اسلام آباد (ٹی این ایس) 27ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سےمنظور, آئین پاکستان کا حصہ بن گئی

 
0
16

اسلام آباد (ٹی این ایس)27ویں ترمیم پاکستان کے آئین کا حصہ بن گئی ہے ۔ میثاق جمہوریت پر عملدرآمد کرنے کے لیے ستائیسویں آئینی ترمیم کی گئی ہے ترمیم کا مقصد عدلیہ کو مضبوط کرنا اور دفاعی نظام کو بہتر بنانا ہے اس ترمیم کے ذریعے فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئینی حیثیت دینے کی کوشش کی گئی ہےجس سے دفاعی ڈھانچے میں شفافیت اور آئینی بنیادیں مضبوط ہوں گی فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئینی حیثیت دینے سے اس کے اختیارات اور مدت کا تعین آئین میں ہوگا۔ اس ترمیم کا مقصد دفاعی ڈھانچے کو مضبوط اور شفاف بنانا ہے۔ اس ترمیم کا مقصد عدلیہ کو مضبوط کرنا ہے، تاکہ وہ آئینی معاملات میں بہتر طریقے سے کام کر سکے سینیٹ سے منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں بھی 27ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت منظور کرلی گئی، آئینی ترمیم کی حمایت میں 234 ارکان نے ووٹ دیا جبکہ 4 نے مخالفت میں ووٹ کیا اس سے قبل 27ویں آئینی ترمیم کی تمام 59 شقیں دو تہائی اکثریت سے منظور کی گئیں، جس کے بعد حتمی منظوری دی گئی۔ ووٹنگ کا عمل ڈویژن سے ہوا، ترمیم کے حق اور مخالفت میں ووٹ کرنے والے اراکین کو الگ الگ لابی میں جانے کی ہدایت کی گئی۔ قومی اسمبلی میں 27ویں آئینی ترمیم منظور ہوگئی، ترمیم کے حق میں 234 اور مخالفت میں چار ووٹ پڑے، وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آج اس ایوان نے بڑی یکجہتی کا اظہار کیا، 27ویں ترمیم پر بھرپور مشاورت ہوئی اور آج یہ آئین کا حصہ بن گئی۔ جو چیز وفاق کو کمزور کرے تو وہ کتنی ہی اچھی ہو وہ پاکستان کے لیے مفید نہیں، کالاباغ ڈیم بڑا شاندار معاشی منصوبہ ہے مگر ہماری قومی یکجہتی سے اوپر کوئی چیز نہیں، اگر کالا باغ ڈیم سے وفاق کو نقصان پہنچے تو میں اس کے حق میں نہیں۔ میثاق جمہوریت میں واضح لکھا ہے کہ آئینی عدالت بنائیں گے، چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کا مشکور ہوں، چیف جسٹس سے درخواست کی ریونیو کے کیسز جلد حل ہونے چاہئیں، اللّٰہ کا شکر ہے ریونیو سے متعلق کیسز میرٹ پر حل ہوئے، چیف جسٹس ہی سپریم جوڈیشل کونسل، جوڈیشل کمیشن اور لاء اینڈ جسٹس کمیشن کی سربراہی کریں گے۔ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں خارجہ ہاتھ ملوث ہے۔ جعفرایکسپریس واقعے میں بھی ہندوستان،کالعدم بی ایل اے ( بلوچستان لبریشن آرمی) اور ٹی ٹی پی ( تحریک طالبان پاکستان) شامل تھی۔ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں کسی رکاوٹ کوحائل نہیں ہونے دیں گے، افغان طالبان رجیم سے مسلسل کہا جارہا ہے کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کو لگام دے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہادر جوان اور افسر قربانیاں دے رہے ہیں، ہمارے بہادر جوان اور افسر مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے اپنی جانیں قربان کررہے ہیں۔ 40سال افغانوں کی مہمان نوازی کا صلہ آج دنیا دیکھ رہی ہے، دہشت گردوں کولگام دیں ہم آپ کے ساتھ مل کر چلنے کو تیار ہیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ آئینی ترمیم کی منظوری میں تعاون پر صدرآصف زرداری اور بلاول بھٹو کا شکرگزار ہوں، اور ڈاکٹرخالدمگسی، خالدمقبول صدیقی، ایمل ولی خان، فاروق ستار کا بھی مشکور ہوں۔ آئینی عدالت کے قیام کا خواب 19سال بعد پورا ہوا، میثاق جمہوریت میں بھی آئینی عدالت کا ذکر تھا۔ اختلاف کرنا اپوزیشن کا حق ہے، ہم احترام کرتے ہیں،

