ماں، عظمتوں اور نعمتوں کا مرکب

 
0
1026

عاصمہ فضیلت

ہر لحظہ مامتا کی  خوشبو اور سختیوں کے درمیان نرمیوں کی  چاندنی بکھیرتی،کسی کی آغوش ،کسی کا سایہ، کسی کا تکیہ ،کسی کا کندھا ،دنیا جہاں کے تھکے ہارے لوگوں کا مسکن ،ماں۔  بے سرحد  پناہ گاہ،سہنے والی سہنے نہ دینے والی، خود جل کر،پگھل کر اپنے بچوں کو روشنی فراہم کئے رکھنے والی جو تقریبا ہر درد کی درماں ہے، وفا کی پیکرِلازوال، محبت کا موسمِ بے خزاں، عظمتوں،نعمتوں اور ایثار وقربانی کا مرکب،ماں۔ جب یہ تمام لفظ یکجا ہو جائیں تو ماں بن جاتا ہے  ،تین حروف پر مبنی یہ لفظ  جو شایددنیائے انسانیت کی تمام ضروریات کو پورا کرنے والی  صفات کو اپنے اندر سموئے ہوئی ہے۔پیغمبروں کے بعد ایک ماں ہی ہوسکتی ہے جس کی ذات  ان تمام صفات  کی حامل ہوسکتی ہے۔ غریب ہو یا امیر، غرب سے ہو یا شرق سے، اِس مذہب سے ہو یااُس تہذیب سے، ماں ،ماں ہی رہتی ہے۔ خالقِ کائنات نے اسے ان چیزوں سے مبرا اور اپنی صفات کے ساتھ مستقل اور یکتا بنایا ہوا ہے۔

ماں کہنے کو تو ایک چھوٹا سا لفظ ہے،وزن میں جتنا ہلکا صفات میں اتنا ہی بھاری کہ اسکو لفظوں کے پیمانوں سے مکمل طور پر احاطہ کرنا  ممکن نہیں۔ماں اللہ تعالی کا ایک عظیم تحفہ بلکہ عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ ماں کی اصل خوبصورتی اس کی لازوال  محبت اور اس محبت کی وسعت اور تسلسل  ہے ،ما ں ایک بہت بڑی ہستی ہے ، ایک دعا ، ایک سمندر ہے  کہ جس میں اولاد کے لئے محبت ، تحفظ، احساس کے جذبے ٹھاٹھیں مارتے ہیں ۔جس طرح ا للہ تعالی کی نعمتوں کا شمار کرنا ناممکن ہے اسی طرح ماں کی ممتا کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔لفظ ماں زبان پر آتے ہی پورے وجود میں اس کی محبت دوڑنے لگتی ہے، ماں سے زیادہ محبت کرنے والی نہ کوئی ہستی پیداہوئی ہے نہ کوئی ہو گی۔ آندھی چلے یا طوفان آئے اس کی محبت میں کبھی کمی نہیں آتی ۔ روز اول کی طرح اس کے وجودسے محبت کی نہریں بہتی رہتی ہیں۔وہ کڑی دھوپ میں بھی اپنی اولاد کے سر پر سائبا ں بن کر اس کی تپش سے بچا لیتی ہے ۔زمانے کی سرد ہواوں میں بھی اس کی گرم گود سردی کا احساس نہیں ہونے دیتی۔خود بے شک کانٹوں پہ چلتی رہے ، اولاد کو ہمیشہ پھولوں کے بستر پر سلاتی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اولاد اپنی ماں کی اس ایک رات کا قرضہ بھی زندگی بھر نہیں چکا سکتا جس میں وہ اسے خشک جگہ سلاتی ہے اور خود اسکی جگہ گیلی جگہ سوتی ہے۔

