اسلام آباد (ٹی این ایس) وزیر اعظم کی سرمایہ کاری کیلئے قابل عمل منصوبوں پر کام کی ہدایت

 
0
32

اسلام آباد (ٹی این ایس) ملک میں بیرونی سرمایہ کا ری کا فروغ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ہدایت کی ہے کہ تمام اہم شعبوں میں سرمایہ کاری اور تجارت کو فروغ دینے کے لیے قابل عمل منصوبوں پر کام کیا جائے۔ لندن سے زوم پر پاکستان میں سرمایہ کاری کے حجم، اقتصادی اور تجارتی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے اعلیٰ سطح کے اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ اقتصادی سرگرمیوں کے روڈ میپ میں نجی شعبے کا کلیدی کردار ہوگا اور ان کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جاری معاشی اور اقتصادی اصلاحات کی پالیسی نے معیشت کو ایک نئی سمت دی ہے، جدت اور شفافیت کی بدولت ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ شہباز شریف نے واضح کیا کہ زراعت، آئی ٹی، معدنیات، سیاحت اور قابل تجدید توانائی اہم شعبے ہیں، جن میں بیرون ممالک سے سرمایہ کاری آسکتی ہے۔ سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ تجارت کو بھی فروغ دینا ہماری پالیسی کا حصہ ہے، تاکہ ہماری درآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکے۔ وزیراعظم نے ہدایت کی تمام اہم شعبوں میں سرمایہ کاری اور تجارت کو فروغ دینے کے لیے قابل عمل منصوبوں پر کام کیا جائے، قابل عمل منصوبوں کی نشاندہی کر کے ان کو عملی شکل دینے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ اس مقصد کے لیے مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک روڈ میپ اور تبدیلی کا ایجنڈا بنایا جائے تاکہ اپنے اہداف کی حصولی کے لیے ایک منظم انداز میں آگے بڑھا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ وزارتوں کو ٹارگٹ دیے ہیں اور تمام زیر تکمیل منصوبوں کو بروقت مکمل کرنے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لانے کی ہدایت کی ہے، انہوں نے وزرا کو ہدایت کی کہ قابل عمل منصوبوں کی نشاندہی کر کے ان کو عملی شکل دینے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ اجلاس میں زوم پر وفاقی وزیر ماحولیات مصدق ملک، وفاقی وزیر پیٹرولیم علی پرویز ملک، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، وفاقی وزیر تجارت جام کمال، وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ اور وزیر اقتصادی امور احد خان چیمہ شریک تھے۔دوسری طرف پاکستان آئی ایم ایف کے تمام اہداف پر پورا کرنے میں کامیاب ہو رہا ہےاور توقع ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کی جانب سے مقرر کردہ ساتوں مقداری کارکردگی کے معیار کیو پی سی پر پورا اترے گا جو کہ ملک کے توسیعی فنڈ سہولت ای ایف ایف پروگرام کے دوسرے ششماہی جائزے سے قبل ایک مثبت پیشرفت ہے ٹاپ لائن سیکیورٹیز کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کا وفد 25 ستمبر کو پاکستان کا دورہ کرے گا تاکہ 7 ارب ڈالر کے ای ایف ایف معاہدے کے تحت ملک کی کارکردگی کا جائزہ لے، جو 2025 کی پہلی ششماہی کا احاطہ کرتا ہے، اس جائزے میں مارچ تا جون سہ ماہی کے دوران اہم معاشی اہداف پر عملدرآمد کا جائزہ لیا جائے گا۔ عالمی مالیاتی ادارے کے پاس اپنے پروگراموں کے تحت ایک معیاری طریقہ کار موجود ہے، جس کے تحت اس کا ایگزیکٹو بورڈ وقتاً فوقتاً قرض دینے والے پروگراموں کا جائزہ لیتا ہے تاکہ ممالک کی پیش رفت کا اندازہ لگایا جا سکے بورڈ خاص طور پر یہ دیکھتا ہے کہ آیا پروگرام درست سمت میں جا رہا ہے، آیا پروگرام کی شرائط پوری کی گئی ہیں اور آیا پروگرام کو دوبارہ درست سمت میں لانے کے لیے کسی پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت ہے آئی ایم ایف کی فنڈنگ رکن ممالک کو ادائیگیوں کے توازن کے مسائل حل کرنے کے لیے فراہم کی جاتی ہے، اس لیے پاکستان کے معاملے میں ای ایف ایف کے تحت موصول ہونے والی تمام رقم مرکزی بینک کے ذخائر میں شامل کی گئی تھی یہ رقوم مرکزی بینک میں موجود ہیں اور پروگرام کے تحت یہ وسائل بجٹ فنانسنگ کا حصہ نہیں ہوتے انہیں بجٹ کی معاونت کے لیے حکومت کو منتقل نہیں کیا جاتا۔ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے توقع ظاہر کی تھی کہ پاکستان کے لیے اگلی فنڈنگ کا جائزہ 2025 کی دوسری ششماہی میں ہو گا 26-2025 کے مالی سال کے بجٹ کی شرائط پر اتفاق رائے کے لیے پاکستانی حکام سے بات چیت جاری رکھی۔ آئی ایم ایف کی ترجیح بدستور افراط زر کو مرکزی بینک کے درمیانی مدت کے ہدف یعنی پانچ سے سات فیصد کی حد میں رکھنے پر مرکوز رہی ہے پاکستانی حکام نے مالی نظم و ضبط کے عزم کا اعادہ کیا تھا جب کہ مالی سال 2026 میں جی ڈی پی کے 1.6 فیصد کے بنیادی سرپلس کا ہدف رکھے ہوئے ہیں پاکستان کا مالی سال 26-2025 کا وفاقی بجٹ 10 جون 2025 کو پیش کیا گیاتھا
اس سمت میں ایک اہم سنگ میل اپریل 2025 میں ہونے والا پاکستان منرل انویسٹمنٹ فورم تھا جس میں 50 سے زائد ممالک کے 5 ہزار سے زیادہ مندوبین شریک ہوئے تھے
مالی سال 2025 کے پرائمری بیلنس کے اعداد و شمار بھی اسی طرح آئی ایم ایف کی پیش گوئیوں کے مطابق ہیں آئی ایم ایف کی اصلاحات پر عملدرآمد کے ساتھ ساتھ پاکستان خصوصاً آف شور ڈرلنگ، مائننگ اور ویب 3.0 ٹیکنالوجیز جیسے ابھرتے ہوئے شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے
امریکا نے پاکستان کے آف شور ہائیڈرو کاربن وسائل میں نئی دلچسپی ظاہر کی جو کہ ملک کے غیر دریافت شدہ قدرتی وسائل کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ریکو ڈیک جو ایک اہم منصوبہ ہے آئندہ چند ہفتوں میں مالیاتی بندش فنانشل کلوز تک پہنچنے کی توقع ہے پاکستان شدید بارشوں اور سیلاب سے بھی نبردآزما ہے، جو بلوچستان اور آزاد کشمیر کے علاوہ ملک کے بیشتر حصوں کو متاثر کر رہا ہے مرکزی بینک کے مطابق حالیہ سیلاب کی شدت ماضی کے مقابلے میں کم ہے، تاہم ٹاپ لائن نے خبردار کیا کہ یہ سیلاب وقتی طور پر معاشی اصلاحات میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں مزید کہا گیا کہ پاکستانی معیشت کی لچکدار حیثیت کے باعث معیشت جلد بحالی کی طرف لوٹ آئے گی سیلاب کی وجہ سے ریلیف اخراجات میں اضافہ اور سرکاری آمدنی پر دباؤ متوقع ہے، جس کے باعث مالی سال 2026 کے لیے بجٹ خسارے کا تخمینہ 4.1 فیصد سے بڑھا کر 4.8 فیصد کردیا گیا ہے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے اب توقع ہے کہ وہ مالی سال 2026 میں 13 کھرب 60 روپے کے ٹیکس جمع کرے گا، جو پہلے 14 کھرب 10 ارب روپے کا ہدف تھا یہ کمی سست معاشی بحالی اور سیلاب کے جی ڈی پی پر متوقع اثرات کی عکاسی کرتی ہے۔ اب جی ڈی پی کی شرح نمو کا تخمینہ 2.75 فیصد سے 3.25 فیصد کے درمیان لگایا گیا ہے، جو پہلے 3.5 فیصد سے 4 فیصد تھا، زرعی پیداوار کی شرح نمو کو بھی کم کرکے 2.6 فیصد کردیا گیا ہے، کیوں کہ چاول کی فصل میں 15 فیصد اور کپاس میں 10 فیصد تک نقصان کی توقع ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے 0 سے 0.5 فیصد کے درمیان رہنے کی پیش گوئی ہے۔ ٹاپ لائن نے درآمدات کی شرح نمو کا تخمینہ 9 فیصد سے بڑھا کر 10 فیصد کردیا ہے، جب کہ برآمدات کی شرح نمو کا تخمینہ 4 فیصد سے کم کرکے صرف 1 فیصد کردیا ہے، تاہم ترسیلات زر میں 6 فیصد اضافے کی توقع ہے، اور اگر یہ اس سے زیادہ بڑھیں تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی کے لیے مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔ مرکزی بینک اب مالی سال 2026 تک پالیسی ریٹ کو برقرار رکھنے کا امکان رکھتا ہے، جب کہ پہلے شرح سود میں ممکنہ اضافے کا اندازہ لگایا گیا تھا یہ تبدیلی بنیادی طور پر غذائی افراط زر کے خطرات، سیلاب کے باعث بڑھتے درآمدی بلز، اور جغرافیائی سیاسی غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر کی گئی ہے، جن میں اسرائیل اور قطر میں حالیہ کشیدگیاں بھی شامل ہیں جو تیل کی قیمتوں کو متاثر کرسکتی ہیں۔
واضح رہے کہ آئی ایم ایف کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے کہا تھا کہ فنڈ اس بات کا جائزہ لے گا کہ آیا پاکستان کی مالیاتی پالیسیاں اور ہنگامی اقدامات سیلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران سے مؤثر طور پر نمٹ سکتے ہیں یا نہیں۔ آئی ایم ایف کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے 13 ستمبر 2025 کو کہا تھا کہ آئندہ توسیعی فنڈ سہولت جائزہ مشن اس بات کا جائزہ لے گا کہ آیا پاکستان کی مالیاتی پالیسیاں اور ہنگامی اقدامات سیلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران سے مؤثر طور پر نمٹ سکتے ہیں یا نہیں۔ پاکستان کی نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق رواں برس سیلابوں سے اب تک 950 سے زائد افراد جان سے جا چکے ہیں سیلاب نے پنجاب ,سندھ ,کے پی کےمختلف حصوں میں کھیت، مویشی اور گھر تباہ کر دیے جس سے غذائی اجناس مہنگی ہونے اور مالی وسائل کی کمی کا شکار اس جنوبی ایشیائی ملک میں مزید مشکلات کا خطرہ ہے۔آئی ایم ایف نے پاکستان میں حالیہ تباہ کن سیلاب سے ہونے والے جانی نقصان پر گہرے افسوس کا اظہار کیا تھا پاکستان میں آئی ایم ایف کے ریذیڈنٹ نمائندے ماہر بنچی نے کہا تھا مشن یہ جائزہ لے گا کہ آیا مالی سال 2026 کا بجٹ، اس میں اخراجات کی تقسیم اور ہنگامی اقدامات سیلاب سے پیدا ہونے والی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی حد تک گنجائش رکھتے ہیں یا نہیں ؟ پاکستان کے سٹیٹ بینک سے توقع ہے کہ اپنی کلیدی شرح سود 11 فیصد پر برقرار رکھے گا پالیسی ساز مہنگائی کے خدشات، جو فصلوں کے نقصان سے جڑے ہیں، کا سست ہوتی معیشت کے مقابلے میں جائزہ لے رہے ہیں زراعت کے شعبے کو پہنچنے والا نقصان رواں سال کی شرح نمو میں 0.2 فیصد پوائنٹس تک کمی لا سکتا ہے جب کہ تعمیر نو پر مبنی طلب صرف جزوی طور پر اس کمی کو پورا کرے گی آئی ایم ایف کے بورڈ نے مئی میں پاکستان کے لیے 1.4 ارب ڈالر کا نیا قرضہ منظور کیا تھا تاکہ ملک کو موسمیاتی مسائل اور قدرتی آفات کے مقابلے میں اپنی معاشی صلاحیت کو مضبوط بنانے میں مدد ملے۔ فنڈز کی فراہمی ای ایف ایف کے تحت جائزوں کی کامیاب تکمیل سے مشروط تھا گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس میں پاکستان کو ان ممالک میں شمار کیا گیا ہے جو ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لیے ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلٹی (ای ایف ایف) کے سات ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے سلسلے میں کچھ نئی شرائط عائد کرنے کے ساتھ کچھ پرانی شرائط پر عملدرآمد کے لیے زور دیا ہے۔ واضح رہے کہ اس قرض پروگرام کے تحت بین الاقوامی ادارے نے پاکستان کے لیے 1.2 ارب ڈالر کی دوسری قسط جاری کی تھی۔مئی میں سٹاف لیول معاہدے کی جائزہ پروگرام میں اس پر عمل درآمد پر جائزے کے ساتھ کچھ نئی شرائط بھی عائد کی گئی تھیں تاکہ ان پر عملدرآمد کر کے اس پروگرام کے تسلسل کو برقرار رکھا جا سکے۔آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان میں معیشت اور گورننس کے شعبوں میں 11 نئی شرائط عائد کرنے کے ساتھ کچھ پرانی شرائط پر عملدرآمد کرنے کے لیے بھی زور دیا گیا تھااور ان کے لیے ٹائم فریم بھی دیا گیا تھا اس کا بنیادی مقصد پاکستان کے مالیاتی نظم و ضبط کو برقرار رکھنا تھا تاکہ مالی خسارہ کم ہو۔ئی ایم ایف کی جانب سے دیگر شرائط کے علاوہ پاکستان میں پرانی گاڑیوں کی درآمد کے حوالے سے بھی چھوٹ دی گئی تھی جس کے باعث ان کی قیمتوں میں نمایاں تبدیلی کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا 11 شرائط میں پاکستان کو عملدرآمد کرنے کے لیے کہا گیا تھا تاکہ قرض پروگرام کو جاری رکھا جا سکے۔
ان 11 شرائط میں سر فہرست ملک کے نئے مالی سال کے بجٹ کو آئی ایم ایف سٹاف لیول معاہدے کے تحت بنا کر پارلیمان سے منظور کروانے کا مطالبہ تھا۔ شرائط کے مطابق مالی سال 2026 کے بجٹ کی پارلیمانی منظوری آئی ایم ایف سے طے شدہ اہداف کے مطابق جون 2025 کے آخر تک حاصل کرنا لازم قرار دیا گیاتھا دوسری شرط میں زرعی آمدن پر نیا ٹیکس لاگو کرنے کے لیے ایک جامع پلان بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا جس میں ریٹرن فائلنگ، ٹیکس دہندہ کی شناخت، رجسٹریشن، آگاہی مہم اور تعمیل میں بہتری لانے کے منصوبے شامل تھے اس کی آخری تاریخ 30 جون 2025 مقرر کی گئی تھی تیسری شرط کے مطابق حکومت کو ایک گورننس ایکشن پلان شائع کرنا تھا تاکہ اہم حکومتی کمزوریوں کی اصلاح کی جا سکے۔ چوتھی شرط حکومتی کفالت پروگرام جیسے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت دی جانے والی نقد امداد میں سالانہ مہنگائی کے تناسب سے اضافہ تھا تاکہ خریداری کی حقیقی قوت برقرار رہے۔ پانچویں شرط میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ حکومت کو 2027 کے بعد کے مالیاتی شعبے کی حکمت عملی پر مبنی ایک منصوبہ شائع کرناتھا جس میں 2028 کے بعد کا ادارہ جاتی اور ضابطہ جاتی فریم ورک شامل ہو۔توانائی کے شعبے میں چار نئی شرائط عائد کی گئی تھیں۔ پہلی شرط میں حکومت کو یکم جولائی تک بجلی اور گیس کے نرخوں کی سالانہ بنیاد پر نظرثانی کا نوٹیفکیشن جاری کرنا تھا تاکہ نرخ لاگت کی بنیاد پر برقرار رہیں۔ دوسری شرط میں گیس کے نرخوں کی ششماہی بنیاد پر ایڈجسٹمنٹ کا نوٹیفکیشن جاری کرنا تھا تیسری شرط میں پارلیمان کو کیپٹو پاور لیوی آرڈیننس کو مستقل قانون بنانے کے لیے قانون سازی کرنی تھی۔ اس شعبے کی چوتھی شرط میں ایک اور قانون سازی کے تحت بجلی کے بلوں میں قرض ادائیگی سرچارج پر زیادہ سے زیادہ کی حد کو ختم کرنے کا کہا گیا تھا جس کی لیے جون کے آخر تک کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی تجارت، سرمایہ کاری اور ڈی ریگولیشن کے شعبے میں آئی ایم ایف کی جانب سے دو مطالبات تھے۔
واضح رہے کہ پہلی شرط میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ پاکستان سپیشل ٹیکنالوجی زونز اور دیگر صنعتی زونز میں دی گئی تمام مراعات کو 2035 تک مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے ایک منصوبہ تیار کرے گا، جو سال کے آخر تک مکمل کرنا لازم ہے دوسری شرط میں کہا گیا تھا کہ پاکستان پارلیمان میں قانون سازی کے ذریعے استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل امپورٹ پر پابندی ختم کرے جو ابتدائی طور پر پانچ سال سے کم استعمال کی گئی گاڑیوں کی درآمد پر پابندیوں کے خاتمے کے لیے ضروری ہے۔ یہ قانون سازی جولائی کے آخر تک کرنا تھی یہ بہت اہم شرط تھی اور پہلی بار یہ شرط آئی تھی کہ سٹاف لیول معاہدے کے تحت نیا بجٹ بنے گا آئی ایم ایف کی جانب سے بجلی و گیس کے شعبے میں جن شرائط کا کہا گیا تھا ان میں اس شعبے میں ٹیرف پر سالانہ بنیادوں پر نظر ثانی شامل ہے جبکہ اسی طرح بجلی کے بل میں قرض سرچارج کی حد کو کم کرنے کا کہا گیا تھا جو 3.21 روپے فی یونٹ تھا اور اس شرط کو جون کے آخر تک مکمل کرنا تھا بجلی و گیس کے شعبے میں ان شرائط کا مقصد ان کی پیداوار پر اٹھنے والی لاگت کو پورا کرنا تھا پاکستان میں بجلی و گیس کی لاگت پوری طرح ریکور نہ ہونے کی وجہ سے اس شعبے میں گردشی قرضہ کئی سو ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں ’بجلی و گیس کے لیے سالانہ بنیادوں پر ٹیرف پر نظر ثانی کی جو شرط آئی ایم ایف کی جانب سے آئی تھی اس میں پاکستان سے کہا گیا تھا کہ اس پر عملدرآمد کریں کیونکہ ملک میں پہلے سے سالانہ بنیادوں پر ان دونوں کے ٹیرف پر نظر ثانی کی جاتی ہےآئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو کہا گیا تھا کہ وہ پارلیمان میں قانون سازی کے ذریعے استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل امپورٹ پر پابندی ختم کرے جو ابتدائی طور پر پانچ سال سے کم استعمال ہونے والی گاڑیوں کی درآمد پر پابندیوں کے خاتمے کے لیے ضروری ہے اس کا مقصد آزادانہ تجارت کو فروغ دینا تھاخیال رہے کہ فی الحال ایف بی آر کے مطابق پاکستان میں کوئی بھی شخص تمام تقاضے پورے کر کے، یعنی ڈیوٹی اور ٹیکس ادا کر کے، نئی گاڑی درآمد کر سکتا ہے تاہم استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کے لیے سمندر پار پاکستانیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے اکثر استعمال شدہ گاڑیاں جاپان سے گفٹ سکیم کے تحت درآمد کی جاتی ہیں۔ امپورٹ پالیسی آرڈر 2022 کے تحت فی الحال تین سال سے زیادہ پرانی گاڑی کی درآمد کی اجازت نہیں ہے گفٹ سکیم میں سمندر پار پاکستانی اپنے خاندان والدین، بہن بھائی، بچوں، شوہر یا بیوی کو تحفے میں کار بھیج سکتے ہیں۔ اس حوالے سے بیرون ملک کرنسی میں ہی ڈیوٹی اور ٹیکس ادا کیے جاتے ہیں۔