نئی دہلی،اکتوبر17(ٹی این ایس): ہندو فسطائی جماعت بی جے پی کے سینئر رہنما سنگیت سوم کی جانب سے تاج محل کو انڈیا پر بدنما داغ قرار دیئے جانے کے بعد بھارت کے مسلم سیاسی رہنماؤں نے اپنے ردعمل میں ہندو انتہاء پسندوں سے کہا ہے کہ اگر تاج محل ایک ہندو مخالف مسلم حکمران نے بنایا ہے تو بھارت میں پارلیمنٹ ،ایوانِ صدر اور لال قلعہ سمیت متعدد عمارتیں ہیں جو انہی مسلم حکمرانوں نے بنوائی ہیں تو ان کو بھارت کے لئے بدنا داغ قرار دے کر منہدم کرنے کی باتیں کرنے کے بجائے ان سے قومی فخر کیوں لیا جاتا ہے؟
آل انڈیا مجلسِ اتحادُالمسلمین کے صدر اسد الدین اویسی اور سماج وادی پارٹی کے رہنما اعظم خان نے کہا ہے کہ ’تاج محل ہی نہیں پھر راشٹر پتی بھون اور پارلیمنٹ کو بھی منہدم کر دینا چاہئے۔
ٹیلی ویژن چینلوں پر ٹاک شوز میں اسد الدین اویسی اور اعظم خان نے کہا کہ اگر غلامی کی نشانیوں کو مٹانا ہے تو صرف ’تاج محل ہی کیوں، راشٹر پتی بھون ،پارلیمنٹ ،لال قلعہ ،قطب مینار،آگرے کا قلعہ سبھی کو گرائے کیونکہ یہ سبھی عمارتیں بھی تو انہی” غداروں اور لٹیروں” نے ہی بنوائی تھیں؟
یاد رہے کہ سنگیت سوم جو ریاست اتر پردیش میں بی جے پی کے رکنِ اسمبلی ہیں نے کہا تھا کہ تاج محل ہندوستان کی تاریخ کا ایک ’کلنک‘ ہے اور اسے شاہجہاں نے بنوایا تھا جو انکے بقول باپ کا قاتل اور سب سے بڑھ کر ہندؤں کا دشمن تھا اور انکو ہندوستان سے ختم کرنا چاہتا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ’ تاریخ کو صحیح کرنے کی ضرورت ہے‘ اور ہم ضرور اسے بدل دیں گے۔
دوسری طرف بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے تاج محل کا نام لیے بغیر ایک تقریب میں کہا ‘کوئی بھی ترقی تب تک ممکن نہیں جب تک لوگ اپنی تاریخ، اپنی وراثت اور اپنی روایات پر فخر نہیں کرتے‘۔
مودی کے اس بیان کے بعد اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ اور سادھو آدتیہ ناتھ یوگی نے بھی اپنا موقف بدلتے ہوئے کہا ‘تاج محل کس نے بنوایا، کس مقصد سے بنوایا یہ اہم نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ انڈیا کے مزدوروں کے خون پسینے کی کمائی سے تعمیر کیا گیا تھا۔ سیاحت کے نقطہ نظر سے اس کا فروغ اور تحقظ حکومت کی ذمےداری ہے‘۔ واضع رہے کہ انکی حکومت نے حال ہی میں سیاحتی کتابچے سے تاج محل کو نکال دیا تھا حالانکہ تاج اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے ثقافت یونیسکو کے ہاں اہمیت کے ساتھ درج ہے۔
یو پی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وزیر اعلیٰ اس مہینے کے آخر میں تاج محل کا دورہ کریں گے۔ کچھ دنوں پہلے آدیتہ ناتھ یوگی نے کہا تھا کہ تاج محل انڈیا کی تاریخ اور تہذیب سے مطابقت نہیں رکھتا۔
تاج محل کے بارے میں سخت گیر ہندو قوم پرست رہنماؤں کے متنازع بیانات کو انتخابی حکمت عملی کے طورپر دیکھا جا رہا ہے۔ مبصرین ان بیانات کو ملک کی معیشت میں سست روی اور اپوزیشن جماعت کانگریس کے بڑھتے ہوئے اعتماد کے پیش نظر ہماچل اور گجرات کے انتخابات میں ووٹروں کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کی حکمراں بی جے پی کی کوشش کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