دشنام طرازی اورگالم گلوچ سے ہٹ کر ہمیں ملکر ملکی ترقی کیلئے کام کرنا ہوگا۔ معرکہ حق میں کامیابی کے بعدبلاول بھٹو کی قیادت نے پاکستان کامؤقف دنیا کے سامنے رکھا، پاکستان نےداخلی محاذکے ساتھ ساتھ خارجہ محاذپربھی کامیابی حاصل کی اور پاکستان کا وقارعالمی سطح پر بلند ہوا۔ آرمی چیف سیدعاصم منیر کو فیلڈ مارشل کا ٹائٹل دینا پوری قوم نے سراہا، پاکستانی ایک عظیم قوم ہیں، وہ اپنے ہیروز کو عزت دینا جانتی ہے۔ بلاول بھٹو سے مکمل اتفاق ہے کہ صوبے مضبوط ہوں گے تو وفاق مضبوط ہوگا، وہ تمام امور جن سےوفاق مضبوط ہو میں ان کا حامی ہوں۔قبل ازیں سینیٹ نے 27 ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کی تھی جبکہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی اجلاس کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔قومی اسمبلی میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعظم شہباز شریف کا پرتپاک استقبال کیاگیااور شیر آیا شیر آیا کے زبردست نعرے لگائے گئے۔ اس دوران اراکین قومی اسمبلی ان کی نشستوں کے ارد گرد جمع ہوگئے، ملاقاتیں کیں اور تصویریں بنوائیں۔اپوزیشن کی جانب سے بھی اس موقع پر مسلسل نعرے بازی کی جاتی رہی۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی سربراہی میں قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 27ویں آئینی ترمیم کی تحریک پیش کی، جس کے بعد آئینی ترامیم پر شق وار ووٹنگ کا عمل شروع ہوا۔ قومی اسمبلی میں حکومت نے 27 ویں آئینی ترمیم میں 8 نئی ترامیم پیش کیں، چار شقیں نکالنے اور چار شقیں ڈالنے کی ترامیم پیش کی گئیں۔ آئین کے آرٹیکل 6 کی شق 2 میں وفاقی آئینی عدالت کا لفظ شامل کیا گیا، آئین کے آرٹیکل 10 میں لفظ سپریم کورٹ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ آرٹیکل 176 میں ترمیم کی گئی کہ موجودہ چیف جسٹس کو ٹرم پوری ہونے تک چیف جسٹس پاکستان کہا جائے گا۔ آرٹیکل 255 شق دو میں ترمیم کی گئی کہ موجودہ ٹرم کے بعد چیف جسٹس پاکستان کی تعیناتی سے متعلق ہے، چیف جسٹس سپریم کورٹ اور چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت میں سے سینئر ترین چیف جسٹس پاکستان ہو گا۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی سید خورشید شاہ ویل چئیر پر پارلیمنٹ پہنچے۔اپوزیشن ارکان نے اسپیکر ڈائس کے سامنے دھرنا دے دیا، جے یو آئی نے مخالفت میں ووٹ دیا۔وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی اجلاس میں 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے تحریک پیش کی۔انہوں نے کہا کہ ترمیم کے خدو خال سے آگاہ کردیا تھا،سینٹ نے مشترکہ کمیٹی کے پاس کردہ بل دو تہائی سے منظور کیااور اب اس ایوان سے قانون وقواعد کے مطابق پیش کیا گیا،بار کونسل کی تجویز پر موجودہ چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی ہی چیف جسٹس آف پاکستان رہیں گے، آرٹیکل 6 کے حوالے سے آئینی عدالت کا لفظ شامل کیاگیا ہے۔ایوان بالا کے اجلاس میں اسلام آباد کچہری دھماکہ اور دیگر واقعات میں شہید ہونے والے سکیورٹی فورسز اہلکاروں و افسران اور معصوم شہریوں کیلئے فاتحہ خوانی کرائی گئی۔ بدھ کو ایوان بالا کے اجلاس میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان نے سینیٹر نور الحق قادری کو ہدایت کی کہ وہ اسلام آباد کچہری دھماکہ اور دیگر واقعات میں شہید ہونے والے سکیورٹی فورسز اہلکاروں و افسران اور معصوم شہریوں کیلئے دعا کرائیں جس پر انہوں نے دعا کرائی۔وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ ستائیسویں آئینی ترمیم کا مقصد گورننس اور انصاف کی فراہمی کو بہتر بنانا ہے، یہ کئی دہائیوں کی سوچ اور مکالمے کا نتیجہ ہے مگر افسوس پی ٹی آئی کے نزدیک پاکستان سے زیادہ ان کا لیڈر مقدم ہے، اپوزیشن اپنی یادداشت کھو چکی ہے، ان کے تمام حالات و واقعات 2022ء سے پیچھے نہیں جاتے، یہ حقائق کو پس پشت ڈال رہے ہیں، قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر اطلاعات نے کہا کہ جب یہ پارلیمان مشاورت اور سیاسی عمل کے تحت آئینی ترمیم کرنے جا رہی ہے تو یہ ان سے برداشت نہیں ہو رہا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا، قاسم خان سوری نے آئین کو پامال کیا، پارلیمنٹ کو توڑا اس وقت یہ کیوں خاموش تھے، کیا اس وقت انہوں نے یہ کہا کہ ”ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا“، اس وقت پوری پارٹی نے ایک لفظ تک نہیں بولا۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ ہم نے بھی طالب علمی کے دور میں سیاست کا آغاز کیا، اپوزیشن میں ایسے لوگ بھی بیٹھے ہیں جو کبھی ہماری جماعت سے منسلک رہے ہیں مگر نفرت کے بیج بونے والا وہ شخص کون تھا جسے اپنی ذات قومی مفاد سے زیادہ عزیز تھی، وہ کون شخص تھا جس نے ملک کے اندر نفرت کے بیج بوئے، کیا وہ آج معافی مانگے گا کہ مینار پاکستان کے نیچے کھڑے ہو کر مشرف کے ریفرنڈم کے دوران پولنگ ایجنٹ بنا، کیا وہ اس ایوان میں بیٹھ کر دستور توڑنے پر معافی مانگے گا۔ عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ یہ سیاسی لوگ نہیں ہیں، کیا انہوں نے آئین پر شق وائز کوئی تجاویز دیں۔ انہوں نے کہا کہ کاش ہمیں سیاسی اپوزیشن ملی ہوتی، ان کی سوچ 2020ء سے پہلے نہیں جاتی، ان کے دور حکومت میں ہم انہی بینچوں پر بیٹھ کر انہیں سمجھاتے تھے کہ سیاسی مخالفت کو دشمنی میں نہ بدلیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کے ساتھ چارٹر آف ڈیموکریسی کیا جس کا مقصد افہام و تفہیم کے ساتھ جمہوری عمل کو مستحکم کرنا تھا۔ وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ 2017ء میں یہ چور دروازے کے ذریعے اقتدار میں آئے، آج اس پر بھی انہیں اس ایوان میں معافی مانگنی چاہیے۔ عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ انہیں فارم 47 کی تو بات ہی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس ایوان میں ایسے لوگ بھی بیٹھے ہیں جنہیں رزلٹ تو دور کی بات اپنے گھر سے نکلنے نہیں دیا گیا تھا، کئی لوگوں کے پیارے دنیا سے رخصت ہوئے مگر ان کے جنازے نہیں اٹھانے دیے گئے۔ وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے اندر کئی دھڑے ہیں، اپنے دور میں یہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے نظر آتے تھے اور حکمرانوں کے قصیدے پڑھتے تھے مگر مشکل وقت آتے ہی پہلی فلائیٹ میں ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، آج بھی بیرون ملک بیٹھ کر اداروں کی تضحیک کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ محمود خان اچکزئی کی تقریر پر افسوس ہوا، انہوں نے ستائیسویں ترمیم پر بات کرتے ہوئے کابل کا ذکر کیا، یہ نئی روایت ہے کہ ایسی بات کرو جو افغانستان اور بھارت میں ہیڈ لائن بنے، ان کی تقریر کا خلاصہ نکالیں تو اس میں کابل کے سوا کچھ نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن میں موجود کسی شخص نے پالیمنٹری سپریمیسی یا آئینی نظام کا مطالعہ نہیں کیا، اگر کیا ہوتا تو بتاتے کہ مہذب ممالک میں ایگزیکٹو اور لیجسلیٹر کا کیا کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ویڈیو