اسلام آباد اکتوبر 8(ٹی این ایس)وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ بھارت سے خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی ٗ پھر بھی مذاکرات کیلئے تیار ہیں ٗ بھارت کو کشمیرکے عوام کے رائے کااحترام کا کر ناچاہیے ٗ حکومت کے خلاف سازش نظر نہیں آتی ٗ سازش ہوئی تو مقابلہ کیا جائیگا ٗ امریکی حکام سے ملاقاتوں کے دو ران دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ملکر کام کر نے پر اتفاق ہوا ہے ٗ افغانستان سے دہشتگردپاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں ٗ جنگ افغان امن عمل کا حق نہیں ٗ افغانستان کے لوگ مل بیٹھ کر مسئلے کا حل کریں ٗ کشمیر کے مسئلے پر کبھی نہ پیچھے ہٹے ہیں اور نہ ہی ہٹیں گے ٗ کشمیری بھائیوں کی سفارتی ٗ اخلاقی اور سیاسی حمایت جاری رکھیں گے ٗافغان صدر اشرف غنی کے پاکستان کے دورے کے بارے میں ابھی سرکاری طور پر کچھ طے نہیں ٗ پاکستان آئیں تو خوش آمدید کہیں گے ٗنوازشریف کی نااہلی کے بعد پارٹی میں کوئی دراڑ نہیں آئی اور نہ ہی کوئی ایم این اے بھاگا ہے ٗبطور وزیر اعظم میرا کام ہے کہ نیب عدالت کے باہر رینجرز معاملے پرتفتیش کروں ۔
اتوار کو نجی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو کے دور ان دورہ امریکہ کے حوالے سے وزیر اعظم شاہد خاقان نے بتایا کہ امریکی حکام سے میری اور وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کی ہونے والی ملاقاتیں انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئیں جن میں کہیں بھی کوئی دھمکی آمیز بات نظر نہیں آئی بلکہ اس بات پر اتفاق ہوا کہ انسداد دہشت گردی میں دونوں ممالک پارٹنر ہیں اور ہمیں اس کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے ٗانہوں نے کہا کہ سب سے بہتر پیغام تو ون آن ون میٹنگ یا دوطرفہ ملاقات ہی میں ہوتا ہے جو انتہائی مثبت رہا باقی کانگریس یا پریس میں دیے گئے بیان کی اتنی اہمیت نہیں ہوتی جتنی دو ملکوں کے حکام کے مابین ہونے والی میٹنگز کی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا کی افغان پالیسی پر ہماری نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کا بیان بہت واضح تھا جس کے بارے میں ہم نے اپنا موقف بڑے واضح الفاظ میں امریکی حکام کے سامنے رکھا جسے انہوں نے سراہا اور اسی پر اب آگے بات بھی ہوگی۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم نے امریکا کو یہ بات بتائی کہ اس وقت دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی جنگ پاکستان ہی لڑ رہا ہے اور ہمارے تقریبا 2لاکھ سے زائد فوجی جوان اس جنگ میں حصہ لے رہے ہیں۔ ہمارے جوانوں نے ملک سے دہشت گردی کے جڑ سے خاتمے کے لیے ایسی لازوال قربانیاں دی ہیں جن کی کہیں بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں نہ صرف ہماری مسلح افواج بلکہ عام شہریوں نے بھی بے شمار قربانیاں دی ہیں اور ہمارے ہزاروں جوان اب تک اس جنگ میں جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے انہیں یہ بھی بتایا کہ افغانستان سے دہشت گرد پاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں اور اس بات کو دنیا تسلیم بھی کرتی ہے کہ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردوں کے حملے افغانستان کی سرزمین سے ہوتے ہیں جہاں ان دہشت گردوں کی قیادت بھی موجود ہے۔ یہ تاثر دینا کہ پاکستان سے کوئی فرد افغانستان میں جا کر حملہ آور ہوتا ہے یہ بالکل غلط ہے بلکہ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ افغانستان سے لوگ یہاں آ کر حملے کرتے ہیں جن میں خود کش بمبار بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ بات بھی واضح کی کہ پاکستان سے بڑھ کر کوئی بھی افغانستان میں امن نہیں چاہتا، دنیا میں افغانستان کے علاوہ اگر کوئی دوسرا ملک وہاں امن چاہتا ہے تو وہ پاکستان ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ افغان امن عمل کا حل نہیں اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان کے لوگ مل بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کریں۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہم نے امریکا کو یہ بات بھی باور کرائی کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات صرف افغانستان تک ہی محدود نہیں بلکہ ہمارے امریکا سے 70سالہ تعلقات ہیں جن میں عسکری و اقتصادی پہلو بھی شامل ہیں جن کے تحت دونوں ملکوں کو آگے بڑھنا چاہیے جسے انہوں نے خوب سراہا۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ ہمارا کشمیر کا مسئلہ ایک بنیادی مسئلہ ہے جس پر ہم نہ تو کبھی پیچھے ہٹے ہیں اور نہ ہی ہٹیں گے اور آج بھی اپنے کشمیری بھائیوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کو جاری رکھے ہوئے ہیں، جب تک بنیادی مسئلے کو تسلیم نہیں کیا جاتا، بھارتی وزیراعظم سے بات نہیں ہو سکتی۔ بھارت کو چاہیئے کہ وہ کشمیری عوام کی رائے کا احترام کرے اور وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ سب سے پہلے کشمیر اور پھر باقی معاملات کو دیکھیں گے۔ بھارت کو چاہیے کہ کشمیریوں کو ان کا بنیادی حق حق خود ارادیت دے تاکہ وہ بھی اپنی زندگی آزادانہ طریقے سے گزار سکیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ سمیت ہر اہم بین الاقوامی فورم پر مسئلہ کشمیر کو بھرپور طریقے سے اجاگر کر رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہماری وہاں مختلف ممالک کے ساتھ 8اہم ترین ملاقاتیں بھی ہوئیں جن میں ان ممالک نے یہ بات تسلیم کی کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف دنیا کی سب سے بڑی جنگ لڑ رہا ہے اس لیے پاکستان پر کسی دہشت گرد کی حمایت کا الزام لگانا درست نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنا موقف تو دنیا کے سامنے رکھا ہی ہے بلکہ اپنے عمل سے بھی یہ بات ثابت بھی کی ہے کہ دنیا بھر میں پاکستان ہی دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی جنگ لڑ رہا ہے جس کا منہ بولتا ثبوت آپریشن ضرب عضب سے وزیرستان سے دہشت گردوں کا صفایا ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افغان صدر اشرف غنی کے پاکستان کے دورے کے بارے میں ابھی سرکاری طور پر کچھ طے نہیں لیکن وہ جب بھی آنا چاہیں انہیں خوش آمدید کہیں گے اور افغان امن عمل کے لیے مجھے بطور وزیراعظم پاکستان بھی وہاں جانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کنٹرول لائن پر کشیدگی پیدا کر کے بھارت کشمیری عوام کی پرامن جدوجہد آزادی پر سے عالمی توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔ پاکستان ماضی میں بھی اپنے کشمیری بھائیوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کرتا رہا ہے اور یہ حمایت آج بھی جاری ہے جو ہمیشہ جاری رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ بھارت سے خیر کی توقع ہرگز نہیں کی جا سکتی لیکن ہم بھارت سے بلامشروط بات چیت کے لیے تیار ہیں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل چاہتے ہیں۔ ہمیں اپنی سرحدوں کی حفاظت بھی کرنی ہے اورکسی بھی قسم کی جارحیت کا جواب دینے کے لیے تیار بھی رہنا ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت کے خلاف سازش نظر تو نہیں آتی لیکن اگر ہوئی تو اس کا مقابلہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت سے پاکستان کی ترقی و خوشحالی ہضم نہیں ہو پا رہی اور یہی وجہ ہے کہ وہ سی پیک پر مختلف سازشوں میں ملوث ہے حالانکہ سی پیک سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورا خطہ مستفید ہوگا۔ سی پیک پر امریکی اعتراض کا جواب دیتے ہوئے.
انہوں نے کہا کہ سی پیک سڑک کا نام نہیں ہے بلکہ چین کے ساتھ ایک اقتصادی معاملہ ہے جس میں کئی پروجیکٹ ہیں لیکن سی پیک سے متعلق یہ کہنا کہ متنازع علاقے سے گرز رہی ہے اسے عقل تسلیم نہیں کرتی۔شاہد خاقان نے کہاکہ یہ تاثر کہ ملک میں دو جگہ سے پالیسی بنتی ہے جو کہ درست نہیں ہے کیوں کہ کوئی ملک دو پالیسیاں بنا کر کام نہیں کر سکتا۔انہوں نے کہا کہ پاناما فیصلے کے محرکات سب کے سامنے ہیں اس پر پورا پاکستان بات کررہا ہے اور نوازشریف کی نااہلی کے بعد پارٹی میں کوئی دراڑ نہیں آئی اور نہ ہی کوئی ایم این اے بھاگا ہے۔انہوں نے کہاکہ یہ تاثر ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ایم این اے توڑ رہی ہے مگر ایسا کوئی سلسلہ نہیں ہوا اور حکومت کے خلاف سازش نظر نہیں آتی ،اگر ہوئی تو مقابلہ کریں گے۔احتساب عدالت کے باہر پیش آنے والے واقعے سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ میرا کام ہے کہ پتا چلاؤں کیا واقعہ تھا، کیسے ہوا اور کس کے احکامات پر ہوا لہٰذا بطور وزیر اعظم میرا کام ہے کہ نیب عدالت کے باہر رینجرز معاملے پرتفتیش کروں۔سابق وزیر اعظم سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نوازشریف میری پارٹی کے لیڈر ہیں اور انہی کی پالیسیوں کوآگے لے کرجارہے ہیں جب کہ میں کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیتا، نوازشریف نے کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیانہ ہی کوئی مشورہ دیا ہے۔