اسلام آباد (ٹی این ایس) چوھدری شفقت محمود قانون کا ماؤنٹ ایورسٹ

 
0
21

اسلام آباد (ٹی این ایس) چوھدری شفقت محمود ۔۔۔۔۔قانون کا ماؤنٹ ایورسٹ رات کے آخری پہر کی ٹھنڈی ہوا، مگر ساتھ ہی فضا میں وہ پراسرار اندھیرا۔ تحصیل فتح جنگ کی سمت سے ایک سفید ویگو ڈالا زناٹے بھرتا ھوا کرم خان روڈ پر نمودار ہوا۔ پہیے ہوا کو چیرتے تھے اور ہیڈلائٹس کی کرنیں اندھیرے کو دھکیلنے میں مصروف تھیں۔ عام دنوں میں اس راستے پر رش ہوتا، سی پیک روٹ تک پہنچنے کے لیے گاڑیوں کا تانتا بندھا رہتا، مگر اس رات غیر معمولی سکوت تھا۔ وہ سکوت جو کسی طوفان کی آمد سے پہلے چھا جاتا ہے۔
نیلی بتی والے ویگو کی اگلی نشست پر بیٹھا تھا قانون کی دنیا کا عظیم افسر، چوہدری شفقت محمود۔ اس کی آنکھوں میں وہ روشنی تھی جو عزم کو فولاد بناتی ہے۔ وہ واحد شخص تھا جس نے پنجاب کو یہ باور کروایا کہ قانون مکڑی کا جالا نہیں ہے کہ طاقتور توڑ کر نکل جائیں اور کمزور پھنس کر رہ جائیں۔ یہ ویگو محض ایک گاڑی نہیں تھی، بلکہ انصاف کی اڑان تھی جو اسمگلروں کے خلاف نکل کھڑی ہوئی تھی۔

چوہدری شفقت محمود کے سامنے صرف تاریک سڑک نہیں تھی، بلکہ وہ سارا نظام تھا جسے اسمگلر اور بلیک مارکیٹر اپنی مرضی کا غلام سمجھ بیٹھے تھے۔

وہ لمحہ آیا جب اسمگلروں کے ٹرک سی پیک روٹ پر داخل ھو چکے تھے ا۔ زمین کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ جیسے پوری فتح جنگ سانس روکے کھڑا ہو۔ اچانک سفید ویگو دلا آگے بڑھا، جیسے کسی شاہین نے اپنے شکار پر جھپٹا مارا ہو۔
یوں لگتا تھا جیسے پنجاب کے نقشے پر اس رات انصاف کا ایک نیا باب لکھا جا رہا ہو۔ چوہدری شفقت محمود کی حکمت عملی اور انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن اپنی فیصلہ کن گھڑی کو چھو رہا تھا کہ اسی لمحے میدان میں وہ دو جانباز افسر نمودار ہوئے جنہوں نے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں چوھدری شفقت محمود کا بھرپور ساتھ دیا —ڈی ایس پی ڈوگر اور ایس ایچ او مجاہد۔

اندھیری رات کے سناٹے میں جب اسمگلر اپنی رفتار پر مطمئن تھے، اچانک چاروں طرف سے حصار تنگ ہونے لگا۔ سفید ویگو کی روشنی کے عقب میں، یہ دونوں افسر اپنی ٹیم کے ہمراہ یوں ابھرے جیسے کسی بچھائے گئے جال کے سب دھاگے ایک نقطے پر آ ملے ہوں۔

گھیراؤ مکمل ہوا تو فضا میں ایک لمحے کو سناٹا چھا گیا۔ پھر ایس ایچ او مجاہد نے دبے لہجے میں کہا:
“سر، دشمن ہمارے قابو میں ہے۔”

جب آپریشن مکمل ہوا اور حالات صاف ہوئے تو انکشاف ہوا کہ یہ کوئی عام قافلہ نہیں بلکہ گندم کے اسمگلر تھے۔ درجنوں ٹرک گندم سے بھرے کھڑے تھے جو پنجاب کی سرزمین سے باہر جانے والے تھے۔ یہ خبر سن کر فضا مزید سنجیدہ ہو گئی۔

