اسلام آباد (ٹی این ایس) وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے آزاد جموں و کشمیر میں جاری عوامی ایکشن کمیٹی (اے اے سی) کی ہڑتال کے تناظر میں ایک اعلیٰ سطحی مذاکراتی کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا جس میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی نمائندگی شامل ہے یہ اقدام اس کے سنجیدہ عزم اور کشمیری عوام کے ساتھ خلوص نیت کا مظہر ہے، کیونکہ مسائل کا حل صرف بات چیت سے ممکن ہے نہ کہ محاذ آرائی سے ہے, کیا آزاد کشمیر کے جان لیوا مظاہروں کے پیچھے بھارت شامل ہے ذرائع کے مطابق ایک خفیہ مراسلے سے انکشاف ہوا ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے بعض عناصر کو جنیوا میں بھارتی حکام کی جانب سے بریفنگ دی گئی تھی تاکہ آزاد کشمیر میں بدامنی پیدا کی جا سکے، جس پر حکومت نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا ایجنڈا پاکستان مخالف کیوں ہے؟ عوامی ایکشن کمیٹی کے 38 میں سے 36 مطالبات پہلے ہی مان لیے گئے ہیں، اس کے باوجود اے اے سی قیادت مسلسل احتجاج پر بضد ہے اور پاکستان و آزاد کشمیر کی حکومتوں کی بارہا مذاکراتی پیشکشوں کو مسترد کر رہی ہےاس رویے سے نہ صرف معصوم کشمیری عوام کی زندگیاں خطرے میں پڑ رہی ہیں بلکہ امن و امان متاثر ہو رہا ہے اور بین الاقوامی سطح پر کشمیریوں کے موقف کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ (PTM): ایک تحریک جو پشتونوں کے حقوق کی وکالت کرتی ہے اور پاکستان میں پی ٹی ایم کو تنقید اور تنازعات کا سامنا کرنا پڑا ہے، پاکستان مخالف ایجنڈوں سے جوڑنے کا براہ راست ثبوت ہے ہندوستانی پشت پناہی بلوچ یونٹی کمیٹی (BYC) اور بلوچستان لبریشن آرمی (BLA) گروپ بلوچستان میں جاری شورش میں ملوث ہیں، جو خود مختاری اور حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پی ٹی ایم کی طرح ان کی سرگرمیاں پیچیدہ اور کثیر جہتی ہیں، جو بیرونی اثرات سے چلتی ہیں۔ پاکستان کے تناظر میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی (JAC) احتجاج یا مذاکرات کے لیے بنائی گئی کمیٹی ہے، جیسے کہ مثال کے طور پر آزاد جموں و کشمیر میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی معاشی ریلیف، منصفانہ ٹیکس لگانے اور شہری حقوق جیسے مسائل پر احتجاج اور مذاکرات میں شامل رہی ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کی صورتحال کے حوالے سے معاشی ریلیف، منصفانہ ٹیکس اور شہری حقوق کی شکایات کی وجہ سے احتجاج جاری ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی نے آزاد جموں و کشمیر کی حکومت کو مطالبات کا 38 نکاتی چارٹر پیش کیا ، جس کے نتیجے میں پرتشدد جھڑپیں اور ہلاکتیں ہوئیں۔ حکومت ان مسائل کو حل کرنے کے لیے بات چیت میں مصروف ہے۔پی ٹی ایم کا بیانیہ اکثر ریاست کو منفی روشنی میں ڈالتا ہے، جو ریاستی اداروں پر عوامی اعتماد کو ختم کر سکتا ہے اور قومی اتحاد کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ پی ٹی ایم کی بیان بازی اکثر نسلی امتیاز کے الزامات پر مرکوز ہوتی ہے، جس میں یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ پشتون برادری کو پسماندہ اور ستایا جاتا ہے پی ٹی ایم کے بیانیے کو ریاست مخالف ہونے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ تقسیم اور بداعتمادی کو فروغ دیتا ہے۔ پی ٹی ایم کو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسے عسکریت پسند گروپوں کی کھلے عام مذمت نہ کرنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے، جو پشتونوں پر متعدد حملوں کے ذمہ دار ہیں پاکستانی حکومت نے خیبرپختونخوا اور سابق فاٹا کے علاقوں میں بنیادی ڈھانچے، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے پروگرام شروع کیے ہیں۔ حکومت پشتونوں سمیت تمام شہریوں کی شکایات کو دور کرنے کے لیے قومی ہم آہنگی اور جامع طرز حکمرانی پر زور دیتی ہے۔ بلوچ یونٹی کمیٹی (BYC) اور بلوچستان لبریشن آرمی (BLA): یہ گروپ بلوچستان میں جاری شورش میں ملوث ہیں، جو بلوچ عوام کے لیے خود مختاری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی آزاد جموں و کشمیر معاشی ریلیف، منصفانہ ٹیکس، اور شہری حقوق جیسے مسائل پر احتجاج اور مذاکرات میں شامل ہے آزاد جموں و کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی نے حکومت کو 38 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا جس کے نتیجے میں پرتشدد جھڑپیں اور ہلاکتیں ہوئیں۔ حکومت ان مسائل کے حل کے لیے بات چیت میں مصروف ہے۔ پاکستانی حکومت نے قومی امن اور سلامتی کو لاحق خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے پی ٹی ایم پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس پابندی کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ یہ انجمن اور پرامن اجتماع کی آزادی کو محدود کرتی ہے پاکستان مخالف جوائنٹ ایکشن کمیٹی دراصل وہی پرانا چہرہ ہے جو پاکستان مخالف پشتون تحفظ موومنٹ، (PTM) بلوچ یکجہتی کمیٹی ( BYC) بلوچستان لبریشن آرمی ( BLA)، کے نا م سے پاکستان میں بھارتی ایما پر انتشار پھیلاتے ہیں ان پاکستان مخالفوں کا مقصد پاکستان کو کمزور کرنا اور عوام کے دلوں میں نفرت کے بیج بوناہے یہ یاد رکھیں پاکستان نہ کبھی ایسے فتنوں کے آگے جھکا ہے اور نہ جھکے گا یہ سب ایجنڈے ناکام ہوکر تاریخ کے کوڑے دان میں دفن ہو گا پاکستان پہلے سے زیادہ مضبوط اور متحد ہوکر ابھرے گا سڑکوں کی بندش، کاروباروں کی بندش اور ضروری اشیا کی ترسیل میں رکاوٹ براہِ راست عام کشمیری شہریوں، دکانداروں، دیہاڑی داروں، طلباء اور مریضوں کو متاثر کر رہی ہے۔حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ بالغ نظری، مفاہمت اور مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن اب ذمہ داری عوامی ایکشن کمیٹی پر عائد ہوتی ہے کہ وہ سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔ آزاد کشمیر کو انتشار نہیں بلکہ امن درکار ہے، مسائل کا حل مذاکرات میں ہے نہ کہ ہڑتالوں میں حکومت کے دروازے بات چیت کے لیے کھلے ہیں، لہٰذا عوامی ایکشن کمیٹی کو چاہیے کہ وہ اپنی ہڑتال ختم کر کے مذاکرات کا راستہ اختیار کرے۔وزیراعظم پاکستان کی ہدایت پر تشکیل کردہ اعلیٰ سطحی کمیٹی نے مظفرآباد میں عوامی ایکشن کمیٹی سے مذاکرات سے قبل اہم مشاورت کی۔ کمیٹی میں وفاقی وزرا اور پارلیمانی رہنما شریک تھے جنہوں نے موجودہ بحران کے حل اور تعطل کے خاتمے پر زور دیا۔وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ مذاکرات، جو تعطل کا شکار تھے، دوبارہ بحال کر دیے گئے ہیں۔ ان کے مطابق عوامی ایکشن کمیٹی کے زیادہ تر مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں جبکہ باقی رہ جانے والے نکات پر بات چیت کے ذریعے تعطل دور کیا جائے گا۔ سابق وزیراعظم اور اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ آزاد کشمیر کی صورتحال پر دل دکھی ہے، ہماری کوشش ہے کہ جتنی جلد ممکن ہو حالات کو معمول پر لایا جائے۔ مسائل کا حل صرف مذاکرات اور گفت و شنید میں ہے، کیونکہ آزاد کشمیر کے عوام ہمارے اپنے ہیں۔ اس موقع پر رانا ثنا اللہ نے کہا کہ تشدد سے معاملات مزید الجھتے ہیں، جبکہ آزاد کشمیر کے عوام ہمارے بھائی ہیں اور ان کے مسائل کا حل پرامن طریقے سے نکالا جانا چاہیے۔وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی خصوصی ہدایت پر ایکشن کمیٹی سے مذاکرات کے کے لیے اسلام آباد سے آزاد جموں وکشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں پہنچنے والا 7 وفد رانا ثناءاللہ، وفاقی وزیر سردار یوسف، احسن اقبال، قمر زمان کائرہ اور سابق صدر آزاد جموں و کشمیر مسعود خان پر مشتمل ہیں۔ مظفر آباد پہنچنے والے وفد نے ایکشن کمیٹی سے مذاکرات کا باقاعدہ آغاز کیا ، اس بات کا اعلان وزیر مملکت طارق فضل چوہدری نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر اپنی ایک ٹوئٹ میں کیا ہے۔قبل ازین وزیراعظم محمد شہباز شریف نے آزاد جموں و کشمیر میں جاری پرتشدد احتجاجات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عوام سے پرامن رہنے کی اپیل کی ہےپرامن احتجاج ہر شہری کا آئینی اور جمہوری حق ہے، لیکن عوامی ماحول کو خراب نہیں کیا جانا چاہیے۔وزیراعظم نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی کہ احتجاجات کے دوران زیادہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں، عوام کے جذبات کا احترام کیا جائے اور سخت رویہ اختیار کرنے سے گریز کیا جائے۔انہوں نے متاثرہ خاندانوں کو امداد فراہم کرنے اور پرتشدد واقعات کی شفاف تحقیقات کرانے کی بھی ہدایت دی۔شہباز شریف نے کشمیر کے مسائل کے حل کے لیے قائم مذاکرات کمیٹی کو بھی وسیع کیا ہے، جس میں رانا ثناءاللہ، وفاقی وزیر سردار یوسف، احسن اقبال، قمر زمان کائرہ اور سابق صدر آزاد جموں و کشمیر مسعود خان شامل کیے گئے ہیں مظفرآباد میں وفاقی وزرا طارق فضل چوہدری اور امیر مقام نے کہا ہے کہ حکومت عوامی حقوق من و عن تسلیم کرتی ہے لیکن آئین سے ماورا مطالبات کسی صورت قابل قبول نہیں۔ وفاقی وزیر برائے امورِ کشمیر انجینئر امیر مقام نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر مظفرآباد آکر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی سے مذاکرات کیے۔ عوامی حقوق سے متعلق جتنے مطالبات ہمارے دائرہ اختیار میں تھے، انہیں تسلیم کیا گیا ہے۔ہم نے واضح کیا کہ جو ممکن تھا وہ مان لیا گیا ہے لیکن جو آئینی دائرہ کار سے باہر ہے اس پر وعدہ نہیں کر سکتے۔ وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر مظفرآباد آئے تاکہ مذاکراتی عمل کو سہولت فراہم کریں۔ایکشن کمیٹی کے تمام جائز عوامی مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں، البتہ ایسے مطالبات جن کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے وہ صرف پارلیمان ہی کر سکتی ہے۔ چند افراد بند کمرے میں بیٹھ کر آزاد کشمیر کے آئین میں ترمیم کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ کشمیری عوام نے ہمیشہ افواجِ پاکستان کے ساتھ مل کر بھارتی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور یہی اتحاد قائم رہنا چاہیے۔ ایکشن کمیٹی کو مشورہ ہے کہ وہ عوام اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر وسیع تر اتفاق رائے پیدا کرے۔