مسلمانانِ برِصغیرکے عظیم معمار سرسید احمد خان کا 200 واں یومِ پیدائش

 
0
1158

اسلام آباد،اکتوبر17 (ٹی این ایس):   برصغیر کی ملت اسلامیہ کے معمار اعظم اور ملتِ اسلامیہ کے عظیم دفاعی حصار سرسید احمد خان کا آج 200 واں یومِ پیدائش منایا گیا۔ سر سید احمد خان ,17 اکتور1817 میں دہلی کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔جس وقت سر سید احمد خان نے اس جہانِ فانی میں آنکھ کھولی ہندوستان کی مسلم آبادی انتہائی کرب کے عارضے میں مبتلا تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے متعصب انگریز محسوس کر رہے تھے کہ ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ مسلمان ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ سب سے پہلے انہوں مسلمانوں کے تعلیمی نظام پر شب خون مارا اور سلیقے کے ساتھ ان کے تعلمی اداروں کو تباہ و بر باد کرنا شروع کر دیا۔انکی جگہ پر عیسائی مشنری اسکول کھولنا شروع کر دیئے جہاں اسلام کے خلاف بچوں کے ذہن تیار کرنا شروع کر دیئے گئے تھے۔

سر سیدد احمد خان ہی ہند کی ملت اسلامیہ کے معمار اعظم اور ملتِ اسلامیہ کا عظیم دفاعی حصار تھے۔کیونکہ 1857کی جنگِ آزادی کی ناکامی کی وجہ سے اُس پُر آشوب دور میں کوئی ایک بھی مرد مجاہد ایسا نہ تھا جو ہند کی تباہ حال ملت اسلامیہ کی ابتر حالت کوسنوارنے کی طاقت رکھتا ہو۔

برِصغیر کے مسلمانوں کی تقدیر بدل دینے والوں میں اول نام سر سید احمد کا ہی آتا ہے۔ سر سید احمد خان ایک باریش مذہبی شخصیت کے حا مل تھے۔ مگر اپنی قوم کی بد حالی کو بدل دینے کے لئے وہ ہر حد عبور کرنے کے لئے بھی تیار تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کی ڈوبی ہوئی کشتی کو ناصرف تہہ سے اُپر لائے بلکہ اس کو کنارے لگانے کی ہر ممکن کوشش بھی کی ،اور وہ اپنا یہ فریضہ بحسُن و خوبی انجام دے کر ہی اس دینا سے رخصت بھی ہوے۔ اس ضمن میں انہوں نے سب سے پہلا فریضہ یہ انجام دیا کہ مسلمانوں کی معاشرتی بے راہ روی کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ دوسرا اہم فریضہ انہوں نے یہ ادا کیا کہ اپنے ہم مذہبوں اور ہم وطنوں پر اُن کی کمزوریوں کو اپنی تہذیب الاخلاق کی تحریر وں اور تقریروں کے ذریعے واضح کرتے ہوے بتایا کہ مسلمان اپنی معاشرتی حالت کو بدلیں اور یہ ذہن نشین کر لیں کہ اس وقت وہ نہایت ہی کمزور ہیں وہ طاقت کے بل پر کچھ بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ انہیں اپنے بچوں کی علمی ترقی پر توجہ ہر حال میں دینا ہوگی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو مسلمانوں کی اس غلامی کا سورج کبھی غروب نہ ہوگا۔ ہمارا خیال ہے کہ اُس وقت مسلمانوں سے زیادہ طاقتور تو وہ وہ طبقہ تھا جس نے آتھ سو سال مسلمانوں کی غلامی میں گذار دیئے تھے۔

سرسید احمد خان کے خیال میں مسلمانوں کی حالت بغاوت سے نہیں تبدیل ہوسکتی پہلے قوم کی سطح کو مضبوط ہونا چاہئے۔ انہوں نے سوچامسلمانوں کی قومی جدوجہد کا رخ متعین کرنے کیلئے چالاک اور عیار حکمران انگریز کے خلاف ایسی حکمت عملی وضع کی جائے تاکہ مسلمان اپنا کھویا ہوا تشخص اوروقارکو دوبارہ بحال کر سکیں اور باوقار زندگی کیلئے ایسے اقدامات کیے جائیں کہ قوم تاریکی کے غاروں میں دفن ہونے سے بچ جائے۔

