بحریہ ٹاون کراچی کا بڑا سیکنڈل ،عوام کو 175رب کا ٹیکہ، ہزاروں رپوں کی زمین کاکروڑوں مالیت کی سرکاری زمین کے ساتھ تبادلہ،منظورشدہ 1330ایکٹر سے تجاوز کر کے10126ایکٹر زمین غیر قانونی طور پر ہڑپ کی گئی

 
0
1438

کراچی، ستمبر 19(ٹی این ایس): بحریہ ٹاؤن کراچی کے طرف سے غیر قانونی طور پر ہزاروں ایکٹر زمین حاصل اور ہزاروں رپوں کی زمین کاکروڑوں مالیت کی سرکاری زمین کے ساتھ تبادلہ کرنے کا ایک بڑا سیکنڈل طشت ازبام ہوا ہے جس میں حکومت سندھ سے وابستہ کئی سیاستدان اور محکمے حلق تک ملوث نظر آتے ہیں۔
ٹی این ایس کے زرائع کو معلوم ہوا ہے کہ سیکنڈل کافی عرصے سے سرکاری گلیاروں میں گردش کرتا چلا آرہا تھا تاہم اسکا بھانڈا اب پھوٹ گیا ہے،
تفصیلات کے مطابق بحریہ ٹاؤن کو صرف 1330 ایکٹرزمین کے حصول کا اجازت نامہ دیا گیا تھا تاہم بعد ازاں اس نے سندھ بلڈنگ اتھارٹی (ایس بی سی اے) آرڈی سی 1979 کے قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بغیر کسی اجازت یا منظوری کے 10126 ایکٹرزمین کو ہڑپ کر کے اپنے ہاؤسنگ منصوبے کو توسیع دی۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ ایس بی سی ای اے قانون کی دھجیاں اڑائے جانے کے اس عمل میں خود بھی شامل رہا ہے۔نیب نے اختیارات کے تحت ایس بی سی اے کو ریوینیو ملیر ڈولیپمنٹ اتھارٹی اور حکومت سندھ کے دیگراداروں کے افسران اور ملازمین کے خلاف تحقیقات سے متعلق نوٹیفیکیشن بھیجتے ہوئے اسے ہدایت کی تھی کہ وہ ڈائریکٹر یا اس سے زیادہ عہدے کیحامل آفیسر کے ذریعے سی آئی ٹی کے سامنے تحریری وضاحت پیش کریکہ اس نے بحریہ ٹاؤن کی خلاف ورزی اور اس کے خلاف کیا کاروائی کی اور آیا اس نے عوام الناس کو اس منصوبے میں سرمایہ کاری کرنے سے خبردار کرنے کے علاوہ بحریہ ٹاؤن کو پلاٹس کی فروخت بکنگ اور اشتہار بازی کے عمل سے روکا یہ نہیں۔

یہ امرقابل ذکر ہے کہ ایس بی سی اے نے اس سال 5 جون کو مین سپر ہائے وے پر بحریہ ٹاؤن کے اس منصوبے کو 1330 ایکٹر زمین پرتعمیراتی کام کی اشتہار بازی کا اجازت نا مہ جاری کیا تھا تاہم بحریہ ٹاؤن نے بعد ازاں اس غیر قانونی طور پر اس منصوبے کو توسیع دیتے ہوئے ہزاروں ایکٹر زمین ہڑپ کر لی سروے آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ نقشے کے مطابق بحریہ ٹاؤن کراچی کے پاس 12156 ایکٹر زمین زیرے قبضہ ہے۔
نیب نے ایس بی سی اے کے ڈائریکٹر جنرل کو متنبہ کیا ہے کہ اگر انہوں نے نوٹس کی پوری طرح تعمیل نہ کی تو ان کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے گی۔اس سیکنڈل میں سندھ حکومت پوری طرح ملوث نظر آتی ہے جس نے قوانین و ضوابط اور سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئیبحریہ ٹاؤن کے ساتھ ہزاروں روپے کی زمین کا کروڑوں روپے کی زمین کے ساتھ تبادلہ کر کے خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔


بحریہ ٹاؤن نے ضلع ملیر میں 30 سے 50 ہزار اور بعض مقامات پر 5 لاکھ روپے کے حساب سے 7 ہزار ایکٹرزمین خریدی تھی اور بعد ازاں حکومت سندھ کی مہربانی سے اس کے عوض کراچی حیدرآباد میں سپرہائے وے پر 50لاکھ فی ایکٹر قیمت والی زمین حاصل کر لی۔


نیب سندھ بھی اس معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے اور اس ضمن میں ڈپٹی ڈائریکٹر محمد رضوان نے اس سلسلے میں چیف سیکرٹری سندھ محمد صدیق میمن کو ایک خط میں کہا تھا کہ وہ اطلاعات فراہم کریں کہ زمین کا تبادلہ کس قانون کے تحت کیا گیا۔
بتایا جاتا ہے کہ زمین کے غیر قانونی تبادلے کے بعد سندھ بورڈ آف ریوینو اور ڈپٹی کمیشنر ملیر نے سندھ لینڈ ایکوزیشن ایکٹ 1967 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملیر ڈولیپمنٹ اتھارٹی ایم ڈی اے کو اجازت دی کہ وہ بحریہ ٹاؤن کے روڈ نیٹورک کے لیے سروے اورتیاری کرے۔

ڈایئریکٹر جنرل سندھ بلڈنگ اتھارٹی منظور قادر کاکاجو کرپشن کے الزامات کی وجہ سے ملک سے فرار ہو چکے ہیں نے سپریم کورٹ کے حکم کی ادولی کرتے ہوئے کسی الاٹمنٹ لیس ڈیڈیز اور سیل ڈیڈیز کے بغیر ہی بحریہ ٹاؤن کو تما م چیزوں کی اجازت ایک دستاویز کے زریعے دے دی ہے جس پر اجراح کی تاریخ ہی درج نہیں کی گئی،بحریہ ٹاؤن نے بعد ازاں اس دستاویز کے سہارے میڈیا کے زریعے اشتہار چلائے اور معصوم عوام سے ٹوکن اکاؤنٹ کے طور پر ہزاروں روپے اینٹھ لیے۔

ایک ممتاز حساس ادارے نے اپنی رپورٹ میں درج کیا ہے کہ سندھ بلڈنگ اتھارٹی کے اس خط کی بنیاد پر 175 ارب روپے عوام سے وصول کیے گئے اور بعد ازاں اس پیسے کو ملک کے مختلف حصوں میں جاری بحریہ کیدوسرے منصوبوں کو منتقل کر دیا گیا۔بتایا جاتا ہے کہ ڈی جی رینجرز نے ایپیکس کمیٹی میں یہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے بحریہ کے مزکورہ منصوبوں کے حوالے سے سنگین نقطہ ہائے اعتراض اٹھائے تھے۔مذکورہ ایجنسی کی رپورٹ میں یہ انکشا ف بھی کیا گیا ہے سندھ کی حکمران جماعت کے سربراہ آصف علی زرداری بحریہ کے کراچی کے علاوہ،حیدرآباد اور نواب شاہ کے منصوبوں میں بھی ملک ریاض کے شراکت دار ہیں۔


ذرائع کے مطابق زرداری نے ابتداء میں اپنے منہ بولے بھائی اویس مظفر ٹپی کو منصوبے کے لیے خرید و فروخت کے انتظامات سہولت کاری حکومت سندھ سے زمین حاصل کرنے اور دستاویزات کے کام میں لگا دیا تھا تاہم بعد ازاں یہ کام ایس بی سی اے کے ڈائیریکٹر جنرل منظور قادر کاکا ، ڈپٹی کمیشنر ملیر قاضی جان محمد، ڈی جی ایم ڈی اے محمد سہیل،ایڈیشنل ڈپٹی کمیشنر محمد علی شاہ کے علاوہ پیپلز پارٹی کے راہنماؤں مختار گڈاپ اور سہیل احمد میمن کو سونپتے ہوئے ہدایت کی گئی کہ وہ بحریہ کے منصوبے کے لیے تمام ضروریات پوری کریں۔


حساس ادارے سنے بحریہ کے اس منصوبے کو حکومت سندھ کی اشرافیہ اور کرپٹ افسران کی ملک ریاض کے ذریعہ تاریخی فراڈ قرار دیتے ہوئے اس مافیا کے خلاف ازروئے قانون سخت اور قابل مثال کاروائی کرنے کی سفارش کی ہے۔