اس سے قبل مظفرآباد میں وفاقی وزراء اور ایکشن کمیٹی کے درمیان مذاکرات کا پہلا روز ڈیڈ لاک کا شکار ہوگیا۔ 12 گھنٹے طویل نشست کے باوجود مذاکرات نتیجہ خیز نہ ہو سکےوفاقی وزرا کا کہنا تھا کہ ایکشن کمیٹی کے تمام مطالبات مان لیے گئے تھے تاہم دو مطالبات پر اصرار کے باعث ڈیڈ لاک پیدا ہوا۔ وزرا نے کہا کہ ہم اب بھی مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن 29 ستمبر کے احتجاج میں شہریوں کا راستہ روکنے یا زبردستی دکانیں بند کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ دوسری طرف اسلام آباد میں پولیس کشمیر ایکشن کمیٹی کےمظاہرین کو گرفتار کرنے کیلئے پریس کلب میں داخل ہوگئے، آزاد کشمیر میں تشدد کے خلاف مظاہرین نیشنل پریس کلب کے باہر احتجاج کر رہے تھے، پولیس اہلکاروں کے وہاں پہنچنے پر کچھ مظاہرین پریس کلب کے اندر چلے گئے، جنہیں گرفتار کرنے کے لیے پولیس اہلکار بھی نیشنل پریس کلب کے اندر گھس گئی ۔ اس دوران پولیس اہلکاروں نے نہ صرف مظاہرین کو گرفتار کیا بلکہ کلب ملازمین پر بھی تشددکیا دریں اثنا، کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای)، ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز (ایمنڈ) اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے اپنے مشترکہ بیان میں اسلام آباد پریس کلب پر پولیس کے دھاوے کی مذمت کی صحافتی تنظموں نے کلب ملازمین، فوٹو گرافرز اور ویڈیو جرنلسٹس پر پولیس تشدد کو دہشت گردی قرار دیا اور واقعے میں ملوث اہلکاروں کے خلاف فوری کارروائی کا بھی مطالبہ کیا۔ مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ اسلام آباد پریس کلب پر دھاوا صحافیوں کے خلاف جاری کارروائیوں کا تسلسل ہے، صحافیوں کی کردار کشی، انہیں دباؤ میں لانے اور اظہار رائے کو سلب کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ صحافتی تنظیموں کا کہنا تھا کہ جرنلسٹس کے خلاف اقدامات کی ہر سطح پر مزاحمت اور آئینی و قانونی جدوجہد کا ہر آپشن استعمال کیا جائے گا۔پولیس اہلکاروں کی جانب سے صحافیوں پر تشدد اور توڑ پھوڑ کے خلاف نیشنل پریس کلب میں وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر پی ایف یو جے افضل بٹ کا کہنا تھا کہ ہم نے مارشل لا، ایمرجنسی اور ایمرجنسی پلس دیکھی، اُس دور میں بھی ایسے واقعات نہیں ہوتے تھے۔ آج کا یہ واقعہ معمولی نہیں بلکہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین واقعہ ہے، وفاقی پولیس کے اہلکاروں نے پریس کلب کے اندر داخل ہو کر املاک کو نقصان پہنچایا، کچن میں گھس کر برتن توڑے، اس دوران وہاں موجود فوٹو گرافرز او ویڈیو جرنلسٹس پر تشدد کرتے رہے۔ صدر پی ایف یو جے نے مزید کہا کہ افسوس ناک واقعے کے خلاف ہنگامی اجلاس کی کال دی، مشاورت کے ساتھ مستقبل کا لاٗئحہ عمل اور تشدد میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف حکومتی کارروائی پر بات کریں گے، اس موقع پر وفاقی وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا کہ اس واقعے پر ہم غیر مشروط معافی مانگتے ہیں، وزیر داخلہ محسن نقوی نے اس حوالے سے انٹرنل انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔ طلال چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ کشمیر ایکشن کمیٹی کے کچھ لوگ احتجاج کر رہے تھے، جنہیں گرفتار کرنے کے لیے پولیس اہلکار ان کا پیچھا کرتے ہوئے کلب پہنچے۔