اسلام آباد (ٹی این ایس) سعودی عرب کا قومی دن;پاک سعودی عرب تعلقات کے نئے دور کا آغاز

 
0
28

اسلام آباد (ٹی این ایس) سعودی عرب کے قومی دن پر پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کے نئے دور کا آغازہورہاہے پاکستان اور سعودی عرب کے مابین دینی اور ثقافتی اقدار پر مبنی تاریخی تعلقات ہیں شاہ سلمان بن عبد العزیز اور شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی عرب 21ویں صدی کے عظیم ملک کی حیثیت سےابھرا ہے سعودی عرب کا ویژن 2030 دنیا بھر کے لیے مثالی نمونہ ہے۔ ’آج کے دور میں سعودی عرب کاروبار، ٹیکنالوجی، معیشت اور دیگر شعبوں میں ترقی پزیر ممالک کی مثالی قیادت کر رہا ہے ہ پاکستان اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات دوستی، محبت اور بھائی چارے کی اعلیٰ مثال ہے اور دونوں برادر ممالک کی دوستی آزمائش کی ہر گھڑی میں پورا اتری ہے ہرسال 23 ستمبرکوسعودی عرب کا قومی دن نہایت باوقاراورتاریخ سازلمحے کے طور پرمنایا جاتا ہے، یہ سعودی ریاست کے اتحاد کا عکاس ہے۔اس سال سعودی عرب کا قومی دن اس تھیم کے ساتھ منایا جائے گا کہ فخر ہماری فطرت میں شامل ہے یہ اس بات کا مظہر ہے جو سعودی عرب کے ثقافت، ورثے اور قدرتی ماحول کا خاصہ ہے۔اس سال سعودی عرب کے قومی دن کی پاکستان میں اہمیت اس لیے مزید بڑھ گئی ہے کہ کچھ دن پہلے ہی وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان 18 ستمبر کو ’اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے‘ پر دستخط ہوئے، جس کے تحت کسی بھی ایک ملک کے خلاف جارحیت کو دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا۔ مشترکہ اعلامیے میں بتایا گیا کہ ریاض میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور وزیرِ اعظم شہباز شریف نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کی اپنی سلامتی کو بڑھانے اور خطے اور دنیا میں سلامتی اور امن کے حصول کے لیے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتا ہے، جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو فروغ دینا اور کسی بھی جارحیت کےخلاف مشترکہ دفاع و تحفظ کو مضبوط بنانا ہے۔ یہ معاہدہ دوحہ میں عرب اسلامی ہنگامی سربراہ کانفرنس کے فوراً بعد ہوا لیکن درحقیقت یہ دونوں اتحادی ممالک کے درمیان برسوں کی مسلسل بات چیت کا نتیجہ ہے۔ یہ کسی خاص ملک یا واقعے پر ردعمل نہیں بلکہ ریاض اور اسلام آباد کے درمیان گہری اور مضبوط شراکت داری کا منظم اظہار ہے۔

مشترکہ اعلامیے میں اس شراکت داری کا بھی ذکر کیا گیا جس میں ’مشترکہ سٹریٹجک مفادات اور قریبی دفاعی تعاون‘ کو اس معاہدے کی بنیاد قرار دیا گیا، جس کی اصل اہمیت میرے خیال میں اس تاریخی رشتے میں ہے جو سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان موجود ہے۔ یہ دونوں ممالک کے آزمودہ فوجی تعلقات کو ایک نئی بلندی پر لے جاتا ہے۔
یہ معاہدہ دہائیوں پر محیط مسلسل اور مخلصانہ کوششوں کا منطقی نتیجہ ہے جو مختلف قیادتوں اور حکومتوں نے کیں، اور جنہیں سعودی اور پاکستانی عوام کی غیر متزلزل حمایت حاصل رہی۔ لہٰذا اسے صرف موجودہ علاقائی کشیدگی کے تناظر میں نہیں بلکہ مشترکہ تاریخ کے وسیع تر زاویے سے سمجھا جانا چاہیےیہ غیر معمولی گہرا تعلق واضح طور پر نظر آیا، جب شہباز شریف کا طیارہ سعودی فضائی حدود میں داخل ہوا۔ سعودی شاہی فضائیہ کے ایف 15 طیاروں نے ان کا استقبال کیا۔ یہ اعزاز اس سے قبل صرف ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادی میر پوتن جیسے رہنماؤں کو دیا گیا تھا۔ اس لمحے کی شان و شوکت کو مزید اجاگر ہوئی جب ریاض کی سڑکوں پر پاکستانی پرچم لہرائے گئے اور اسلام آباد میں سعودی پرچم بلند تھے۔ جیسے ہی یہ خبر پھیلی، دونوں ملکوں کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز فخر اور جشن سے روشن ہو گئے، جو دوطرفہ تعلقات میں ایک سنگِ میل دیکھنے کے مشترکہ جذبے کی عکاسی تھی۔پاکستانیوں کے لیے سعودی عرب ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ ہر سال لاکھوں افراد حج اور عمرہ کے لیے وہاں جاتے ہیں، جبکہ لاکھوں دیگر اپنی محنت اور لگن سے مملکت کی خوشحالی میں حصہ ڈال ہیں۔ وژن 2030 کے فریم ورک کے تحت ولی عہد نے پاکستان کے ساتھ سعودی عرب کی سیاسی، اقتصادی، دفاعی اور ثقافتی شمولیت کو گہرا کرنے کو ترجیح دی ہے۔ پاکستان نے بھی اس ترجیح کو بھرپور انداز میں اپنایا۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر، جو پاکستان کے آرمی چیف ہیں، نے بھی شہباز شریف کی طرح سعودی قیادت سے باقاعدہ روابط قائم رکھے ہیں۔ انہوں نے وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے، جنہیں گذشتہ سال نشان پاکستان سے نوازا گیا۔ قیادت اور عوام کے درمیان یہ منفرد ہم آہنگی تاریخ میں گہرائی سے جڑی ہے، جو مملکت کے قیام اور پاکستان کے وجود میں آنے سے بھی پہلے کی ہے، اور ہر گزرتی دہائی کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے۔سعودی عرب پاکستان دفاعی تعاون کی تشکیل 1960 کی دہائی میں شروع ہوئی جب قیادت شاہ فیصل اور صدر ایوب خان کے پاس تھی۔ اس مرحلے پر پاکستان نے سعودی شاہی فضائیہ کو تربیت اور مشاورتی مدد فراہم کی، جس نے ایک ایسے تعلق کی پہلی باضابطہ بنیاد رکھی جو بتدریج وسیع ہوتا گیا۔ 1967 میں پہلا باضابطہ دفاعی تعاون معاہدہ اسلام آباد میں وزیر دفاع شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز کے دستخط سے ہوا، جس نے سعودی عرب کے دفاع میں پاکستان کے تسلسل کے ساتھ کردار کا آغاز کیا۔ 1960 کی دہائی کے آخر اور 1970 کی دہائی میں اس معاہدے کو فوجی اہلکاروں اور مہارت کے بڑے پیمانے پر تبادلوں میں ڈھالا گیا۔ سینکڑوں پاکستانی افسر سعودی عرب میں ٹرینر، مشیر اور انجینیئر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے، جب کہ ہزاروں سعودی فوجی اور پائلٹ پاکستان میں منظم معاہدوں کے تحت تربیت یافتہ ہوئے۔ 1970 کی دہائی کے اوائل تک پاکستان نے سول ایوی ایشن اور ایئرلائنز کو بھی تکنیکی تعاون فراہم کیا، اور ساتھ ہی یمن کی سرحد کے ساتھ سعودی دفاعی قلعہ بندیاں کیں۔ یہ تعاون صرف تربیت تک محدود نہیں رہا۔ اس نے ایک ایسے سعودی عسکری ڈھانچے کی بنیاد رکھی جو پاکستانی تجربے اور پیشہ ورانہ مہارت پر گہرے طور پر انحصار کرتا تھا۔
واضح رہے کہ 1932 میں اسی دن 21 جمادی الاوّل 1351 ہجری کو شاہ عبدالعزیزبن عبدالرحمان آل سعود نے مملکت کے تمام حصّوں کو یکجا کرکے (مملکتِ سعودی عرب) کے قیام کا اعلان کیا۔
سعودی عرب کا قیام 1932 میں برطانیہ کی طرف سے جاری کیے گئے فرمان کے نتیجے میں وجود میں آیااور سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز نے نجد اور حجاز کے علاقوں کو اکٹھا کر کے ایک نئی مملکت قائم کی تھی۔ یہی وہ دن ہے جب کنگ عبدالعزیز ؒ نے مختلف قبائل کو ایک جھنڈے تلے جمع کرکے مملکت سعودی عرب کی بنیاد رکھی۔یہ دن نہ صرف ایک نئے دورکی شروعات تھی، بلکہ یہ جزیرہ نماعرب کے قبائل وعلاقوں کوایک مضبوط اورمتحد ریاست میں بدلنے کاعہد بھی تھا، جس نے بعد میں پورے خطے کی تاریخ کو بدل کررکھ دیا۔ شاہ عبد العزیزکی قائدانہ بصیرت اور بے مثال عزم وہمت نے 5 شوال 1319ہجری / 15 جنوری 1902 کوریاض کی فتح سے اس سفرکا آغاز کیا۔ ایک نوجوان سردارکی حیثیت سے ان کی یہ پہلی کامیابی نہ صرف ان کے سیاسی مستقبل کی بنیاد تھی بلکہ ان کے ورثے کی بازیافت کا اہم سنگ میل بھی ثابت ہوئی۔

