درمیان تاریخی اور اسٹریٹجک تعلقات اور مشترکہ دلچسپی کے متعدد موضوعات کا جائزہ لیا اور تبادلہ خیال کیا
واضح رہے کہ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی دعوت پر سعودی عرب پہنچے تھے، جہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ ان کے ہمراہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور وفاقی وزرا بھی موجود ہیں۔طیارہ جونہی سعودی عرب کی فضا میں پہنچا تو وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کو بطور ایک عظیم عالمی رہنما سعودی ایف 15 جیٹ طیاروں نے اپنے حصار میں لے لیا اور ایئرپورٹ تک ساتھ رہے۔ امریکی صدر ٹرمپ اور روسی صدر پیوٹن کے بعد پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف وہ شخصیت ہیں جنکا سعودی عرب نے اتنا شاندار اور تاریخی استقبال کیا ہے۔

خصوصی پروٹوکول کے طور پر، رائل سعودی ایئر فورس کے 92ویں اسکواڈرن کے پانچ F-15 اسٹرائیک ایگل لڑاکا طیاروں نے سعودی فضائی حدود میں داخل ہونے پر وزیراعظم کے طیارے کو کنگ خالد ایئرپورٹ پر لے گئے۔ وزیراعظم نے طیارہ ریڈیو کے ذریعے عربی میں سعودی پائلٹوں کا شکریہ ادا کیا اور حرمین شریفین کے متولی شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا خصوصی استقبال پر شکریہ ادا کیا بعد ازاں وزیراعظم شہباز شریف کا ریاض پہنچنے پر پرتپاک استقبال کیا گیا اور 21 توپوں کی سلامی پیش کی گئی۔ اس کے علاوہ شہر میں سبز ہلالی پرچم بھی لہرائے گئے۔یہ دورہ پاکستان کے لیے ایک اہم مالیاتی اور سفارتی شراکت دار کے طور پر سعودی عرب کے دیرینہ کردار کو اجاگر کرتا ہے، جس میں رائل سعودی ایئر فورس کے F-15 جیٹ طیاروں کی رسمی حفاظت ان کے دوطرفہ اتحاد کی گہرائی کو اجاگر کرتی ہے۔یہ دورہ تین ملکی دورے کے پہلے مرحلے کے موقع پر ہے جس میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاسوں کے لیے برطانیہ اور امریکا شامل ہیں۔سعودی وزیرِ دفاع شہزادہ خالد بن سلمان نے پاک سعودیہ اسٹریٹجی دفاعی معاہدہ سائن ہونے کے بعد اردو میں لکھا کہ ’سعودیہ اور پاکستان جارح کے مقابل ایک ہی صف میں,ہمیشہ اور ابد تک‘، یہی وہ تاریخی جملہ ہے جس نے حالیہ اسٹریٹیجک مشترکہ دفاعی ایگریمنٹ کو محض ایک معاہدہ نہیں، بلکہ ایک تاریخی اور تہذیبی اشارہ بنا دیا ہے۔ یہ معاہدہ صرف دو ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون نہیں، بلکہ ایک مشترکہ مقدر کا اعلان ہے، ایسا عہد جو وقت کی آزمائشوں سے گزری ہوئی رفاقت پر کھڑا ہے۔معاہدے میں یہ طے ہوا ہے کہ اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہوگا تو اسے دونوں پر حملہ سمجھا جائے گا۔ گویا ایک کی سرحد پر خطرہ، دوسرے کے وجود پر بھی دستک سمجھی جائے گی۔عالمی میڈیانے پاک سعودیہ دفاعی معاہدے کو نمایاں کوریج دی ہے، اس معاہدے کو رائٹرز نے دہائیوں پر محیط دفاعی تعلقات کا ادارہ جاتی تسلسل کہا ہے، اور زور دیا ہے کہ یہ محض کسی حالیہ واقعے کا ردِ عمل نہیں بلکہ طویل مشاورت اور سوچ سمجھ کا نتیجہ ہے۔ سعودی عرب کی یہ حکمتِ عملی بھی قابلِ غور ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اسٹریٹیجک گہرائی قائم کر رہا ہے، دوسری طرف بھارت کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کو بھی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ واشنگٹن پوسٹ اور ایسوسی ایٹڈ پریس نے معاہدے کے مشترکہ اعلامیے کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ کسی بھی قسم کی جارحیت دونوں ملکوں پر حملے کے مترادف ہوگی، اور یہ اقدام دفاعی تعاون کو وسعت دینے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ فنانشل ٹائمز نے اس پیشرفت کو اس زاویے سے دیکھا کہ خلیجی ممالک اب علاقائی سطح پر اپنی سیکیورٹی کا بندوبست خود کرنا چاہتے ہیں، تاکہ کسی ایک طاقت پر انحصار نہ رہے۔ سعودی عرب نے ایک سال سے زائد کی گفت وشنید کے بعد یہ خاکہ مکمل کیا اور اس دوران جوہری عدمِ پھیلاؤ کی اپنی پالیسی پر بھی زور دیا۔ بلومبرگ نے اس معاہدے کو دفاعی تعاون کی نئی سطح قرار دیا، جس میں حملہ صرف ایک ملک پر نہیں رہتا بلکہ پورے اتحاد پر حملہ بن جاتا ہے، اور اس کا جواب بھی مشترکہ ہوتا ہے۔ یہی بات پاکستان کے سرکاری ذرائع ابلاغ میں بھی دہرائی گئی، ریڈیو پاکستان نے اسے دو طرفہ دفاعی تعلقات کی تاریخ میں ایک سنگِ میل قرار دیا۔ سعودی میڈیا نے بھی اس معاہدے کو محض ایک خبر کے طور پر نہیں بلکہ ایک علامت کے طور پر پیش کیا۔ العربیہ انگلش اور سعودی پریس ایجنسی نے اس موقع کی کوریج کرتے ہوئے ریاض کے ٹاورز پر سبز وسفید روشنیوں کی جھلک دکھائی، اور سرکاری اعلامیے میں نمایاں انداز میں لکھا کہ دورے کے اختتام پر اسٹریٹیجک دفاعی معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس سب کے پیچھے ایک سنجیدہ پیغام تھا کہ سعودیہ اور پاکستان اب اپنی سلامتی کی کہانی ایک مشترکہ صفحے پر لکھنے جا رہے ہیں۔پاکستان کے تمام روزنامو ں نے اسے صفحہ اول پر نمایاں جگہ دی اور واضح کیا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور ولی عہد محمد بن سلمان نے ایک ایسا فریم ورک طے کیا ہے جس میں ’ایک پر حملہ، دونوں پر حملہ‘ کا اصول قانونی حیثیت اختیار کرتا ہے۔ بین الاقوامی میڈیانے اس معاہدے کے حساس پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھا۔ فائنانشل ٹائمز نے سعودی قیادت کی جوہری عدمِ پھیلاؤ سے وابستگی کو سراہا، جب کہ رائٹرز نے اس معاہدے کو ایک جامع دفاعی خاکے کے طور پر بیان کیا۔ بلومبرگ نے اسے علاقائی سیکیورٹی کے منظرنامے میں ایک نئے عنصر کے طور پر دیکھا جس سے آئندہ کسی بحران کی صورت میں ردِعمل کا دائرہ اور رفتار دونوں بدل سکتے ہیں۔ سعودی میڈیا میں بھی یہی تاثر دیا گیا کہ یہ طویل المیعاد مشاورت کا فطری نتیجہ ہے۔ شہزادہ خالد بن سلمان کا جملہ (ہم ایک ہی صف میں ہیں) اب سفارتی بیان سے بڑھ کر عوامی سطح پر وحدت کے بیانیے میں ڈھل چکا ہے۔ پاکستانی میڈیا نے ایک اور پہلو پر بھی زور دیا، اور وہ یہ کہ اس معاہدے کے موقع پر وزیر اعظم، ولی عہد اور آرمی چیف تینوں کی مشترکہ موجودگی نے ملک میں سیاسی اور عسکری قیادت کے یکجہتی کا پیغام دیا۔ یہ صرف ایک رسمی تصویر نہیں تھی بلکہ ایک اسٹریٹیجک اشارہ ہے کہ ریاست اپنی تمام سطحوں پر اس معاہدے کی پشت پر کھڑی ہے۔ نیوز تبصروں میں ماہرین نے اسے حیران کن نہیں بلکہ فطری ارتقا قرار دیا جو مشترکہ مشقوں اور عسکری ہم آہنگی کا حاصل ہے۔ اس سب کو اگر تاریخی سیاق میں رکھ کر دیکھا جائے تو یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ 2015 میں جب اسلامی فوجی اتحاد قائم ہوا تو اس کا صدر دفتر ریاض میں رکھا گیا اور اس کے پہلے کمانڈر پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف بنے۔ یہ عسکری رشتہ محض رسمی نہیں، عملی اور ادارہ جاتی ہے، جس کی ایک جھلک سالہا سال کی مشترکہ مشقوں الصمصام میں دیکھی جا سکتی ہے۔ جب معاہدے کے ساتھ معاشی پہلو کو جوڑ کر دیکھا جائے تو تصویر اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ 2019 میں شہزادہ محمد بن سلمان کے دورۂ پاکستان کے دوران 20 ارب ڈالر کے سرمایہ کاری معاہدے طے پائے۔

ان میں توانائی، پیٹرو کیمیکل، معدنیات اور خوراک جیسے اہم شعبے شامل تھے۔ اس کے بعد بھی سعودی سرمایہ کاری پاکستان میں جاری رہی، 2024 میں 2 ارب ڈالر کے مزید ایم او یوز پر دستخط ہوئے، اور 3 ارب ڈالر کا ڈپازٹ مسلسل پاکستان کی مالی بنیاد کو سہارا دیتا رہا۔ ان سب اقتصادی اقدامات کو دفاعی اشتراک سے الگ کر کے دیکھنا ممکن نہیں رہا۔ پاکستانی ترسیلات زر میں بھی سعودی عرب کی حیثیت ہمیشہ نمایاں رہی ہے۔ صرف مارچ اور جون 2025 کے اعداد وشمار دیکھے جائیں تو سعودی عرب سے بھیجی گئی رقوم تمام ممالک سے زیادہ تھیں۔ اس معاہدے سے 3 باتیں سامنے آئی ہیں۔ ایک یہ کہ دفاع اور معیشت اب ایک دوسرے کی لازم و ملزوم شرائط بنتے جا رہے ہیں۔ دوسرا یہ کہ عسکری ادارہ جاتی سطح پر اشتراک کو مزید منظم کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ انٹیلی جنس شیئرنگ، مشترکہ منصوبہ بندی اور انٹروپریبلٹی کے شعبے میں پیشرفت۔ تیسرا یہ کہ اس معاہدے میں ’صفر جمع‘ کا کھیل نہیں کھیلا گیا، بلکہ سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ گہرائی بڑھاتے ہوئے بھارت کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو بھی قائم رکھا ہے۔ اگر دونوں ملک مشترکہ ورکنگ گروپس بنا کر عملی خاکہ ترتیب دیں، شعبہ وار تعاون کی ٹائم لائن طے کریں، اور معیشت کے بنیادی ستونوں کو اس دفاعی فریم ورک سے جوڑ دیں تو یہ معاہدہ صرف ایک اعلامیہ نہیں رہے گا بلکہ ایک قابلِ عمل حقیقت بن جائے گا۔ پاکستانی عوام کی طرف سے ہر ماہ سعودی عرب سے آنے والی ترسیلات زر اس وحدت کو زندہ رکھتی رہیں گی، اور یہ شراکت روزمرہ معیشت کا حصہ بن کر اور مضبوط ہو جائے گی۔ یہ معاہدہ درحقیقت ایک تاریخ کا اگلا باب ہے۔ ایک ایسا باب جس میں سعودیہ اور پاکستان اپنے دفاع کو ایک دوسرے کی تقدیر سے باندھ رہے ہیں۔ اور جب سعودی وزیرِ دفاع کہتے ہیں کہ ہم ایک ہی صف میں ہیں، تو یہ صرف ایک جملہ نہیں بلکہ ایک قانونی، اخلاقی اور انتظامی عہد ہے، واضح رہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان پے در پے وفود کا تبادلہ اور ملاقاتیں اس بات کی نشاندہی ہیں کہ دونوں ملک تیزی سے اپنے اپنے اہداف کی طرف گامزن ہیں، وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں دونوں ممالک میں گرمجوشی نظر آرہی ہے۔ پاکستان کے معدنیاتی وسائل اور توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاری بھی سعودی عرب کی توجہ کا مرکز رہی ہے پاکستان میں زراعت سے متعلق سرمایہ کاری کے مواقع، سعودی عرب کے وژن 2030ء کے فوڈ سکیورٹی کے اہداف کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں جن میں سعودی عرب خاص دلچسپی لے رہا ہے وزیراعظم شہباز شریف نے 2024 میں اپنی پہلی تقریر میں ہی سعودی عرب کا تذکرہ خصوصی طور پر کیا تھا اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو نئی اقتصادی سمت دینے کی بات کی تھی۔اسی طرح سعودی عرب سے آئے وفود میں شامل شخصیات سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ گزشتہ سالوں میں کیے گئے اقتصادی وعدوں کی تکمیل کا وقت آن پہنچا ہے کہا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کا یہ دورہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی پاکستان آمد کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔اپریل 2024 میں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کی قیادت میں سعودی وزیر صنعت و معدنی وسائل بندر ابراہیم بن عبد اللہالخریف، نائب وزیر برائے سرمایہ کاری انجینئیر ابراہیم بن یوسف المبارک، سعودی خصوصی کمیٹی کے سربراہ محمد التویجری، وزارت توانائی اور سعودی فنڈ برائے تعمیر و ترقی کے سینیئر عہدیدار، وزیر برائے ماحولیات و آبی وسائل وزراعت انجینیئر عبد الرحمٰن بن عبد المحسن الفضلی نے پاکستان کا دورہ کیاتھا مذکورہ بالا باتوں سے ایک بات عیاں ہو رہی ہے کہ اس دفعہ پاک سعودی تعلقات کثیر الجہتی ہوں گے، جن پر برق رفتاری سے کام ہو رہا ہے،ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ اقتصادی تعاون میں نئی جہتیں تلاش کرکے ان پر کام کیا جائے، مثال کے طور پرسعودی عرب فٹبال میں پاکستان سے بدرجہا بہتر ہے، جہاں 172 سے زیادہ رجسٹرڈ ٹیمیں فٹ بال کھیلتی ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان دنیا بھر میں فٹبال بنانے میں پہلے نمبر پر ہے، جبکہ یہاں سپورٹ کی مصنوعات بھی بنتی ہیں، اس سلسلے میں پاکستان سعودی عرب میں فٹبال کی کھپت اور ضروریات پوری کر سکتا ہے، بالمقابل پاکستان فٹبال کے میدان میں سعودی عرب کی مدد حاصل کر سکتا ہے، اسی طرح پاکستان چونکہ دنیائے کرکٹ میں اپنا ایک مقام رکھتا ہے، وہ سعودی عرب کی کرکٹ ٹیم کو بہم خدمات پیش کرسکتا ہے، فٹبال کی طرز پر کرکٹ تبادلہ پروگرام ڈیزائن کیے جا سکتے ہیں جن سے سعودی عرب کی کرکٹ ٹیمیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ میڈیا ایک ایسا اہم پہلو ہے جسے در گزر نہیں کرنا چاہیے، اس میں بھی تعاون کی صورت موجود ہے، جس کی بنیاد پر سعودی عرب کی آواز اردو قارئین اور پاکستان کی آواز عربی قارئین تک پہنچائی جا سکتی ہے، یہ تعاون دونوں ملکوں کے عوامی تعلقات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے پاک سعودی تعلقات میں وسیع پیمانے پر کثیر الجہتی تعاون ممکن ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ممالک ان نئی جہتوں کو تلاش کرکے قدم آگے بڑھائیں