اسلام آباد (ٹی این ایس). پاکستانی قوم کے بہادر سپوتوں ,پاک فوج نےافغان طالبان, بھارتی اسپانسرڈ فتنۃ الخوارج کی جانب سے پاکستان پر بلااشتعال حملوں کا مؤثر جواب دیا ہے، جوابی کارروائیوں میں 200 سے زائد افغان طالبان اور خارجی ہلاک کر دیئے، فائرنگ کے تبادلے میں پاک فوج کے 23 سپوت شہید اور 29 زخمی ہوئےبارڈر پر موجود غیور قبائل نے افغانیوں کو دو ٹوک پیغام میں کہا کہ ہم افغانستان کی طرف سے بارڈر پر بلا اشتعال فائرنگ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، ہم اپنی افواج پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں اور انشاللہ اپنی افواج کے ساتھ مل کر اپنے وطن کا دفاع کریں گے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق 11 اور 12 اکتوبر کی درمیانی شب پاک افغان سرحد پر افغان طالبان اور بھارتی اسپانسرڈ فتنۃ الخوارج کی جانب سے بلا اشتعال حملہ کیا گیا، پاک فوج نے دشمن کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا ، بلااشتعال حملہ افغان طالبان اور بھارتی اسپانسرڈ فتنۃ الخوارج کی جانب سے کیا گیا شہری جانوں کے تحفظ، غیر ضروری نقصان سے بچنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے گئے، پاک فورسز کی جوابی کارروائی میں بڑی تعدادمیں افغان طالبان اور خارجی زخمی بھی ہوئے۔ مزید بتایا گیا ہے کہ پاک فوج کی جوابی کارروائی میں 21 افغان پوزیشنز پر قبضہ کرلیا گیا۔بیان میں بتایا گیا کہ رات بھر کی جھڑپوں کے دوران، ملک کے دفاع میں بہادری سے لڑتے ہوئے 23 جوان جام شہادت نوش کر گئے جبکہ 29 فوجی زخمی ہوئے۔ معتبر انٹیلی جنس تخمینوں اور نقصان کے تخمینے کے مطابق 200 سے زائد طالبان اور وابستہ دہشت گرد ہلاک کیے گئے جب کہ زخمیوں کی تعداد کہیں زیادہ بتائی جاتی ہے۔ طالبان کی پوسٹس، کیمپوں، ہیڈ کوارٹرز اور دہشتگردی کے معاون نیٹ ورکس کو سرحد کے طویل علاقے میں حکمتِ عملی اور آپریشنل گہرائی تک وسیع نقصان پہنچا ہے۔آئی ایس پی آر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پاک مسلح افواج نے اپنے عوام کی جان و مال اور سرحدی سالمیت کے دفاع کے لیے ہر وقت چوکس رہنے کا عزم ظاہر کیا ہے، پاکستان کے سرحدی تانے بانے اور سلامتی کے خلاف خطرہ پیدا کرنے والوں کو شکست دینے کی ہماری پختہ ارادہ غیر متزلزل ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستانی عوام تشدد اور جنگ جھیلانے کے بجائے تعمیری سفارت کاری اور مذاکرات کو ترجیح دیتے ہیں، ہم افغان سرزمین کو اپنے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کو برداشت نہیں کریں گے، ہمیں تشویش ہے کہ یہ سنگین جھڑپ اس وقت ہوئی، جب طالبان کے وزیرِ خارجہ کا بھارت کا دورہ جاری تھا، جو خطے میں دہشتگردی کا سب سے بڑا حامی ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق علاقائی امن و سلامتی کے مفاد میں ہم طالبان حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین پر سرگرم فتنۃ الخوارج سمیت دیگر دہشت گرد گروہوں کو فوری اور قابلِ تصدیق طور پر غیر فعال کرے، بصورتِ دیگر، پاکستان اپنے لوگوں کے دفاع کے لیے مسلسل دہشت گرد اہداف کے خلاف کارروائی کرنے کا حق استعمال کرتا رہے گا۔ کہا گیا ہے کہ طالبان حکومت کو چاہیے کہ وہ کسی بھی غیرمعقول عسکری تنازع سے باز رہے اور افغان عوام کی فلاح، امن، خوشحالی اور ترقی کو فوقیت دے۔ گزشتہ شب کا واقعہ پاکستان کے طویل عرصہ قبل اپنائے گئے مؤقف کی تصدیق کرتا ہے کہ طالبان حکومت ببانگِ دہل دہشتگردوں کو سہولت فراہم کر رہی ہے، اگر طالبان حکومت نے بھارت کے ساتھ مل کر خطے کو غیر مستحکم کرنے کے قلیل مدتی مقاصد کے لیے دہشتگرد تنظیموں کو حمایت فراہم کرنا جاری رکھا تو پاکستان اور اس کے عوام اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، جب تک افغانستان سے ابھرتی ہوئی دہشت گردی کا عفریت مکمل طور پر خاتمہ نہیں کر دیا جاتا۔