یہ تاریخی لمحہ سعودی ریاست کے قیام کی ابتدا تھی جو بالآخرجزیرہ نما عرب کے دیگرعلاقوں کو بھی شاہ عبدالعزیز کی قیادت میں یکجا کرنے کا باعث بنا۔

1924 میں مکہ مکرمہ اور 1925 میں مدینہ منورہ کا حصول ان کی فتح وکامیابیوں کی بڑی مثالیں ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب شاہ عبدالعزیزنے انہیں ایک کامیاب فاتح اورمملکت کی بنیاد رکھنے والا حکمران ثابت کیا۔ 23 ستمبر1932 کوانہوں نے اپنی محنت اورقربانیوں کوامرکرتے ہوے مملکتِ سعودی عرب کے قیام کا اعلان کیا۔
قومی دن اوریومِ تاسیس کے درمیان ایک گہری تاریخی نسبت ہے۔ یومِ تاسیس جو ہر سال 22 فروری کو منایا جاتا ہے، سعودی ریاست کے پہلے قیام کا جشن ہے، جس کا آغاز 1727 میں امام محمد بن سعود کی قیادت میں ہوا تھا۔ یہ دن سعودی مملکت کی جڑوں کی مضبوطی اوراس کے تاریخی پس منظرکویاد کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے، جب کہ قومی دن وہ دن ہے جس میں مملکت کے اتحاد کا اعلان کیا گیا تھا۔
سعودی سبزرنگ کا پرچم، جس پر لا إله إلا الله محمد رسول الله کا کلمہ طیبہ درج ہے، ریاست کی روحانی اورفوجی طاقت کا مظہر ہے۔ یہ پرچم 11 مارچ 1937 کو باضابطہ طورپرتسلیم کیا گیا اوراس میں درج سلوگن اورتلوارکی علامت سعودی ریاست کے وقاراورعدل وانصاف کی عکاسی کرتی ہے۔
سعودی عرب کا قومی ترانہ جو 1984 میں باضابطہ طورپراپنایا گیا، شاہ عبدالعزیزکی رہنمائی اورسعودی عوام کی حب الوطنی کا اظہار ہے۔ شاعرابراہیم خفاجی کے الفاظ اورسراج عمرکی موسیقی نے اسے ایک ایسا شاہکاربنا دیا ہے، جو ہرسعودی کے دل کی دھڑکن ہے اورجسے ہراہم موقع پربڑے فخرسے گایا جاتا ہے۔
شاہ عبدالعزیزکی قیادت میں مملکت نے ترقی کی ایک سنہری راہ پر قدم رکھا۔ 1938 میں تیل کی دریافت نے ریاست کی اقتصادی ترقی میں ایک نیا انقلاب برپا کیا اورسعودی معیشت دنیا کی سب سے مضبوط معیشتوں میں شمار ہونے لگی۔اس دوران انہوں نے 1912 میں (ہجر) کے منصوبے کے تحت قبائل کو مستقل بستیوں میں آباد کرنے کی بنیاد رکھی، جس نے ان کی معاشی وسماجی حالت میں نکھار پیدا کیا۔
1915 میں برطانیہ کے ساتھ معاہدہ دارین پردستخط کیے، جس میں برطانیہ نے ان کی حکمرانی کو تسلیم کیا۔ 1945 میں سعودی عرب نے عرب لیگ کے قیام میں حصہ لیا اور شاہ عبدالعزیز نے سان فرانسسکو میں اقوام متحدہ کے قیام میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔
حرمین شریفین کی خدمت ہمیشہ شاہ عبدالعزیزکی اولین ترجیحات میں شامل رہی۔ انہوں نے مقدس مقامات کی توسیع، حجاج اور معتمرین کی سہولیات اور حفاظت کے لیے وسیع منصوبے شروع کیے، جن میں سبیلیں اورپختہ سڑکیں شامل تھیں تاکہ زائرین کو ہرممکن سہولت فراہم کی جا سکے۔
سعودی قومی دن ایک موقع ہے جب ماضی کی جدوجہد اورقربانیوں کویاد کیا جاتا ہےاورحال کی ترقی اورمستقبل کی امیدوں کا جشن منایا جاتا ہے۔ یہ دن شاہ عبدالعزیزاوران کے جانثاروں کی انتھک محنت کا ثمر ہے، جس نے ایک بکھری ہوئی ریاست کو دنیا کی ایک اہم ترین اورمستحکم مملکت میں بدل دیا۔اس روز سعودی عرب کے قیام کو 94 سال مکمل ہوجائیں گے اور ایک جشن کا سماں ہوگا۔ سعودی شہری اس موقع پر مملکت کے طول و عرض میں جشن منائیں گے۔
