راولپنڈی 28ستمبر2025 (ٹی این ایس) : دل کی بیماریاں طرز زندگی کی وجہ سے ہونے والی بیماریاں ہیں موثر حکمت عملی سے ان سے بچا جا سکتا ہے۔ ورلڈ ہارٹ ڈے پر صدر پناہ میجر جنرل(ر) مسعودالرحمن کیانی کا پیغام
دنیا بھر میں دل کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد لوگوں کو دل کی بیماریوں سے بچاؤ کی آگائی دینا ہے۔ پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (پناہ) نے اسی سلسلے میں آج آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی/ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز (AFIC-NIHD) میں ایک آگاہی تقریب کا انعقاد کیا جس کا مقصد اپنے ہم وطنوں کو دل کی بیماریوں سے بچاؤ کی آگائی دینا تھا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر پناہ میجر جنرل (ر) مسعود الرحمن کیانی کے کہا کہ پاکستان میں دل کے مرض میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان میں سالانہ لاکھوں لوگ دل کی بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ دل کے امراض کو کم کرنے کے لیے ہمیں صحت مندطرز زندگی کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ پیدل چلیں اور ایکسرسائز کو اپنا معمول بنائیں،ٹینشن سے بچیں، موٹاپے کو کنٹرول کریں، سیگریٹ نوشی سے پرہیز کریں اور صحت مند غذا کا استعمال کریں۔
غیر صحت مند خوراک جیسے چینی، نمک، چکنائی اور تلی ہوئی اشیاء کا زیادہ استعمال دل کی بیماریوں کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔اپنی خوراک میں سبزیوں اور پھلوں کا زیادہ استعمال کریں اور دل کی بیماری سے بچیں۔
میجر جنرل محمد نادر خان نے کہا کہ دنیا میں ہر سال دل کی بیماریوں سے ایک کروڑ 79لاکھ لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ آج ورلڈ ہارٹ ڈے کے موقع پر ہمیں اس بات کا اعادہ کرنا چاہیے کہ ہم ایک صحت مند طرز زندگی اپنائیں۔ ورزش کو معمول بنائیں اور خوراک کے انتخاب میں محتاط رہیں۔
کرنل شکیل احمد مرزا نے کہا کہ غیر متعدی بیماریا ں جن میں دل، زیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، کینسر اور گردوں کی بیماریاں شامل ہیں دنیا بھر میں اموات کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ زیابیطس فیڈریشن کی 2021کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 3کروڑ 30لاکھ لوگ زیابیطس کے ساتھ زندہ ہیں اور پاکستان زیابیطس میں مبتلاء افراد کا دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے اور جس تیزی سے اس مرض میں اضافہ ہو رہا ہے اس میں پاکستان دنیا بھر میں پہلے نمبر پر آ چکا ہے۔زیابیطس کے مریضوں میں دل کے مرض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
منور حسین صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان غیر متعدی بیماریوں کے شدید بحران سے دوچار ہے، لاکھوں افراد ذیابیطس، موٹاپے، دل کی بیماری، گردے کی بیماریوں اور بعض قسم کے کینسر میں مبتلا ہیں۔ میٹھے مشروبات، جوسز اور الٹرا پروسیسڈ فوڈز کا استعمال اس قومی صحت کی ہنگامی صورتحال میں اہم کردار ادا کرنے والے عنصر میں شامل ہے۔ تاہم میٹھے، مشروبات کی صنعت نے بڑی مہارت کے ساتھ ہسپتالوں کے بڑھتے ہوئے اخراجات اور قبل از وقت اموات اور بیماریوں کے سماجی اخراجات کی وجہ سے صحت عامہ پر اس کی مصنوعات کے تباہ کن اثرات کو اپنی داستان سے خارج کر دیا ہے۔
انٹرنیشنل ذیابیطس فیڈریشن کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں روزانہ گیارہ سو سے زائد افراد ذیابیطس یا اس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ شوگر کے مرض میں مبتلا افراد کی تعداد بڑھ کر تینتیس ملین ہو گئی ہے اور اگر کوئی فوری پالیسی اقدام نہ اٹھایا گیا تو دو ہزار پینتالیس تک یہ تعداد باسٹھ ملین تک پہنچ جائے گی۔ دو ہزاراکیس میں ذیابیطس کے انتظام کی سالانہ لاگت دو ہزار چالیس ملین امریکی ڈالر سے تجاوز کر گئی، جس سے خام مال اور ادویات کی درآمد پر بہت زیادہ بوجھ پڑا۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ میٹھے مشروبات کا استعمال اس کمزور حالت کے پیدا ہونے کے تیس فیصد بڑھتے ہوئے خطرے سے منسلک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مشروب سازی کی صنعت کا منافع کے حصول کے لیے پاکستانی عوام کو بہت زیادہ قیمت چکانی پڑی ہے۔
ثناہ اللہ گھمن نے کہا کہ غیر متعدی بیماریاں ہماری صحت کے ساتھ ساتھ ہماری معشیت کے لیے بھی سنگین چیلنج بن چکی ہے۔ صرف زیابیطس کے مرض پر سالانہ اخراجات کا تخمینہ 2.6ارب امریکی ڈالرز سے زیادہ ہے۔ پناہ دل اور متعلقہ بیماریوں سے بارے میں لوگوں میں آگائی کے ساتھ ساتھ حکومت کے ساتھ مل کر ایسی قانون سازی کروانے کے لیے بھی کام کر رہی ہے جس سے بیماریوں میں کمی آئے گی۔ حال ہی میں پناہ کی کاوشوں سے مضر صحت میٹھے مشروبات اور تمباکو پر ٹیکسز میں اضافہ ہوا جس سے ان کے استعمال میں کمی آئی لیکن ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ پناہ اب حکومت سے ساتھ مل کر غیر صحت مند اشیاء پر فرنٹ آف پیک لیبلنگ پر کا م کر رہا ہے تاکہ لوگوں کو خوراک کے بارے میں بہتر آگائی ہو کہ وہ کیا کھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سول سوسائٹی، حکومت، صحافیوں، ہیلتھ پروفیشنلز اور معاشرے کے تمام فعال طبقوں کو مل کر ایک صحت مند پاکستان کے لیے کام کرنا ہو گا۔