وزیراعظم شہباز شریف، صدر مملکت آصف علی زرداری، نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار، وزیر دفاع خواجہ آصف,وزیر داخلہ محسن نقوی سمیت دیگر حکام نے افغانستان کی جانب سے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں اشتعال انگیزی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے جوابی کارروائی پر پاکستانی فوج کو سراہا ۔ وزیراعظم نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’پاکستان کے دفاع پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو گا اور ہر اشتعال انگیزی کا بھرپور اور مؤثر جواب دیا جائے گا وزیراعظم شہباز شریف نے ایک بار پھر پاکستان کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان نے کئی دفعہ افغانستان کو وہاں موجود فتنۃ الخوارج اور فتنۃ الہندوستان جیسے دہشت گرد عناصر کے بارے میں معلومات دی ہیں، جو افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں دہشت گرد تنظیموں کو افغانستان میں موجود عناصر کی حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ’افغان نگران حکومت اس امر کو یقینی بنائے گی کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گرد عناصر کے استعمال میں نہ آئے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ’افغان قیادت پر زور دیا کہ وہ اپنی سرزمین سے سرگرم پاکستان مخالف دہشت گرد عناصر کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور عملی اقدامات کرے دہشت گردی ایک مشترکہ چیلنج ہے اور کسی ایک ملک پر اس کا بوجھ نہیں ڈالا جا سکتا پاکستان افغان طالبان انتظامیہ پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ پاکستانی طالبان کے عسکریت پسندوں کو پناہ دے رہے ہیں جو پاکستان پر انڈیا کی حمایت سے حملہ کرتے ہیں ,نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے واقعے پر ’گہری تشویش‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’طالبان حکومت کی جانب سے بلاجواز فائرنگ اور حملے سنگین سرحدی خلاف ورزی ہیں۔ پاکستان کا مناسب ردِعمل اور فوجی کارروائیاں طالبان کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانے اور افغان زمین سے آپریشن کرنے والے فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کے دہشت گرد عناصر کو بے اثر کرنے کے لیے ہیں اسحاق ڈار نے کہا کہ ’ہماری دفاعی کارروائیاں پرامن افغان شہری آبادی کو ہدف نہیں بنا رہیں طالبان فورسز کے برعکس، ہم دفاعی ردِعمل میں شہری جانی نقصان سے بچنے کے لیے انتہائی احتیاط برت رہے ہیں پاکستان اپنی سرحد، خودمختاری اور عوام کے دفاع کے لیے ممکنہ تمام اقدامات اٹھائے گا وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی نجی میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’ہمیں اب اس دور میں واپس جانا ہو گا کہ تمام پناہ گزین واپس جائیں اور سرحدوں کا باہمی احترام ہو ہمیں دہشت گردی کا باضابطہ جواب دینا ہو گا، گذشتہ شب ہم نے افغانستان کو بھرپور جواب دیا ہے اور آئندہ بھی دیں گے انہوں نے کیا کہ ’فتنہ الخوارج اور افغانستان کے ساتھ اب انڈیا بھی شامل ہو چکا ہے، افغانستان کو انڈیا سے پوچھنا چاہیے کہ جب انہوں نے پاکستان کے ساتھ پنگا لیا تو ان کا کیا حشر ہوا تھا، اس لیے افغانستان کو پنگا لینے سے پہلے سوچنا چاہیے وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے بھی افغانستان کی جانب سے پاکستانی علاقوں پر ’بلا اشتعال‘ فائرنگ کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ افغان فورسز کی شہری آبادی پر فائرنگ بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے پاکستان کی بہادر فورسز نے فوری اور مؤثر جواب دے کر ثابت کیا ہے کہ کسی بھی اشتعال انگیزی کو برداشت نہیں کیا جائے گا پاکستان کی فورسز چوکس ہیں اور ’افغانستان کو اینٹ کا جواب پتھر‘ سے دیا جا رہا ہے۔ افغانستان آگ و خون کا جو کھیل کھیل رہا ہے، اس کے تانے بانے ہمارے ازلی دشمن سے ملتے ہیں۔ پاکستان کے عوام بہادر مسلح افواج کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہیں اور افغانستان کو بھی انڈیا کی طرح منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ دوسری جانب طالبان انتظامیہ کے وزیر خارجہ امیر خان متقی اس ہفتے انڈیا کے دورے پر ہیں۔ یہ 2021 میں گروپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد کسی اعلیٰ طالبان عہدیدار کا پہلا دورہ انڈیا ہے، جس کے دوران دونوں فریقین نے تعلقات کو بہتر بنانے پر اتفاق کیا اس دورے نے پاکستان میں مزید تشویش پیدا کی ہےپاکستان کے دفتر خارجہ نے آج ایک بیان میں افغان وزیر خارجہ کے اس بیان کو مسترد کیا جس میں کہا گیا تھا کہ دہشت گردی پاکستان کا داخلی مسئلہ ہے۔پاکستان اپنی عوام کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات جاری رکھے گا اور توقع کرتا ہے کہ عبوری افغان حکومت اپنی سرزمین پاکستان مخالف دہشت گرد عناصر کے استعمال سے روکے گی۔ دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ ’پاکستان ایک پرامن، مستحکم اور خوشحال افغانستان کا خواہاں ہے اور اس مقصد کے لیے تجارتی و اقتصادی تعاون جاری رکھا جائے گا۔ پاکستان نے اپنے بیان میں انڈیا اور افغانستان کے مشترکہ اعلامیے اور افغان نگران وزیر خارجہ کے بیان پر شدید ردعمل دیتے ہوئے افغان سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاجی مراسلہ دیا دفتر خارجہ نے انڈیا اور افغانستان کے مشترکہ اعلامیے کے بعض نکات پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اضافی سیکریٹری (ویسٹ ایشیا و افغانستان) نے افغان سفیر کو طلب کر کے پاکستان کے مؤقف سے آگاہ کیا پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات کچھ عرصے سے کشیدہ ہیں اور اس کی وجہ افغانستان میں موجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی موجودگی ہے۔یہ جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب افغان طالبان نے الزام لگایا کہ پاکستان نے رواں ہفتے افغان دارالحکومت پر فضائی حملے کیے تھے طالبان سرحدی فورسز کے مطابق پاکستانی فضائی حملوں کے ردعمل میں افغان سرحدی فورسز مشرقی علاقوں میں بھاری لڑائی میں مصروف ہیں۔ کنڑ، ننگرہار، پکتیکا، خوست اور ہلمند کے طالبان حکام نے بھی جھڑپوں کی تصدیق کی۔پاکستان نے حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن کابل پر زور دیا کہ ٹی ٹی پی کو اپنی سرزمین پر پناہ دینے سے باز رہے۔ دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان بارہا افغان سرزمین سے پاکستان مخالف دہشت گرد عناصر کی موجودگی اور سرگرمیوں کے شواہد پیش کر چکا ہے۔پاکستان میں حالیہ برسوں میں تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جن میں زیادہ تر کی ذمہ داری پاکستانی طالبان نے قبول کی ہے