سعودی عرب نے پچھلے 94 برسوں میں اقتصادی ترقی، ثقافت، تعلیم، ٹیکنالوجی اور کھیل کے میدان میں وہ مثال قام کی ہے جس پر پوری دنیا رشک کرتی ہے۔ کنگ عبدالعزیز کے بعد ان کے بیٹوں نے بڑی محنت اور اخلاص سے اس ملک کو سنبھالا اور خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں ویژن2030 کے تحت سعودی عرب نے ترقی کی نئی منازل طے کیں۔
سعودی عرب نے نہ صرف اپنے شہریوں کو بہترین تعلیم اور سہولیات فراہم کیں بلکہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے طلباء کو وظائف اور تعلیمی مواقع دئیے۔ پہلی بار سعودی عرب نے اپنا قومی دن 1965 میں منایاتھا۔ اس وقت شاہ فیصل بن عبدالعزیز مملکت کے فرمانروا تھے۔ تاہم 2005 سے اس دن کے موقع پر شاہ عبداللہ کے زمانے سے عام تعطیل کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیاتھاعرب میڈیا کے مطابق سعودی عرب 23 ستمبر کو اپنا 95 واں قومی دن بھرپورملی جوش و جذبے کے ساتھ منائیں گے,قومی دن کی مناسب سےشہریوں اور غیر ملکی باشندوں کے لئے عام تعطیل کا اعلان کیا گیا۔ جدہ، ریاض اور دمام سمیت بڑے شہروں میں خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا،اہم عمارتوں کو سبز رنگ کی روشنیوں سے منور کیا جائے گا،سعودی عرب کا قومی دن ہر سال 23 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔
یاد رکھیں کہ سعودی عرب اور پاکستان ایک منفرد اور دیرپا تعلقات کے حامل ہیں جن کا اکثر اہم مواقع پر غیر معمولی یکجہتی کے ذریعے اظہار کیا گیا۔ سعودی عرب کے لیے خلیج عرب میں سلامتی اور استحکام انتہائی اہم ہے۔ پاکستان بھی اس اہم حقیقت کو نظرانداز نہیں کر سکتا، خاص طور پر مملکت کے ساتھ اپنے خصوصی تعلقات کے پیش نظر۔ سعودی عرب نے ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا، کرنٹ کرائسز اور آئی ایم ایف پیکچ کے لیے بھی برادر اسلامی ملک نے ہمیں سپورٹ کیا قدرتی آفات ہوں یا مشکل وقت سعودی عرب ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ سیلاب اور زلزلے کے متاثرین کی مدد سے لے کر حج انتظامات تک سعودی عرب نے ہر جگہ اپنی مثال قائم کی ہے۔ حالیہ حج سیزن میں جدید ٹیکنالوجی اور بہترین سہولیات نے حجاج کرام کو آسانی اور تحفظ فراہم کیا ہے۔
سعودی عرب کے کنگ سلمان ایڈ اینڈ ریلیف سنٹر کی جانب سے سیلاب متاثرین کیلئے امدادی سامان بھیجا گیا۔ سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی نے امدادی سامان حکومت پاکستان کے سپرد کیا۔سعودی قومی دن کی مناسبت سے اس بات کا ذکر کرنا بھی اہم ہے کہ سعودی عرب کی اسلام اور امت مسلمہ کیلئے خدمات بیش بہا ہیں۔ خاص طور پر مسجد اقصیٰ اور غزہ کیلئے عالم اسلام کے علاوہ اقوام عالم کو بیدار کرنا اور ان کی ہر ممکن بحالی میں قائدانہ کردار ادا کرنا اور خاص طورپر یورپی ممالک سے اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کے حق میں ووٹ دلوانا مملکت سعودی عرب کا خاصہ ہے۔
سعودی قیادت نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے عالمی سطح پر اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ فلسطینی عوام کی خود مختاری اور ریاست کا قیام خطے میں دیر پا امن کیلئے ناگزیز ہے۔
حکومت پاکستان خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو سیلاب متاثرین کی امداد کرنے پر خراج تحسین پیش کرتی ہے۔
