اسلام آباد (ٹی این ایس) وزیراعظم پاکستان کا غزہ میں امن کے لیے حماس کے ردعمل کا خیر مقدم وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے غزہ میں امن کے لیے حماس کے ردعمل کا خیر مقدم کیا ہے۔وزیراعظم نے ’ایکس‘ پر اپنے پیغام میں کہا کہ ’الحمدللہ، ہم جنگ بندی کے اُس مقام کے قریب ہیں جہاں ہم اس نسل کُشی کے آغاز کے بعد سے کبھی نہیں پہنچے تھے، پاکستان نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا رہنے کا عزم رکھا ہے اور ہمیشہ اُن کے ساتھ کھڑا رہے گا انہوں نے لکھا کہ ’امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ساتھ قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، تُرکیہ، اردن، مصر اور انڈونیشیا کی قیادتوں کا شکریہ ادا کرنا لازم ہے جنہوں نے فلسطینی مسئلے کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80 سالہ اجلاس کے موقع پر صدر ٹرمپ سے ملاقات کی‘شہباز شریف نے پیغام میں لکھا کہ ’حماس کے جاری کردہ بیان نے جنگ بندی اور امن کے قیام کے لیے ایک موقع فراہم کیا ہے، جسے ہمیں کسی صورت ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے‘ انہوں نے کہا کہ ’ان شا اللہ، پاکستان اپنے تمام شراکت داروں اور برادر ممالک کے ساتھ مل کر فلسطین میں دائمی امن کے لیے کوششیں جاری رکھے گا‘پاکستان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کردہ منصوبے پر حماس کے ردعمل کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک اہم موقع فراہم کرتا ہے کہ فوری جنگ بندی کو یقینی بنایا جائے، غزہ میں معصوم فلسطینیوں کے خونریزی کو روکا جائے، یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جائے، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی بلا رکاوٹ فراہمی کو یقینی بنایا جائے، اور دیرپا امن کے لیے ایک قابلِ اعتماد سیاسی عمل کی راہ ہموار کی جائے، اسرائیل کو فوری طور پر حملے بند کرنے چاہئیں۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان غزہ میں امن کے لیے صدر ٹرمپ کی کوششوں کی تعریف کرتا ہے اور پرخلوص امید رکھتا ہے کہ یہ ایک پائیدار جنگ بندی اور منصفانہ، جامع اور دیرپا امن کا باعث بنے گا، پاکستان اس عمل میں تعمیری اور بامعنی کردار ادا کرتا رہے گا۔ بیان میں کہا گیا کہ پاکستان فلسطینی مقصد کی اپنی اصولی حمایت کی تجدید کرتا ہے، اور فلسطینی عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کے ساتھ کھڑا ہے جو اپنے ناقابلِ تنسیخ حقِ خودارادیت کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، تاکہ 1967 سے پہلے کی سرحدوں کے مطابق ایک خودمختار، قابلِ عمل اور مسلسل ریاستِ فلسطین قائم ہو، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو، جیسا کہ بین الاقوامی قوانین اور متعلقہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں کہا گیا ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ شب حماس کی جانب سے غزہ میں امن کے لیے عالمی سطح کے منصوبے پر زیادہ تر مثبت ردعمل کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ حماس امن کے لیے تیار ہے، تل ابیب غزہ پر فوری بمباری روک دے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ کی شب تیز رفتار واقعات کے سلسلے کے بعد اعلان کیا تھا کہ فلسطینی گروپ ’حماس‘ نے ان کے 20 نکاتی امن منصوبے پر ’زیادہ تر مثبت‘ ردعمل ظاہر کیا ہے، اور یہ کہ گروپ امن کے لیے تیار ہے، اس کے ساتھ ہی انہوں نے تل ابیب سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر غزہ پر بمباری بند کرے۔ پاکستان گزشتہ ہفتے غزہ میں جنگ بندی اور امن کی کوششوں میں فعال انداز میں شریک ہوا تھا، اس دوران وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر نے وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے بھی ملاقات کی تھی۔ بعد ازاں وائٹ ہاؤس نے غزہ امن منصوبے کے نکات جاری کیے، جس پر پاکستان نے پہلے اس کا خیر مقدم کیا، تاہم بعض نکات میں ترامیم کا علم ہونے پر اس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ جب تک مسلم ممالک کی 8 ترامیم شامل نہیں کی جائیں گی، پاکستان اس منصوبے کو قبول نہیں کرے گا۔ 7 اکتوبر 2023 کے بعد دو سال مکمل ہونے کو ہیں، جب اسرائیل نے حماس کی جانب سے اپنے شہریوں پر خطرناک حملے کی ایک کارروائی کے بعد غزہ پر جنگ مسلط کر دی تھی، جس میں اب تک 66 ہزار سے زائد فلسطینی شہید، 2 لاکھ کے قریب زخمی ہوچکے ہیں، جب کہ غزہ شہر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے، اقوام متحدہ اور عالمی ادارے فلسطینیوں کے قتل عام کو اسرائیل کی جانب سے نسل کُشی قرار دے چکے ہیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کے بیان کی کاپی ’ٹروتھ سوشل‘ پر شیئر کی، دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بیان میں حماس کے غیر مسلح ہونے کی شرط کا کوئی ذکر نہیں ۔ ٹرمپ نے لکھا کہ ’حماس کے حالیہ بیان کی بنیاد پر، میرا یقین ہے کہ وہ پائیدار امن کے لیے تیار ہیں، اسرائیل کو چاہیے کہ فوراً غزہ پر بمباری بند کرے تاکہ ہم یرغمالیوں کو محفوظ اور جلد رہا کرا سکیں‘ اس وقت حالات بہت خطرناک ہیں، ہم تفصیلات پر بات چیت کر رہے ہیں، یہ صرف غزہ کا مسئلہ نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں طویل عرصے سے درکار امن کا موقع ہے۔ تاہم، حماس کے رہنما محمود مرداوی نے بتایا کہ امریکی تجویز مبہم ہے، وضاحت سے خالی اور اس پر مزید مذاکرات کی ضرورت ہے یہ واضح نہیں کہ امریکا یا اسرائیل مزید مذاکرات کے لیے تیار ہوں گے یا نہیں۔ حماس نے کہا کہ وہ عرب، اسلامی اور بین الاقوامی کوششوں کے ساتھ ساتھ امریکی صدر کی کوششوں کی بھی قدر کرتے ہیں جو غزہ کی جنگ ختم کرنے ,قیدیوں کے تبادلے, فوری امداد کی فراہمی ,غزہ کے قبضے کے خاتمے اور فلسطینی عوام کی جبری بے دخلی کے خلاف ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ گروپ، صدر ٹرمپ کی تجویز میں بیان کردہ فارمولے کے مطابق تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی پر آمادگی ظاہر کرتا ہے، بشرطیکہ میدان میں اس کے لیے عملی حالات موجود ہوں یہ بھی کہا کہ وہ فوری طور پر ثالثوں کے ذریعے مذاکرات میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے، تاکہ رہائی کی تفصیلات پر بات کی جا سکے۔ تاہم حماس کے سینئر رہنما نے کہا کہ 72 گھنٹوں کے اندر قیدیوں اور لاشوں کی حوالگی نظریاتی بات ہے، زمینی حقائق میں ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم نے قومی طور پر اتفاق کیا ہے کہ غزہ کا انتظام غیر جانبدار افراد کے سپرد کیا جائے اور یہ فلسطینی اتھارٹی کے تحت ہو، عوام کے مستقبل کا فیصلہ ایک قومی مسئلہ ہے، جس کا فیصلہ صرف حماس نہیں کر سکتی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ترجیح جنگ اور قتلِ عام کو روکنا ہے اور اسی نقطۂ نظر سے ہم نے منصوبے کے ساتھ مثبت رویہ اپنایا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ حماس اسرائیلی قبضے کے خاتمے سے پہلے غیر مسلح نہیں ہوگی اور غزہ کے مستقبل سے متعلق امور پر جامع فلسطینی قومی فریم ورک کے اندر بات ہونی چاہیے، جس کا