پنجاب پہلے ہی سیلاب کی تباہ کاریوں سے جوجھ رہا تھا۔ کھیت ڈوب چکے تھے، کسان اپنے خوابوں سمیت برباد ہو گئے تھے، اور لوگوں کے چولہے ٹھنڈے پڑنے لگے تھے۔ ایسے عالم میں اگر یہ گندم اسمگل ہو جاتی تو یہ صرف دانوں کی نہیں بلکہ صوبے کے مستقبل، عوام کی بھوک اور زندگی کی تجارت ہوتی۔

یہ وہ لمحہ تھا جب ہر ایک کے دل میں یہ بات بجلی کی طرح کوندی کہ گندم کو اسمگلروں کے حوالے کرنا ایسا ہے جیسے پنجاب کو بھوک اور موت کے سپرد کرنا۔

مگر ان لمحوں میں بھی چوہدری شفقت محمود کی آنکھوں میں لرزش نہیں آئی۔ ان کے فولادی لہجے نے سب کو یقین دلایا کہ یہ دولت اور دھونس کے پجاری چاہے ترغیب دیں یا دھمکی دیں، ان کے سامنے ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ انہوں نے ہر پیشکش، ہر دباؤ، اور ہر خطرے کو جوتے کی نوک پر رکھا اور اعلان کیا کہ پنجاب کی گندم پنجاب کے عوام کے لیے ہے، نہ کہ اسمگلروں اور مافیا کے لیے۔

سفید ویگو کی نیلی بتی اس وقت اور زیادہ جگمگا اٹھی، جیسے خود وقت یہ گواہی دے رہا ہو کہ انصاف کے رکھوالے نے بھوک اور موت کے سوداگر کو شکست دی ہے۔

ڈی ایس پی ڈوگر نے نگاہ بلند کر کے جواب دیا:
“یہ سب آپ کی جرات کا نتیجہ ہے، چوہدری صاحب۔ اگر آپ کی حکمت نہ ہوتی تو یہ راہزن کبھی ہاتھ نہ آتے۔”

اس لمحے سفید ویگو کی نیلی بتی کی روشنی اور بھی چمکدار دکھائی دی—جیسے وقت خود یہ گواہی دے رہا ہو کہ قانون کی طاقت اور سچائی کی روشنی کے سامنے ہر اندھیرا کمزور ہے۔
یہ جیت صرف ایک آپریشن کی جیت نہ تھی، یہ فتح جنگ کی تاریخ کا روشن باب تھی۔ ڈپٹی کمشنر راؤ عاطف رضا تک خبر پہنچی تو وہ مسکرایا۔ ڈی پی او سردار موارھن خان کے دفتر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ انہوں نے کہا: “یہ وہ لمحہ ہے جب قانون نے خود کو زندہ ثابت کر دیا۔”
ریونیو ڈیپارٹمنٹ بھی حیرت اور خوشی میں ڈوبا ہوا تھا۔
تحصیل آفس کی جانب سے آنے والی ہوا میں کرم خان روڈ کی گرد اور مٹی ملی ہوئی تھی۔ وہ دھند جیسی فضا میں ایک الگ منظر بنا رہی تھی۔ لیکن ٹیم کے جوانوں کے حوصلے بلند تھے۔ ریڈر بابو جاوید اور آصف علی دونوں بےچین تھے۔ گردآور ملک طاہر محمود نے ہتھیار سیدھے کیے۔ پٹواری شاکر بشیر، ندیم نمبردار، نوزی، افضل اور باقی عملہ سب کے سب آنکھوں میں وہی روشنی لیے کھڑے تھے جو اپنے لیڈر پر ایمان لانے والے لشکر میں ہوتی ہے۔

“یہ رات قانون کی جیت کی رات ہوگی،” ریڈر آصف نے دھیرے سے کہا۔
بابو جاوید مسکرایا: “جب کمانڈر چوہدری شفقت ہوں تو ہر اندھیرا صبح میں بدل جاتا ہے۔”