 ماں دنیا جہاں کے دکھوں کو اپنے آنچل میں سمیٹے لبوں پر مسکراہٹ لیے رواں دواں رہتی ہے ۔لیکن اپنی اولاد کے چہرے پر کبھی اداسی برداشت نہیں کر سکتی ۔اولاد کی خوشی کے لیے چاہے اسے کوہلو کے بیل کی طرح بھی کام کرنا پڑے تو بنا  ماتھے پہ تھکن کی شکن ڈالے کر لیتی ہے ۔نہ کبھی احساس دلاتی ہے اور نہ ہی کبھی اپنی محبتوں کا صلہ مانگتی ہے۔ بلکہ بے غرض ان پر اپنی محبت نچھاور کرتی رہتی ہے

ماں ہر وقت رب العزت کے آگے دامن پھیلائے رکھتی ہے، کبھی سربسجود ہو کر تو کبھی ہاتھوں کو پھیلا کر ، چلتے پھرتے ، اٹھتے بیٹھتے ۔وہ خاموشی میں  بھی  خیر بانٹتی اور  اولاد کو مشکلوں اور مصیبتوں سے بچائے رکھنے کی غرض سے دعائیں مانگتی ہے یہ دعائیں  قدم قدم پر ان کی حفاظت کرتی ہے ۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں ماں کی دعائیں سایہ فگن رہتی ہیں۔وہ اپنی اولاد کی ہر پریشانی اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے، اس کی دعا سے بڑی سے بڑی مصیبت بھی ٹل جا تی ہے۔وہ بے قرار ہو تو عرش کو  ہلا دیتی ہے ۔ اللہ  نے ماں کے عظیم تر ہونے کی پہچان اس طرح کرائی ہے کہ اس عظیم ہستی کے قدموں تلے جنت رکھ دی ہے ،

                                                                          سر پر جو ہاتھ پھیرے تو ہمت آجاے

                                                                          ایک بار مسکرا دے تو جنت مل جاے

اب جس کا دل چاہے  وہ اس جنت کو حاصل کر سکتا ہے ، ماں کی خدمت کر کے ، اس سے محبت کر کے، عزت اور احترام کر کے ، ماں کی فرمابرداری کر کے۔ ہرر شتے میں خود غرضی شامل ہو سکتی ہے ، لیکن ماں کا رشتہ بے غرض ہوتا ہے۔وہ لوگ بڑے بدنصیب ہوتے ہیں جواس نعمت کو نہیں پاتے  اور  وہ جو  اس نعمت  کی قدر نہیں کرتے انکو رب کی طرف ست دھتکارے ہوئے ہی کہا جا سکتا ہے ۔ نجانے ماں کو کیسے ناراض کر دیتے ہیں نجانے کس طرح اس کی نافرمانی کرتے ہیں، ماں کا دل دکھا کر کیسے خوش رہتے ہیں۔ایک بار ایک صحابی نے آپ ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے فرمایا  تیری  ماں پوچھا پھر کون فرمایا تیری ماں عرض کی پھر کون  آپ نے فرمایا تیری ماں تین دفعہ آپﷺ نے یہی جواب دیا ۔ چوتھی بار فرمایا تیرا باپ۔ ماں کی نافرمانی کو گناہ کبیرہ میں شامل کیا جاتا ہے۔کیوں کہ ماں وہ ہستی ہے جس نے اولاد کو اپنا خون پلا پلا کر پالا پوسا ہوتا ہے۔ بچے کے پیدا ہونے کے عمل سے لے کر اس کے جوان ہونے تک ان گنت قربانیاں دیتی ہے۔اپنی راحت، سکون ہر خواہش نثارکر دیتی ہے ۔کیا  کوئی ایسی ہستی اس دنیا میں ہے ؟ نہیں ،با لکل بھی نہیں۔ اس کی محبت کا کوئی بدل نہیں وہ محبت کا سمندر ہے جو کبھی خشک نہیں ہوتا۔

