راولپنڈی (ٹی این ایس) پنجاب ٹریفک وارڈنز: ریونیو مشین یا انسان؟

 
0
83

راولپنڈی (ٹی این ایس) پنجاب ٹریفک پولیس صوبے کے ان اہم اداروں میں شمار ہوتی ہے جو نہ صرف شہری نظم و ضبط کو برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں بلکہ ہر ماہ حکومتِ پنجاب کو اربوں روپے کا ریونیو بھی فراہم کرتے ہیں۔ تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہی ادارہ اپنے فرنٹ لائن پر موجود ٹریفک وارڈنز کی فلاح و بہبود کے حوالے سے شدید تنقید کی زد میں ہے۔
ٹریفک وارڈنز سال کے بارہ مہینے شدید موسمی حالات میں کھلے آسمان تلے ڈیوٹی انجام دیتے ہیں۔ سخت گرمی، تیز دھوپ، موسلا دھار بارش اور یخ بستہ سردی میں سڑکوں کو رواں رکھنا معمولی کام نہیں، مگر اس کے باوجود ان کے لیے نہ مناسب آرام گاہیں دستیاب ہیں اور نہ ہی پرسان حال سہولیات۔ نتیجتاً یہ فورس شدید ذہنی دباؤ اور مختلف جسمانی بیماریوں کا شکار ہو رہی ہے۔
حالیہ رپورٹس کے مطابق گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران پنجاب میں 8 ٹریفک وارڈنز دل کے دورے کے باعث جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ ان کی عمریں 40 سے 44 سال کے درمیان تھیں، جو اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ مسلسل ذہنی دباؤ، طویل ڈیوٹی اوقات اور غیر متوازن طرزِ زندگی کس قدر خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔
ٹریفک وارڈنز کا بنیادی مقصد ٹریفک مینجمنٹ اور شہری سہولت تھا، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ ان کی ذمہ داریوں کا محور صرف ریونیو جنریشن تک محدود ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ بھاری چالان کی پالیسیوں اور اہداف کے دباؤ نے ان کی پیشہ ورانہ آزادی کو محدود کر دیا ہے۔ چالان کرنے کی صورت میں عوامی ردعمل اور عدم تعاون کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جبکہ نرمی برتنے پر سینئر افسران کی جانب سے باز پرس اور ذہنی دباؤ برداشت کرنا پڑتا ہے۔
مزید برآں، واضح اور مؤثر لیو میکانزم کی عدم موجودگی نے ٹریفک وارڈنز کی گھریلو زندگی کو بھی متاثر کیا ہے۔ مسلسل ڈیوٹی اور ذہنی دباؤ خاندانی تنازعات کو جنم دے رہے ہیں، جو بالآخر صحت کے سنگین مسائل، بالخصوص دل کے امراض، کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔
یہ صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ حکومتِ پنجاب اور اعلیٰ حکام محض ریونیو کے اعداد و شمار پر اکتفا کرنے کے بجائے ٹریفک وارڈنز کو ایک انسانی سرمایہ سمجھیں۔ باقاعدہ میڈیکل چیک اپ، ذہنی صحت کے پروگرام، مناسب آرام، شفاف ڈیوٹی شیڈول اور مؤثر ویلفیئر پالیسیوں کا نفاذ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اگر بروقت اصلاحی اقدامات نہ کیے گئے تو خدشہ ہے کہ یہ مسئلہ محض ایک محکمانہ معاملہ نہیں رہے گا بلکہ ایک سنگین انسانی بحران کی شکل اختیار کر لے گا۔

سوال بدستور موجود ہے: کیا ٹریفک وارڈنز کو محض ریونیو کا ذریعہ سمجھا جاتا رہے گا، یا انہیں وہ عزت اور سہولتیں بھی دی جائیں گی جن کے وہ بحیثیت انسان حق دار ہیں؟