اشتیاق خان، عاصم رفیق، محمد عمران شفیق، ناصر، چوھدری افتخار، عاشر سہیل، یاسر عرفات، شاکر فاروق، ندیم خان نمبردار، ملک امیر افضل، وقار حیدر، اصغر علی، ملک اظہر، حاجی صادق، جرار حیدر، ملک عابد محمود، قاضی افضل گردآور — سب ایک ہی زبان میں کہہ رہے تھے کہ ہم اس کمانڈر کے ساتھ ہیں جس کی حب الوطنی ضرب المثل ہے۔

لوگ حیران بھی تھے اور خوش بھی۔ حیران اس لیے کہ برسوں سے سنتے آئے تھے قانون مکڑی کا جالا ہے، مگر اس رات انہوں نے دیکھا کہ قانون سب کے لیے ایک جیسا ہے۔ خوش اس لیے کہ پنجاب کے باسیوں کو یقین ہوگیا کہ اگر کمانڈ چوہدری شفقت جیسے افسر کے ہاتھ میں ہو تو کوئی اسمگلر اور کوئی مافیا سر نہیں اٹھا سکتا۔
ریونیو ڈیپارٹمنٹ کی فضا اُس رات اوروں سے بالکل مختلف تھی۔ ہوا میں گرد و غبار ضرور گھلا ہوا تھا مگر دلوں میں اُمید اور یقین کے چراغ روشن تھے۔ ہر چہرے پر اعتماد جھلک رہا تھا اور ہر آنکھ میں ایک ہی منظر تھا—قانون کی سر بلندی۔

ریڈر آصف نے دھیرے لہجے میں کہا:
“چوہدری شفقت محمود وہ ہستی ہیں جنہیں دیکھ کر اندھیرا خود روشنی میں بدل جاتا ہے۔ اُن کی قیادت میں کامیابی یقینی ہے۔”

بابو جاوید مسکرا کر بولا:
“یہ رات اُن کے نام ہے جن کے فیصلے فولاد جیسے اور ارادے پہاڑوں سے بلند ہیں۔”

گردآور ملک طاہر محمود نے پرعزم لہجے میں کہا:
“چوہدری صاحب جیسے افسر صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اُن کے ہاتھ میں اختیار نہیں بلکہ انصاف کی طاقت ہے۔”

پٹواری شاکر بشیر نے آگے بڑھ کر کہا:
“یہ معرکہ صرف قانون کا نہیں بلکہ ایک ایمان کا ہے، اور اس ایمان کا مرکز چوہدری شفقت محمود ہیں۔”

ندیم نمبردار نے عزم سے سر ہلاتے ہوئے کہا:
“ان کے ساتھ کھڑے ہو کر یوں لگتا ہے جیسے ہم تاریخ کے کسی روشن باب کا حصہ ہیں۔”

نوزی خان نے جذباتی لہجے میں کہا:
“چوہدری صاحب بہادری کی اس تصویر کا نام ہیں جسے دیکھ کر ہر سپاہی کا حوصلہ بڑھتا ہے۔”

ملک افضل نے وقار کے ساتھ کہا:
“انصاف کا یہ سفر اگر منزل تک پہنچے گا تو اُس کے معمار یہی عظیم افسر ہوں گے۔”

اشتیاق خان نے بلند آواز میں کہا:
“میں نے اپنی زندگی میں اتنی جرات اور دیانت کو ایک ساتھ کبھی نہیں دیکھا، جیسا کہ اُن میں ہے۔”

عاصم رفیق بولا:
“وہ ایک رہنما نہیں، بلکہ مثال ہیں۔ ان کے فیصلے تاریخ کا سرمایہ ہیں۔”

محمد عمران شفیق نے کہا:
“ایسا لگتا ہے جیسے قانون نے اپنے چہرے کو پہلی بار اُن کی صورت میں ظاہر کیا ہو۔”

ناصر نے جوش سے کہا:
“اُن کی زیرِ نگرانی ہر لمحہ یقین میں ڈھل جاتا ہے۔ یہ کامیابی انہی کے نام لکھی جائے گی۔”