آئی ایم ایف کی اس شرط سے متعلق پاکستان کی چاروں صوبائی اسمبلیاں قانون سازی کر چکی ہیں۔ مگر آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ زرعی ٹیکس کی وصولی کے لیے اس مالی سال کے آخر تک پاکستان کو طریقہ کار وضع کرنا ہے پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے جہاں سب سے زیادہ زرعی ٹیکس اکٹھا ہونا ہے تاہم ابھی تک اس کے ریٹ بھی نہیں نکالے گئے کہ ٹیکس کا ریٹ کیا ہو گا زرعی ٹیکس کے ریٹرن فائل کرنے کا طریقہ کار بھی انگریزی میں ہے جو ایک عام کسان اور زمیندار کے لیے پریشان کن ہے آئی ایم ایف کی جانب سے 11 نئی شرائط میں سول سرونٹس کے اثاثوں کی شرط تو شامل نہیں تاہم جن تجاویز پر زور دیا گیا تھا ان میں سے ایک شرط سول سرونٹس کے اثاثوں کو پبلک کرنے سے متعلق تھا عالمی ادارے نے پہلے اس کے لیے فروری 2025 کی شرط مقرر کی تھی تاہم اس پر عملدرآمد نہ ہونے کہ وجہ سے عالمی ادارے نے کہا تھا کہ اب اسے جون کے مہینے کے اختتام پر پورا کیا جائے یہ شرط بنیادی طور پر گورننس اور شفافیت کے زمرے میں آتی ہے جس میں 21 اور 22 گریڈ کے سول سروس کے افسران شامل ہیں آئی ایم ایف نے ملٹری اور سول سروس دونوں کے افسران کے اثاثوں کو پبلک کرنے کا کہا تھا تاہم ابتدائی طور پر سول افسران کے اثاثوں کو ظاہر کرنے کا کہا گیا تھاانڈیا کی سخت مخالفت اور کوششوں کے باوجود عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی قرض کی قسط جاری کر دی تھی۔انڈیا کی جانب سے مخالفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی تھی جب انڈیا اور پاکستان کے مابین فوجی تنازع جاری تھا۔ انڈیا نے پہلگام میں سیاحوں پر حملے کے بعد پاکستان پر اس میں ملوث دہشتگردوں کی معاونت کا الزام لگایا تھا، پاکستان نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے انڈیا سے ٹھوس ثبوت دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے بعد رواں ماہ انڈیا نے پاکستان کے مختلف مقامات کو نشانہ بنایا جس کے بعد دونوں ممالک میں کئی روز تک فوجی تنازع جاری رہا جو بالآخر امریکی ثالثی میں ختم ہوا۔آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ نے پاکستان کے لیے سات ارب ڈالرز کے قرض پروگرام کی دوسری قسط جاری کرتے ہوئے کہاتھا کہ پاکستان سختی سے آئی ایم ایف کے پروگرام پر عملدرآمد کر رہا ہے جس کے باعث ملک معاشی بحالی کی راہ پر گامزن ہے۔ عالمی ادارہ پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی اور قدرتی آفات سے نمٹنے کی کوششوں میں ساتھ دیتا رہے گا اور اس ضمن میں مستقبل میں تقریباً 1.4 ارب ڈالرز کے مزید فنڈز جاری کیے جائیں گے۔ انڈیا نے ماضی میں پاکستان کی قرض کے معاملے میں خراب کارکردگی اور آئی ایم یف پروگرام کے تحت لاگو کی جانے والی اصلاحات پر عملدرآمد میں ناکامی کا حوالہ دیتے ہوئے، پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پروگرامز کی افادیت پر سوال اٹھایا تھا۔دوسرا اعتراض یہ تھا کہ آئی ایم یف کی جانب مہیا کیے جانا والا فنڈ ’ سرحد پار دہشتگردی‘ کے لیے استعمال ہو گا۔ پاکستان ہمیشہ سے انڈیا کی جانب سے سرحد پار دہشتگردی کی ریاستی سرپرستی کے الزام کی تردید کرتا آیا ہے۔