اسلام آباد (ٹی این ایس) اسلام آباد پریس کلب کے بڑے ہال میں اس دن ایک غیر معمولی خاموشی تھی

 
0
20

اسلام آباد (ٹی این ایس) اسلام آباد پریس کلب کے بڑے ہال میں اس دن ایک غیر معمولی خاموشی تھی۔
باہر دن پورے جلال کے ساتھ روشن تھا مگر اندر فضا میں بےچینی گھلی ہوئی تھی۔
ٹی وی اسکرینوں پر ایک ہی خبر گردش کر رہی تھی —
“سردار احمد یار ہراج کو حج سے واپسی پر گرفتار کر لیا گیا۔”

یہ خبر کمرے کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلنے میں چند لمحے لیتی ہے۔
کسی نے کہا، “یہ بڑی گرفتاری ہے، سیاسی نقشہ بدل جائے گا۔”
دوسرے نے طنزیہ انداز میں کہا، “کیا واقعی ممکن ہے؟”
میں خاموش بیٹھا رہا، چائے کی بھاپ اوپر کو اٹھ رہی تھی،
اور میرے ذہن میں ایک ہی خیال چکر لگا رہا تھا:
“وہ شخص جو دیوار سے راستہ نکالنا جانتا ہے، اُسے کوئی نہیں روک سکتا۔”

میں نے فون اٹھایا اور خانیوال کے ذرائع سے رابطے شروع کیے۔
سب کے لہجے میں گھبراہٹ تھی، الفاظ کمزور۔
کسی نے کہا، “پولیس لاہور سے روانہ ہو چکی ہے۔”
دوسرے نے بتایا، “ان کے گھر کے آس پاس غیر معمولی چہل پہل ہے۔”
میں نے سکون سے کہا،
“اگر وہ گرفتار ہوئے بھی، تو لمحے زیادہ دیر اسی قید میں نہیں رہیں گے۔
یہ شخص حالات سے لڑنے کا نہیں، انہیں بدل دینے کا ہنر رکھتا ہے۔”

پریس کلب میں شور بڑھ رہا تھا۔
ہر رپورٹر اپنی خبر لکھنے میں مصروف،
ہر میز پر چائے کے کپ،
اور ہر کپ کے کنارے پر ایک ناآشنا سا خوف۔
میں نے قلم نیچے رکھا۔
یہ کہانی ابھی پوری نہیں ہوئی تھی۔
میں جانتا تھا — سچ ہمیشہ آخری خبر کے بعد آتا ہے۔

تھوڑی دیر بعد صفدر بُکھل کا پیغام آیا:
“بھائی، ویڈیو دیکھو۔”

میں نے ویڈیو کھولی۔
ایئرپورٹ کے باہر ہجوم میں ایک چہرہ نمایاں تھا —
سردار احمد یار ہراج۔
شلوار قمیض اور واسکٹ میں،
چہرے پر وقار،
قدموں میں اطمینان۔
وہ ایئرپورٹ کے دروازے سے باہر آئے،
جیسے دھوپ ان کے قدموں کے ساتھ چل رہی ہو۔
ان کے پیچھے کوئی شور نہیں تھا،
بس ایک گہرا سکوت —
جیسے کسی بڑے طوفان کے بعد زمین نے پہلی بار سانس لیا ہو۔

میں نے ویڈیو روکی نہیں، بس چند لمحے تک اس تصویر کو دیکھتا رہا۔
پریس کلب کے ہال میں موجود شور، تبصرے، تجزیے —
سب ایک لمحے کو مدھم ہو گئے۔
میں نے چائے کا آخری گھونٹ لیا اور زیرِ لب کہا:
“یہ گرفتاری نہیں، افواہوں کی موت ہے۔”

شام ڈھلنے تک پورے خانیوال میں یہ خبر پہنچ چکی تھی۔
سوشل میڈیا، واٹس ایپ گروپس، اور بازاروں کے تھڑوں تک —
ایک ہی ویڈیو، ایک ہی منظر۔
ہر زبان پر ایک ہی جملہ:
“سردار احمد یار ہراج گھر پہنچ گئے ہیں۔”

لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا۔
گاؤں، ڈیرہ جات، بیٹھکیں — سب جگہ ایک عجب سی نرمی پھیل گئی۔
جنہیں یقین نہیں آ رہا تھا،
انہوں نے ویڈیو بار بار دیکھی، جیسے کسی دعائیہ منظر کو دہرا رہے ہوں۔

شہر کے ہوٹلوں میں چائے کے ساتھ باتیں بدلی جا رہی تھیں۔
ایک شخص بولا،
“یہ شخص قسمت کے دھارے کے خلاف تیرنے کا عادی ہے۔”
دوسرا مسکرا کر بولا،
“یہ کہانی ختم نہیں، شروع ہوئی ہے۔”