حماس بھی حصہ ہوگی گروپ اپنے اور اپنے ہتھیاروں سے متعلق تمام معاملات پر مذاکرات کرے گا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےاعلان کیاہے کہ فلسطینی گروپ ’حماس‘ نے ان کے 20 نکاتی امن منصوبے پر ’زیادہ تر مثبت‘ ردعمل ظاہر کیا ہےاور یہ کہ گروپ امن کے لیے تیار ہے اس کے ساتھ ہی انہوں نے تل ابیب سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر غزہ پر بمباری بند کرے یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب امریکی صدر نے حماس کو ایک الٹی میٹم دیا تھا کہ وہ اتوار تک ان کے منصوبے پر اپنا جواب پیش کرے۔ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ’ٹروتھ سوشل‘ پر لکھا تھا کہ ہر ملک اس پر دستخط کر چکا ہے اگر یہ آخری موقع سمجھوتہ نہ ہوا، تو حماس کے خلاف وہ قیامت خیز طوفان برپا ہوگا، جو دنیا نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگابعد ازاں، قطری ثالثوں کے ذریعے حماس نے اپنا جواب پہنچایا جسے صدر ٹرمپ نے اپنے ’ٹروتھ سوشل‘ پر شیئر بھی کیا بیان میں حماس نے کہا کہ وہ منصوبے کے کچھ پہلوؤں سے اتفاق کرتی ہے جن میں غزہ میں موجود اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور علاقے کی انتظامیہ سے دستبرداری شامل ہیں وہ دیگر نکات پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے، ان نکات میں گروپ کی غیر مسلح ہونے کی شرط بھی شامل ہے۔ امن منصوبے کی اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو نے بھی حمایت کی ہے، اس میں جنگ بندی، 72 گھنٹوں کے اندر اسرائیلی قیدیوں کی رہائی، حماس کا غیر مسلح ہونا اور اسرائیل کی بتدریج پسپائی شامل ہیں اس کے بعد ایک عبوری انتظامیہ قائم کی جائے گی جس کی قیادت خود ڈونلڈ ٹرمپ کریں گےحماس کے سیاسی بیورو کے رکن محمد نزال نے کہا تھا کہ منصوبے میں کچھ تشویش کے نکات ہیں اور ہم جلد ہی اپنا موقف واضح کریں گے گروپ ایسا جواب دینا چاہتا ہے جو فلسطینی عوام کے مفاد میں ہو۔امریکی صدر کا کہنا تھا کہ غزہ امن معاہدہ بہت قریب آچکا ہے، وزیراعظم پاکستان اور فیلڈ مارشل نے بھی امن معاہدے کی حمایت کی ہے۔ میں نے ان سطور میں ہمیشہ لکھا ہے کہ جدید دنیا میں دنیا کی اقوام کو امن کے مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور پاکستان نے 10 مئی 2025 کو بھارتی جارحیت کے خلاف جنگ میں ثابت کر دیا کہ امن سے زیادہ طاقتور کوئی چیز نہیں ہے۔ غور طلب ہے کہ گوگل پر میری (اصغر علی مبارک) کی تجویز ہر کوئی دیکھ سکتا ہے پوری دنیا میں پہلے شخص کے طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سابق صدارتی امیدوار کی حیثیت سے میں نے حکومت پاکستان سے درخواست کی اور نوبل امن انعام کے لیے امریکی صدر ٹرمپ کا نام تجویز کیاتھا، جس کے بعد حکومت پاکستان نے نوبل انعام کے لیے صدر ٹرمپ کا نام تجویز کیاتھا۔ یہاں میں ایک بار پھر حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ پاکستانی عوام کی طرف سے امریکی صدر ٹرمپ کو ان کی امن کوششوں پر فوری طور پر اعلیٰ ترین سول ایوارڈ دینے کا اعلان کرے جس کی بہترین مثال 10 مئی کو ہونے والی پاک بھارت ایٹمی جنگ کی روک تھام ہے جو امریکی صدر کی مداخلت کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ ٹرمپ دنیا کا وہ عظیم لیڈر بن چکا ہے جس نے دنیا میں سات سے زائد جنگیں روکی ہیں اور اس طاقتور شخصیت کے پیچھے امریکی آئین کی طاقت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ امن کا جنون رکھنے والا شخص ہے۔ دوسری طرف قائمقام صدر سردار ایاز صادق نے کہا ہے کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کررہا جب کہ سابق سینیٹر مشتاق کو اسرائیل کے چنگل سے چھڑوانے کے لیے اسحاق ڈار یورپ سے مسلسل رابطے میں ہیں لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قائمقام صدر کا کہنا تھا کہ مشتاق احمد کی رہائی کے لئے قومی اسمبلی میں اسحٰق ڈار نے جو تقریر کی وہ سن لیں وہ یورپ سے رہائی کے لئے مسلسل رابطہ میں ہیں اور اسرائیل کے چنگل سے سابق سینیٹر کی رہائی کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کررہا اس لئے اس پر ہمارے خلاف سازش ہو رہی ہے، اسرائیل غزہ میں قتل عام کر رہا ہے، ہم نے اسرائیلی جنگ بندی اور اس کے غزہ سے نکلنے کی بات کی ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ اسرائیل کی سیاست لوگوں کو سچی بات نہیں بتا رہی، پاکستان فلسطین کا مسئلہ حل کرنے لگے ہیں تو کہتے ہیں سازش ہو رہی ہے، سازش کرنے والی قوتوں کا حکومت اور افواج پاکستان بھی مقابلہ کرے گی
دوسری جانب، نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے مصری وزیر خارجہ ڈاکٹر بدر عبدالعاطی اور سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے غزہ کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ ترجمان دفتر خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور مصری وزیر خارجہ کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے، اس دوران گفتگو میں دوطرفہ تعلقات کے اہم امور اور علاقائی پیش رفت بالخصوص غزہ کی سنگین صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ دونوں وزرائے خارجہ نے نیویارک میں عرب اور اسلامی ممالک کے درمیان ہونے والی مشاورت سمیت جاری سفارتی کوششوں پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ نائب وزیراعظم نے ان کوششوں کے لیے پاکستان کی حمایت کا اعادہ کیا اور حالیہ پیش رفت کا خیرمقدم کیا، جس کا مقصد فوری اور پائیدار جنگ بندی۔ بلا روک ٹوک انسانی امداد کو یقینی بنانا اور غزہ میں پائیدار امن کے حصول کے لیے اجتماعی اقدامات کو آگے بڑھانا ہے۔ مزید یہ کہ حالیہ پیش رفت میں مجوزہ امن منصوبے پر حماس کا ردعمل بھی شامل ہے جو خونریزی کے خاتمے کی امید پیش کرتا ہے۔ دونوں رہنماؤں نے غزہ میں منصفانہ اور دیرپا امن کے حصول میں مدد کے لیے اپنی کوششوں میں مصروف اور مربوط رہنے پر اتفاق کیا۔ اسحٰق ڈار نے مصری وزیر خارجہ کو مستقبل قریب میں پاکستان کے دورے کی دعوت دی جسے انہوں نے قبول کرلیا۔ نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار اور سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان کے درمیان بھی ٹیلی فونک رابطہ ہوا جس میں دونوں وزرائے خارجہ نے غزہ کی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا، اسحٰق ڈار نے سعودی وزیر خارجہ کے تعمیری کردار کو سراہا گفتگو کے درمیان پاک-سعودی قیادت نے فوری جنگ بندی کے لیے کوششیں تیز کرنے پر زور دیا اور غزہ میں انسانی امداد کی بلا رکاوٹ فراہمی یقینی بنانے کی ضرورت پر اتفاق کیا۔ رہنماؤں نے صدر ٹرمپ کی تجویز پر حماس کے ردعمل پر گفتگو کی اور فلسطینی عوام کی بھرپور حمایت کے عزم کا اعادہ کیا جب کہ دو ریاستی حل پر مبنی جامع اور پائیدار امن کے لیے مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا۔