اسلام آباد (ٹی این ایس) پاک فوج نے بھارتی لیڈروں کی گیدڑ بھبکیوں اور ہرزہ سرائی کا منہ توڑ جواب دیاہے کوئی شک نہیں ہےکہ اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے مگر بھارت پرانی روش پر قائم ہےمئی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان 4 روزہ تصادم کے بعد سے، بھارتی حکام کی دھمکیاں اور جارحانہ بیانات وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہے ہیں۔ لیکن حالیہ دنوں، بھارت کے سیاسی اور عسکری رہنماؤں کے بیانات زیادہ خطرناک اور تشویشناک ہوتے جارہے ہیں جن سےکشیدہ حالات میں مزید تناؤ پیدا کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے بھارتی حکام کے تین اشتعال انگیز بیانات دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں اضافے کا باعث بنے۔ سب سے خطرناک بیان بھارتی آرمی چیف اپیندر دویدی کا تھا جس میں انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان نے سرحد پار دہشت گردی کا سلسلہ نہ روکا تو اسے دنیا کے نقشے سے مٹا دیا جائے گا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس بار بھارت وہ ’تحمل‘ نہیں دکھائے گا جس کا مظاہرہ اس نے ‘آپریشن سندور’ کے دوران کیا تھا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت ’ضرورت پڑنے پر کسی بھی سرحد کو عبور کر سکتا ہے‘۔ انہوں نے اپنی فوج کو چوکس رہنے کا حکم دیا اور کہا کہ ’موقع جلد آ سکتا ہے‘اس کے بعد بھارت کے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے پاکستان پر الزام لگایا کہ وہ سر کریک کے علاقے میں اپنی فوجی تنصیبات میں اضافہ کر رہا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر پاکستان نے یہاں کوئی کارروائی کرنے کی جرأت کی تو ’ایسا سخت جواب دیا جائے گا کہ تاریخ اور جغرافیہ دونوں بدل جائیں گے‘۔سر کریک، رن آف کَچھ کے علاقے میں واقع 96 کلومیٹر طویل ایک دلدلی ندی ہے جو دونوں ممالک کے درمیان متنازع حیثیت رکھتی ہے۔ یہ علاقہ کئی بار سمندری سرحدی حدود کے تعین میں مذاکرات کا موضوع رہا ہے جبکہ اس سلسلے میں دونوں ممالک کی آخری نشست 2012ء میں ہوئی تھی مگر کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکل پایا تھا۔5 اکتوبر کو بھارت کے ایئر فورس چیف امر پریت سنگھ نے یہ جھوٹا دعویٰ کیا کہ مئی کی جھڑپ کے دوران بھارت نے 9 سے 10 پاکستانی لڑاکا طیارے مار گرائے تھے جن میں دو ایف-16 طیارے بھی شامل تھے۔ انہوں نے ایک بار پھر یہ دھمکی دی کہ بھارتی فضائیہ کو ’دہشتگردوں کے کسی بھی ٹھکانے پر پاکستان میں گہرائی تک حملہ کرنے کی مکمل صلاحیت حاصل ہے اور بالکل درست نشانے پر‘ وہ کسی بھی وقت کارروائی کر سکتی ہے۔
پاکستان نے ان بیانات پر بھرپور ردِعمل دیا۔ فوجی افسران کا ایک اجلاس جس کی صدارت آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کی، کے بعد ایک بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ اگر بھارتی قیادت کوئی ’نیا معمول‘ بنانے کی کوشش کرتی ہے تو پاکستان اس کا ’فوری اور مؤثر جواب‘ دے گا۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے بیان میں خبردار کیا گیا کہ مستقبل میں کوئی بھی تنازع ’شدید تباہی‘ کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ پاکستان بلا روک ٹوک بھرپور جواب دے گا۔ بھارتی آرمی چیف کی دھمکی پر کہا گیا کہ ’نقشے سے مٹانے‘ کی بات کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ’مٹانے کا عمل یک طرفہ نہیں ہوگا‘۔
آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ “معرکۂ حق” کو گزرے پانچ ماہ مکمل ہو چکے ہیں، مگر بھارت اپنی پرانی روش پر قائم رہتے ہوئے جھوٹے اور بےبنیاد پروپیگنڈے سے باز نہیں آیا بھارتی عسکری قیادت نے ایک بار پھر اشتعال انگیز بیانات اور مہم کا آغاز کر دیا ہے، جس کا مقصد بہار اور مغربی بنگال کے ریاستی انتخابات میں سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہے۔ آئی ایس پی آر کا یہ ردعمل بھارتی فوج کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل منوج کمار کٹیار کے بیان کے جواب میں آیا ہے۔ جنرل منوج کمار نے حال ہی میں متنازع بیان میں کہا کہ پاکستان کے پاس بھارت سے براہِ راست لڑنے کی صلاحیت نہیں، پاکستان پہلگام جیسے ایک اور حملے کی کوشش کر سکتا ہے بھارتی جنرل نے کہا کہ ”آپریشن سندور“ کا اگلا مرحلہ ”زیادہ مہلک“ ہوگا۔ جس کے جواب میں ترجمان پاک فوج نے کہا کہ بھارت کی فوجی قیادت سیاسی دباؤ میں ایسے بیانات دے رہی ہے جو خطے کے امن کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں ’یہ پہلی بار نہیں کہ بھارت نے الیکشن سے قبل پاکستان مخالف بیانیہ چھیڑا ہو، ہر بار انتخابات سے پہلے اسی طرح کی اشتعال انگیزی دیکھی گئی ہے تاکہ اندرونی ووٹر بیس کو متاثر کیا جا سکے۔۔ ترجمان پاک فوج نے ان بیانات کو غیرذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی فوجی قیادت کا یہ طرزِ عمل سیاسی مفاد کے لیے جنگی جنون کو ہوا دینے کے مترادف ہےآئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج اس حقیقت کو ہضم نہیں کر پائی کہ انہیں معرکہ حق میں فیصلہ کن شکست ہوئی، بھارت کی جھوٹ کی پرتیں بے نقاب ہو چکی ہیں، دنیا اب بھارت کو سرحد پار دہشتگردی کا اصلی چہرہ اور علاقائی عدم استحکام کا مرکز مانتی ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق بھارت اپنے عوام اور پڑوسیوں کے مفاد کے منافی مہم جوئی اور بالادستی کی پالیسیوں پر اڑا ہوا ہے، پاکستانی عوام اور افواج اپنی دھرتی کے ہر انچِ کے دفاع کے لیے پوری صلاحیت اور پختہ عزم رکھتے ہیں بھارتی مسلح افواج اور اس کے سیاسی آقاؤں کو پاکستانی صلاحیت اور عزم کو سمجھ لینا چاہیے، ہر جارحیتی اقدام کا جواب تیز، پختہ اور بھرپور انداز میں دیا جائے گا،جو اگلی نسلیں یاد رکھیں گی۔ بھارتی عوام اور بین الاقوامی برادری کو جھوٹ باور کروائے جا رہےہیں، ہرپیشہ ور فوجی جانتا ہوگا کہ غیرضروری گھمنڈ اوربےجا بیانات جنگی جنون بڑھا سکتےہیں، ایسےعمل سے جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