سرسید احمد خان نے برصغیر کے مسلمان کی سدھار اور راہنمائی کیلئے کئی سلسلے شروع کیے۔ ادب کو پلیٹ فارم بنا کر مسلمانوں کی کردار سازی  کیلئے اردو ادب کا رسالہ ”تہذیب الاخلاق“ شروع کیا اور سائنٹیفک سوسائٹی کی بنیاد رکھی تاکہ مسلمان جدید علوم کی جانب راغب ہوکر وقت کی ضرورت کے احساس کے تحت علم کی جانب گامزن ہوسکیں۔ ادیبوں اور شعراءکو اپنے رسالے کے ذریعے پرانی ڈگر سے ہٹا کر نئی منزل کی طرف گامزن کیا۔ اردو میں قومی شاعری کا تصور سرسید احمد خان ہی کا فیضان ہے۔ انہوں نے قوم کو نئی تازہ اور ترقی پسند زندگی کی طرف مائل کرنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کیے۔ مسلمانوں کی اخلاقی وتعلیمی زبوں حالی، طوطا مینا کی داستانوں اور شطرنج وچوسر کے دائروں سے نکال کر اخلاق ومعاشرت کی جانب موڑنے کی بنیاد ڈالی۔

سرسید احمد خان نے 5نومبر 1859ءکو غازی پور میں مدرسوں کی سب سے پہلے بنیاد ڈال کر جدید نصاب تعلیم کو دیکھنے اور سمجھنے کیلئے 1861ءمیں برطانیہ کا سفر کرکے آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں میں اپنا بیشتر وقت گزار کر یہ نتیجہ اخذ کیا تعلیم ہی کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں کا مزاج، کردار اور سوچ میں تبدیلی لاکر ان کے ذہنوں کو منور کیا جاسکتا ہے۔ سرسید احمد خان سمجھتے تھے کہ تعلیم ہی قوم میں نیا جذبہ اور روشنی پیدا کرنے کا واحد ذریعہ بن سکتی ہے۔ سرسید احمد خان جہاں برصغیر کے مسلمانوں میں علمی تڑپ پیدا کرنے کیلئے اپنی مساعی جمیلہ کو بروئے کار لا رہے تھے یہاں ہندوستان کے بیشتر جریدوں میں ان کے خلاف توہین آمیز مضامین بھی شائع کرائے گئے۔ انہیں ذلیل وخوار ہی نہ کیا گیا بلکہ کفر کا فتویٰ بھی عائد ہوا۔ لیکن ان کا عزم متزلزل نہ ہوا اور بالآخر 1875ءمیں علی گڑھ کے صحرا میں ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی اس کے بعد 2 جنوری 1877 ءکو وائسرائے ہند لارڈ لیٹن نے محمڈن اینگلو اورینٹیل کالج کا سنگِ بنیاد رکھا گیا اس پتھر پر سرسید احمد خان نے 3 بار ضرب لگا کر کہا ”میں اعلان کرتا ہوں کہ یہ پتھر درست اور موزوں طرح سے نصب ہوگیا ہے”۔

2 جنوری 1877 کو وائسرائے ہند کے سامنے واشگاف انداز میں سرسید احمد خان نے سپاسنامہ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”یہ بیج جو ہم نے آج یہاں کاشت کیا ہے اس سے تناور درخت نکلیں گے۔ کیونکہ سرسید احمد خان کا خیال تھا کہ درسگاہ ایک دانش گاہ ہوگی اور اس سے جو طلباءفارغ التحصیل ہوکر نکلیں گئے ان کے دائیں ہاتھ میں قرآن اور بائیں میں دنیا کے جدید ترین علوم وفنون اورپیشانی پہ کلمہ طیبکا تاج ہوگا۔

سر سید احمد خان کی تحریک ہی کی بدولت پاکستان کا قیام شرمندہ تعبیر ہوا لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا سرسید احمد خان جو پاکستان چاہتے تھے اس کے مقاصد ہم حاصل کر پائے؟ جواب نفی میں ہی آ سکتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سرسید کے ویژن کے عین مطابق تعلیم وتربیت سے ہمکنار کرکے وطن عزیز کے جغرافیائی ونظریاتی سرحدوں کے تحفظ کیلئے ایسے نوجوانوں کی کھیپ تیار کرسکیں جو مستقبل قریب میں اس نظریاتی مملکت کی استحکام وخوشحالی میں موثر کردار ادا کرکے دنیا کی باوقار اور زندہ اقوام میں پاکستانی قوم کی پہچان فخر سے کراسکیں۔ “