یہاں ماں اپنی اولاد کے لیے اتنی قربانیاں دیتی ہے ، اور اللہ تعالی نے اولاد کی پرورش کی ذمہ داری دالدین کو سونپی ہے ، ہاں وہی رب العزت  جس نے اولاد پر بھی کچھ فرائض رکھے ہیں ، جیسے کہ قرآن مجید میں ہے اگر تمہارے والدین میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پہنچ جائے تو انہیں اف تک نہ کہو،اپنے دالدین کیساتھ حسن سلوک کرو جیسے کہ انہوں نے تمہارے ساتھ بچپن میں کیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کیا آج کل کی اولاد اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرتی ہے، اگر والدین بوڑھے ہوجائیں تو انہیں اف تک نہ کہنے کی بجا ئےگھسیٹ کر اولڈ ہاؤس میں چھوڑ آتے ہیں۔ اگر اولڈ ہاؤس نہ چھوڑیں تو  باتیں سنا سنا کے ان کی زندگی اجیرن بنا دیتے ہیں۔ وہ ماں باپ جن کی انگلی پکڑ کر چلنا ،جن کی محنت اور لگن سے بولنا سیکھا  ہوتا ہے  ، جن کی نظر سے دنیا کودیکھنا شروع کیا ہوتا ہے پھر  ان ہی کی سوچ پرانی اور تنگ نظر لگتی ہے۔ بڑھاپے اور ضعف کے باعث کراہنے سے  اُس  نیند میں خلل  محسوس ہوتا ہے جو کبھی اُسی کی لوریوں کے بغیر آتی ہی نہ تھی ۔وہ بیٹا جو ایک پل ماں کے بنا نہیں رہتا تھا اب ماں کو ایک پل اپنے گھر برداشت نہیں کر سکتا ،کیوں؟ وہ ماں جس نے اپنی زندگی اولاد کے لیے وقف کر دی تھی کیا اس ماں کیلئے بچے ایک گھنٹہ بھی اس کے نا م نہیں کر سکتے ۔ وہ ماں جو اپنے حصے کا بھی اپنی اولاد کو کھلا دیتی تھی ۔ کیا سات بچے مل کر بھی اس ایک ماں کو دو وقت کی روٹی نہیں کھلا سکتے  جس نے غربت اور فاقہ کشی میں ان سب کو کھلایا اور کبھی خالی پیٹ سلایا نہیں ہوتا ہے؟ایسا بھی نہیں کہ اولاد اپنے فرائض سے لا علم ہوتی ہے بلکہ سب کچھ جانتےہوئے بھی ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوتا ہے ۔وہ اس قدر غفلت میں ڈوبے ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے بچپن کی وہ بے بسی بھول جاتی ہے جب وہ اس قابل بھی نہیں ہوتے کہ خود سے اٹھ سکیں۔ جب ماں باپ نے پال پوس کر اس قابل بنایا کہ وہ بوڑھاپے میں  ان کا سہارہ بنے بلکہ وہ اس قابلیت کو استعمال کرتے ہوئے والدین کو ہی راستے سے ہٹا دیتے  ہیں۔ اللہ تعالی ایسی اولاد کو ہدایت دے اور جن کے والدین حیات ہیں انہیں اپنے والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطافرمائے آمین،

                                                           وراثت میں ملے گھر کسی کو ، کسی کے حصے میں دوکاں آئے،

                                                          تمنا میری بس یہی ہے کہ میرے حصے میں ماں آئے

کہتے ہیں نا پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتی ہیں۔ابھی بھی کچھ خوش نصیب لوگ ہیں جو اپنے والدین کو اف تک نہیں کہتے،رات کو ان کے پاؤں دبا کرسوتے ہیں  جن کی صبح کا آغاز ماں کے دیدار سے ہوتا ہے اور دن کا اختتام ماں کے پاؤں چوم کے ۔ماں وہ عظیم ہستی ہے جس کے پیروں تلے جنت ہےایک انمول تحفہ ہے اس کی قدر کرو، تاکہ تم بھی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاؤ، ماں کی ہستی بار بار نہیں ملتی، اس سے محبت کرو تاکہ تمہیں بھی محبت ملے۔