اسلام آباد اکتوبر 22(ٹی این ایس)بحریہ ٹاون کے مالک ملک ریاض راولپنڈی و اسلام آباد کے غیر اعلانیہ ڈان بن چکے ہیں جو لوگوں کو ان کی زمینوں سے محروم ہی نہیں بلکہ پیسہ کے بل پر کارسرکار میں اپنے اثرورسوخ سے پولیس اورر یونیو کے افسروں کی تقرریاں اور تعیناتیاں کراتے ہیں جس کے نتیجہ میں لوگوں کی زمینیں ہتھیانے کے جرم میں ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا۔
ملک ریاض کی توسیع پسندی سے بار ایسوسی ا یشن کے وکیل راجہ یاسر علی عباسی ،ندیم اختر ،اسد علی اور بیوہ مسماۃ عنصر فاروق کی 18کنال اور9 مرلہ کی قیمتی زمین بھی محفوظ نہ رہ سکی ہیں جس پر راولپنڈی اور اسلام آباد کی بار ایسوسی ایشنز نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی ہے کہ وہ ملک ریاض اور ان کے فرزند علی ریاض کے خلاف کاروائی کریں،دونوں بار ایسوسیشن نے اعلان کر دیا ہے کہ اگر اسلام آباد کی انتظامیہ اور پولیس نے ملک ریاض کے خلاف کاروائی نہ کی تو دونوں شہروں کے ہزاروں وکلاء احتجاجی تحریک شروع کر کے کسی بھی انتہاء تک جانے سے گریز نہیں گے۔
بحریہ ٹاؤن کے متاثرہ ایڈوکیٹ راجہ یاسر علی اپنی روداد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھیں اپنے حصہ کی آٹھ کنال کی اراضی مالیتی 80تا90ملین وراثت میں ملی تھی اور جب 26جولائی کو وہاں گئے تو اس پر بحریہ ٹاؤن کو قابض پایا۔انھوں نے سترہ میل میں قائم بحریہ ٹاؤن کے دفتر جا کر وضاحت طلب کی تو وہاں موجود ملازمین نے کہا کہ یہ معاملہ ان کے دائرہ کار میں نہیں آتا اس کے بعد انھوں نے ضلعی عدالت میں درخواست دائر کی جس پر ملک ریاض کے وکیل مصطفی تنویر نے عدالت کو بتایا کہ مذکورہ اراضی پر ملکیت کا معاملہ سول کورٹ میں زیر التواء ہے ،تاہم ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سکندر خان نے اس عذر کو مسترد کرتے ہوئے عدالتی کاروائی جاری اور FIRدرج کرنے کی ہدایت کی۔ راولپنڈی واسلام آباد بار ایسوسی ایشن کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض اور ان کے فرزند ہی کی ہدایت
پر اپنے زیر سرپرستی لینڈ مافیا نے ایڈوکیٹ راجہ یاسر علی عباسی کی زمین پر جبری قبضہ کر لیا۔اس سلسلہ میں تھانہ بارہ کہو میں FIRنمبر383/017درج کر لی گئی ہے مگر پولیس انتظامیہ نے ملک کے سب سے بڑے مافیہ کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی۔۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ جولائی سے درخواست گزار ایڈوکیٹ یاسر نے SHO بارہ کہو اور SSPاسلام آبادکے دفاتر میں ملک ریاض کے خلاف دوبار تحریری شکایات درج کرائی تھیں مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔مایوس ہو کر انھوں نے بعد ازاں جسٹس آف پیس /سیشن جج سے رجوع کیا جس پر معزز جج نے پولیس کو کیس درج کرنے کی ہدایت کی،عدالتی حکم اور تمام ثبوت و شواہد ہونے کے باوجود پولیس نہ صرف کیس درج کرنے سے گریز اں رہی بلکہ الٹا شکایت کنندہ کے خلاف ہی کیس درج کر لیا۔ایڈوکیٹ راجہ یاسر نے ہمت نہ ہاری اور وکلاء برادری بھی ان کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔جس کے بعد عدالت نے 29 ستمبر کو ایک بار پھر پولیس کو کیس درج کرنے کی ہدایت کی اور بلآخر پولیس نے ملک ریاض اور ان کے بیٹے کے خلاف FIRدرج کر لی وہ بھی عدالتی حکم کے ایک ہفتے بعد۔
یاد رہے کہ 21 ستمبر کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سکندرخان بحریہ ٹاؤن کی طرف سے اسلام آباد کے مضافاتی علاقہ پھلگراں میں ایک بیوہ اور دیگر لوگوں کی زمینیں ہتھیانے پر پولیس کو کیس درج کرنے کی ہدایت کی تھی ۔ٹی این ایس اس اسکینڈل کابھانڈا پھوڑتے ہوئے اسکی تفصیل عوام کے سامنے لا چکا ہے۔اسلام آباد میں بحریہ ٹاؤن اور اس کے مالک کے خلاف لوگوں کی زمینیں ہتھیانے کے کئی کیسز اور شکایات درج ہیں بارہ کہو تھانہ میں ملک ریاض کے خلاف ایک مقامی شہری کی طرف سے 2012 کا ایک کیس بھی درج ہے ،راجہ زاہد نامی ایک متاثرہ شہری جس نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے کہ وکیل رضوان عباسی کا کہنا ہے کہ ملک ریاض نے ان کے موکل کی 100کنال زمین ہتھیا لی مگراثرورسوخ کے زیراثر پولیس نے ملک ریاض کے خلاف کیس درج نہیں کیا۔نومبر 2016میں عدالت نے نیلور پولیس کو ملک ریاض کے خلاف FIRدرج کرنے کی