بھارت کی جانب سے حالیہ دھمکیوں اور اشتعال انگیز بیان بازی سے جو سوالات پیدا ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ بھارت اس وقت ایسا رویہ کیوں اختیار کر رہا ہے اور کیا اس کے بیانات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے؟ایک ممکنہ وجہ یہ ہے کہ یہ جارحانہ بیانیہ بھارت کے اندرونی سیاسی مقاصد کے لیے ہے خاص طور پر حکمران جماعت بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ہندو ووٹرز کے لیے ایسے بیانات دے رہی ہے۔ بی جے پی کے لیے انتخابات سے قبل پاکستان مخالف جذبات کو بھڑکانا ایک پرانا حربہ بن چکا ہے۔چونکہ بہار میں اہم ریاستی انتخابات قریب ہیں اور مغربی بنگال میں بھی اگلے سال انتخابات کا انعقاد ہونے والا ہے جبکہ مئی کی جھڑپوں کے بعد حکومت کو اپوزیشن کی تنقید کا سامنا ہے، ایسے میں نریندر مودی کی حکومت اپنی کمزور پڑتی پوزیشن کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ شاید بھارت کے حالیہ رویے کی ایک وجہ ہو سکتی ہے لیکن صرف یہی ایک وجہ نہیں۔بھارتی اسٹیبلشمنٹ اب بھی مئی کی جھڑپ میں پاکستان کی فیصلہ کن برتری کو ہضم نہیں کر پائی ہے خاص طور پر کہ جب اس جھڑپ میں کئی بھارتی جنگی طیارے مار گرائے گئے تھے۔ اس لیے ایسی بیان بازی شاید ناکامی پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہوسکتی ہے۔ لیکن بات صرف اتنی نہیں، اس کے پیچھے کچھ اور بھی محرکات ہیں۔مئی کی جھڑپ میں بھارت کو جس طرح کی اندرونِ ملک اور عالمی سطح پر سبکی کا سامنا کرنا پڑا، وہ اس کی عزتِ نفس کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا اور اب وہ اس کا بدلہ لینے کے لیے بے چین نظر آتا ہے اس تناظر میں اور جس طرح بھارتی رہنما بار بار پاکستان کے ساتھ ایک اور ’مرحلے‘ کی بات کرتے ہیں تو کسی بھارتی دراندازی یا جارحانہ کارروائی کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا خاص طور پر جب بھارتی قیادت اصرار کرتی رہی ہے کہ اب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے اصول اور جنگی محاذ ہمیشہ کے لیے بدل چکے ہیں۔پاکستانی حکام اس امکان کو نظرانداز نہیں کر رہے لیکن خیال ہے کہ بھارت کو نئی جنگی مہم جوئی سے روکنے والے کچھ عوامل موجود ہیں جن میں پاکستان کی جانب سے سخت جوابی کارروائی کے واضح انتباہات اہم ہیں جبکہ خطے کے ساتھ ساتھ عالمی منظرنامے میں آنے والی تبدیلیاں بھی اہم ہیں جو بھارت کو ایسا قدم اٹھانے سے روک سکتی ہیں۔ یقینی طور پر موجودہ عالمی حالات بھارت کو پاکستان کے خلاف کسی فوجی کارروائی کی کھلی اجازت نہیں دیتے۔ اسلام آباد کے امریکا سے مستحکم ہوتے تعلقات، بھارت کے واشنگٹن کے ساتھ کشیدہ روابط، چین کی پاکستان کو غیر متزلزل سفارتی و عسکری حمایت اور پاکستان-سعودیہ اسٹریٹجک دفاعی معاہدے نے خطے کی جغرافیائی سیاسی صورت حال کو بھارت کے لیے منفی رخ دیا ہے۔اگر مئی میں بھارت کو پاکستان پر حملوں کے لیے عالمی حمایت نہیں ملی تھی تو بدلے ہوئے موجودہ عالمی ماحول میں اس کے لیے ایسی حمایت حاصل کرنا اور بھی مشکل ہوگا۔ تاہم ایک مخالف نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ بھارت اس بدلے ہوئے عالمی ماحول میں ’طاقت کے استعمال‘ (جو اب اس کے لیے ایک ’نیا معمول بنتا جا رہا ہے) کو آزمانا چاہتا ہے کیونکہ دنیا میں اب اسے پہلے کی نسبت زیادہ ’قابلِ قبول‘ سمجھا جا رہا ہے۔ پاکستان کسی صورت بھی معاملات کو حالات پر چھوڑنے کا متحمل نہیں اور نہ ہی وہ اپنی حفاظت میں کوئی کمی کر سکتا ہے۔ کوئی بھی امر جیسے صدر ٹرمپ کے غزہ ‘امن منصوبے’ کے تحت مشرق وسطیٰ میں فوجی مشن، مشرقی سرحد پر پاکستان کی توجہ ہٹانے کا باعث نہیں بننا چاہیے۔ ملک کو اپنی سلامتی کو ترجیح دینی چاہیے، بجائے اس کے کہ وہ اپنے فوجی وسائل کہیں اور تعینات کرے کیونکہ ایسا کرنے سے پاکستان کو دیگر خطرات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔بھارت کو بیان بازی کے علاوہ، بھارتی میڈیا میں خارجہ پالیسی کے ماہرین اور سابق سفارت کاروں کی رائے پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ وہ بھارت کی بین الاقوامی تنہائی اور پاکستان کے مقابلے میں اس کی سفارتی برتری پر گہری تشویش ظاہر کررہے ہیں۔ پاکستان ’اپنی اسٹریٹجک حکمت عملی کو ازسرِ نو ترتیب دے رہا ہے‘، نئے اتحاد بنا رہا ہے اور ایک ایسا نیا توازن قائم کر رہا ہے جو خطے کے بدلتے ہوئے حالات کا عکاس ہے۔ اس کے بھارت پر اہم اثرات مرتب ہوں گے اور یہ بھارت کے عزائم کا امتحان بھی ہوگا۔کچھ بھارتی ’ٹرمپ کے پاکستان کی جانب جھکاؤ‘ کو لے کر فکر مند ہیں اور اسے بھارت کے خلاف دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی قرار دے رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کو بطور اتحادی کھونے پر پریشان بعض ماہرین نے بھارت کے خلاف ’دشمن طاقتوں کی صف بندی‘ کے حوالے سے خبردار کیا ہے۔ اپوزیشن پارٹی کانگریس بار بار کہتی رہی ہے کہ بھارت سفارتی طور پر تنہا ہوچکا ہے، جبکہ وہ حکومت کو بھارت-امریکا تعلقات میں کشیدگی اور عالمی اثر و رسوخ کھونے پر شدید تنقید کا نشانہ بناتی ہے۔بھارتی حکومت پر اندرونی دباؤ اسے بغیر سوچے سمجھے اقدامات کرنے پر اُکسا سکتا ہے۔ لیکن دوسری جانب پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کے متوقع غیریقینی نتائج اسے احتیاط سے کام لینے کی بھی تلقین کر سکتے ہیں۔ مختصر یہ کہ پاکستان کو ہمیشہ چوکس اور ہر ممکن صورت حال کے لیے تیار رہنا ہوگا
معرکہ حق قومی طاقت کے تمام عناصر کی شاندار ہم آہنگی کی مثال ہے پاکستان کا پیغام واضح ہے جارحیت کا بھرپور اور فیصلہ کن جواب دیا جائے گامعرکہ حق کا فیصلہ کن مرحلہ آپریشن بنیان مرصوص کی صورت میں 6 مئی سے 10مئی تک جاری رہا اور افواج پاکستان کی تاریخی فتح کے ساتھ مکمل ہوا ، پہلگام واقعہ سے جنم لینے والی پاک بھارت کشیدگی 22 اپریل سے دس مئی تک معرکہ حق کے نام سے تاریخ میں امر ہوگئی ہے معرکہ حق میں بھارتی فوجی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا گیا، 6 اور 7 مئی کی رات بھارتی حملوں میں معصوم شہری شہید ہوئے، پاک فوج نے وعدے کے مطابق بھارتی دراندازی کا حساب چکا دیا، اللہ تعالیٰ کی نصرت سے دشمن کو فیصلہ کن جواب دیا پاک فوج کے تمام افسران، جوان اور شہداء خراج تحسین کے مستحق, قوم کی بھرپور اخلاقی حمایت, پاکستانی نوجوان سائبر و اطلاعاتی جنگ میں ہراول دستہ بنے، میڈیا نے بھارتی پراپیگنڈے کے خلاف فولادی دیوار کا کردار ادا کیا، سفارتکاروں نے عالمی فورمز پر پاکستان کا مقدمہ جاندار انداز میں لڑا، مقامی سائنسدانوں اور انجینئرز کی ٹیکنالوجی جنگ میں کارگر ثابت ہوئی، تمام سیاسی قیادت نے قومی یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔وزیراعظم اور کابینہ نے تاریخ ساز فیصلے کیے، آپریشن میں تینوں افواج کی زبردست ہم آہنگی اور جدید حکمت عملی، فضائی، زمینی، بحری اور سائبر جنگ کا مربوط استعمال کیا گیا، بھارت کے 26 فوجی اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا گیا، بھارتی اڈے، براہموس ڈپو، اور S-400 سسٹمز کو بھی نشانہ بنایا گیا، ایل او سی پر بھارتی چوکیاں اور توپ خانے خاموش کرا دیے گئے، پاکستانی ڈرونز نے بھارت کے حساس شہروں پر مسلسل پرواز کی، پاک فوج کی سائبر کارروائیوں نے بھارتی انفراسٹرکچر کو عارضی مفلوج کیا، سرجیکل اسٹرائیکس میں سویلین آبادی کو نقصان سے بچایا گیا بھارت کے ساتھ ساتھ اس کے پراکسیز نے بلوچستان و خیبرپختونخوا میں دہشتگردی بڑھائی، مغربی محاذ پر دہشتگردوں کے خلاف کامیاب جوابی کارروائیاں کیں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے پاک افغان سرحد پر افغان طالبان، فتنۃ الہندوستان اور فتنۃ الخوارج کی جانب سے اشتعال انگیزی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم نے کُرم سیکٹر میں افغان طالبان کے حملے کو ناکام بنانے پر سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ افغان طالبان کو ان کی بلا اشتعال جارحیت کے جواب میں پاک فوج نے بھرپور جواب دیا ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ملکی سالمیت کا بہر صورت دفاع کیا جائے گا افغانستان کی سرزمین کا پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات کے لیے استعمال ہونا انتہائی قابل مذمت ہےواضح رہے کہ پاک-افغان بارڈر پر افغانستان کی طرف سے بِلا اشتعال فائرنگ پر پاک فوج نے بھرپور جواب دیتے ہوئے کئی چیک پوسٹوں کو تباہ، متعدد افغان طالبان اور خارجیوں کو ہلاک کردیا جب کہ افغان طالبان ساتھیوں کی لاشیں چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور ہوگئے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا تھا کہ 15 اکتوبر 2025 کو علی الصبح افغان طالبان نے بلوچستان کے علاقے اسپن بولدک میں 4 مختلف مقامات پر بزدلانہ حملے کیے، جنہیں پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے بھرپور اور مؤثر انداز میں ناکام بنا دیا، اس دوران 15 سے 20 افغان طالبان ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ اسپن بولدک کا واقعہ منفرد یا الگ نوعیت کا نہیں ہے، 14 اور 15 اکتوبر کی شب افغان طالبان اور فتنۃ الخوارج نے خیبر پختونخوا کے کُرم سیکٹر میں پاکستانی سرحدی چوکیوں پر حملے کی کوشش کی تھی، جسے پاکستانی فورسز نے بہادری سے پسپا کر دیا تھا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق جوابی کارروائی میں افغان چوکیوں کو بھاری نقصان پہنچا اور دشمن کی 8 چوکیوں کے علاوہ 6 ٹینک بھی تباہ کیے گئے جبکہ 25 سے 30 دہشت گرد مارے جانے کی اطلاعات ملی ہیں۔ اس طرح منگل اور بدھ کو افغان طالبان اور فتنۃ الخوارج کے 50 کے لگ بھگ حملہ آور ہلاک کیے گئے تھے۔ یاد رہے 11اکتوبر اور 12 اکتوبر کی درمیانی شب جھڑپیں اس وقت شروع ہوئی تھیں، جب افغان طالبان نے الزام لگایا تھا کہ پاکستان نے گزشتہ ہفتے افغان دارالحکومت پر فضائی حملے کیے تھے