حج2025 میں جدید ٹیکنالوجیز اور جدید خدمات کے استعمال نے حجاج کی سیفٹی کے محفوظ اور آرام دہ انداز میں مناسک کی ادائیگی کیلئے پر امن ماحول پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔روڈ ٹو مکہ پراجیکٹ کے ذریعے عازمین حج کا کسٹم اور ایمیگریشن پاکستان میں ہی کیا جاتا ہے۔ اس پروجیکٹ کے تحت حجاج کو سعودی ایئر پورٹ پر کسٹم اور ایمیگریشن سے استثناء حاصل ہے۔ سعودی عرب کے تمام شعبوں میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو مستقبل میں بہت اہمیت حاصل ہے۔
ڈیجیٹل فورم معیشت کیلئے اہم پیش رفت ثابت ہوسکتا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب میں ٹیکنالوجی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کی بے حدضرورت ہے۔
حکومت پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ سعودی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع سے فائدہ اٹھائیں۔ سعودی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں تجارت کیلئے دوستانہ ماحول فراہم کیا جائے گا۔ دونوں ممالک کے اتحاد دونوں ملکوں کے دفاعی و معاشی تعلقات کو نئی جہت سے روشناس کراسکتے ہیں۔
جنرل انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کے رواں سال کے اوائل میں جاری کردہ بیان کے مطابق سعودی شہریوں کی روزمرہ زمدگی سے سخاوت، ہمت، وقار اور مہمان نوازی کا اظہار ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ ہر سال سعودی عوام اور غیر ملکی باشندے سبز پرچم لہراتے اور قومی رنگوں میں ملبوس ہو کر اس دن کو عقیدت اور جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں۔
اسلامی دنیا میں سعودی عرب کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ چاہے مسجد اقصیٰ کا مسئلہ کو یا فلسطینی عوام کی حمایت عالمی سطح پر سعودی عرب نے ہمیشہ قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ یاد رہےکہ ہیرو‘ ایک ایسا لفظ ہے جو عموماً بہت آسانی سے بول دیا جاتا ہے لیکن ریاض کے مسمک قلعے میں دھات کی ایک سادہ تختی پر ان 63 شخصیات کے نام درج ہیں، مملکت سعودی عرب اپنے وجود کے لیے جن کی بہادری کی مرہون منت ہےدوسری طرف یورپی پارلیمنٹ نے سعودی عرب کو بحر احمر اور خلیج عربی میں بحری سکیورٹی کے اہم کردار پر سراہتے ہو ئے کہا ہے کہ سعودی عرب شدت پسندی کے خلاف عالمی سطح پر رہنما ملک ہے۔ سعودی حکومت نے بار بار زور دیا ہے کہ بین الاقوامی بحری نقل و حمل کے لیے آزادی اور سکیورٹی کو یقینی بنایا جائے۔ اس کے لیے اسٹریٹجک بحری راستوں اور مواصلاتی لائنوں کی حفاظت کو ترجیح دی جائے۔ دنیا کی تقریباً 90 فیصد تجارت ان بحری راستوں سے گزرتی ہے۔ اس لیے سکیورٹی کے چیلنجز عالمی سطح پر اہمیت رکھتے ہیں۔ سعودی عرب جدید ٹیکنالوجی اور وسائل بروئے کار لا کر ان خطرات کا مقابلہ کر رہا ہے۔ سعودی عرب بحر احمر کے کنارے واقع ہے جو عالمی سطح پر ایک اہم بحری گذر گاہ ہے۔ اس لیے ملک نے بحری شعبے اور اس کی اسٹریٹجک سکیورٹی پر خصوصی توجہ دی ہے۔ ریاض بین الاقوامی اتحاد میں شامل ہے جو تجارتی جہازوں کی حفاظت، آزادانہ بحری نقل و حمل اور عالمی تجارت کے تحفظ کے لیے کام کرتا ہے، تاکہ شرکاء کے مفادات اور بحری سکیورٹی کو یقینی بنایا جا سکے۔
ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ سعودی عرب کو ہمیشہ ترقی، امن اور خوشحالی عطا فرمائے اور پاکستان و سعودی عرب کی دوستی کو مزید مضبوط بنائے , ہم شاہ سلمان بن عبدالعزیز، ولی عہد محمد بن سلمان، شاہی خاندان اور سعودی عرب کے عوام کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے نیک خواہشات اور خیرسگالی کا پیغام دیتے ہیں