اسلام آباد (ٹی این ایس) پاکستان کا شکریہ; *غزہ جنگ بندی معاہدے پر امریکا اور ثالثوں نے دستخط کردیئے

 
0
16

اسلام آباد (ٹی این ایس) پاکستان کا شکریہ;غزہ میں جنگ بندی سے متعلق تاریخی امن معاہدے پر مصر، ترکیہ، قطر اور امریکا نے باقاعدہ طور پر دستخط کر دیے، جسے مشرقِ وسطیٰ میں امن و استحکام کی جانب ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے
.وزیرِاعظم پاکستان محمد شہباز شریف کی مصر کے شہر شرم الشیخ میں منعقدہ امن سربراہ اجلاس کے موقع پر فلسطین کے صدر محمود عباس کے ساتھ خوشگوار ملاقات ہوئی، جس میں دونوں رہنماؤں نے غزہ میں جنگ بندی پر اطمینان کا اظہار کیاہے. .وزیرِاعظم پاکستان محمد شہباز شریف کی مصر کے شہر شرم الشیخ میں منعقدہ امن سربراہ اجلاس کے موقع پر فلسطین کے صدر محمود عباس کے ساتھ خوشگوار ملاقات ہوئی، جس میں دونوں رہنماؤں نے غزہ میں جنگ بندی پر اطمینان کا اظہار کیاہے

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ غزہ امن معاہدہ خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے سنگِ میل ثابت ہوگا۔ اس دن کو تاریخی لمحہ قرار دیتے ہوئےانہوں نے کہا کہ ’یہ امن معاہدہ دوست ممالک کے تعاون اور مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ امریکی صدر نے کہا کہ اس نوعیت کی کامیابی ماضی میں کم ہی دیکھی گئی ہے اور اس ضمن میں مصر کا کردار کلیدی رہا۔امریکا اور اس کے شراکت دار مشرقِ وسطیٰ میں دیرپا امن اور استحکام کے خواہاں ہیں اور وہ مل کر غزہ کی تعمیرِ نو میں بھرپور کردار ادا کریں گے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل اسرائیل اور حماس نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کے 20 نکاتی امن منصوبے سے اتفاق کیا تھا، جس کے بعد آج حماس نے اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کردیا، جس کے بعد میں اسرائیلی جیلوں میں قید سیکڑوں قیدی بھی آزاد کر دیے گئے غزہ میں امن کے لیے سربراہی اجلاس مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہو رہا ہے، جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ مسلمان ممالک کے نمائندگان شریک ہیں، جبکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس بھی شرکت کررہے ہیں۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ غزہ امن معاہدہ خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے سنگِ میل ثابت ہوگا۔ اس دن کو تاریخی لمحہ قرار دیتے ہوئےانہوں نے کہا کہ ’یہ امن معاہدہ دوست ممالک کے تعاون اور مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ امریکی صدر نے کہا کہ اس نوعیت کی کامیابی ماضی میں کم ہی دیکھی گئی ہے اور اس ضمن میں مصر کا کردار کلیدی رہا۔امریکا اور اس کے شراکت دار مشرقِ وسطیٰ میں دیرپا امن اور استحکام کے خواہاں ہیں اور وہ مل کر غزہ کی تعمیرِ نو میں بھرپور کردار ادا کریں گے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل اسرائیل اور حماس نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کے 20 نکاتی امن منصوبے سے اتفاق کیا تھا، جس کے بعد آج حماس نے اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کردیا، جس کے بعد میں اسرائیلی جیلوں میں قید سیکڑوں قیدی بھی آزاد کر دیے گئے غزہ میں امن کے لیے سربراہی اجلاس مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہو رہا ہے، جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ مسلمان ممالک کے نمائندگان شریک ہیں، جبکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس بھی شرکت کررہے ہیں۔شرم الشیخ سربراہی اجلاس دراصل ان سفارتی کوششوں کا نتیجہ ہے جو گزشتہ ماہ نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے موقع پر شروع ہوئی تھیں۔
فلسطینی مزاحمتی گروپ ’حماس‘ نے پیر کو جنگ بندی کے معاہدے کے بعد غزہ میں موجود تمام 20 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو 2 مرحلوں میں بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کے حوالے کر دیا، اسرائیلی جیلوں سے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا عمل بھی شروع ہوگیا ہے اور قیدیوں کی 38 بسیں اسرائیل سے غزہ پہنچ گئیں۔
یاد رہے کہ اس وقت غزہ میں جنگی جرائم کے الزامات پر بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی جانب سے نتن یاہو کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری ہے۔ گزشتہ 2 سالوں کے دوران صہیونی ریاست کی جانب سے غزہ پر مظالم کے نتیجے میں 67 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔

وزیراعظم پاکستان نے 23 ستمبر 2025 کو سات عرب و اسلامی ممالک مصر، اردن، قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا اور ترکیہ کے سربراہان کے ساتھ امریکی صدر سے ملاقات کے دوران غزہ میں امن کے قیام کے امکانات پر غور کیا تھا۔

عرب و اسلامی ممالک نے ایک مشترکہ بیان کے ذریعے صدر ٹرمپ کی امن کے حصول کی کوششوں کو سراہا تھا اور اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ وہ امریکا کے ساتھ مل کر ایک جامع اور پائیدار جنگ بندی کے قیام اور غزہ میں سنگین انسانی صورتحال کے ازالے کے لیے مشترکہ طور پر کام کریں گے۔
وزیر اعظم پاکستان آفس کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا کہ فلسطین کے صدر محمود عباس کے ساتھ ملاقات کے دوران بحرین کے فرمانروا شاہ حمد بن عیسی الخلیفہ بھی شریک تھے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ اس موقع پر صدر محمود عباس نے فلسطینیوں کا ہمیشہ سے ساتھ دینے اور ان کی سیاسی و سفارتی محاذ پر مدد پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔ مزید بتایا گیا کہ دونوں رہنماؤں کی شرم الشیخ میں جنگ بندی معاہدے پر دستخط سے پہلے گرمجوشی سے غیر رسمی ملاقات اور گفتگو ہوئی، دونوں رہنماؤں نے اس موقع پر کہا کہ فلسطین اور پاکستان کے مابین دیرینہ برادرانہ تعقات مثالی ہیں، جس پر دونوں ممالک کی قیادت اور عوام کو ناز ہے۔ اس موقع پر وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے غزہ کے بہادر عوام کو گزشتہ برسوں میں ہمت و بہادری سے صعوبتیں برداشت کرنے پر خراج تحسین پیش کیا۔ رہنماؤں نے غزہ میں جنگ بندی پر اطمینان کا اظہار کیا اور اسے خطے میں امن و فلسطینیوں کی ترقی کا پیش خیمہ قرار دیا۔ دریں اثنا، وزیرِاعظم محمد شہباز شریف کی شرم الشیخ میں منعقدہ امن سربراہ اجلاس کے موقع پر متعدد عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ رہنماؤں نے غزہ میں جنگ بندی پر اطمینان کا اظہار کیا اور اسے خطے میں امن و فلسطینیوں کی ترقی کا پیش خیمہ قرار دیا، اعلامیے کے مطابق وزیرِ اعظم کی آذربائیجان کے صدر الہام علیوف سے ملاقات ہوئی، جس میں دونوں رہنماؤں نے غزہ میں جنگ بندی پر اطمینان کا اظہار کیا، اس موقع پر آرمینیا کے وزیرِ اعظم نکول پاشنیان بھی ملاقات و گفتگو میں شریک ہوئے۔ وزیرِ اعظم کی اردن کے مانروا شاہ عبداللہ دوئم، بحرین کے شاہ حمد بن عیسی الخلیفہ اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس سے بھی ملاقات ہوئی۔ وزیرِ اعظم کی انڈونیشیا کے صدر پربوو صوبیانتو، جرمن چانسلر فریڈرک مرز، اسپین کے وزیرِ اعظم پیڈرو سانچیز، اٹلی کی وزیرِ اعظم جیورجیا میلونی اور سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آلسعود سے بھی ملاقات ہوئی ملاقاتوں میں خطے میں امن کیلئے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا، وزیرِ اعظم کا ملاقاتوں میں فلسطین کے عوام کے ساتھ پاکستان کی جانب سے یکجہتی اور انکی سفارتی و اخلاقی مدد جاری رکھنے کا اعادہ کیا۔