کنڑ، ننگرہار، پکتیکا، خوست اور ہلمند کے طالبان حکام نے بھی جھڑپوں کی تصدیق کی تھی۔پاکستان نے حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن مخالف فریق پر زور دیا تھا کہ ٹی ٹی پی کو اپنی سرزمین پر پناہ دینے سے باز رہے۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق پاک فوج کی جوابی کارروائی میں کئی افغان فوجی مارے گئے اور عسکری گروہ مؤثر اور شدید جوابی کارروائی کے باعث پسپا ہو گئے تھے۔ قبل ازیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ ’جنگیں ختم کرنے میں ماہر‘ ہیں اور وہ امن کے اقدامات پر نوبیل انعام حاصل کرنے کے خواہشمند نہیں ، سنا ہے پاکستان اور افغانستان میں جنگ جاری ہے، یہ معاملہ دیکھنا ہوگا۔ واشنگٹن میں مشرق وسطیٰ روانگی کے موقع پر ایئر فورس ون میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اس دیرینہ دعوے کو دہرایا کہ ان کے ٹیرف کے خطرات نے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ کو روکنے میں مدد کی اور کہا کہ ان کی سفارت کاری کا مقصد ایوارڈ جیتنا نہیں بلکہ جانیں بچانا ہے غزہ کی جنگ ختم ہو چکی ہے اور اسرائیل و حماس کے درمیان جنگ بندی کو اپنی صدارت کے دوران ’آٹھویں جنگ‘ قرار دیا جو انہوں نے ختم کرائی، امریکی صدر نے عالمی تنازعات میں اپنی ثالثی کے ریکارڈ پر فخر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت نے متعدد عالمی جھگڑے حل کیے ہیں۔ یہ میری آٹھویں جنگ ہوگی جو میں نے ختم کرائی، اور سنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک جنگ جاری ہے، مجھے واپس جانا ہوگا، میں ایک اور کام کر رہا ہوں، کیونکہ میں جنگیں ختم کرنے میں ماہر ہوں‘ ان کے یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے جب پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر کشیدگی بڑھ گئی ہے 11 اور 12 اکتوبر کی درمیانی شب افغان طالبان نے پاکستان پر بلااشتعال حملے کیے جن کا پاک افواج نے بھرپور انداز میں جواب دیا، جوبی کارروائیوں میں 200 سے زائد افغان طالبان اور خارجی ہلاک کر دیے گئے، فائرنگ کے تبادلے میں پاک فوج کے 23 سپوت شہید اور 29 زخمی ہوئے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے ان تنازعات کا بھی ذکر کیا جن کے بارے میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے حل کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’بھارت اور پاکستان کے بارے میں سوچیں، ان جنگوں کے بارے میں سوچیں جو برسوں سے جاری تھیں، ایک 31 سال، ایک 32 سال، ایک 37 سال تک جاری رہی، لاکھوں لوگ مارے گئے، اور میں نے ان سب کو، زیادہ تر، ایک دن میں ختم کرا دیا، یہ کافی اچھا ہے‘ امریکی صدر نے کہا کہ ’یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے، میں نے لاکھوں زندگیاں بچائیں، نوبیل کمیٹی کے انصاف کے مطابق یہ 2024 کے لیے تھا، لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ استثنیٰ دیا جا سکتا ہے، کیونکہ 2025 میں بہت سے کام مکمل اور شاندار طریقے سے ہوئے، لیکن میں نے یہ نوبیل کے لیے نہیں کیا، میں نے یہ جانیں بچانے کے لیے کیا‘ان کا کہنا تھا کہ سفارت کاری نہیں بلکہ اقتصادی دباؤ نے