سعودی عرب اور قطر سمیت دیگر ملکوں نے پاکستان اور افغانستان پر تحمل کا مظاہرہ کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بات چیت اور سفارت کاری سے یہ معاملہ حل کریں سعودی عرب کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ سعودی عرب دونوں طرف سے تحمل برتنے، مزید اشتعال انگیزی سے بچنے اور اختلافات کو گفتگو اور حکمت کے ذریعے حل کرنے کی درخواست کرتا ہے۔ ’ایسے اقدامات جو کشیدگی کو کم کرنے اور خطے کی سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنے میں مدد کریں گےسعودی عرب نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی جھڑپوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فریقین سے تحمل برتنے اور معاملے کو بات چیت سے حل کرنے کا مشورہ دیا پاکستان اور افغانستان کے سرحد پر جھڑپوں کے دوران نقصان پہنچانے کے دعوے کیے ہیں، جس کے باعث صورت حال کشیدہ ہے۔ سعودی عرب کی وزارت خارجہ کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ وہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ کشیدگی اور جھڑپوں کا قریب سے جائزہ لے رہی ہے۔ سعودی عرب دونوں طرف سے تحمل برتنے، مزید اشتعال انگیزی سے بچنے اور اختلافات کو گفتگو اور حکمت کے ذریعے حل کرنے کی درخواست کرتا ہے۔ ’ایسے اقدامات جو کشیدگی کو کم کرنے اور خطے کی سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنے میں مدد کریں گےمزید کہا کہ وہ ان تمام علاقائی اور بین الاقوامی کوششوں، جو پاکستان اور افغانستان کے برادر لوگوں کے لیے امن، استحکام اور خوشحالی کو فروغ دینے کے لیے ہیں، کی بھی مکمل حمایت کرتا ہے۔سعودی عرب کے ولی عہد و وزیراعظم محمد بن سلمان اور وزیراعظم شہباز شریف نے گذشتہ ماہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین ایک ’سٹرٹیجک باہمی دفاعی معاہدے‘ پر دستخط کیے ہیں اس تناظر میں سعودی وزارت خارجہ کے فوری بیان کو اہم قرار دیا جا رہا ہے اس معاہدے کے ذریعے پاکستان اور سعودی عرب نے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ وہ نہ صرف داخلی سلامتی کے لیے سنجیدہ ہیں بلکہ خطے میں امن، استحکام اور باہمی اعتماد کو فروغ دینے کے لیے بھی پُرعزم ہیں۔ قطر کی وزارت خارجہ نے دونوں فریقوں پر زور دیا کہ وہ بات چیت، سفارت کاری اور تحمل کو ترجیح دیں اور علاقائی سلامتی اور استحکام کے حصول کے لیے اختلافات کو کم کرنے اور کشیدگی کو کم کرنے میں مدد دینے کے لیے کام کریں۔ قطری وزارت خارجہ نے بین الاقوامی امن اور سلامتی کو مضبوط بنانے کے لیے تمام علاقائی اور بین الاقوامی کوششوں کے لیے قطر کی حمایت کا اعادہ کیا اور دونوں ممالک کے عوام کے لیے سلامتی اور خوشحالی کو یقینی بنانے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ ایرانی اعلیٰ سفارت کار عباس عراقچی نے بھی افغانستان اور پاکستان سے جاری جھڑپوں کے درمیان ’تحمل سے کام لینے‘ کا مطالبہ کیا۔ عراقچی نےکہا: ’ہمارا موقف یہ ہے کہ دونوں فریقوں کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے
سعودی عرب اور قطر سمیت دیگر ملکوں نے پاکستان اور افغانستان پر تحمل کا مظاہرہ کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بات چیت اور سفارت کاری سے یہ معاملہ حل کریں سعودی عرب کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ سعودی عرب دونوں طرف سے تحمل برتنے، مزید اشتعال انگیزی سے بچنے اور اختلافات کو گفتگو اور حکمت کے ذریعے حل کرنے کی درخواست کرتا ہے۔ ’ایسے اقدامات جو کشیدگی کو کم کرنے اور خطے کی سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنے میں مدد کریں گےسعودی عرب نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی جھڑپوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فریقین سے تحمل برتنے اور معاملے کو بات چیت سے حل کرنے کا مشورہ دیا پاکستان اور افغانستان کے سرحد پر جھڑپوں کے دوران نقصان پہنچانے کے دعوے کیے ہیں، جس کے باعث صورت حال کشیدہ ہے۔ سعودی عرب کی وزارت خارجہ کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ وہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ کشیدگی اور جھڑپوں کا قریب سے جائزہ لے رہی ہے۔ سعودی عرب دونوں طرف سے تحمل برتنے، مزید اشتعال انگیزی سے بچنے اور اختلافات کو گفتگو اور حکمت کے ذریعے حل کرنے کی درخواست کرتا ہے۔ ’ایسے اقدامات جو کشیدگی کو کم کرنے اور خطے کی سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنے میں مدد کریں گےمزید کہا کہ وہ ان تمام علاقائی اور بین الاقوامی کوششوں، جو پاکستان اور افغانستان کے برادر لوگوں کے لیے امن، استحکام اور خوشحالی کو فروغ دینے کے لیے ہیں، کی بھی مکمل حمایت کرتا ہے۔سعودی عرب کے ولی عہد و وزیراعظم محمد بن سلمان اور وزیراعظم شہباز شریف نے گذشتہ ماہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین ایک ’سٹرٹیجک باہمی دفاعی معاہدے‘ پر دستخط کیے ہیں اس تناظر میں سعودی وزارت خارجہ کے فوری بیان کو اہم قرار دیا جا رہا ہے اس معاہدے کے ذریعے پاکستان اور سعودی عرب نے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ وہ نہ صرف داخلی سلامتی کے لیے سنجیدہ ہیں بلکہ خطے میں امن، استحکام اور باہمی اعتماد کو فروغ دینے کے لیے بھی پُرعزم ہیں۔ قطر کی وزارت خارجہ نے دونوں فریقوں پر زور دیا کہ وہ بات چیت، سفارت کاری اور تحمل کو ترجیح دیں اور علاقائی سلامتی اور استحکام کے حصول کے لیے اختلافات کو کم کرنے اور کشیدگی کو کم کرنے میں مدد دینے کے لیے کام کریں۔ قطری وزارت خارجہ نے بین الاقوامی امن اور سلامتی کو مضبوط بنانے کے لیے تمام علاقائی اور بین الاقوامی کوششوں کے لیے قطر کی حمایت کا اعادہ کیا اور دونوں ممالک کے عوام کے لیے سلامتی اور خوشحالی کو یقینی بنانے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ ایرانی اعلیٰ سفارت کار عباس عراقچی نے بھی افغانستان اور پاکستان سے جاری جھڑپوں کے درمیان ’تحمل سے کام لینے‘ کا مطالبہ کیا۔ عراقچی نےکہا: ’ہمارا موقف یہ ہے کہ دونوں فریقوں کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے افغانستان کی جانب سے پاکستانی پوسٹوں پر فائرنگ پر غیور قبائل نے افواج پاکستان کیساتھ کھڑے ہونے کا عزم کیا ہے۔بارڈر پر موجود غیور قبائل نے افغانیوں کو دو ٹوک پیغام میں کہا کہ ہم افغانستان کی طرف سے بارڈر پر بلا اشتعال فائرنگ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، ہم اپنی افواج پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں اور انشاللہ اپنی افواج کے ساتھ مل کر اپنے وطن کا دفاع کریں گے۔قبائل کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ایک طویل عرصے تک افغان مہاجرین کی میزبان کی کیا اس کا آج یہ صلہ دیا جا رہا ہے، ہم مل کر افغانیوں کو سبق سکھائیں گے یہ وطن ہمارا ہے اور اس کا دفاع ہمارا فرض ہے۔ پاکستان کی افواج ہمارے ماتھے کا جھومر اور اس کے شہداء ہمارا فخر ہیں، افغان مہمان بن کر آئینگے تو سر پر بٹھائیں گے، دشمن اور حملہ آور بن کر آئیں گے تو جواب گولی سے دیا جائیگا۔