واضح رہے کہ وزیرِاعظم پاکستان محمد شہباز شریف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی کی خصوصی دعوت پر شرم الشیخ پہنچے تھے۔ مصر کے شہر شرم الشیخ ایئر پورٹ پہنچنے پر مصری یوتھ و اسپورٹس کے وزیر ڈاکٹر اشرف صبحیی، پاکستانی سفیر عامر شوکت اور پاکستان و مصری اعلیٰ سفارتی عملے نے وزیرِ اعظم کا استقبال کیا تھا۔
وزیرِ اعظم پاکستان غزہ جنگ بندی کے لیے شرم الشیخ امن سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے، نائب وزیرِ اعظم و وزیرِ خارجہ اسحٰق ڈار اور فاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ بھی وزیرِ اعظم کے ہمراہ وفد میں شریک ہیں۔
وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، مصری صدر عبدالفتاح السیسی، امیر قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی اور ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کے ہمراہ غزہ امن معاہدے پر دستخط کی تقریب میں خصوصی شرکت کریں گے
وزیراعظم کی اس سربراہی اجلاس میں شرکت پاکستان کی فلسطینی عوام کے حق خودارادیت اور ان کے منصفانہ مقصد کے لیے تاریخی، مستقل اور غیر متزلزل حمایت کی عکاسی کرتی ہے، ساتھ ہی یہ خطے میں دیرپا امن اور استحکام کے قیام کے لیے پاکستان کے عزم کی بھی نمائندگی کرتی ہے۔

پاکستان کو امید ہے کہ شرم الشیخ امن سربراہی اجلاس مکمل اسرائیلی انخلا، فلسطینی شہریوں کے تحفظ، ان کی جبری بے دخلی کے خاتمے، قیدیوں کی رہائی، جاری سنگین انسانی بحران کے حل اور غزہ کی تعمیر نو کے لیے راہ ہموار کرے گا۔

 

پاکستان کو یہ بھی امید ہے کہ یہ کوششیں ایک قابل اعتبار سیاسی عمل میں معاون ثابت ہوں گی جس کا مقصد ایک آزاد، خودمختار، قابل عمل اور متصل ریاستِ فلسطین کا قیام ہے، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو، جو 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ہو، اور جو متعلقہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عرب امن منصوبے کے مطابق ہو۔دوسری طرف غزہ جنگ بندی معاہدے پر دستخط کی تقریب سے پہلےامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران بائیں بازو کے ارکان پارلیمنٹ نے فلسطین کے حق میں احتجاج اور نعرے بازی کی تاہم سیکیورٹی اہلکار نے احتجاج کرنے والے رکن کو ایوان سے باہر کردیا۔ واضح رہے کہ امریکی صدر نے اسرائیلی پارلیمنٹ میں اپنے خطاب کے دوران اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کو تاریخ ساز لمحہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مشرقِ وسطیٰ کے ایک نئے تاریخی دور کا آغاز ہے اور یہ صرف جنگ کا اختتام نہیں بلکہ ایک نئی امید کا آغاز ہے۔امریکی صدر نے کہا کہ غزہ امن معاہدے میں عرب اور مسلمان ممالک نے اہم کردار ادا کیا اور یہ صرف جنگ کا اختتام نہیں بلکہ ایک نئی امید اور مشرق وسطیٰ کے ایک نئے تاریخی دور کا آغاز ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکا مشکل وقت میں اسرائیل کے ساتھ کھڑا رہا اور اسرائیل نے وہ سب کچھ جیت لیا جو طاقت کے بل پر جیتا جاسکتا تھا۔ مشرق وسطیٰ کے ایک نئے تاریخی دور کا آغاز ہے، غزہ کے لوگوں کی توجہ اب تعمیر نو پر ہونی چاہیے، یہ اسرائیل اور پوری دنیا کے لیے غیر معمولی کامیابی ہے۔ عرب ممالک اور مسلمان رہنماؤں نے مل کر حماس پر دباؤ ڈالا کہ وہ یرغمالیوں کو رہا کرے، اور اس سے ہمیں بہت مدد ملی، بہت سے لوگوں کی جن سے آپ کی توقع نہیں ہوگی، اور میں ان سب کا دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ غزہ سے ایران تک، ان تلخ نفرتوں نے مصیبت، دکھ اور ناکامی کے سوا کچھ نہیں دیا، جبکہ دہشت گردوں کے خلاف کامیابیوں کو پورے مشرق وسطیٰ کے لیے امن وخوشحالی میں تبدیل کیا جائے۔ یہ اسرائیل اور پوری دنیا کے لیے ایک غیر معمولی کامیابی ہے کہ یہ سب ممالک امن کے شراکت دار کے طور پر ایک ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 2 سالوں کی تاریکی اور قید و بند کے بعد 20 یرغمالی اپنے خاندانوں کے پاس واپس آ رہے ہیں، اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی تاریخ ساز لمحہ ہے، یہ صرف جنگ کا اختتام نہیں بلکہ ایک نئی امید کا آغاز ہے۔ امریکی صدر کے خطاب کے دوران بائیں بازوں کے 2 ارکان پارلیمنٹ نے فلسطین کے حق میں احتجاج اور شور شرابا کیا۔ احتجاج کرنے والے رکن کو سیکیورٹی اہلکار باہر لے گئے جس پر ٹرمپ نے کہا کہ سیکیورٹی حکام نے بہت مستعدی سےکام کیا۔ قطری نشریاتی ادارے نے رپورٹ کیا کہ اسرائیلی رکنِ پارلیمان ایمن عودہ کی جانب سے ایوان میں احتجاج کیا گیا تھا، جنہوں نے چند گھنٹے قبل ’ایکس‘ پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ’ایوان میں موجود منافقت کی حد ناقابلِ برداشت ہے‘ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو ایسی خوشامد کے ذریعے سراہنا جس کی مثال نہیں ملتی، ایک منظم گروہ کے ذریعے انہیں تخت پر بٹھانا، نہ تو اسے اور نہ ہی اس کی حکومت کو غزہ میں کیے گئے انسانیت کے خلاف جرائم اور نہ ہی ہزاروں اسرائیلی اور لاکھوں فلسطینی متاثرین کے خون کی ذمہ داری سے بری کرتا ہے۔ اسرائیلی رکن پارلیمنٹ کا مزید کہنا تھا کہ صرف جنگ بندی اور معاہدے کی وجہ سے میں یہاں موجود ہوں، صرف قبضے کے خاتمے اور صرف اسرائیل کے ساتھ ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرنے سے ہی سب کے لیے انصاف، امن اور سلامتی ممکن ہے۔