جہاں تک انڈیا کے پہلے دعوے کا تعلق ہے تو سنہ 1958 سے اب تک پاکستان 24 مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جا چکا ہے انڈیا آئی ایم ایف کے 25 رکنی بورڈ کا ایک ممبر ہے اور اس لحاظ سے اس کا فنڈ میں اثرورسوخ محدود ہے۔ انڈیا آئی ایم ایف میں ایک چار ملکی گروپ کی نمائندگی کرتا ہے جس میں سری لنکا، بنگلہ دیش اور بھوٹان بھی شامل ہیں جبکہ پاکستان سینٹرل ایشیا گروپ کا رُکن ہے جس کی نمائندگی ایران کے پاس ہے۔آئی ایم ایف بورڈ میں ہر ملک کے ووٹ کا دارومدار اس بات پر ہے کہ اُس ملک کی معیشت کتنی بڑی ہے اور وہ آئی ایم ایف کے فنڈز میں کتنا حصہ ڈالتا ہے۔ آئی ایم ایف میں رائج اس نظام کی بنیاد پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ اس میں امیر مغربی ممالک کو ترقی پذیر ممالک پر ترجیح دی جاتی ہے۔اس کے علاوہ آئی ایم ایف کے قواعدوضوابط کے تحت بورڈ ممبرز کسی تجویز کے خلاف ووٹ نہیں کر سکتے۔ وہ یا تو اس کے حق میں ووٹ دے سکتے یا ووٹ دینے سے انکار کر سکتے ہیں جبکہ تمام تر فیصلے بورڈ میں اتفاقِ رائے سے ہوتے ہیں۔ انڈیا اپنی شکایات کا ازالہ چاہتا ہے تو اس کے لیے صحیح فورم اقوام متحدہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) ہے فیٹف دہشتگردی کی مالی معاونت کے معاملات دیکھتا ہے اور یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کس ملک کو ’گرے لسٹ‘ یا ’بلیک لسٹ‘ میں ڈالا جائے۔ ان فہرستوں میں شامل ممالک آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے عالمی مالیاتی اداروں سے فنڈز حاصل نہیں کر سکتے اگر کوئی ملک فیٹف کی لسٹ میں شامل ہوتا ہے تو اس کے کے آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے میں مشکلات ہوتی ہیں اور پاکستان کے ساتھ یہ پہلے ہو چکا ہے یاد رہے کہ شدت پسندی کے خلاف بہتر اقدامات کے نتیجے میں سنہ 2022 میں پاکستان کو باقاعدہ طور پر فیٹف کی گرے لسٹ سے نکال دیا گیا تھا24 مئی 2025 کو عالمی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف نے کہا تھا کہ اس کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کے لیے فنڈنگ کی منظوری دے دی ہے کیوں کہ اس نے توسیع شدہ فنڈ سہولت (ای ایف ایف) پروگرام کے تحت تمام اہداف حاصل کر لیے ہیں پاکستان کے لیے قرضے کا یہ پروگرام صرف زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے کے لیے ہے اور اس کا بجٹ فنانسنگ سے کوئی تعلق نہیں۔ آئی ایم ایف نے جاری توسیع شدہ فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت پاکستان کو فوری طور پر تقریباً ایک ارب ڈالر جاری کرنے کی منظوری کے ساتھ 1.4 ارب ڈالر کے ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبلٹی فیسیلٹی (آر ایس ایف) کیلئے ایک اضافی انتظام کی بھی اجازت دی تھی۔ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے ستمبر 2024 میں پاکستان کے لیے ای ایف ایف پروگرام کی دی تھی اس وقت پہلا جائزہ 2025 کی پہلی سہ ماہی میں طے کیا گیا تھا اور اس ٹائم لائن کے مطابق 25 مارچ 2025 کو آئی ایم ایف کے عملے اور پاکستانی حکام کے درمیان ای ایف ایف کے پہلے جائزے پر سٹاف لیول معاہدہ طے پایا تھا یہ معاہدہ بعد میں فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ کے سامنے پیش کیا گیاتھا جس نے نو مئی کو جائزہ مکمل کیاتھا اس جائزے کی تکمیل کے نتیجے میں پاکستان کو اُس وقت رقم جاری کر دی گئی تھی