واضح رہے کہ کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے کی جانے والی ہڑتال کا آج چوتھا روز ہے جب کہ خطے میں شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کے دوران مواصلاتی نظام بھی معطل رہا تھا یہ ہڑتال جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی (جے کے جے اے اے سی) نے اپنے مطالبات نہ ماننے پر کی تھی، اس دوران مختلف گروہوں نے بیک وقت مظاہرے کیے اور ایک دوسرے پر پرامن احتجاج کے دوران تشدد کو ہوا دینے کا الزام بھی عائد کیا تھا۔ ہلاکتیں نیلم پُل کے قریب دوپہر کے بعد اس وقت ہوئیں، جب مسلم کانفرنس کے رہنما راجا ثاقب مجید کی قیادت میں نکالی جانے والی امن ریلی کا تصادم جے کے جے اے اے سی کے مظاہرین سے ہوگیا تھا۔ بعد ازاں وفاقی حکومت اور آزاد و جموں و کشمیر کی حکومت نے احتجاجی مظاہرین کو مذاکرات کی بحالی کی دعوت دی تھی، تاکہ جاری بدامنی کو کم کیا جا سکے، جس کے دوران بدھ کو 3 پولیس اہلکار جاں بحق ہو گئے تھے۔ شٹر ڈاؤن ہڑتال کے دوران مواصلاتی بلیک آؤٹ نے آزاد کشمیر کو مفلوج کر دیا کیوں کہ مشترکہ عوامی ایکشن کمیٹی اپنے مطالبات پر بضد ہے، پچھلے ہفتے عوامی ایکشن کمیٹی اور وفاقی وزرا کے ساتھ مذاکرات کے دوران اشرافیہ کی مراعات اور مہاجرین کے لیے مخصوص نشستوں سے سے متعلق شرائط پر ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا تھا۔وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی پمز ہسپتال کا دورہ کیا جہاں انہوں نے آزاد کشمیر میں زخمی ہونے والے اسلام آباد پولیس اور آزاد کشمیر پولیس کے اہلکاروں کی عیادت کی ، پمز ہسپتال میں اسلام آباد پولیس کے 31 اور آزاد کشمیر پولیس کے 12 اہلکار زیر علاج ہیں۔وزیر داخلہ محسن نقوی نے چیف کمشنر اور آئی جی اسلام آباد کو آزاد کشمیر پولیس کے جوانوں کا خصوصی خیال رکھنے کی ہدایت بھی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پرامن احتجاج ہر کسی کا حق ہے لیکن قانون ہاتھ میں لینے کسی کو اجازت نہیں جائے گی۔ مزید کہا کہ چند شر پسند عناصر دشمن کی ایما پر آزاد کشمیر کے امن کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کے مذموم مقاصد کو ہر گز کامیاب نا ہونے دیں گے۔ محسن نقوی کا کہنا تھا کہ پاکستانیوں کے دل کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں، حکومت کشمیری بھائیوں کے مسائل کے حل کے لئے ہمہ وقت تیار ہے۔ اس سے قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے کشمیر کی صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے وہاں کے شہریوں سے پُرامن رہنے کی اپیل کی تھی۔ انھوں نے کہا کہ ’حکومت اپنے کشمیری بھائیوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہے۔‘ وزیر اعظم نے مظاہروں کے دوران ہونے والے ناخوشگوار واقعات کی شفاف تحقیقات کا حکم بھی دے دیا تھا۔احتجاج کے چوتھے روز بھی کشمیر کے مختلف مقامات پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں ہوئی ہیں۔ عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اسمبلی کی 12 نشستوں کے معاملے پر جب تک کوئی حل سامنے نہیں آتا تب تک حکومتی کمیٹی سے مذاکرات نہیں کیے جائیں گے دوسری جانب عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں سے مذاکرات کی غرض سے وفاقی حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ مذاکراتی کمیٹی مظفر آباد پہنچ گئی ہے۔ ممبر عوامی ایکشن کمیٹی شوکت نواز میر کا کہنا ہے کہ ’مذاکرات اسمبلی کی 12 نشتوں، حکمرانوں کی مراعات، کوٹہ سسٹم کے خاتمہ کے بعد ہی ہو سکیں گے،