اپنے خطاب کے دوران امریکی صدر نے اسرائیل-حماس جنگ بندی کے معاہدے کو ممکن بنانے پر اپنی انتظامیہ کے کئی اراکین کی تعریف کی، جن میں مشرقِ وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکاف اور ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر شامل ہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ لبنان میں ’حزب اللہ کا خنجر‘ جو اسرائیل کی طرف اٹھا ہوا تھا وہ اب مکمل طور پر ٹوٹ چکا ہے‘، اور میری انتظامیہ لبنان کے نئے صدر اور ان کے مشن کی بھرپور حمایت کر رہی ہے۔ مزید کہا کہ اس حمایت کا مقصد حزب اللہ کی بریگیڈز کو مستقل طور پر غیر مسلح کرنا ہے اور وہ یہ کام بہت اچھی طرح کر رہے ہیں، ہمارا مقصد ایک خوشحال ریاست تعمیر کرنا ہے جو اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن میں رہے، اور آپ سب اس کے بھرپور حامی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر کے دوران فلسطینیوں کا ذکر تو کیا لیکن ان کی دہائیوں پرانی خود ارادیت اور ریاست کے قیام کی جدوجہد کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کے لیے انتخاب اس سے زیادہ واضح نہیں ہو سکتا، یہ ان کے لیے موقع ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے دہشت گردی اور تشدد کے راستے سے ہٹ جائیں، جو انتہائی حد تک جا چکا ہے اور اپنے درمیان موجود نفرت والی قوتوں کو ختم کریں، اور میرا خیال ہے کہ یہ ہونے جا رہا ہے گزشتہ چند ماہ کے دوران میں نے کچھ ایسے لوگوں سے ملاقات کی ہے جو یہ سب ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ مزید کہا کہ بے پناہ جانی نقصان، تکلیف اور مشکلات کے بعد، اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اسرائیل کو نیچا دکھانے کے بجائے اپنے عوام کی تعمیر پر توجہ دیں۔ دوسری جانب، تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ اسرائیل کو جاری فوجی اور سفارتی مدد کے ذریعے، امریکا طویل عرصے سے اس خطے میں تشدد کو بڑھاوا دینے والا ایک مرکزی کردار رہا ہے۔امریکی صدر نے ایران کے ساتھ امن معاہدے کی امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایران کے ساتھ امن معاہدہ ہو جائے تو یہ بہت شاندار بات ہوگی، جبکہ ایرانی عوام ’زندہ رہنا چاہتے ہیں‘ ٹرمپ نے سابق امریکی صدر بارک اوباما کو 2015 کے ایران کے جوہری معاہدے پر دستخط کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا، اور اسے ’ایک تباہی‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی حکومت مشرق وسطیٰ میں بے شمار اموات کا باعث بنی لیکن اس کے باوجود ان کے لیے دوستی اور تعاون کا ہاتھ اب بھی کھلا ہے، وہ معاہدہ کرنا چاہتے ہیں، ہم دیکھیں گے کہ کیا ہم کچھ کر سکتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان پر اسرائیلی پارلیمنٹ میں قانون سازوں کی جانب سے گہری خاموشی چھا گئی۔امریکی صدر نے اسرائیلی ہم منصب پر زور دیا کہ وہ نیتن یاہو کو بدعنوانی کے الزامات سے بری کر دیں۔ ٹرمپ نے اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ سے مطالبہ کیا کہ وہ بدعنوانی کے مقدمات کا سامنا کرنے والے نیتن یاہو کو معافی دے دیں۔ اسرائیلی وزیرِاعظم اور ان کے پارلیمانی اتحادیوں نے ٹرمپ کے ان الفاظ کا خیرمقدم کیا اور تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کیا۔ آخر میں امریکی صدر نے کہا کہ ہم ایک ایسی میراث تعمیر کرنے جا رہے ہیں جس پر اس خطے کے تمام لوگ فخر کریں گے، دوستی، تعاون اور تجارت کے نئے رشتے قائم ہوں گے۔دوسری طرف ’حماس‘ نے پیر کو جنگ بندی کے معاہدے کے بعد غزہ میں موجود تمام 20 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو 2 مرحلوں میں بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کے حوالے کر دیا، اسرائیلی جیلوں سے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا عمل بھی شروع ہوگیا ہے اور قیدیوں کی 38 بسیں اسرائیل سے غزہ پہنچ گئیں۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی سرکاری نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حماس نے پیر کو غزہ میں موجود ریڈ کراس کے نمائندوں کے حوالے تمام 20 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو کیا۔ یرغمالیوں کو دو مراحل میں رہا کیا گیا، دوسرے مرحلے میں 13 یرغمالیوں کو جنوبی غزہ کے شہر خان یونس میں منتقل کیا گیا اسرائیل اور حماس کے درمیان طے پانے والا یہ جنگ بندی معاہدہ، جو دو سالہ جنگ کے خاتمے کی جانب سب سے بڑا قدم قرار دیا جا رہا ہے، ایک پائیدار امن کی راہ ہموار کرنے کی کوشش ہے۔ اسرائیل میں لوگ اسرائیلی جھنڈے لہراتے ہوئے غزہ کے قریب واقع فوجی کیمپ رئیم کے نزدیک جمع ہوئے، جہاں یرغمالیوں کو لایا گیا تل ابیب کے ’یرغمالی چوک‘ میں بھی سیکڑوں افراد جمع ہوئے، جنہوں نے اسرائیلی جھنڈے تھام رکھے تھے اور یرغمالیوں کی تصاویر والے پوسٹر بلند کر رکھے تھے۔ جنوبی غزہ کے نصر ہسپتال میں تقریباً ایک درجن نقاب پوش مسلح افراد پہنچے، جو غالباً حماس کے عسکری ونگ کے ارکان تھے، وہ اس مقام پر جمع ہوئے جہاں سے بعض یرغمالیوں کو ریڈ کراس کے حوالے کیا گیا یہ مسلح افراد کئی ایمبولینسوں کے قریب قطار میں کھڑے دکھائی دیے، ریتیلے علاقے میں کرسیوں کی قطار بھی لگائی گئی تھی، جہاں ایک مختصر استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ دوسری جانب اسرائیلی قید سے رہائی پانے والے فلسطینی قیدیوں کی 38 بسیں غزہ پہنچیں، معاہدے کے تحت 2 ہزار فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنا ہے۔ دو سال سے جاری جنگ، جو بتدریج ایک علاقائی تنازع میں تبدیل ہو گئی تھی اور جس میں ایران، یمن اور لبنان جیسے ممالک بھی ملوث ہوئے، جسکے بعد یہ جنگ بندی اور یرغمالیوں و قیدیوں کا تبادلہ عمل میں آ یاہے، اس جنگ نے نہ صرف اسرائیل کی بین الاقوامی سطح پر تنہائی کو بڑھایا بلکہ مشرق وسطیٰ کے سیاسی نقشے کو بھی بدل کر رکھ دیا۔ امریکی صدر نے واشنگٹن سے اسرائیل روانہ ہوتے ہوئے ایئر فورس ون میں گفتگو میں کہا کہ ’جنگ ختم ہو گئی ہے ’میرا خیال ہے کہ اب حالات معمول پر آ جائیں گے