اسلام آباد (ٹی این ایس) پنجاب میں ٹریفک قوانین کی سختی، ضرورت یا ظلم؟

 
0
7

اسلام آباد (ٹی این ایس) پاکستان میں جب بھی کوئی نیا قانون بنایا جاتا ہے، خاص طور پر ایسا قانون جو عوام کی جان بچانے کے لیے ہو، تو سب سے پہلے واویلا وہ لوگ شروع کرتے ہیں جنہیں نہ قانون کا پتہ ہوتا ہے نہ اپنی ذمہ داری کا۔ پنجاب میں ٹریفک قوانین کے نئے جرمانوں کا نفاذ بھی اسی مزاحیہ اور جہالت بھرے ردعمل کا شکار ہوا۔ عوام کی ایک بڑی تعداد بغیر پڑھے، بغیر سمجھے، صرف سوشل میڈیا کی پوسٹس دیکھ کر حکومت پر تنقید کر رہی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ قوانین عوام کی حفاظت کے لیے ہی بنائے گئے ہیں۔

پنجاب میں ٹریفک حادثات کی بڑھتی ہوئی شرح کسی سے چھپی ہوئی نہیں۔ روزانہ درجنوں لوگ ہسپتالوں میں پہنچتے ہیں، صرف اس لیے کہ کسی نے ہیلمٹ نہیں پہنا، کسی نے غلط طرف سے گاڑی چلائی، کسی نے موبائل فون پر بات کرتے ہوئے دوسرے کی جان لے لی، اور بعض تو بغیر لائسنس کے گاڑی سڑک پر لے آتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں جرمانے سخت نہ ہوں تو پھر لوگ کس طرح سیدھے ہوں گے؟

یہ نئے جرمانے مذاق نہیں، بلکہ جان بچانے والی پالیسی ہے۔ عوام اسے حکومت کی “زیادتی” کہہ رہی ہے لیکن حقیقت میں یہ عوام کی اپنی جان کی ضمانت ہے۔ قانون پر عمل کریں گے تو یہ پیسے آپ کی جیب میں رہیں گے، ورنہ حادثات میں جان سے ہاتھ دھونے والوں کو کون واپس لائے گا؟

اب قارئین کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ بھی جان لیں کہ کس خلاف ورزی پر کس گاڑی کا کتنا جرمانہ مقرر کیا گیا ہے، تاکہ کسی کو غلط فہمی نہ رہے اور ہر شہری اپنی ذمہ داری کو سمجھے:

اوور اسپیڈنگ: موٹر سائیکل 2000، رکشہ 3000، کار 5000، کمرشل 10000، پبلک سروس 15000۔

رات کے وقت لائٹس بند رکھنا: موٹر سائیکل 2000، کار 5000، بھاری گاڑیاں 15000 تک۔

غلط طرف گاڑی چلانا: موٹر سائیکل 3000، رکشہ 3000، کار 5000، کمرشل 10000، بسیں 15000۔

بغیر نمبر پلیٹ: موٹر سائیکل 5000، کار 8000، ہیوی 15000۔

سنگل توڑنا: عام گاڑی 5000، بڑی گاڑیوں کے لیے 15000۔

ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون استعمال کرنا: تمام گاڑیوں کے لیے 3000 سے 15000 تک۔

ہارن کا غلط استعمال: 3000 سے 15000 تک۔

ہیلمٹ نہ پہننا: موٹر سائیکل کے لیے 2000۔

گاڑی یا بائیک سے دھواں چھوڑنا (پولوشن): 3000 سے 15000 تک۔

ہٹ اینڈ رن: سب سے بڑا جرمانہ—20000 سے 150000 تک۔

بغیر لائسنس گاڑی چلانا: 5000 سے 20000 تک۔

اوورلوڈنگ: 3000 سے 15000 تک۔

ناقابلِ استعمال گاڑی چلانا: 20000 سے 150000 تک۔

لیکن مسئلہ یہ نہیں کہ جرمانہ کتنا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوام میں شعور کتنا ہے۔ پاکستان کے لوگ بجائے یہ دیکھنے کے کہ یہ قانون کس کی بہتری کے لیے ہے، الٹا حکومت کا مذاق بنا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر میمز، جملے، طنز اور واویلا، ہر طرف ایک ہی بات، “جرمانے بڑھا دیے گئے، یہ ظلم ہے۔”

ظلم کیا ہے؟ ظلم یہ ہے کہ ایک باپ موٹر سائیکل پر اپنے بچوں کو بغیر ہیلمٹ بٹھا کر سڑک پر لے جائے۔ ظلم یہ ہے کہ کوئی آدمی موبائل فون پر کال سنتے ہوئے دوسرے کی گاڑی میں گھس جائے۔ ظلم یہ ہے کہ غلط سائیڈ آنے والا آپ کے پورے گھر کا مستقبل ختم کر جائے۔ ظلم یہ ہے کہ بغیر لائسنس کے کوئی بچہ سڑک پر نکل آئے اور کسی خاندان کو ہمیشہ کے لیے اجاڑ دے۔

جرمانے بڑھانا ظلم نہیں، اصل ظلم قانون کی خلاف ورزی ہے۔ یہ قوانین آپ کو روکنے کے لیے نہیں، آپ کی جان بچانے کے لیے ہیں۔ یہ جرمانے حکومت کے خزانے کے لیے نہیں، آپ کی زندگی کی قیمت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔

پاکستان میں عوام اگر تھوڑا سا شعور دکھا دے، قانون کو دشمن نہ سمجھے، اپنے آپ کو ذمہ دار شہری بنائے، تو نہ جرمانے لگیں گے نہ حادثات ہوں گے۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں لوگ پہلے قانون توڑتے ہیں، پھر قانون پر اعتراض کرتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ جرمانے سخت ہونے چاہییں، اور اگر ان پر سختی سے عمل کیا جائے تو چند ہی مہینوں میں سڑکوں پر نظم و ضبط نظر آنا شروع ہوجائے گا۔ دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک میں جرمانے سخت ہیں، تب ہی لوگ سیدھے ہیں۔ ہم نے اگر ترقی کرنی ہے تو قانون پر عمل ضروری ہے—ورنہ حادثے، موتیں اور لاپرواہی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔

آخر میں بات صاف ہے: یہ قوانین حکومت کا احسان نہیں، عوام کی اپنی بھلائی ہیں۔ جو لوگ اس کا مذاق اڑا رہے ہیں، وہ دراصل اپنی ہی جان اور اپنی ہی نسلوں کے مستقبل کا مذاق بنا رہے ہیں۔