واضح رہے کہ 29 ستمبر کو وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ یہ ایک ’بہت بڑا‘ دن ہے، ہم غزہ امن معاہدے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ان کا ہدف صرف غزہ پٹی ہی نہیں بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں امن ہے۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’اگر حماس نے اسے قبول کر لیا تو اس تجویز میں تمام باقی ماندہ یرغمالیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے، لیکن کسی صورت بھی 72 گھنٹوں سے زیادہ وقت نہیں لگنا چاہیے‘۔ اس منصوبے کے تحت، عرب اور مسلم ممالک نے غزہ کو تیزی سے غیر مسلح کرنے، حماس اور دیگر تمام تنظیموں کی فوجی صلاحیت ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے، معاہدے کے ایک حصے کے طور پر سرنگیں اور اسلحہ بنانے کی تنصیبات ختم کر دی جائیں گی اور غزہ پٹی میں مقامی پولیس فورس کو تربیت دی جائے گی امریکی صدر نے کہا تھا کہ ’غزہ میں نئی عبوری اتھارٹی کے ساتھ کام کرتے ہوئے، تمام فریق اسرائیلی افواج کے مرحلہ وار انخلا کے لیے ایک ٹائم لائن پر متفق ہوں گے، امید ہے کہ مزید فائرنگ نہیں ہو گییاد رہے کہ پاکستان کی محتاط حکمت عملی صرف اس دستاویز یا منصوبے تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق ملکی کی اندرونی سیاست سے بھی ہے۔ پاکستان اس معاہدے سے مکمل دوری نہیں اختیار کرے گااصل مقصد یہ ہے کہ عرب اور ترک قیادت سنبھالیں اور پاکستان یہ موقف اختیار کر سکے کہ ہم مسلم ممالک کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ایسا موقف ملک میں عوامی رائے کو مثبت کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرے گا۔اور وسیع تر نقطہ نظر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ جنگ بندی ہو گی اور امداد جانا شروع ہو گی اور جب تک ٹرمپ کھڑے ہیں، یہ ممکن ہو سکتا ہےوائٹ ہاؤس پر امن منصوبے کے نکات شیئر کرنے اور اس سے قبل اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو اور صدر ٹرمپ کی ملاقات سے گھنٹوں پہلے ہی پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے اس امن منصوبے کا خیر مقدم کیا تھا اور کہا تھا کہ ’میں صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کا خیر مقدم کرتا ہوں، جس کا مقصد غزہ میں جنگ کے خاتمے کو یقینی بنانا ہےامن منصوبے کے اعلان کے موقع پر صدر ٹرمپ نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر اُن کے غزہ منصوبے کے ’100 فیصد‘ حامی ہیں مگر جیسے ہی اس منصوبے کی تفصیلات ویب سائٹ پر شائع کی گئیں تو بظاہر پریشانی میں اضافہ ہوا اور پھر اگلے ہی روز وزیر خارجہ اسحاق ڈار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے سے کچھ فاصلہ اختیار کرتے دکھائی دیئے حکومت کےموقف کے بعد یہ سوال یہ ہے کہ اچانک تبدیلی کیوں رونما ہوئی؟ کیا پاکستان نے ابتدا میں ٹرمپ کے منصوبے کی حمایت کرنے میں جلدبازی کا مظاہرہ کیا تھا؟ کیا حالیہ موقف کی تبدیلی اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے اصرار پر منصوبے میں کی گئی ترامیم کا ردعمل ہے یا اس کے پیچھے پاکستان کا اندرونی سیاسی دباؤ اصل وجہ ہے؟خیال رہے ٹرمپ کے غزہ منصوبے اور پاکستان کی جانب سے اس کی حمایت پر پاکستانی سیاستدانوں اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے وسیع پیمانے پر تنقید کی گئی رپورٹ کے مطابق نتن یاہو نے ٹرمپ سے ملاقات کے دوران اس معاہدے میں کچھ تبدیلیاں کروائی ہیں کہ ان ترامیم کے تحت اسرائیلی فوج کی غزہ سے واپسی اب مخصوص شرائط سے مشروط ہے اور ایک حفاظتی زون قائم کرنے کی تجویز بھی بعد میں شامل کی گئی ہے اس سے قبل پیش کردہ منصوبے میں اسرائیل کی ریڈ لائنز کے حوالے سے وضاحت کم تھی, نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے میں وہ اہم نکات شامل نہیں جو پاکستان نے سات دیگر مسلم ممالک کے ساتھ مل کر تجویز کیے تھےیہ اہداف ہم نے انھیں (ٹرمپ) کو بتائے تھے اور ان سے کہا تھا کہ وہ ان کے حصول میں ہمارے ساتھ کام کریں۔