چوہدری افتخار نے عقیدت سے کہا:
“شفقت صاحب کے ارادے کسی دریا کی روانی جیسے ہیں، جنہیں کوئی روک نہیں سکتا۔”

عاشر سہیل نے پُر اثر آواز میں کہا:
“ایسی شخصیتیں وقت کا تحفہ ہوتی ہیں، اور ہم خوش قسمت ہیں کہ اُن کے ساتھ کھڑے ہیں۔”

یاسر عرفات نے کہا:
“وہ بہادری کا وہ مینار ہیں جس کی روشنی سے ہر سمت جگمگا اٹھتی ہے۔”

شاکر فاروق نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا:
“یہ وہ شخصیت ہیں جو قانون کو مکڑی کے جالے سے فولاد کی زنجیر بنا دیتی ہیں۔”

ندیم خان نمبردار نے کہا:
“ہم سب کے دلوں کی دھڑکن ایک ہی آواز میں دھڑک رہی ہے—چوہدری شفقت محمود۔”

ملک امیر افضل نے کہا:
“انصاف کی جو شمع انہوں نے جلائی ہے وہ آنے والی نسلوں کے لیے رہنمائی کا چراغ ہوگی۔”

وقار حیدر نے مسکراتے ہوئے کہا:
“وہ وقار اور سربلندی کی وہ علامت ہیں جن پر فخر کیا جا سکتا ہے۔”

اصغر علی نے کہا:
“ایسے رہنما وقت کے ریگستان میں نخلستان کی مانند ہوتے ہیں۔”

ملک اظہر نے کہا:
“اُن کی دیانت داری نے ہمیں یقین دلایا کہ سچ کبھی ہار نہیں سکتا۔”

حاجی صادق نے پُر نم آنکھوں سے کہا:
“اللہ نے انہیں جرات اور انصاف کا وہ حوصلہ دیا ہے جو کم ہی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔”

جرار حیدر نے کہا:
“ہم سب کی دعائیں اور حوصلے انہی کے ساتھ ہیں، اور انہی کے ساتھ کامیابی کا پرچم لہرائے گا۔”

ملک عابد محمود نے کہا:
“یہ رات ہمیشہ یاد رکھی جائے گی، کیونکہ اس میں انصاف نے اپنے اصل روپ میں جنم لیا ہے۔”

قاضی افضل گردآور نے اختتامی الفاظ میں کہا:
“تاریخ اُنہیں یاد رکھے گی، کیونکہ وہ افسر نہیں بلکہ عہدِ نو کے علمبردار ہیں۔”

اور یوں، ہر زبان پر ایک ہی نام اور ہر دل میں ایک ہی دعا تھی—چوہدری شفقت محمود۔

اور پھر وہ لمحہ آیا جب یہ خبر لاہور تک پہنچی۔ مریم نواز نے کہا: “یہ ہے وہ ویژن جس پر ہم نے پنجاب کا مستقبل تعمیر کرنا ہے۔” ان کے الفاظ بجلی بن کر گونجے۔ جیسے آئرن لیڈی کی سوچ کو عملی روپ چوہدری شفقت نے دے دیا ہو۔

فتح جنگ کی گلیوں میں بچے خوش تھے، کسان خوش تھے، عام آدمی خوش تھا۔ کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ قانون محض کتابوں کی سطر نہیں، بلکہ وہ حقیقت ہے جو ان کے محافظ کے روپ میں ان کے درمیان کھڑا ہے۔

رات کی تاریکی ختم ہونے لگی۔ افق پر روشنی پھیلنے لگی۔ سفید ویگو ڈالا تحصیل آفس کے سامنے رکا۔ چوہدری شفقت محمود نے اترتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھا۔ اس کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ جیسے کہہ رہا ہو: “یہ آغاز ہے، انجام نہیں۔”

اور یوں ایک رات، جو دھند اور تاریکی سے شروع ہوئی تھی، سورج کی روشنی میں قانون کے ماؤنٹ ایورسٹ کی فتح کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