بنا کر صبح بے نور لکھنا آسان ہے مگر آئینی دستاویز پر سنجیدہ گفتگو کرنا مشکل ہے، کیا اپوزیشن نے پارلیمانی پارٹی کی جوائنٹ میٹنگ بلائی، کسی ایک شق پر مشاورت کی، نہیں کیونکہ یہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے سوا کچھ نہیں کریں گے جس چیز پر زیادہ ویوز آئیں گے اور تماشا لگے گا یہ ایوان میں وہ بات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ 27 ویں آئینی ترمیم پر بات چیت آج سے شروع نہیں ہوئی بلکہ چارٹر آف ڈیموکریسی کے وقت سے جاری ہے،گزشتہ بیس سالوں سے آئینی عدالتوں کی بات کی جا رہی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ وانا کے اندر پانچ سو سے زائد طلباء کو بازیاب کرایا گیا مگر اپوزیشن نے اس پر کوئی بات نہیں کی، ان کے لیڈر کے ایکس اکاؤنٹ پر غیر ملکی شخصیات کے لئے تعزیتی پیغامات تو آتے ہیں مگر میجر عدنان جیسے شہدا پر دو لفظ بھی نہیں کہتے، غزہ کے مظلوموں پر خاموشی اختیار کرتے ہیں، مذہب کی بات کرتے ہیں مگر اپنے کردار سے انکار کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات میں انہی کے لیڈر نے ریڈ لائنز کراس کرنے کا حکم دیا، شہدا کی یادگاریں مسمار کی گئیں، دفاعی اداروں پر حملے ہوئے، کور کمانڈرہاؤس، ریڈیو پاکستان اور دیگر عمارتوں پر حملے کئے گئے، کارکنان کو اکسایا گیا مگر بعد میں ان کی کوئی خبر نہ لی گئی، یہ سیاسی کارکنوں کو استعمال کر کے اپنے مفادات کے لئے جرائم پر اکساتے ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ اپوزیشن نے بل نہیں پڑھا، کسی شق پر تجویز نہیں دی، کسی کمیٹی میں شرکت نہیں کی، ان کی سیاست صرف شور مچانے اور ویوز بڑھانے تک محدود ہے، ان کی موریلیٹی 2022ء کے بعد کی ہے، شہریار آفریدی نے بڑی اچھی باتیں کیں اور ملکی سیاست پر روشنی ڈالی، کیا ہی اچھا ہوتا کہ جب اس ملک میں خواتین کو جیلوں میں ڈالنے کا سلسلہ ان کی پارٹی نے شروع کیا تھا تو اس پر بھی تھوڑی بات کرلیتے، شنی ڈالی، کیا ہی اچھا ہوتا کہ جب اس ملک میں خواتین کو جیلوں میں ڈالنے کا سلسلہ ان کی پارٹی نے شروع کیا تھا تو اس پر بھی تھوڑی بات کرلیتے، ان کی اس فسطائیت رجیم سے پہلے ملک میں یہ رواج نہیں تھا کہ مائوں بہنوں بیٹیوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جائے، ہمارے معاشرے میں ماں بہن بیٹی کی بڑی قدر ہے مگر یہ کام ان کی حکومت نے شروع کیا، ہم تب بھی انہیں سمجھاتے تھے کہ وقت ایک سا نہیں رہتا مگر ان کو یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی، یہ آج بھی اسی روش پر قائم ہیں۔ وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ مئی میں جنگ کے بعد پاکستان کی دنیا بھر میں عزت میں اضافہ ہوا ، ہم جہاں جاتے ہیں لوگ پاکستان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں

۔سعودی عرب کے ساتھ سٹریٹجک میوچل ڈیفنس معاہدہ ہوا، اکنامک فریم ورک لانچ ہوا، ریاض شہر میں 25 کلو میٹر تک پاکستان کے پرچم لگے دکھائی دیے اور پاکستان کے سبز پاسپورٹ کو عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف اکتوبر کے مہینے میں پاکستان کو 3.4 ارب ڈالر کی ترسیلات آئیں جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 11 فیصد زیادہ ہیں، پی ٹی آئی نے بیرون ملک پاکستانیوں کو بائیکاٹ کی کال دی تھی کہ پاکستان میں ترسیلات زر نہ کریں لیکن ان کی اس کال کے باوجود ترسیلات میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ آج جنگ جیتنے کی وجہ سے پاکستان کی عزت ہے، معیشت بحال ہوئی ہے، ایک دلیر اور جرات مند قیادت موجود ہے ورنہ انہی بنچوں پر کھڑے ہوکر بانی پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ میں کیا کروں حملہ کردوں مگر قوم نے ثابت کیا کہ جب قیادت مضبوط ہو،فیلڈ مارشل عاصم منیر جیسا لیڈر ملٹری قیادت کو میسر ہو تو پھر وہی ہوتا ہے جو معرکہ حق میں بھارت کے ساتھ ہوا۔ اب افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی، وانا کے طلباء کو جس جرات مندی سے بازیاب کرایا گیا اس پر افسران و جوانوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ اپوزیشن نے نہ آئین پڑھا ہے نہ ستائیسویں ترمیم، صرف پچھلے چار سالوں کی داستان ہے جس پر چیخ و پکار اور رونا دھونا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں ساڑھے بارہ سال سے پی ٹی آئی کی حکومت ہے مگر نہ کوئی یونیورسٹی بنی نہ ہسپتال، ان کے وزیراعلیٰ وانا واقعہ کے وقت کرکٹ کھیل رہے تھے۔ یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں، ستائیسویں آئینی ترمیم کا مقصد گورننس اور انصاف کی فراہمی کو بہتر بنانا ہے، یہ کئی دہائیوں کی سوچ اور مکالمے کا نتیجہ ہے مگر افسوس ان کے نزدیک پاکستان سے زیادہ ان کا لیڈر مقدم ہے، یہ کہتے ہیں کہ فلاں نہیں تو پاکستان نہیں، شخصیت پرستی میں ان کو ایسی سوچ بھی کیسے آجاتی ہے، یہ پاکستان سے آگے اپنے لیڈر کو رکھتے ہیں، یہی سوچ فسطائیت کی بنیاد ہے۔ وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ پاکستان کی بقا کے لئے ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔قبل ازیں قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ میثاق جمہوریت میں کیے وعدے پورے کررہے ہیں اور میثاق جمہوریت کے نامکمل وعدوں کی تکمیل یقینی بنارہے ہیں۔ آج ہم جو آئینی ترمیم لارہےہیں،ہمارے پاس اکثریت ہے، کسی کا باپ بھی 18 ویں ترمیم کو ختم نہیں کرسکتا۔ آئینی ترمیم کی منظوری کثرت رائے سے نہیں،اتفاق رائےسے ہوتی ہے، 26ویں آئینی ترمیم بھی اتفاق رائے سے منظور کرائی تھی، اور 18 ویں ترمیم بھی تمام جماعتوں نے اتفاق رائے سے منظورکرائی، 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو حقوق دیے گئے۔ ہم نے بھارت کو عبرتناک شکست دی، فیلڈمارشل کی کارکردگی کو پوری دنیا میں سراہا جارہا ہے، فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئینی تحفظ دے رہے ہیں۔ دہشت گردی ملک میں ایک بار پھر سر اٹھا رہی ہے، دہشتگردی اور ملک دشمنوں کے خلاف سب کو یکجا ہونا ہوگا، قوم فتنہ الخواج کے خلاف متحد ہے۔ دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کرتا ہوں، ہم نے پہلے بھی دہشت گردوں کا مل کر بھرپور مقابلہ کیا تھا، ہم نے شہادتیں دیکر دہشتگردوں کو پہلے بھی شکست دی اورآئندہ بھی دینگے۔ اپوزیشن کا صرف یہ کام نہیں کہ اپنے لیڈرکےلیے رونا دھونا رکھے، اپوزیشن کا کام ہے کہ وہ حکومت پر نظر رکھے، اپوزیشن کو قانون سازی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ن لیگ، اور پی پی نے افتخار چوہدری کے سوموٹوز کو بھگتا، آج ہم ماضی کی غلطی کو درست کرنےجارہےہیں، 27ویں آئینی ترمیم کے بعد اب کوئی ازخود نوٹس نہیں ہوگا۔ ہماری تجویزماننے پر ہم حکومت کے شکرگزار ہیں، 27ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کرنے والے بھی مانیں گے یہ بڑی کامیابی ہے۔ آئینی عدالت میں تمام صوبوں کی برابری کی بنیاد پر نمائندگی ہوگی۔ بلاول بھٹو کی تقریر کے دوران اپوزیشن کی جانب سے شدید نعرے بازی کی حکومت کو ترمیم کیلئے 224 اراکین کی حمایت درکار تھی، خورشید شاہ کے اجلاس میں شریک ہونے کے بعد حکومت کے پاس 234 اراکین ہوگئے تھے