ہدایت کی۔
اسلام آباد کے مضافاتی علاقہ تمیر کے ایک رہائشی نے بتایا کہ نومبر 2012میں بحریہ ٹاؤن نے ان کی 506کنال اراضی پر جبری قبضہ کر لیا اور جب انھوں نے اسکی واگزاری کے لیے مزاحمتی کوششیں کی تو ملک ریاض نے سنگین نتائج بھگتنے اور الٹا کسی جھوٹے کیس میں پھنسائے جانے کی دھمکیاں دیں۔
تھانہ نلور کے SHO نے عدالت کو تحریری جواب میں کہا کہ شکایت کنندہ نثار احمد بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض کے درمیان ایک تحریری معاہدہ ہو چکا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان تنازعہ سول نوعیت کا ہے اور یہ بحریہ ٹاؤن کے حق میں کوئی زمین منتقل نہیں ہوئی ہے تاہم جج نے قرار دیا کہ اس بات کو ایک SHO پر نہیں چھوڑا جا سکتا کہ وہ چیزوں کو اپنے طور پر طے کر بیٹھیں بلکہ وہ منصبی طور پر اس بات کے پابند ہیں کہ وہ قابل گرفت و قوعات کو درج کریں۔ٹرائل اور ایپکس کورٹس میں نہ صرف ملک ریاض کے خلاف زمینیں ہتھیانے بلکہ قتل ،اغواء اور دوسرے سنگین نوعیت کے کیسز بھی ان کے خلاف درج ہیں تاہم پیسہ کے زور پر وہ بڑے وکلاء اور طاقت ور بیوروکریسی کے ذریعہ خود کو بچائے رکھنے میں تاحال کامیاب ہیں۔
اکتوبر 2009میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی قیادت میں سپریم کورٹ کے سہ رکنی بنچ نے ایک سیکورٹی گارڈ فیاض احمد کے قتل پر سو وموٹو نوٹس لیتے ہوئے سہالہ پولیس کو ملک ریاض کے خلاف کیس درج کرنے کا حکم دیا تھا تاہم پولیس نے سوائے ملک ریاض کے سات افراد کو تو گرفتار کر لیا تھا تاہم کچھ ہی عرصہ بعد انھیں ضمانت پر رہا کرادیا گیا،حالانکہ مقتول سیکورٹی گارڈ کی اہلیہ شمریزہ بی بی نے کمرہ عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے شوہر کے قتل میں ملک ریاض ہی ملوث ہیں اس کے علاوہ دو شہریوں راجہ قیوم اور حبیب اللہ نے عدالت کو بتایا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کو زمین بیچنے سے انکار پر ملک ریاض نے نہ صرف پولیس کے ہاتھوں انھیں ذدوکوب کرایا بلکہ تین ماہ تک حبسِ بیجا میں بھی رکھا جس کے بعد وہ زمینیں بیچنے پر مجبور ہوئے۔ 2009
میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کے زیر قیادت سپریم کورٹ کے بنچ نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد کو حکم دیا تھا کہ وہ ملک ریاض کی طرف سے لوگوں کی ملکیتی زمینوں پر جبری قبضے اور انھیں بیچنے ہر مجبور کرنے کی شکایات کی صراحت کے ساتھ عدالتی انکوائری کر کے اسکی مفصل رپورٹ عدالت کو پیش کریں ،DCاسلام آباد کو بھی اس ضمن ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کو تعاون فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی تھی ۔
اس سلسلہ میں 100کے لگ بھگ لوگوں نے ملک ریاض کے خلاف بیانات درج کرائے تھے مگر پولیس نے کوئی کاروائی نہیں کی۔بتایا جاتا ہے کہ ملک ریاض کے توسیع پسندانہ تعمیری منصوبہ سے اپنی زمینوں کو بچانے یا ہتھیائی گئی زمینوں کو واگزار کرانے کی جنگ لڑتے لڑتے کئی لوگ اس دنیا سے ہی کوچ کر گئے ہیں اور بعد ازاں بحریہ ٹاؤن نے ان کے پسماندگان کو ’’راضی نامہ ‘‘کرانے پر مجبور کر لیا،اس صورتحال سے اب دارالحکومت کے گردونواح کے لوگوں میں یہ تاثر راسخ ہو چکا کہ ملک ریاض کے خلاف کوئی کھڑا نہیں ہو سکتا ۔
بحریہ ٹاؤن کے ترجمان کرنل ریٹائرڈ محمد خلیل نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ بحریہ ٹاؤن نے مذکورہ اراضی کو قانونی طور پر خریدا ہوا ہے،انھوں نے یہ اعتراف کیا ہے اس پر مقامی لوگوں کے ساتھ ہاؤسنگ سوسائٹی کا تنازعہ ہے اور معاملہ سول کورٹ میں زیر التواء ہے تاہم انھوں نے الزام عائد کیا ہے کہ مقامی لوگوں کا بحریہ ٹاؤن کے مالکان کے خلاف کیس درج کرنے کا مقصد ابھی بلیک میل کرنا ہے۔