خانیوال کی فضا اس دن بدلی ہوئی تھی۔
یہ وہی شہر تھا جو خاموش بھی شور میں بدل جاتا ہے۔
بازاروں میں اعتماد لوٹ آیا تھا۔
مسجدوں کے باہر لوگ کہہ رہے تھے:
“اللہ نے کرم کیا، سردار صاحب سلامت ہیں۔”

دوسرے دن صبح جب اخبار آیا تو ہر صفحے پر ایک ہی تاثر تھا —
“ہراج خاندان کے خلاف کوئی کارروائی ممکن نہیں۔”
یہ جملہ تحریر سے زیادہ اعلان لگتا تھا۔

کئی دن گزر گئے، مگر اس دن کی گونج ختم نہ ہوئی۔
میں دوبارہ خانیوال پہنچا۔
شہر میں وہی مانوس شور، وہی پرانی گلیاں، مگر فضا میں نیا اعتماد۔
میں نے محسوس کیا،
بعض شخصیات محض سیاست نہیں کرتیں، وہ فضا کو معنی دیتی ہیں۔
ان کے ہونے سے شہر کا موسم بدل جاتا ہے۔

ہراج ہاؤس کے دروازے پر لوگوں کا رش تھا۔
کوئی مبارکباد دے رہا تھا، کوئی خاموشی سے کھڑا تھا۔
سردار احمد یار ہراج کے چہرے پر وہی توازن،
جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
انہوں نے کسی سے شکوہ نہیں کیا،
کسی پر الزام نہیں لگایا —
بس ایک مختصر جملہ کہا:
“زندگی میں اصل جیت وہ ہوتی ہے جو وقار کے ساتھ حاصل ہو۔”
اس دن کے بعد سیاسی منظرنامہ بھی بدلنے لگا۔
جو گروہ بکھر چکے تھے،
دوبارہ ایک مرکز کے گرد جمع ہونے لگے۔
جو خاموش تھے، متحرک ہو گئے۔
ہر روز نئے لوگ ان کے قافلے میں شامل ہونے لگے۔
خانیوال کے نواحی علاقوں میں بات یہی چل رہی تھی کہ
“یہ واپسی محض ایک شخص کی نہیں، ایک روایت کی واپسی ہے۔”

میں نے اپنی نوٹ بک بند کی اور سوچا —
کچھ کہانیاں خبر بن کر شروع ہوتی ہیں،
مگر اختتام پر تاریخ بن جاتی ہیں۔

کچھ دن بعد میں پھر اسلام آباد لوٹا۔
پریس کلب کے وہی میز، وہی دیواریں،
مگر فضا اب مختلف تھی۔
ایک نئے رپورٹر نے پوچھا،
“سر، آپ اس دن کہاں تھے جب سردار صاحب کی گرفتاری کی خبر چلی تھی؟”
میں نے مسکرا کر کہا،
“میں وہیں تھا، جہاں سچ چھپتا ہے —
شور کے پیچھے، خاموشی میں۔”

اور پھر میں نے دل ہی دل میں وہ ویڈیو یاد کی —
شلوار قمیض اور واسکٹ میں ایک شخص،
جو طوفان کے بیچ سے گزر کر،
اپنی زمین پر اطمینان سے قدم رکھتا ہے۔

آج بھی جب خانیوال کے لوگ اس دن کا ذکر کرتے ہیں،
تو ان کے چہروں پر مسکراہٹ آ جاتی ہے۔
وہ کہتے ہیں:
“اس دن تاریخ نے پلٹا کھایا تھا۔”
بازاروں میں اعتماد،
فضا میں نرمی،
اور دلوں میں ایک نیا یقین پیدا ہوا تھا۔

یہ واپسی محض ایک جسمانی واپسی نہیں تھی —
یہ وقار کی واپسی تھی،
یقین کی بحالی تھی۔
اس دن خانیوال نے جانا کہ
طاقت شور سے نہیں پہچانی جاتی،
بلکہ خاموشی کے توازن سے۔

میں نے رات گئے کھڑکی سے باہر دیکھا۔
چاند ہلکی دھند میں لپٹا ہوا تھا۔
میں نے موبائل کھولا، وہی ویڈیو دوبارہ دیکھی۔
سردار احمد یار ہراج قدم بہ قدم آگے بڑھ رہے تھے۔
ان کے پیچھے کوئی شور نہیں تھا،
بس ایک فضا تھی — یقین، سکون اور جلال سے بھری۔

میں نے زیرِ لب کہا:
“یہ دن کا سماں بھی رات کا منظر تھا۔
کیونکہ بعض شخصیات اپنی روشنی خود ساتھ لے کر چلتی ہیں۔”

یہ کہانی خبر نہیں تھی،
یہ عہد کا وہ لمحہ تھا جب فضا نے فیصلہ سنایا —
وقار کبھی گرفتار نہیں ہوتا۔