انہیں بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ رکوانے میں مدد دی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’میں نے صرف ٹیرف لگا کر کئی جنگیں ختم کرا دیں، مثال کے طور پر، بھارت اور پاکستان کے درمیان، میں نے کہا کہ اگر تم جنگ لڑنا چاہتے ہو اور تمہارے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں، تو میں تم دونوں پر بڑے ٹیرف لگاؤں گا، 100 فیصد، 150 فیصد، 200 فیصد، میں نے کہا میں ٹیرف لگا رہا ہوں، اور میں نے وہ مسئلہ 24 گھنٹوں میں حل کرا دیا، اگر میرے پاس ٹیرف نہ ہوتے، تو تم کبھی وہ جنگ ختم نہ کرا پاتے‘سکیورٹی ذرائع کے مطابق پاک فوج کی جانب سے افغان طالبان کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جارہا ہے اور اسپن بولدک چمن سیکٹر میں پاک افواج کی جوابی کارروائی پر افغان طالبان نے فائر بندی کی درخواست کی ہے۔ افغان طالبان اور فتنہ الخوارج کے اہداف کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جس میں متعدد افغان طالبان پوسٹوں،ٹینکس اور عملے کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ پاک فوج نے اسپن بولدک میں افغان طالبان اور فتنہ الخوارج کے حملوں کو ناکام بناتے ہوئے 20 طالبان کو ہلاک کردیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق افغان طالبان اور فتنہ الخوارج کی جانب سے بلوچستان کے علاقے اسپن بولدک میں 4 مقامات پر حملے کیے گئے تاہم پاک فوج کی جوابی کارروائی نے افغان طالبان کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ افغان طالبان اور فتنہ الخوارج کے دہشتگرد دیہات اور معصوم لوگوں کو بطورڈھال استعمال کررہے ہیں، افغان طالبان اور فتنہ الخوارج کے دہشتگردوں نے پاک افغان دوستی گیٹ کو اپنی طرف سے اڑا دیا، یہ عمل ان کے تجارتی و قبائلی تعلقات کے بارے میں ناپختہ سوچ ظاہر کرتا ہے آئی ایس پی آر کے مطابق علاقے کی صورتحال اب بھی کشیدہ اور غیر یقینی بتائی جا رہی ہے، اطلاعات ہیں کہ فتنہ الخوارج اور طالبان مزید حملوں کی تیاری میں ہیں اور یہ حملہ اسپن بولدک تک محدود نہیں بلکہ ایک وسیع منصوبے کا حصہ تھا پاک فوج نے فتنہ الخوارج اور افغان طالبان کےکل رات کرم سیکٹر پر حملے کی کوشش بھی ناکام بنائی، جوابی حملے میں افغان طالبان کی 8 پوسٹیں، 6 ٹینک بمعہ عملہ تباہ کیں اور 25 سے 30 طالبان اور فتنہ الخوارج کے جنگجو ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق یہ کہنا کہ حملہ پاکستان نے شروع کیا، سراسر جھوٹ اور بے بنیاد دعویٰ ہے، طالبان حکومت کے جھوٹے دعوے معمولی حقائق سے بھی غلط ثابت کیے جاسکتے ہیں پاکستانی مسلح افواج ملکی خودمختاری کے دفاع کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں، پاکستان پر کسی بھی جارحیت کا بھرپور اور مؤثر جواب دیا جائے گا۔ وزارت خارجہ پاکستان کے مطابق
طالبان رجیم کے درمیان طالبان کی درخواست پر دونوں کی باہیمی رضامندی سے آج شام چھ بجے سے اگلے 48 گھنٹوں کیلئے، عارضی طور پر ، سیز فائر کا فیصلہ کیا گیا ہے -اس دوران دونوں اطراف تعمیری بات چیت کے ذریعے اس پیچیدہ مگر قابل حل مسئلے کا مثبت حل تلاش کرنے کی مخلصانہ کوشش کرینگے