‘ ڈار نے مزید کہا کہ امریکی صدر نے آٹھ ممالک کے وزرائے خارجہ سے ایک قابلِ عمل حل دینے کا وعدہ کیا تھاتاہم، اسحاق ڈار کے مطابق اسرائیلی وزیرِ اعظم نتن یاہو کی مداخلت کے بعد امریکی منصوبے میں تبدیلی کی گئی اور اس میں ایسی شرائط شامل کر دی گئیں جن کے تحت اسرائیل کا انخلا حماس کے ہتھیار ڈالنے سے مشروط ہےبعد میں نجی چینل کے پروگرام میں اس سوال کے ’کیا یہ وہی معاہدہ ہے جس پر آپ لوگوں کا اتفاق ہوا تھا؟‘ اسحاق ڈار نے اپنی بات دہراتے ہوئے کہا کہ ’اس میں ہماری تجویز کردہ تمام ترامیم شامل نہیں ہیں جوائنٹ سٹیٹمنٹ میں ہم نے صدر ٹرمپ کے الگ نقطۂ نظر کو تسلیم کیا اور سراہا اور اس کے بعد ہم نے اپنا ایجنڈا بھی دوبارہ دہرایا کہ ہم کن اہداف کے لیے پرعزم ہیں اور ہم مل کر صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم کے ساتھ یہ حاصل کریں گے اور آٹھ ممالک اس پر پرعزم ہیں قطر سمیت دو عرب ممالک نے یقین دہانی کروائی ہے کہ حماس اس معاہدے کو قبول کرے گا۔اسحاق ڈار نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’میں واضح کر دوں کہ ہم کسی (ابراہم) ایکارڈ کا حصہ نہیں بننے جا رہے۔ ہماری پالیسی وہی ہے: اسرائیل کو جس حیثیت میں ہے ویسا ہی رہنے دیں، ہم اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف نہیں جا رہے۔ ہمارا مقصد صرف انسانی مدد، خون ریزی روکنا اور ویسٹ بینک کو بچانا ہے۔ ہم اس کام کے لیے آٹھوں ممالک کے ساتھ پرعزم ہیں اور جب بھی ضرورت ہو گی ہم دستیاب ہوں گے، ہم نے کمٹمنٹ دے دی ہے۔اس سوال کے نتن یاہو کی ضمانت کون دے گا؟ کیا آپ ٹرمپ پر بھروسہ کرتے ہیں کہ وہ اس کی پاسداری کرائیں گے؟ نائب وزیراعظم نے کہا کہ ’گارنٹی کون دے سکتا ہے؟ اسی وجہ سے ہم نے اسرائیل سے براہِ راست رابطہ نہیں کیا، یورپی کوششیں ناکام رہیں۔ اب چوائس یہ ہے کہ مزید فلسطینیوں کی جانیں خطرے میں ڈالیں یا فوری طور پر بچاؤ کریں نئے مجوزہ پلان کے تحت کہا گیا ہے کہ فلسطینیوں کو نقل مکانی پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اسرائیل وزیر خزانہ جو سخت گیر قوم پرست ہیں، ٹرمپ کے معاہدے کا موازنہ سنہ 1938 میں میونخ میں ہونے والے معاہدے سے کر رہے ہیں۔ اس معاہدے میں امریکہ اور فرانس نے چیک سلواکیہ کو مجبور کیا تھا کہ وہ اپنی زمین نازی جرمنی کو دے۔ٹرمپ کے معاہدے کا فریم ورک اسرائیل کو اُن تمام شرائط کو ویٹو کرنے کے متعدد مواقع فراہم کرتا ہے جنھیں وہ پسند نہیں کرتا ہے۔ ایسی صورتحال میں ایک صدی سے زائد عرصے پر محیط اس گھمبیر تنازعے کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کے علاوہ برطانیہ سمیت کئی ممالک کے خیال میں طویل مدت میں فلسطین کی آزادی کے بغیر کوئی بھی حل دیرپا امن قائم نہیں کر سکتا عرب اور اسلامی ممالک نے معاہدے کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے اُس کے مطابق انھوں نے غزہ کی تعمیر، اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا اور امن کے قیام کے بین الاقوامی قوانین کے تحت دو ریاستی حل کی بنیاد پر آزاد فلسطینی ریاست کی تشکیل کی پر اتفاق کیا ہے جس میں غزہ مغربی کنارے کے ساتھ فلسطین ریاست کا حصہ ہو گا۔ اس میں عالمی عدالت برائے انصاف کے اس فیصلے کو بطور قانونی حوالا لیا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کا فلسطینی اراضی پر قبضہ غیر قانونی ہے۔













